• 23 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 9)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 9

بیکار پڑے ہیرے

میں گزشتہ دنوں کراچی میں تھا کہ ایک غیر احمدی گریجوایٹ جو عرب کے علاقہ میں کام کرتے ہیں مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ ریل میں مجھے آپ کا ایک مرید ملا جس نے مجھے ایک رسالہ دیا اور پھر کچھ تبلیغ بھی کی مگر جب میں نے اس سے نبوت کے متعلق سوال کیا تو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔

اس کے بعد وہ مجھے خیر خواہ بن کر کہنے لگا آپ ایسا انتظام کریں کہ آپ کی جماعت میں جو جاہل لوگ ہیں وہ دوسروں کو تبلیغ نہ کیا کریں۔ کیونکہ ایسے آدمیوں کو تبلیغ کے لئے بھیجنا بالکل فضول ہے صرف ایسے ہی لوگوں کو بھجوانا چاہئے جو تمام مسائل سے واقفیت رکھتے ہوں۔

اِس کے بعد انہوں نے مجھ سے وہی سوال کیا جس کا میں نے انہیں جواب دیا اور پوچھا کہ کیا اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اب میں یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔ پھر میں نے اُن سے کہا آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ اَن پڑھ تھا اور تبلیغ کی اجازت ایسے ہی لوگوں کو دینی چاہئے جو پڑھے لکھے ہیں، حالانکہ آپ میرے پاس اُسی کی تبلیغ کے نتیجہ میں آئے ہیں۔ اگر وہ آپ کو تبلیغ نہ کرتا تو آپ یہاں بھی نہ آتے۔ بیشک آپ بی۔ایس۔سی ہیں اور وہ شاید پرائمری تک پڑھا ہوا ہو مگر اُس پرائمری پڑھے ہوئے شخص کے دل میں ایک جوش تھا اور اُس نے چاہا کہ وہ نعمت جو اُس کے پاس ہے آپ اس سے محروم نہ رہیں چنانچہ اُس نے آپ کو تبلیغ کی اور آپ اسی کے نتیجہ میں مجھ سے ملنے آگئے۔پس آپ کو اس کے اخلاص کی قدر کرنی چاہئے۔

تو جماعت کے دوستوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں۔ اسی وجہ سے بعض بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں مگر اپنے دل میں تبلیغ کا ایسا جوش رکھتے ہیں جو بہت ہی قابلِ قدر ہوتا ہے۔

اس کراچی کے سفر میں گجرات کا ایک نوجوان میرے ساتھ تھا اُس کے طریقِ عمل سے بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے اندر جوش اور اخلاص رکھتا تھا۔

چنانچہ ایک سٹیشن پر اسے گجرات کا ہی ایک آدمی مل گیا وہ اُس کا واقف نہیں تھا صرف زبان سے اُس نے سمجھ لیا کہ یہ بھی گجرات کا ہے۔ چنانچہ اُس نے اُس سے باتیں شروع کر دیں اور کہا کہ تم یہاں کس طرح آئے ہو؟ اُس نے بتایا کہ میں سندھ میں نوکر ہوں۔ غرض اِسی طرح باتیں کرتے کرتے وہ اُسے میرے پاس لاکر کہنے لگا اِن سے مصافحہ کرو۔ چنانچہ اُس نے مصافحہ کیا۔ پھر وہ کہنے لگا انہیں دعا کے لئے بھی کہو۔ چنانچہ اس نے دعا کے لئے بھی کہا۔ پھر کہنے لگا اب تمہیں بیعت کر لینی چاہئے حالانکہ نہ اُس نے احمدیت کا نام سُنا ہوا تھا اور نہ اُسے مسائل وغیرہ کا کوئی علم تھا۔ بس پہلے اُسے مصافحہ کرایا پھر اُسے کہہ دیا کہ ان سے اپنے لئے دعا کراؤ اور اس کے بعد اُس پر زور دینا شروع کر دیا کہ اب بیعت بھی کر لو۔

