کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 26
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
فرمایا کہ
- دعویٰ مومن اور مسلم ہونے کا آسان ہے مگر جو سچے طور پر خدا تعالیٰ کا ساتھ دیوے تو خدا تعالیٰ اس کا ساتھ دیتا ہے۔ ہر ایک دل کو اس قسم کی سچائی کی توفیق نہیں مِلا کرتی یہ صرف کسِی کسِی کا دل ہوتا ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ دوست بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض زن مزاج کہ وفا نہیں کرتے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ حق دوستی کو وفاداری کے ساتھ پورا ادا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وفادار دوست ہے اسی لئے تو وہ فرماتا ہے وَمَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ (الطلاق: 4) کہ جو خدا کی طرف پورے طور پر آ گیا اور اعداء وغیرہ کسی کی پروا نہ کی فَہُوَ حَسۡبُہٗ۔ تو پھر خدا تعالیٰ اس کے ساتھ پوری وفا کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ63، ایڈیشن 1984ء)
- سلطان محمود سے ایک بزرگ نے کہا کہ جو کوئی مجھ کو ایک دفعہ دیکھ لیوے اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے۔ محمود نے کہا کہ یہ کلام تمہارا پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر ہے۔ اُن کو کفّار ابو لہب، ابو جہل وغیرہ نے دیکھا تھا۔ اُن پر دوزخ کی آگ کیوں حرام نہ ہوئی۔ اس بزرگ نے کہا کہ اے بادشاہ کیا آپ کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ وَہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ (الاعراف: 199)۔ اگر دیکھا اور جھوٹا کاذب سمجھا تو کہاں دیکھا؟
حضرت ابو بکرؓ نے، فاطمہؓ نے، حضرت عمرؓ نےاور دیگر اصحابؓ نے آپ کو دیکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے آپ کو قبول کر لیا۔ دیکھنے والا اگر محبت اور اعتقاد کی نظر سے دیکھتا ہے تو ضرور اثر ہو جاتا ہے اور جو عداوت اور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے ایمان حاصل نہیں ہوا کرتا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر کوئی میرے پیچھے نماز ایک مرتبہ پڑھ لیوے تو وہ بخشا جاتا ہے۔ اس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کے مصداق ہو کر نماز کو آپ کے پیچھے ادا کرتے ہیں تو وہ بخشے جاتے ہیں۔
اصل میں لوگ نماز میں دنیا کے رونے روتے رہتے ہیں۔ اور جو اصل مقصود نماز کا قرب الی اللہ اور ایمان کا سلامت لے جانا ہے اس کی فِکر ہی نہیں حالانکہ ایمان سلامت لے جانا بہت بڑا معاملہ ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان اس واسطے روتا ہے کہ مجھ کو با ایمان اللہ تعالیٰ دنیا سے لیجاوے تو خدا تعالیٰ اس کے اُوپر دوزخ کی آگ حرام کرتا ہے اور بہشت اُن کو ملیگا جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں حصول ایمان کے لئے روتے ہیں۔ مگر یہ لوگ جب روتے ہیں تو دنیا کے لئے روتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بُھلا دیگا۔
اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ (البقرہ: 153) تم مجھ کو یاد رکھو مَیں تم کو یاد رکھونگا۔ یعنی آرام اور خوشحالی کے وقت تم مجھ کو یاد رکھو اور میرا قرب حاصل کرو تاکہ مصیبت میں مَیں تم کو یاد رکھوں۔ یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ مصیبت کا شریک کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان اپنے ایمان کو صاف کر کے اور دروازہ بند کر کے رووے بشرطیکہ پہلے ایمان صاف ہو تو وہ ہرگز بے نصیب اور نامراد نہ ہو گا۔ حضرت داودؑ فرماتے ہیں کہ میں بڈھا ہو گیا مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ جو شخص صالح ہو اور با ایمان ہو پھر اس کو دشواری پیش ہو اور اس کی اولاد بے رزق ہو۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ66 تا 67، ایڈیشن 1984ء)
- نماز ایسے ادا نہ کرو جیسے مرغی دانے کے لئے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوزوگداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو۔ نماز مشکلات کی کُنجی ہے۔ ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بہت دعا کیا کرو تا اس سے سوز و گداز کی تحریک ہو اور جب تک سوزوگداز نہ ہو اسے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے۔ چاہیے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو۔ اگر جسمانی طور پر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لئے ویسے ہی کھڑا ہو۔ اگر جُھکو تو دِل بھی ویسے ہی جُھکے۔ اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے۔ دِل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہو گی تو گناہ دُور ہونے شروع ہو جاویں گے۔ معرفت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے۔ جیسے جو شخص سم الفار سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا۔ ایسے جب تم کو معرفت ہو گی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے۔ نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤ گے۔ معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لئے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی۔ جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے مصنوعات سے تو انسان کو ایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہیئے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ہے بھی۔ ہونا چاہیئے اور شئے ہے اور ہے اور شئے ہے۔ اس ہے کا علم سوائے دعا کے نہیں حاصل ہوتا۔ عقل سے کام لینے والے ہے کے علم کو نہیں پا سکتے۔ اسی لئے ہے کہ خدارا بخدا تواں شناخت لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ شناخت نہیں کیا جا سکتا بلکہ خود جو ذریعے اس نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لئے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ (الفاتحہ: 6-7) جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ367 تا 368، ایڈیشن 1984ء)
نفس کے ہم پر حقوق
- جس کا دل مردہ ہو وہ خوشی کا مدار صرف دنیا کو رکھتا ہے مگر مومن کو خدا تعالیٰ سے بڑھ کر اور کوئی شئے پیاری نہیں ہوتی۔ جس نے یہ نہیں پہچانا کہ ایمان کیا ہے اور خدا کیا ہے۔ وہ دنیا سے کبھی آگے نکلتے ہی نہیں ہیں۔ جب تک دنیا ان کے ساتھ ہے۔ تب تک تو سب سے خوشی سے بولتے ہیں۔ بیوی سے بھی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ مگر جس دن دنیا گئی تو سب سے ناراض ہیں۔ مُنہ سُوجا ہوا ہے۔ ہر ایک سے لڑائی ہے گلہ ہے۔ شکوہ ہے۔ حتٰی کہ خدا تعالیٰ سے بھی ناراض ہیں تو پھر خدا تعالیٰ ان سے کیسے راضی رہے۔ وہ بھی پھر ناراض ہو جاتا ہے۔
مگر بڑی بشارت مومن کو ہے یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ۔ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً (الفجر: 28-29)۔ اے نفس جو کہ خدا تعالیٰ سے آرام یافتہ ہے تو اپنے ربّ کی طرف راضی خوشی واپس آ۔ اس خوشی میں ایک کافر ہر گز شریک نہیں ہے۔ رَاضِیَۃً کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی مرادات کوئی نہیں رکھتا کیونکہ اگر وہ دنیا سے خلاف مرادات جاوے تو پھر راضی تو نہ گیا۔ اسی لئے اس کی تمام مراد خدا ہی خدا ہوتا ہے۔ اس کے مصداق صرف آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم ہی ہیں کہ آپ کو یہ بشارت ملی۔ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ (النصر: 2) اور اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ (المائدہ: 4)۔ بلکہ مومن کی خلاف مرضی تو اس کی نزع (جان کنی) بھی نہیں ہوا کرتی۔ ایک شخص کا قصّہ لکھا ہے کہ وہ دعا کیا کرتا تھا کہ میں طوس میں مروں۔ لیکن ایک دفعہ وہ ایک اور مقام پر تھا کہ سخت بیمار ہوا اور کوئی امید زیست کی نہ رہی تو اس نے وصیت کی کہ اگر میں یہاں مر جاؤں تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اسی وقت سے وہ رُو بصحت ہونا شروع ہو گیا حتٰی کہ بالکل تندرست ہو گیا۔ لوگوں نے اس کی وصیت کی وجہ پوچھی تو کہا کہ مومن کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ اس کی دعا قبول ہو۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ میری دعا تھی کہ طوس میں مروں۔ جب دیکھا کہ موت تو یہاں آتی ہے تو اپنے مومن ہونے پر مجھے شک ہوا۔ اس لئے میں نے یہ وصیت کی کہ اہلِ اسلام کو دھوکا نہ دوں غرضکہ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً صرف مومنوں کے لئے ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے مالداروں کی موت سخت نامرادی سے ہوتی ہے دنیادار کی موت کے وقت ایک خواہش پیدا ہوتی ہے اور اسی وقت اُسے نزع ہوتی ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی اُسے عذاب دیوے اور اس کی حسرت کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں تاکہ انبیاء کی موت جو کہ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً کی مصداق ہوتی ہے۔ اس میں اور دنیادار کی موت میں ایک بیّن فرق ہو۔ دنیادار کتنی ہی کوشش کرے مگر اس کی موت کے وقت حسرت کے اسباب ضرور پیش ہو جاتے ہیں۔ غرضکہ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً کی موت مقبولین کی دولت ہے۔ اس وقت ہر ایک قسم کی حسرت دُور ہو کر اُن کی جان نِکلتی ہے۔ رَاضِی کا لفظ بہت عمدہ ہے اور ایک مومن کی مرادیں اصل میں دین کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کی کامیابی اور اس کے دین کی کامیابی اس کا اصل مدعا ہوا کرتا ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کی ذات بہت ہی اعلےٰ ہے کہ جن کو اس قسم کی موت نصیب ہوئی۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ64 تا 65، ایڈیشن 1984ء)
- صلاح تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہیئے۔ مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذراسی بات سے چڑ جاتے ہیں عام مجلس میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اسے بچالے۔ یہ نہیں کہ منادی کرو۔ جب کسی کا بیٹا بد چلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے کہ یہ بُرا کام ہے اس سے باز آجا۔ پس جیسے رفق۔ حلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو۔ جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبّر کی ایک جڑ ہے اگر خدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اُسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَتَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ (البقرہ: 45) اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے بلکہ چاہیئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے۔ چونکہ خود تو وہ پابند ان امور کا نہیں ہوتا۔ اس لئے آخر کار لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (الصف: 3) کا مصداق ہو جاتاہے۔
اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیحت کرنی بہت مشکل ہے۔ بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بغض اور کِبر ملا ہوا ہوتا ہےاگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہوتے تو خدا تعالیٰ اُن کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا۔ بڑا سعید وہ ہے جو اوّل اپنے عیوب کو دیکھے۔ ان کا پتہ اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا رہے۔ یاد رکھو کہ کوئی پاک نہیں ہو سکتا جب تک خدا اسے پاک نہ کرے۔ جب تک اتنی دعا نہ کرے کہ مَر جاوے تب تک سچا تقویٰ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے دعا سے فضل طلب کرنا چاہیئے۔ اب سوال ہو سکتا ہے کہ اُسے کیسے طلب کرنا چاہیئے تو اس کے لئے تدبیر سے کام لینا ضروری ہے جیسے ایک کھڑکی سے اگر بدبُو آتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ یا اس کھڑکی کو بند کرے یا بد بُودار شئے کو اُٹھا کر دُور پھینک دے۔ پس کوئی اگر تقویٰ چاہتا ہے اور اس کے لئے تدبیر سے کام نہیں لیتا تو وہ بھی گستاخ ہے کہ خدا کے عطا کروہ قویٰ کو بیکار چھوڑتا ہے۔ ہر ایک عطاءالٰہی کو اپنے محل پر صرف کرنا اس کا نام تدبیر ہے جو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ ہاں جو نری تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے وہ بھی مشرک ہے اور اسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے جس میں یورپ ہے۔ تدبیر اور دعا دونو کا پورا حق ادا کرنا چاہیئے۔ تدبیر کر کے سوچے اور غور کرے کہ میں کیا شئے ہوں۔ فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے۔ ہزار تدبیر کرو ہر گز کام نہ آوے گی جب تک آنسو نہ بہیں۔ سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دُعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے۔ جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا۔ ایک دن اور رات جس کی دُعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہُوا۔ ہر روز دیکھنا چاہیئے کہ جو حق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں۔ نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے۔ اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے۔ جلدی گلے سے اُتر جاوے۔ بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دُگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں۔ چاہیئے کہ اپنی نماز کو دُعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کر لو ایسا نہ ہو کہ اس پر ویل ہو۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ368 تا 370، ایڈیشن 1984ء)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
- خدا تعالیٰ کے فضل اور فیضان کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو کچھ کر کے دکھاؤ۔ ورنہ نکمی شئے کی طرح تم پھینک دیئے جاؤ گے۔ کوئی آدمی اپنے گھر کی اچھی چیزوں اور سونے چاندی کو باہر نہیں پھینک دیتا بلکہ ان اشیاء کو اور تمام کار آمد اور قیمتی چیزوں کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو لیکن اگر گھر میں کوئی چوہا مرا ہوا دکھائی دے تو اس کو سب سے پہلے باہر پھینک دو گے۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ہمیشہ عزیز رکھتا ہے اُن کی عمر دراز کرتا ہے اور ان کے کاروبار میں ایک برکت رکھ دیتا ہے۔ وہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور بیعزّتی کی موت نہیں مارتا۔ لیکن جو خدا تعالیٰ کی ہدایتوں کی بیحُرمتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہاری قدر کرے تو اس کے واسطے ضروری ہے کہ تم نیک بن جاؤ تا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل قدر ٹھہرو۔ جو لوگ خدا سےڈرتے ہیں اور اس کے حکموں کی پابندی کرتے ہیں وہ ان میں اور ان کے غیروں کے درمیان ایک فرقان رکھ دیتا ہے۔ یہی راز انسان کے برکت پانے کا ہے کہ وہ بدیوں سے بچتا رہے۔ ایسا شخص جہاں رہے وہ قابلِ قدر ہوتا ہے کیونکہ اس سے نیکی پہنچتی ہے۔ وُہ غریبوں سے سلوک کرتا ہے۔ ہمسائیوں پر رحم کرتا ہے۔ شرارت نہیں کرتا۔ جھوٹے مقدمات نہیں بناتا۔ جھوٹی گواہیاں نہیں دیتا بلکہ دل کو پاک کرتا ہے اور خدا کی طرف مشغول ہوتا ہے اور خدا کا ولی کہلاتا ہے۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ400 تا 401، ایڈیشن 1984ء)
- فتنہ کی بات نہ کرو۔ شر نہ کرو۔ گالی پر صبر کرو۔ کسی کا مقابلہ نہ کرو۔ جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ۔ شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔ سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہیئے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے۔ دنیا ختم ہونے پر آئی ہوئی ہے۔
(ملفوظات جلد6، صفحہ413، ایڈیشن 1984ء)
(خاقان احمد صائم و فضلِ عمر شاہد۔ لٹویا)