• 16 اپریل, 2024

ریاکاری ایک شرک خفی

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کاری کے حوالہ سے بہت جگہ پر مسلمانوں کے لئے تعلیم بیان فرمائی ہے۔ بلکہ اسے شرک اصغر، شرک السرائر یعنی مخفی شرک قرار دیا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! شرک خفی سے بچو۔ صحابہؓ نے شرک خفی کی تشریح چاہی تو آپؐ نے فرمایا ایک شخص سنوار کر نماز پڑھتا ہے اور اس کی خواہش و کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھیں اور بزرگ سمجھیں۔ یہی دکھاوے کی خواہش شرک خفی ہے۔

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ833)

• ایک موقع پر آپؐ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ شرک اصغر سے ڈرتا ہوں۔ صحابہؓ کے شرک اصغر کے بارے پوچھنے پر فرمایا: ’’ریاکاری‘‘

(مسند احمد الرسالہ روایت 23630)

• ایک اور روایت میں ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا۔ صحابہؓ نے آپؐ سے پوچھا کہ کیا آپؐ کے بعد آپؐ کی امت شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ تو آپؐ نے فرمایا وہ لوگ چاند و سورج اور بتوں کی پرستش نہیں کریں گے مگر ریا کاری کریں گے یعنی لوگوں کو دکھانے کے لئے کام کریں گے۔

(ابن ماجہ کتاب الزہد باب الریا و السمعہ)

گویا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ریا کاری کو آخری زمانہ کی علامات میں سے ایک علامت قرار دیا ہے جس کی اصلاح کے لئے مہدی و مسیح نے آنا تھا۔ آج ہم سر عام اس بیماری کو مسلمانوں کے بعض طبقات میں دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ایسے لوگوں کے حج کے فعل کو پیش کرسکتے ہیں جو صرف دکھاوے کے لئے اس لئے حج کرتے ہیں کہ حاجی یا الحاج کہلوا کر ان کا کاروبار چمکے۔ لوگ ارد گرد کی دوسری دکانیں چھوڑ کر حاجی صاحب کی دکان پر اس لئے آئیں کہ یہ دیانت دار ہوں گے۔ خواہ یہ حاجی کے لیبل تلے بے ایمانی ہی کرتے ہوں۔

آج کل عمرہ پر گئے بعض لوگ واٹس ایپ پر میسجز کر کے دکھا وا کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ یہ موقع دعاؤں کا موقع ہوتا ہے۔ ایک دوست نے عمرہ سے واپسی پر مجھے فوٹو گراف بھجوا کر بار بار لکھا۔ یہ میرا ساتواں عمرہ ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا اپنا ثواب کیوں ضائع کر رہے ہو۔ اگر خدا نے آپ کو توفیق سے نوازا ہے تو دکھاوا تو نہ کرو۔ یہی کیفیت عید کے روز قربانی کے جانوروں کے دکھاوے میں ہوتی ہے حالانکہ اللہ نے واضح فرما دیا کہ خدا تک خون نہیں پہنچتا صرف تقوی پہنچتا ہے۔

بعض لوگ اپنے ماتھے پر گرم دھات کے آلہ سے محراب بنواتے ہیں تا لوگ انہیں نمازی، پرہیز گار کہیں۔ بعض لوگ آستانے بنا لیتے ہیں،صوفی پن کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے بیڈ رومز میں جائے نماز یا مصلّہ بچھا ئے رکھ کر اپنی پرہیز گاری کا تاثر دینے کی کوشش کرتےہیں۔ نمازوں کو لوگوں کی موجودگی میں لمبا کرنا،سجدے لمبے کرنا یہ عجب، ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ سورۃ الماعون میں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۵﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ ۙ﴿۶﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ یُرَآءُوۡنَ ﴿۷﴾

(الماعون: 5-7)

ترجمہ: پس اُن نماز پڑھنے والوں پر ہلاکت ہو۔جو اپنی نماز سے غافل رہتے ہیں۔وہ لوگ جو دکھاوا کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہو گیا ہے بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سار ازہریلا ہو جاتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ) ریا کاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لئے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کا منشاء ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ83 ایڈیشن 1988ء)

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’جس کے اعمال میں کچھ بھی ریاکاری ہو۔ خدا اس کے عمل کو واپس الٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ301)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد10 صفحہ205)

شرک کی جب بات ہو تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے تمام گناہ اور بدیاں معاف کر دیتا ہے ما سوائے شرک کے۔ شرک خفی ایک ایسا شرک ہے کہ جو انسان اس مخفی شرک میں مبتلاء ہوتا ہے وہ متکبر بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگتا ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو خدا کے مقابل پر لا کھڑا کرے تو یہ شرک نا قابل معافی ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص محض شہرت کی خاطر کوئی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس رنگ میں شہرت دے گا کہ آخر کا ر اس کے عیب لوگوں پر ظاہر ہو جائیں گے۔ ان میں وہ رسوا اور بد نام ہو جائے گا اور جو شخص ریا کاری سے کام لے گا اللہ تعالیٰ اس کی ریا کاری سب پر ظاہر کر دے گا۔

(بخاری کتاب الرقاق باب الریاء و السمعہ)

اس ریا کاری میں تعریف، ستائش، عُجب پسندی، دکھاوا بھی آجاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑ چھوڑ کر تہبند باندھ کر دکھاوے کو نا پسند فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا ان اللّٰہ جمیل یحب الجمال کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور وہ جمال یعنی خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ اس ضمن میں صاف ستھرے کپڑے پہننا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو ظاہر کرنا عُجب پسندی میں نہیں آتا۔ اس کو شکر خداوندی کے زمرے میں بیان کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! انسان چاہتاہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو،جوتی اچھی ہو اور خوبصورت لگے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تکبر نہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتاہے، یعنی خوبصورتی کو پسند کرتاہے۔ تکبر دراصل یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرنے لگے، لوگوں کو ذلیل سمجھے، ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اصل میں تو نیّت مراد ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں، صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جو ڑا پہنا ہو اہے۔ صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے …….پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ……اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں۔ اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو، دکھاوا ہوتا ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2؍جنوری 2004ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ریاکاری جیسی لعنت اور جنت سے دور کرنے والی بدی سے دور رہنے کی تو فیق دیتا رہے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 دسمبر 2022