• 16 مئی, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 73)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 73

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 14؍اگست 2011ء میں صفحہ7 پر دو تصاویر کے ساتھ ہماری ایک خبر شائع کی ہے۔ تصاویر میں ایک سامعین کے ساتھ مسجد بیت الحمید میں ہے اور دوسری تصویر خاکسار کی ہے جس میں خاکسار درس قرآن دے رہا ہے۔

خبر کا عنوان ہے:۔ ’’مسجد بیت الحمید چینو میں رمضان المبارک کی سرگرمیاں‘‘

کیلی فورنیا (پ ر) روایت کے مطابق اس سال بھی مسجد بیت الحمید میں پانچوں نمازوں کے علاوہ نماز تراویح اور درس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جاری ہے۔ مغرب کی نماز سے ایک گھنٹہ قبل درس قرآن ہوتا ہے۔ درس میں شامل ہونے والوں کے لئے باقاعدگی سے افطار اور کھانے کا خصوصی بندوبست ہوتا ہے۔ عام دنوں میں تقریباً 175 مرد و خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں جب کہ ہفتہ و اتوار کو یہ تعداد چار سو تک پہنچ جاتی ہے۔رمضان کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے امام شمشاد ناصر نے قرآن کریم کی تلاوت، ترجمہ اور قرآن کریم کی فضیلت، اس کے نزول کی ضرورت اور افادیت پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔

امام شمشاد یہ تلقین بھی کرتے ہیں کہ احباب رمضان کی برکتوں سے بھرپور فائدہ بھی اٹھائیں کیوں کہ احادیث میں اس ماہ کے بہت سی برکتیں اور فضائل بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے اور دعا کے ذریعہ ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ امام شمشاد نے کہا کہ رمضان کے مہینہ میں دعا کا موقع اور ماحول میسر آتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

ہفت روزہ یوکے ٹائمز نے اپنی اشاعت 18؍اگست 2011ء میں صفحہ15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’پاکستان زندہ باد……قائد اعظم زندہ باد‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا کہ ساری قوم نے خدا تعالیٰ کے فضل سے پورے جوش و خروش اور جذبہ سے یوم آزادی منایا۔ اور اللہ تعالٰی نے یہ آزادی ہمارےوطن کو جو آج سے قریباً 64 سال پہلے عطا فرمائی تھی جس میں قائد اعظم اور دیگر بہت سے لوگوں کی جدوجہد اور قربانیاں شامل ہیں۔ اللہ تعالٰی یہ پوری قوم کو بہت مبارک کرے۔

قوم کا جذبہ تو واقعی قابل دید تھا۔ ایسے مواقع پر قوم کے لیڈروں نے TV پر بہت بلند دعاوی بھی کئے مثلاً ایک لیڈر نے کہا کہ ہم ملک سے کرپشن ختم کر دیں گے، مساویانہ حقوق دیں گے اور اسے پھر سے قائد اعظم کا پاکستان بنا دیں گے۔ مجھے یہ سن کر خوشی تو ہوئی مگر انہوں نے یہ نہ بتایا کہ قائد اعظم والا پاکستان بنا دینے کا کیا مطلب ہوگا؟

یہ حقیقت بالکل مسلمہ ہے کہ آج کا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے جس قسم کے پاکستان کا خواب قائد اعظم کا تھا وہ انہوں نے اپنی تقاریر میں بیان کیا ہے۔ مگر آج ویسا پاکستان تو چھوڑ ان کی تقاریر کو دہراتا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک بات یہ کی تھی کہ ریاست اور مذہب الگ الگ ہوں گے۔ یعنی ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ ہر شخص کو اس معاملہ میں آزادی ہوگی مگر یہ آزادی سلب کر لی گئی اور پاکستان کے آئین کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا جس سے ملک میں دہشت گردی پھیل گئی۔

کیا صرف آزادی حاصل کرلینا کافی تھا؟ یا آزادی کے بعد کچھ ذمہ داریاں بھی تھیں جو ہر پاکستانی نے ادا کرنی تھیں۔ ریاستی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ لوگوں کو مساویانہ حقوق دلانا۔ ان کی حفاظت کرنا۔ ان کے جان ومال کی حفاظت یہ تو کم سے کم ذمہ داری ہے ریاست کی۔

