• 18 مئی, 2024

خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور ۔۔۔ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے
(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزیدفرماتے ہیں:
پھر (حضرت مسیح موعودؑنے۔ناقل) فرمایا۔ ’’مکرّم و معظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔‘‘

(تحفۂ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ50)

پھر آپ ؑفرماتے ہیں ’’دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو متّقی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ135 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ نے فرمایا کہ ’’نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے‘‘ اور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا ہے ’’اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ445 ا یڈیشن 2003ء)

یعنی خدا تعالیٰ کا فضل جو ہے اس کو اعمالِ صالحہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ پھر ایک جگہ آپ نے بڑی سختی سے تنبیہ فرمائی ہے اور الفاظ بڑے سخت ہیں۔ فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزّز و مکرّم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے۔ اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ177 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ تمام ارشادات جو مَیں نے پڑھے ہیں ایک حقیقی احمدی کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔ آپ نے فرمایا خطرات سے پہلے اُن خطرات سے بچنے کی کوشش کرو اور خطرات سے بچنا یہی ہے کہ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے تا کہ پھر انسان نجات یافتوں کی فہرست میں بھی شامل ہو جائے۔ اس فہرست میں شامل ہونے کے تین طریقے آپ علیہ السلام نے بتائے ہیں۔ ایک یہ کہ نیک اعمال بجا لاؤ۔ نیک اعمال کی وضاحت یہی ہے کہ ہر قدم جو ہے وہ نیکیوں کے حصول کے لئے ہو۔ اور پھر ان نیک اعمال کی نشاندہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ہو سکتی ہے اُس کو دیکھو، وہاں سے ملے گی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ آپ کے اخلاق قرآنِ کریم ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ144مسند عائشۃؓ حدیث 25108 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

پس قرآنِ کریم کی طرف توجہ کرنی ہو گی۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرو تو پھر حاصل ہو گا۔ پھر اپنے اعمال اور سنتِ نبوی پر چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور دعاؤں سے مزید خوبصورت بناؤ۔ فرمایا یہی جماعت ہے جس کے مقدر میں کامیابی مقدر ہے۔ یہی تقویٰ پر چلنے والے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا پر غالب آنا ہے۔

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس اصل کو سمجھ جائیں، اس بات کو سمجھ جائیں، اس بنیادی چیز کو سمجھ جائیں اور اپنی ترجیحات دنیاوی دولت کو نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور تقویٰ کے لئے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد اس کے لئے کوشش کرتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں جس کا اظہار افرادِ جماعت کے رویّوں اور قربانیوں سے ہوتا ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ اس میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس اہم بات کو سمجھنے والے ہوں۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایک متقی سے جو وعدے فرمائے ہیں، اُن سے حصہ پانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے وعدوں کے ساتھ متقیوں سے یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ کہ انجام متقیوں کا ہی ہے، یعنی کامیابی اور اچھا انجام متقیوں کا ہے۔

(خطبہ جمعہ 06جولائی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جامعۃ المبشرین سیرالیون کی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 دسمبر 2021