میں نے اُسے سمجھایا کہ یہ تو احمدیت کے مسائل سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتا اِسے بیعت کے لئے کیوں مجبور کرتے ہو؟ مگر وہ بیچارہ یہی سمجھتا تھا کہ تبلیغ یہی ہے کہ دوسرے کو جھٹ بیعت کے لئے کہہ دیا جائے۔

اِسی طرح ایک اور اسٹیشن آیا تو وہاں قادیان کا ایک شخص کھڑا تھا مگر یہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا آپ احمدی ہیں؟ اور جب اس نے کہاں ہاں۔ تو کہنے لگا ’’چنگّا پھر اَلحَمدُ لِلّٰہ‘‘

میں نے اسے کہا کہ تم اس طرح نہ کیا کرو اس طرح لوگوں کو ٹھوکر لگتی ہے۔ مگر وہ کہنے لگا نہیں جی! اس طرح تبلیغ ہوتی ہے۔ اپنے ذہن میں اس نے سمجھ رکھا تھا کہ جب احمدیت سچی ہے تو پھر اس کے لئے کسی دلیل کی کیا ضرورت ہے۔

تو ہماری جماعت کے دوستوں کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں مگر افسوس ہے کہ ان میں سے کئی سے ہم نے صحیح رنگ میں کام نہیں لیا۔ وہ ہیرے ہیں جو خدا نے ہمارے ہاتھ میں دیئے مگر ہم ان ہیروں کو کاٹ کر منڈی میں نہیں لے گئے بلکہ وہ پتھروں کی طرح ہمارے گھروں میں بیکار پڑے ہوئے ہیں۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ485-486)

مومن اکیلا ہی قربانی کے لئے تیار رہتا ہے

مومن اکیلا ہی خداتعالیٰ کے راستہ میں قربانی کیا کرتا ہے اور دراصل وہ مومن ہی نہیں جو دوسرے کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے کہ وہ میری مدد کے لئے آتا ہے یا نہیں۔ مجھے اپنے زندگی کے کاموں میں سے جو بہترین کام نظر آیا کرتا ہے اور جس کا خیال کر کے بھی میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے وہ وہی واقعہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر پیش آیا اور جس کا مَیں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جب وفات پا گئے تو میرے کانوں میں بعض لوگوں کی یہ آواز آئی کہ اب کیا ہو گا؟ حضرت مسیح موعودؑ کی بہت سی پیشگوئیاں ابھی پوری نہیں ہوئیں اور لوگ ان کی وجہ سے ہم پر اعتراض کریں گے۔ میں اُس وقت ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ کی طرف جا رہا تھا کہ یہ آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں نے اِس آواز کو سُنا اور حضرت مسیح موعودؑ کے سرہانے کھڑے ہو کر میں نے خداتعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اے خدا! میں حضرت مسیح موعودؑ کے جسم کے سامنے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو گئی تو میں اکیلا ہی تیرے دین کی اشاعت کروں گا۔

پس مومن کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کی طرف دیکھے بلکہ وہ اکیلا اپنے آپ کو ہی خدا تعالیٰ کے حضور جواب دِہ سمجھتا ہے۔ بے شک جن جماعتوں نے سُستی کی ہے میرا فرض ہے کہ میں انہیں توجہ دلاؤں مگر اِس کے یہ معنے نہیں کہ اگر اُنہوں نے قربانی کی تو میں کروں گا اور اگر نہ کی تو نہیں کروں گا۔ میرا قربانی کرنا اس لئے نہیں کہ وہ بھی قربانی کریں بلکہ مَیں تو اپنے مقام پر قربانی کرتا چلا جاؤں گا کیونکہ میرا خدا سے براہ راست معاملہ ہے۔ اِسی طرح ہر مومن کا خداتعالیٰ سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اور خواہ اس کا کوئی ساتھ دینے والا ہو یا نہ ہو وہ خداتعالیٰ کی راہ میں قربانی کرتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمیں اِس کا نہایت اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے۔

