• 25 اپریل, 2024

خود کو پرکھنے کے مزید معیار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم نے ہر قسم کے فساد سے بچنے کی کوشش کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شریرترین لوگ فسادی ہیں اور یہ فسادی ہیں جو چغل خوری سے فساد پیدا کرتے ہیں۔ یہاں کی بات وہاں لگائی، اِدھر سے اُدھر بات پھیلائی وہ لوگ فسادی ہیں۔ جو لوگ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرتے ہیں وہ فسادی ہیں۔ جو فرمانبردار ہیں، اطاعت کرنے والے ہیں، نظام کی ہر بات کو ماننے والے ہیں یا دین کی ہر بات کو ماننے والے ہیں انہیں کسی غلط کام میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ فسادی ہیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد8 صفحہ914 حدیث اسماء بنت یزید حدیث نمبر28153عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس فساد کے ہونے کا اور فساد سے بچنے کا یہ معیار ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قسم کے باغیانہ رویّے سے پرہیز کرنے والے ہم ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم نفسانی جوشوں سے مغلوب تو نہیں ہو جاتے؟ آجکل کے زمانے میں جبکہ ہر طرف بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ان نفسانی جوشوں سے بچنا بھی ایک جہاد ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم پانچ وقت نمازوں کا التزام کرتے رہے ہیں۔ سال میں باقاعدگی سے پڑھتے رہے ہیں کہ اس کی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی جگہ تلقین فرمائی ہے، نصیحت فرمائی ہے بلکہ حکم دیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث (82))

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا نماز تہجد پڑھنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ نماز تہجد کا التزام کرو۔ اس میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش کرو؟ یہ صالحین کا طریق ہے۔ فرمایا کہ یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ اس کی عادت گناہوں سے روکتی ہے۔ فرمایا کہ برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔

(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء النبیﷺ حدیث 3549)

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی باقاعدہ کوشش کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں کہ یہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے خاص حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر درود کے بغیر دعائیں ہیں تو یہ زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہر جاتی ہیں۔

(سنن الترمذی کتاب الصلاۃ ابواب الوتر باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبیﷺ حدیث 486)

اگر تم نے درودنہیں پڑھا اور تم دعائیں کر رہے ہو تو زمین سے دعائیں اٹھیں گی آسمان تک نہیں پہنچیں گی درمیان میں ٹھہر جائیں گی کیونکہ ان میں وہ طریق شامل نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ آسمان تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ دعاؤں کے ساتھ درود بھی ہو۔

پھر سوال ہم نے یہ کرنا ہے کہ کیا ہم باقاعدگی سے استغفار کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی باقاعدگی سے کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور ہر مشکل سے کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

(سنن ابی داؤد ابواب الوتر باب فی الاستغفار حدیث 1518)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی کی حمد کے بغیر شروع کیا جانے والا کام ناقص رہتا ہے، بے برکت ہوتا ہے، بے اثر ہوتا ہے۔ .

(سنن ابن ماجہ۔ کتاب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث 1894)

(خطبہ جمعہ 30؍دسمبر 2016ء)

پچھلا پڑھیں

نیشنل صدر مجلس خدام الاحمدیہ گھانا کا انتخاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جنوری 2023