• 25 اپریل, 2024

اگر جلسہ کے مقصد سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے تو…

اگر جلسہ کے مقصد سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے تو…
قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو بھی اپنے سینوں کو ٹٹولنا ہو گا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگر جلسہ کے مقصد سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے سب شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہوں جو جلسہ کے مقاصد میں سے ایسا اہم مقصد ہے جس کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ امیری، غریبی اور بڑے ہونے اور چھوٹے ہونے کے فرق کو مٹا دیں۔ ذاتی رنجشیں بھی ہیں تو یہاں اس ماحول میں وہ ایک دوسرے کے لئے اس طرح دُور کر دیں جیسے کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔ قادیان کے احمدیوں کی مستقل آبادی کو بھی اپنے سینوں کو ٹٹولنا ہو گا۔ اپنے دلوں کے جائزے لینے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایسا موقع عطا فرمایا کہ مسیح موعود کی بستی میں رہتے ہیں جس کا ماحول ویسا ہونا چاہئے جیسا کہ زمانے کے امام نے خواہش کی تھی اور اس کے لئے جماعت کی تربیت کی کوشش کی اور پھر اس بات کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں یعنی وہاں رہنے والوں کو اپنی زندگی میں ایک اور موقع دیا کہ جلسہ میں شامل ہوں اور اپنی تربیت کے اس اعلیٰ موقع سے فائدہ اُٹھائیں۔ پس جہاں ہر آنے والا اس محبت و اخوت کے تعلق اور رشتے کو قائم کرے، وہاں اس بستی میں رہنے والا ہر احمدی بھی اس طریق پر اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہی جائزے پھر دنیاوی خواہشات سے بھی دلوں کو پاک کریں گے اور آخرت کی طرف بکلّی جھکنے کا خیال اور احساس پیدا ہو گا۔ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو گا۔ اس دنیا کی خواہشات کی فکر نہیں ہو گی بلکہ وَلۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍٍ (الحشر: 19) کا مضمون جو ہے، یہ سامنے ہو گا۔ یہ کوشش ہو گی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اور اُخروی زندگی کی بھلائیاں چاہنے کے لئے اس دنیا سے کیا آگے بھیجنا ہے۔ زہد اور تقویٰ پر نظر رکھنی ہے یا دنیاداری کا نمونہ دکھانا ہے اور خدا تعالیٰ کے خوف کو دل سے نکال کر یہ زندگی گزارنی ہے۔ عہدِ بیعت کی پابندی کرنی ہے یا عہدِ بیعت کا خوبصورت بَیج صرف سینے پر لگا کر اپنے آپ کو عہدِ بیعت کو پورا کرنے والا سمجھنا ہے۔ خدا ترسی، پرہیزگاری اور نرم دلی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہیں یا ظلم و جور اور بداخلاقی اور بدکلامی جیسی برائیوں کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہوئے اپنے عمل سے اُس کے اظہار کرنے ہیں۔ عاجزی اور انکساری کے نمونے قائم کرنے ہیں یا تکبر و غرور سے اپنے سروں اور گردنوں کو اکڑا کر چلنا ہے۔ سچائی کے خوبصورت موتی بکھیرنے ہیں یا جھوٹ کے اندھیروں کی نذر ہو کر خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینی ہے۔ دینی مہمات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہوئے مسیح محمدی کے مشن کی تکمیل کرنی ہے یا دنیا داری کی چمک دمک میں ڈوب کر اپنے مقصد کو بھولنا ہے۔ پس یہ جائزے اور اپنے عمل کا تنقیدی جائزہ ہمیں بتائے گا کہ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ کو کس حد تک ہم نے اپنے سامنے رکھا ہوا ہے۔ پس جلسہ کے یہ تین دن ان باتوں کا جائزہ لینے کے لئے اور اپنے عمل خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے لئے بہترین دن ہیں جبکہ ایک دوسرے کا روحانی اثر قبول کرنے کا بھی رجحان ہوتا ہے۔ تہجد کی اجتماعی اور انفرادی ادائیگی ایک خاص ماحول پیدا کر رہی ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سجدہ گاہوں اور دعاؤں کی جگہیں بھی بہت سے دلوں کو بے قرار دعاؤں کی توفیق دے رہی ہوتی ہیں۔ لا محسوس طریقے پر انتشارِ روحانیت کا ماحول ہوتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 27؍دسمبر 2013ء بحوالہ خطبات مسرور جلد11 صفحہ710-711)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 دسمبر 2022