اس وقت دنیا کے ہر خطہ میں بے چینی اور بدامنی ہے۔ اس کا علاج اور حل ہمارے روحانی پیشوا (حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) نے یہ بتایا ہے کہ:
(1) تقویٰ پر گامزن ہوں۔ (2) دعاؤں پر زور دیں۔

خاکسار نے بتایا کہ اگر سب لوگ تقویٰ سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کریں تو یہی موجودہ بحران کا علاج ہے۔ لوگ دعا کرتے ہیں مگر لبوں پر ہی دعا ہوتی ہے۔ اور اعمال دیکھو تو بے ایمانی، لوٹ کھسوٹ، بددیانتی اور دوسروں پر ظلم۔ ان کے حقوق غصب کررہے ہوں گے توتقویٰ نام کو بھی نہیں۔ پھر دعائیں کیسے قبول ہوں گی۔

بعض لوگ نمازیں نہیں پڑھتے، بعض مسلمان کہہ کر شرک میں مبتلا ہیں۔ مزاروں پر سجدے کرتے ہیں۔ مردہ لوگوں سے اولاد مانگ رہے ہیں۔ کسی کی جان لینا بڑا آسان ہوگیا ہے۔ جان کا احترام اور تقدس ختم ہوگیا ہے۔ نمازوں میں رسماً اُٹھک بیٹھک ہے روح ختم ہوگئی ہے۔ (اُن دنوں کی ہی بات ہے کہ) ایک شخص ایک پوسٹر دکھا رہا ہے جس میں ایک کارکن اس پوسٹر کو سجدہ کر رہا ہے اور وہ پوسٹر بینظیر بھٹو کی تصویر تھی۔ ایک اور جگہ ایک عالم کو لوگ سجدہ کر رہے ہیں۔ یہ مشرکانہ حرکات کیا اس کو تقویٰ کہتے ہیں؟ جب لوگوں نے خدا کو ہی چھوڑ دیا ہے تو دعائیں کیا قبول ہوں گی۔

؂ بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے نسخہ پر عمل کریں۔ آئیے چند واقعات سن لیں:۔

(1) ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے لوگوں سے فرمایا ’’تم لوگ سیدھی راہ کو لازم پکڑو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام کے طریقہ سے ہٹ کر کوئی دوسری راہ مت اختیار کرو۔ اور خدا کی قسم اگر تم نے اللہ کی راہ سے ہٹ کر دائیں بائیں رخ کیا تو پھر تم ذلیل ہو کر گمراہی کے گڑھے میں گر جاؤ گے‘‘۔ (اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے)

(2) حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے۔ اور ہر ایک نگران سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

(3) حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتؐ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران بنایا ہے اگر وہ اپنی نگرانی میں کوتاہی کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ جنت کو حرام کر دیتا ہے۔

(4) خدا کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو انصاف پسند حاکم ہو اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا۔ (اس وقت خود نظر دوڑا کر دیکھ لیں کہاں کتنا انصاف ہے۔)

پس نظر دوڑائیے کہ اس وقت ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ پاکستان قائد اعظم والا پاکستان بنے، ہر ایک کو سکون، عزت و احترام ملے۔ مساویانہ حقوق ہوں۔ امتیازی سلوک نہ ہو۔ اور سب سے بڑھ کر عدل و انصاف سے کام لیں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 14 تا 25؍اگست 2011ء میں صفحہ 5 پر دو تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی خبر کا عنوان ہے ’’مسجد بیت الحمید چینو میں رمضان المبارک کی سرگرمیاں‘‘

پنجگانہ نمازوں کے علاوہ نماز تراویح اور درس قرآن کریم اور درس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جاری ہے۔ ایک تصویر سامعین کی ہے جو درس سن رہے ہیں اور ایک تصویر خاکسار کی ہے درس قرآن دیتے ہوئے۔ باقی خبر کا متن وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 19 تا 25؍اگست 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ یوم آزادی پاکستان کے حوالہ سے شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے گذر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 19؍اگست 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’عدل و انصاف کا فقدان۔ اور یوم آزادی‘‘ خاکسار کی تصویر کے علاوہ ایک اور تصویر جس میں پاکستان کا جھنڈا دکھایا گیا ہے۔ مگر سفید رنگ میں جھنڈا جیسے پھٹا ہوا ہو۔ دکھایا گیا ہے۔ کیوں کہ مضمون میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ یہاں پر اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور یہ پاکستان قائد اعظم والا پاکستان نہیں ہے۔ یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے بھی گزر چکا ہے۔ تصویر میں پاکستان کے پرچم کے ساتھ 14؍اگست یوم آزادی بھی لکھا ہوا ہے۔