بدر کی جب جنگ ہوئی تو اس وقت صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عرشہ پر بٹھا دیا اور اِردگِرد مضبوط پہرہ لگا کر تیز رَو اونٹنیاں آپ کے پاس کھڑی کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹنیاں کیسی ہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم نے یہ اونٹنیاں یہاں اس لئے باندھی ہیں کہ اگر ہم تمام کے تمام اس جنگ میں مارے جائیں تو آپ ان اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں۔ وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اخلاص میں ہم سے کم نہیں، مگریارسول اللہ! انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے انہیں جب حقیقتِ حال کا علم ہو گا تو وہ بھی حضور کے ساتھ مل کر جہاد کریں گے اور اس ثواب میں ہم سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہمیں ایک وقت یہ بھی نظر آتا تھا کہ آپ الگ ایک عرشہ پر بیٹھ گئے اور صحابہؓ کی درخواست کو آپ نے منظور فرما لیا مگر یہ وہ وقت تھا جب مصیبت ابھی کھلے طور پر سامنے نہیں آئی تھی اور صحابہؓ کے قدم میدان جنگ سے اُکھڑے نہیں تھے بلکہ وہ دلیری کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ یارسول اللہ! ہم آپ ﷺکے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں اور پیچھے بھی لڑیں گے اور ہم ڈھیر ہو جائیں گے مگر دشمن کو آپ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔یہ اس موقع کی بات ہے اور آپ نے صحابہؓ کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور عرشہ پر بیٹھ گئے۔

مگر آپ کی زندگی میں ہی پھر ایک دوسرا موقع آیا۔ جب بعض ایسے واقعات کی وجہ سے جن کو بیان کرنے کا یہ موقع نہیں صحابہؓ کے پیر اُکھڑ گئے اور اسلامی لشکرمنتشر ہو گیا۔ چار ہزار دشمن کے مقابلہ میں صرف رسول کریم صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم اور بارہ صحابیؓ رہ گئے۔ اُس وقت چاروں طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور وہاں کھڑے رہنے والوں کے مارے جانے کا سَو فیصدی احتمال تھا۔مگر جہاں بدر کے موقع پر صحابہؓ رسول کریمﷺ کی خدمت میں صفوں کے پیچھے ایک الگ مقام پر بیٹھنے کی درخواست کرتے ہیں اور آپ ان کی بات کو مان لیتے ہیں، وہاں غزوۂ حنین کے موقع پر صحابہؓ چاہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کو واپس لوٹائیں بلکہ بعض آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہ! یہ آگے بڑھنے کا موقع نہیں۔ مگر رسول کریم ﷺُن کے ہاتھ کو جھٹک دیتے ہیں اور فرماتے ہیں چھوڑو میرے گھوڑے کی باگ کو اور یہ کہتے ہوئے گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں۔

اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِالمُطَّلِبْ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ تو بدر کے موقع پر صحابہؓ آپ کو پیچھے بٹھاتے ہیں اور آپ ان کی بات کو مان جاتے ہیں لیکن حنین کے مقام پر صحابہؓ جب چاہتے ہیں کہ آپ آگے نہ بڑھیں تو آپ ان کی درخواست کو ردّ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں میں پیچھے نہیں ہٹوں گا بلکہ آگے بڑھوں گا۔ اس لئے کہ بدر کے موقع پر صحابہؓ جان دینے کے لئے تیار تھے اور رسول کریم ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ اب جب کہ ذمہ داری کو صحابہؓ کی طرف سے ادا کیا جا رہا ہے تو مجھے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن حنین کے موقع پر جب صحابہؓ بھاگ پڑے، ُبزدلی کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض طبعی حالات کی وجہ سے، تو اُس وقت رسول کریمﷺنے سمجھا کہ اب کُلّیةً ذمہ داری مجھ پر ہے اور میرا فرض ہے کہ خواہ کوئی میرے ساتھ ہو یا نہ ہو مَیں آگے بڑھوں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور مجھے آگے بڑھنے دو۔اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ۔ اَنَا ابْنُ عَبْدِالمُطَّلِبْ تو جب بعض مومن کمزوری دکھاتے یا اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی سے کام لیتے ہیں تو جو سچا مومن اور مخلص ہوتا ہے خدا اس سے کہتا ہے کہ اے میرے بندے! اب سب بوجھ تجھ پر ڈال دیا گیا ہے آگے آ اور اِس بوجھ کو اُٹھا کہ تیرے سِوا اب اس بوجھ کو اُٹھانے والا کوئی نہیں رہا۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے اکلوتے بیٹے کی قربانی کرانے میں یہی حکمت پوشیدہ تھی۔ یوں تو ساری دُنیا سے ہی قربانی کرائی جاتی ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اکلوتے بیٹے کی قربانی کے مطالبہ کے یہی معنے تھے کہ اُس وقت دُنیا میں ان کے علاوہ اور کوئی اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ تب خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اُٹھ اور میری راہ میں اپنے بیٹے کو قربان کر۔ ورنہ واقعہ میں خدا کا یہ منشاءنہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ ایک انسانی قربانی کرائی جائے۔ اسلام میں انسانی قربانی جائز نہیں اور اسلام سے میری مراد صرف مذہبِ اسلام ہی نہیں بلکہ ہر سچا دین ہے کیونکہ قرآنی اصطلاح میں تمام سچے ادیان کا نام اسلام رکھا گیا ہے۔ پس ابراہیمی دین میں بھی انسانی قربانی جائز نہ تھی اور نوحؑ کے دین میں بھی انسانی قربانی جائز نہ تھی یہ قربانی کا مطالبہ درحقیقت اِسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے تھا کہ جب خداتعالیٰ کے لئے کوئی قربانی کرنے والا نہ رہے تو اُس وقت انسان کو چاہئے کہ اپنے آپ کو فنا کر دے۔ یہی اکلوتے بیٹے کی قربانی کرنے کا مفہوم تھا کیونکہ اکلوتے بیٹے کی قربانی کے بعد نسل ختم ہو جاتی ہے اور یہی وہ مفہوم ہے جسے زندہ قومیں ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا کرتی ہیں۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ471-474)

حقیقی انقلاب کے لئے خود کو خدا کے سپرد کر دو

ہمارا فرض یہی نہیں کہ ہم اپنے آپ کو ایک تیز تلوارکی مانند بنائیں بلکہ ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ ہم اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیں کیونکہ اگر تلوار بھی تیز ہو اور تلوار چلانے والا بھی ماہر ہو تو اس تلوار کا وار کوئی روک نہیں سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی سپاہی تھا جسے تلوار چلانے کی ایسی مشق تھی کہ وہ گھوڑے کو کھڑا کر کے ایک ہی ضرب میں اُس کے چاروں پاؤں کاٹ دیا کرتا تھا۔ ایک دفعہ شہزادے نے اُسے ایک ہی وار میں گھوڑے کے چاروں پاؤں کاٹتے دیکھا تو وہ سپاہی کے پیچھے پڑ گیا اور کہنے لگا یہ تلوار مجھے دے دو مگر سپاہی نے وہ تلوار نہ دی۔ شہزادہ نے بادشاہ سے شکایت کر دی کہ فلاں سپاہی سے میں نے اُس کی تلوار مانگی تھی مگر وہ مجھے دیتا نہیں۔بادشاہ نے اُس سپاہی کو بُلا کر ڈانٹا اور کہا کہ تم بڑے نمک حرام ہو میرے بیٹے نے تم سے تلوار مانگی اور تم نے وہ تلوار اِسے نہیں دی۔ سپاہی نے کہا بہت اچھا یہ تلوار حاضر ہے لے لیجئے۔ چنانچہ بادشاہ نے وہ تلوار لے کر شہزادے کو دے دی۔

شہزادہ خوشی خوشی اُس تلوار کو لے کر ایک گھوڑے کے قریب گیا اور زور سے اُس کے پاؤں پرماری مگر بجائے چاروں پاؤں کٹنے کے گھوڑے کے پاؤں پر معمولی نشان بھی نہ پڑا۔ یہ دیکھ کر پھر وہ اپنے باپ کے پاس آیا اور کہنے لگا معلوم ہوتا ہے سپاہی نے دھوکا کیا ہے اور جو اصل تلوار تھی وہ چھپا کر اُس کی بجائے کوئی اور تلوار دے دی ہے کیونکہ اُس تلوار سے تو گھوڑے کے چاروں پیر کٹ جاتے تھے مگر اِس تلوار سے اس کا ایک پیر بھی نہیں کٹا۔

بادشاہ نے پھر اسے بُلا کر ڈانٹا اور کہا کہ اصل تلوار کہاں چھپا رکھی ہے، وہ نکال کر فوراً حاضر کرو۔ سپاہی نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! تلوار تو وہی ہے مگر بات یہ ہے کہ صرف تلوار کام نہیں کیا کرتی بلکہ تلوار کو چلانے والے کی مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کے صاحبزادہ کو یہ ہنر نہیں آتا مگر مجھے آتا ہے اور اگر آپ کو شبہ ہے تو ابھی کسی گھوڑے کو میرے سامنے لائیے اور اِسی تلوار سے میرے ہنر کا مشاہدہ کر لیجئے۔ چنانچہ اُسی وقت ایک گھوڑا لایا گیا اور سپاہی نے اُسی تلوار کی ایک ایسی ضرب لگائی کہ اُس کے چاروں پاؤں یکدم کٹ گئے۔

تو بعض دفعہ ہتھیار اچھا ہوتا ہے مگر چونکہ چلانے والا اپنے فن میں ماہر نہیں ہوتا اس لئے وہ ہتھیار صحیح طور پر کام نہیں دیتا اور چونکہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ انسانی ہاتھوں سے ہونے والا نہیں اِس لئے ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو بہتر تلوار سے بہتر بنائیں اور پھر اپنے آپ کو یہ کہتے ہوئے خداتعالیٰ کے سپرد کر دیں کہ سپردم بتو مایہ خویش را۔

کہ الٰہی! جس حد تک اپنے خیالات کی اصلاح ممکن تھی، جس حد تک اپنے افکار کی اصلاح ممکن تھی، جس حد تک اپنے ارادوں میں بلندی اور پختگی پیدا کی جا سکتی تھی وہ ہم نے کر لی مگر اے ہمارے رب! ان تمام اصلاحوں کے باوجود ہم ایک بے جان لاشہ ہیں اور ہمارے اندر قطعاً یہ طاقت نہیں کہ ہم دُنیا میں کوئی تغیر پیدا کر سکیں اس لئے اے خدا! اب تیرے ہاتھ میں ہم اپنے آپ کو نفسِ بے جان کی طرح ڈال رہے ہیں، تو جہاں چاہے اسے ڈال دے اور جہاں چاہے اس کو پھینک دے یہ تیرا کام ہے اور توہی کر سکتا ہے، ہم سے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔

اگر ہم اس طرح اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے حوالے کر دیں تو یقینا اس صورت میں تلوار ایسے تغیرات پیدا کرے گی کہ دُنیا حیران رہ جائے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں حیرت سے کہیں گی کہ کتنی چھوٹی جماعت تھی جس نے قلیل ترین عرصہ میں ایسا عظیم الشان کام کر لیا۔ بے شک جب ہمیں کامیابی حاصل ہو جائے گی اُس وقت بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ اس دُنیا میں ایسے حالات پیدا ہو رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ احمدیت کی ترقی تھی مگر اُن میں سے جو سمجھ دار لوگ ہوں گے وہ اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہ کام خدا کا ہے اور اُسی نے یہ تغیر پیدا کیا۔

چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کو ہی دیکھ لو، جب آپ نے یہ دعویٰ کیا کہ میں تمام دُنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ کہ ایک دن ایسا آئے گا جب کہ میری مخالفت کرنے والے مٹ جائیں گے اور میرا لایا ہوا دین تمام دُنیا میں پھیل جائے گا تو لوگ ہنستے تھے اور کہتے تھے یہ تو مجنونانہ دعویٰ ہے اس میں تواتنی طاقت بھی نہیں کہ مکہ کوفتح کر سکے۔کجایہ کہ سارے عالم پر اس کا قبضہ ہو جائے۔ مگر جب مکہ ہی نہیں تمام عرب پر اور عرب ہی نہیں فلسطین پر بھی اور فلسطین ہی نہیں شام پر بھی اور شام ہی نہیں مصر پر بھی اور مصر ہی نہیں اناطولیہ پر بھی، اور اناطولیہ ہی نہیں ایران پر بھی، اور ایران ہی نہیں افغانستان اور چین اور دوسرے تمام ممالک پر آپ اور آپ کے خلفاءکا قبضہ ہو گیا اور لوگوں نے یہ انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو آج یورپین مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ انقلاب کوئی غیر متوقع نہیں تھا۔اُس زمانہ میں ایسے سامان پیدا ہو رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ کسریٰ کی حکومت مٹ جائے، قیصر کی حکومت تباہ ہو جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کا تمام دُنیا پر غلبہ ہو جائے۔

مگر ہم کہتے ہیں اے احمقو! اور نادانو! تمہیں آج یہ تغیرات کیوں نظر آرہے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جن کے زمانہ میں یہ تغیرات ہوئے ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ فتح کرنے کی تو طاقت نہیں رکھتا اور خوابیں یہ دیکھتا ہے کہ وہ سارے جہان کو فتح کر لے گا۔ حقیقت یہ ہے۔

خوئے بد را بہانہ بسیار

جس نے نہیں ماننا ہوتا وہ ہزار بہانے بنالیتا ہے اور جو ماننے والے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہدایت پا جاتے ہیں۔ اِس وقت بھی دُنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا ہو رہے ہیں اور تغیرات یقیناً احمدیت کے لئے مفید ہیں۔

آج ہماری جماعت میں سے جن لوگوں کو خداتعالیٰ یہ توفیق دے گا وہ سچے طور پر اپنی اصلاح کر کے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے حوالہ کر دیں اور اپنے آپ کو ایک تیز تلوار بنا کر خداتعالیٰ کے ہاتھ میں دے دیں۔ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دُنیا میں ایک ایسا انقلاب پیدا کر دے گا جسے دیکھ کر اگلے لوگ حیران رہ جائیں گے اور خواہ کتنی عظیم الشان روکیں درمیان میں حائل ہوں اللہ تعالیٰ ان کو دور کر کے اسلام کو کمال تک پہنچائے گا اور ہمیشہ آسمان سے ان کے لئے برکتیں نازل ہوں گی مگر یہ تغیرات اپنے نفوس کی اصلاح کئے بغیر نہیں ہو سکتے۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ488-491)

دوست ومحبوب کے لئے اعلیٰ چیز

دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں جب کسی کے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہوتا ہے تو عورت چاہتی ہے کہ مہمان کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا تیار کیا جائے۔ چاول پکائے گی تو خواہش رکھے گی کہ میرے پکے ہوئے چاول اتنے اچھے ہوں کہ اس نے ویسے چاول پہلے کبھی نہ کھائے ہوں۔ پراٹھا پکائے گی تو کہے گی میں ایسا اچھا پراٹھا پکاؤں کہ ویسا پراٹھا اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو۔