ڈیلی بلٹن 20؍اگست 2011ء میں صفحہ A12 پر ہماری ایک مختصر سی خبر دی ہوئی ہے۔ خبر کا عنوان ہے کہ ’’مسجد میں رمضان کی سرگرمیاں‘‘۔ مسجد بیت الحمید اور خاکسار کے حوالہ سے رمضان کے بارے میں، رمضان میں پانچ نمازیں، نماز تراویح، درس قرآن کریم، درس حدیث، افطار ڈنر کے بارے میں معلومات دی ہیں۔

الاخبار نے اپنے عربی سیکشن میں خاکسار کا ایک مضمون عربی زبان میں بعنوان ’’شھر رمضان المبارک و عید الفطر السعید‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اس مضمون میں خاکسار نے رمضان المبارک کے فضائل و برکات اور استفادہ کے طریق کے علاوہ رمضان المبارک کے مسجد بیت الحمید میں پروگرامز اور عید کے مسائل وغیر بیان کئے ہیں۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 26؍اگست 2011ء میں صفحہ A9 پر یہ خبر شائع کی ہے۔ ’’کلیریا مانٹ چرچ بیت الحمید مسجد کا وزٹ کرتے ہیں‘‘

اخبار خبر دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ کلیریا مانٹ کے یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ کے ممبران اپنے مذہبی لیڈ رPastor Rob Petton کی سربراہی میں مسجد بیت الحمید کے وزٹ کے لئے آئے۔ قریباً 30 کے قریب خواتین و مرد (غیر مسلم) مسجد بیت الحمید آئےتو ان عیسائی خواتین نے مسجد کے آداب کی وجہ سے اپنے سر بھی ڈھانپے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں سن رہے تھے۔ امام شمشاد نے اس موقعہ پر کفارہ کے مسئلہ کو بیان کیا نیز توبہ، مغفرت کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ 45 منٹ تک تعلیمات کے بعد سب نے مل کر روزہ افطار کیا اس کے بعد سب نے غروب آفتاب والی نماز (نماز مغرب) پڑھی۔ جس میں قریباً 300 لوگ شامل تھے۔ اس کے بعد کھانا ہوا۔ کھانے میں چکن کا سالن، چاول، سلاد، میٹھا نیز پانی اور چائے بھی تواضع میں پیش کی گئی۔

اس سے ایک دن پہلے عیسائیوں کے ایک چرچ کے لوگوں نے مسجد کا وزٹ کیا تھا اس گروپ کی لیڈر محترمہ Rev. Jan Chase تھیں۔ ان کے علاوہ نزدیکی ایک اور چرچ کے گروپ کے لوگ بھی تھے۔ یہ گروپ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک لمبے عرصہ سے دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔

رمضان کے آخری دن کے لئے بھی امام شمشاد نے سب کو کھانے پر دعوت دی۔ خبر کے آخر میں ضرورت مندوں کے لئے عطیات اکٹھے کرنے اور تقسیم کرنے کے بارے میں بھی خبر ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 26؍اگست 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’کیا پاکستان میں شیطان جکڑ دیا گیا ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے ایک بار پھر مضمون کو رمضان کی برکتوں سے اور فضائل سے شروع کیا کہ لوگوں نے حتی المقدور استفادہ کیا۔ برکات تلاش کیں، دعائیں کیں وغیرہ۔ خدا کرے کہ یہ کوششیں جاری رہیں۔ اس حدیث کا ذکر کر کے کہ رمضان میں شیطان جکڑ دیا جاتا ہے خاکسار نے سوال اٹھایا کہ کیا

(1) رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں چند دن ہوئے ایک مسجد میں بم پھینک کر جمعۃ المبارک کے روز 60 افراد کو مار دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

(2) پھر کراچی کی صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہر روز لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ ایک جگہ اخبار میں یہ شہ سرخی تھی کہ ’’قائد کا شہر آگ میں جل رہا ہے‘‘۔