ہمارے خاندان کے بچے کا ہی ایک لطیفہ ہے۔ میاں بشیر احمد صاحب کا ایک لڑکا ایک دفعہ اماں جان کے ہاں گیا اور وہاں سے پراٹھا کھا کے آیا جو اُسے بہت ہی پسند آیا اور آکر اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ مجھے بھی ایسا ہی پراٹھا پکا دو جیسا اماں جان نے پکایا ہے۔ خیر دوسرے دن اُنہوں نے اُسے پراٹھا پکا کر دے دیا۔ وہ کھاتا رہا کھاتا رہا، مگر زبان سے اس نے کچھ نہیں کہا۔ البتہ اُس کے چہرہ پر ایسے آثار تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کوئی بات سوچ رہا ہے۔ جب کھاچکا تو کہنے لگا امّاں! یہ پراٹھا بھی اچھا ہے پر امّاں جان دے پراٹھے دی تے حداں ہی ٹٹ گیاں ہیں۔

توہرا نسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیز کے آگے ایسی اعلیٰ چیز رکھے جو اس نے پہلے کبھی نہ کھائی ہو۔ ہم اس کے کھانے کے لئے کیلا منگوائیں گے تو کہیں گے کہ ایسا اچھا کیلا لانا جو اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو۔ خربوزہ منگوائیں گے تو تاکید کریں گے کہ بہترین خربوزہ لانا جو ایسا میٹھا ہو کہ ویسا میٹھا خربوزہ اس نے پہلے کبھی نہ کھایا ہو۔

ہمارے ایک مرحوم دوست لاہور کے میاں تاج دین صاحب تھے جن کے لڑکے میاں مظفر الدین صاحب آجکل پشاور میں بجلی کا کام کرتے ہیں۔اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے ایک قسم کا عشق تھا۔ جب آپ لاہور سے قادیان آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضرور کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے۔ اُن کی عادت تھی کہ دکاندار کے پاس جاتے اور کہتے اعلیٰ سے اعلیٰ سیب دو میں حضرت صاحب کے لئے تحفہ لے جانا چاہتا ہوں۔ وہ مثلاً روپیہ کے 21 سیب دیتا، یہ کہتے کہ ان سیبوں سے بھی اعلیٰ سیب دو، خواہ روپیہ کے تم مجھے دس دے دو مگر بہرحال اعلیٰ ہوں مَیں حضرت صاحب کے لئے قادیان تحفہ لے جانا چاہتا ہوں۔ وہ وہی سیب جو روپیہ کے 21 ہوتے دس دے دیتا اور کہتا کہ یہ بہت اعلیٰ ہیں اور وہ دکاندار پر اعتبار کر کے لے لیتے اور یہ سمجھ لیتے کہ دکاندار نے اچھے سے اچھے سیب دئیے ہیں۔

تو ہماری تمام کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست اور محبوب اور پیارے کے لئے وہ چیز لے جائیں جو اس نے پہلے نہ دیکھی ہو اور وہ ایسی اعلیٰ ہو کہ ویسی اعلیٰ چیز اس کی نظر سے پہلے کبھی نہ گزری ہو۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ493-495)

غیر محدود ہستی کا غیر محدود قرب

جہاں انسان کو آرام کا خیال آیا وہیں انسان کو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اب اس کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

میرے پاس ایک دفعہ ایک اباحتی قسم کا آدمی آیا اور کہنے لگا اگر انسان دریا میں کشتی پر سوار ہو اور وہ اپنے دوست سے ملنے جارہا ہو تو آپ بتائیں کہ جب کنارہ آجائے تو آیا وہ اُتر پڑے یا کشتی میں ہی بیٹھا رہے؟ جونہی اس نے سوال کیا معاً میں سمجھ گیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز اور روزہ وغیرہ تو اِس لئے ہیں کہ انسان کو خدا مل جائے۔پس اگر کسی کو خدا مل جائے تو اُسے نماز اور روزہ کی کیا ضرورت ہے مگر اُس نے خیال کیا کہ اُس کا یہ مفہوم میں کہاں سمجھوں گا اور مَیں اسے یہی جواب دوں گا کہ جب کنارہ آئے تو اُتر پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی حقیقت کھول دی اور میں نے بجائے یہ جواب دینے کے کہ جب کنارہ آئے تو وہ کشتی سے اُتر پڑے، یہ جواب دیا کہ اگر تو جس دریا میں وہ سفر کر رہا ہے اس کا کوئی کنارہ ہے تو جب کنارہ آجائے تو بیشک اُتر پڑے۔ لیکن اگر اس دریا کا کوئی کنارہ نہیں تو جہاں اسے کنارے کا خیال آیا اور وہ یہ سمجھ کر کشتی سے اُترا کہ کنارہ آگیا ہے وہیں وہ ڈوبا۔ یہ جواب دے کر مَیں نے کہا اب بولو تم جس دریا کا ذکر کر رہے اُس کا کوئی کنارہ ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا ہے تو وہ بے کِنارہ ہی۔