(3) کرپشن اور بے ایمانی رمضان میں بھی زوروں پر رہی۔

(4) بارشوں سے تباہی ہورہی ہے۔ یہ عذاب ہے یا رحمت؟

یہ سب چیزیں تو قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے رحمت ہرگز نہیں بلکہ خدائی عذاب ہے۔ رمضان کے دنوں میں اور وہ بھی جمعہ کے دن نمازیوں کو مار دینا۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں شیطان جکڑا نہیں گیا تھا۔ اور یہ باتیں پاکستان میں اب عام ہیں یعنی نمازیوں پر حملے کرنا۔ خاکسار نے لکھا کہ گزشتہ سال 28؍مئی 2010ء کو لاہور میں احمدیوں کی دو بڑی مساجد پر گرینیڈ سے حملہ کیا گیا جس میں 86 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک گرجا گھر کو گوجرہ میں نشانہ بنا کر اور عیسائیوں کے گھروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ حالانکہ اسلام ہر قسم کے مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کا احترام سکھاتا ہے۔ اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری کراتا ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 26؍اگست 2011ء میں صفحہ 19 پر دو تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ جس کا عنوان ہے۔ ’’روحانی باتیں اور روحانی اچھا کھانا‘‘۔ یہ خبر رمضان المبارک کی سرگرمیوں سے متعلق ہے جو جماعت احمدیہ ہر سال رمضان المبارک کے بابرکت دنوں میں مسجد بیت الحمید چینو کیلی فورنیا میں کرتی ہے۔ اس میں رمضان کے پروگرامز کی تفصیلات ہیں اور ہمسایوں کو دیگر غیر مسلموں کو جو شامل کیا جاتا رہا اس بارے میں ہے۔ ایک تصویر میں خاکسار درس قرآن دے رہا ہےاور دوسری تصویر میں لوگ افطار کرتے ہوئے اور ڈنر کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ خبر کا نفس مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دیگر اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔

ہفت روزہ نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 26؍اگست 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’رمضان اور شیطان‘‘ شائع کیا۔

یہ مضمون عنوان کی تبدیلی سے شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے کہ کیا پاکستان میں بھی رمضان کے دنوں میں شیطان جکڑا گیا تھا؟

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 27؍اگست تا 2؍ستمبر 2011ء میں صفحہ61 پر مذہبی سیکشن میں ہماری مختصر سی خبر اس عنوان سے شائع کی کہ ’’رمضان کا اختتام ہونے لگا ہے‘‘۔ اخبار نے اس مختصر خبر میں ہمارے مسجد میں رمضان کے پروگراموں کے بارے میں اطلاع دی ہے نیز عید الفطر کے بارے میں کہ کب منائی جائے گی۔

ویسٹ سائیڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت یکم ستمبر 2011ء میں ہمارا ایک ¼صفحہ کا تبلیغی اشتہار شائع کیا۔ اس اشتہار میں ہم نے قرآن کی 50 زبانوں میں نمائش کی ہیڈ لائن کے ساتھ پومونا فیئر میں اپنے بوتھ کی تفصیلات دی ہیں۔ یہ فیئر سالانہ ہوتا ہے اور لاکھوں لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارا بھی یہاں پر ایک بک سٹال لگتا ہے۔ اس اشتہار میں جماعت کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت یکم ستمبر 2011ء میں صفحہ 20 پر حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ایک خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ رمضان المبارک میں دعا کی اہمیت اور قبولیت کے بارے میں ہے۔ حضور انور نے خطبہ کے آغاز میں سورۃ البقرہ کی آیت وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ کی تلاوت فرماکر اس کی توضیح و تشریح فرمائی۔

حضور نے ’’رب العالمین‘‘ اور لَهُ الْحَمْدُ فِي الأُولَى وَالآخِرَۃ کا مضمون بیان فرمایا اور عِبَادِیْ سے مراد ایسے بندے ہیں اللہ تعالیٰ کے جو خدا تعالیٰ کی کلیۃً فرمانبرداری کرتے، ایمان لاتے اور خدا کے حکموں پر چلتے ہیں۔ حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتاب اعجاز المسیح سے بھی اقتباس پیش فرمایا۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 2؍ستمبر 2011ء میں دو تصاویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی جس کا عنوان یہ ہے ’’کرسچن مہمانوں کا جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید کا دورہ‘‘۔ ایک تصویر سامعین کی ہے۔ دوسری تصویر میں مہمان کھانا کھا رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ اتوار کو چینو میں جماعت احمدیہ کی مسجد بیت الحمید کا یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ اِ ن کلیر مانٹ کے ایک وفد نے دورہ کیا۔ وفد میں مرد اور خواتین شامل تھے۔ تیس افراد کے اس وفد نے امام شمشاد احمد ناصر کا اعتراف گناہ (مراد کفارہ) اور معافی کے موضوع یعنی (خدا تعالیٰ کا گناہوں کا معاف کرنا) پر لیکچر سنا۔ امام سید شمشاد احمد ناصر نے قرآن کریم کی مختلف آیتوں کی تشریح کی۔