تو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود ہستی ہے اور غیر محدود ہستی کا عرفان اسی صورت میں انسان کو حاصل ہو سکتا ہے جب وہ بھی اپنا قدم آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے۔ اگر ہم ایک ہی مقام پر ٹھہرے رہیں تو غیر محدود ہستی کا غیر محدود قرب ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں اور جب ہم اس کا قرب حاصل نہیں کریں گے تو اس کے انعامات سے محروم رہیں گے اور جتنا زیادہ ہم اس کے انعامات سے محروم رہیں گے اُسی قدر زیادہ ہمیں ناکامی و نامرادی ہوگی۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ501)

صحابہ کاعشق رسولؐ

ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں باتیں ہو رہی تھیں کہ:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے کہا کہ ابا فلاں جنگ کے موقع پر جب آپ فلاں جگہ سے گزرے تھے تو اُس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا اور اگر چاہتا تو آپ پر حملہ کرکے آپ کو ہلاک کر سکتا تھا مگر مجھے خیال آیا کہ اپنے باپ کو کیا مارنا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی توکہا تیری قسمت اچھی تھی کہ تو مجھے دکھائی نہیں دیا۔ ورنہ اگر تو مجھے دکھائی دیتا تو خدا کی قسم! میں تجھے ضرور قتل کر دیتا۔

یہ وہ جذبۂ محبت ہے جو صحابہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق تھا کہ انہوں نے آپ کی محبت کے مقابلہ میں نہ بیٹے کی محبت کی پرواہ کی، نہ بیوی کی محبت کی پرواہ کی، نہ عزیزوں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کی۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ505)

فضول خرچ

حضرت خلیفہ اوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک زمیندار میرے پاس آیا اور اس نے کہا مولوی صاحب! مجھے مشورہ دیں۔ اِس وقت آٹھ سَو روپیہ میرے پاس ہے مَیں اِسے کہاں خرچ کروں؟ آپؓ نے فرمایا کوئی مسجد بنوا دو۔ وہ کہنے لگا کوئی اوربات بتائیں۔

فرماتے تھے میں نے کہا اچھا کہیں کنواں کھدوا دو۔ اُس کی اس سے بھی تسلّی نہ ہوئی اور کہنے لگا کوئی اور کام کی بات بتائیں۔ آخر مَیں نے اُسے بڑی بڑی نیک باتیں بتائیں اور کہا کہ تم یہ روپیہ اِس اس طرح خرچ کرو تو تمہیں بڑا ثواب ملے گا مگر وہ خاموش رہا۔

آخر میں نے اُس سے پوچھا کہ تم بتاؤ! تمہاری اپنی کیا رائے ہے؟ وہ کہنے لگا فلاں شخص نے بڑا اچھا مشورہ دیا ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ فلاں خاندان سے تمہاری عداوت ہے، تم اُس پر کوئی مقدمہ چلا دو اور اِس روپیہ سے اُسے سزا دلوانے کی کوشش کرو۔

تو ہمیں عقل مند بننا چاہئے، روپیہ کو دیکھ کر اِسے بِلا ضرورت خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہو جانا چاہئے۔

(خطابات شوریٰ جلد2 صفحہ716-717)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 دسمبر 2022