ان کا لیکچر45 منٹ جاری رہا جس کے بعد افطاری کی گئی اور مغرب کی نماز ادا کی گئی جس میں تقریباً 300 مرد و خواتین شامل تھے۔ خواتین کے لئے پردے کا انتظام تھا۔ کرسچن مہمان کھانے میں شامل ہوئے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل کرسچن مہمانوں کا ایک اور وفد مسجد آیا تھا یہ وفد بھی رمضان کی سرگرمیوں کو مشاہدہ کرنے آیا تھا۔ اس گروپ کی سربراہ جین چیز تھیں۔ یہ گروپ جماعت احمدیہ کا پرانا دوست ہے اور کئی اجتماعات میں شرکت کر چکا ہے۔

پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 2؍ستمبر 2011ء میں خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’عید کی خوشیوں میں اسلامی تعلیمات کو نہ بھولیں‘‘ صفحہ 13 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ خاکسار نے تفصیل کے ساتھ اس مضمون میں اسلامی عید، فلسفہ اور عید کس طرح منانی چاہئے کو بیان کیا۔ اور بتایا کہ مسلمان سال میں 2 عیدیں مناتے ہیں اور یہ کہ ہم یعنی مسلمان یہ تہوار کس طرح سے مناتے ہیں۔ خدا کی عبادت کر کے، نماز پڑھ کے، خدمت خلق کر کے، مقصد صرف اچھا کھانا اور نئے کپڑے نہیں ہے بلکہ اصل خدا کی حمد اور شکر ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق ملی۔ ہماری خوشیوں کا سارا محور اور ہماری عیدوں کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہئے۔ جس بات پر وہ راضی ہو وہی ہماری عید ہے۔

ہماری دونوں عیدیں (عید الفطر۔ عید الاضحیہ) قربانی چاہتی ہیں۔ اور دونوں عیدیں ہمیں بھی قربانی کا سبق ہی دیتی ہیں۔ لیکن ان عیدوں کی جائز خواہشات کے ساتھ ساتھ لوگ کچھ ایسی حرکتیں بھی کر جاتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اسلامی احکامت کو ایک چٹی سمجھ کر کر رہے ہیں کیوں کہ رمضان کے پورے مہینہ میں ان پر تقویٰ کا یا خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ وہ پھر رمضان کے آخر ی دن ہی اپنی سابقہ فضولیات کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ’’چاند رات‘‘ میں جو کچھ بے پردگی، فضول خرچی، ناچ گانے ہوتے ہیں کیا یہ طرز مسلمانی ہے؟ عید ملن پارٹیوں میں وہی ساز وہی دھن اور وہی مکس پارٹیاں جو قرآن کی روح کے خلاف ہیں عود کر آتی ہیں۔

خاکسار نے یہ واقعہ بھی یہاں لکھا کہ ایک دفعہ ہمارے پیارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نابینا صحابی تشریف لائے۔ توحضرت عائشہ ؓ نے ان سے پردہ نہ کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ عائشہ تم نے ان سے پردہ کیوں نہ کیا؟ وہ کہنے لگیں یا رسول ؐ یہ تو نابینا ہیں۔ آپؐ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔

قرآن کریم نے اپنی زینت چھپانے کی خواتین کو ہدایت فرمائی ہے مگر آپ خود دیکھ لیں کہ وہ کتنا زینت کو چھپاتی ہیں۔ خاکسار نے مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم کا ذکر کیا جس میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا اس میں قریباً 2 ہزار مسلمان شامل ہوئے تھے۔ لیکن میری حیرانی کی حد نہ رہی کہ وہ ڈنر مکس پارٹی لگ رہا تھا۔ ہر میز پر مرد و خواتین اور بچے تھے۔ سٹیج پر بھی خواتین نظامت کرا رہی تھیں اگرچہ انہوں نے سکارف پہنا ہوا تھا اور بعض نے نہیں بھی پہنا ہوا تھا۔ نوجوان بچیاں ہی استقبال پر تھیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر اسی معاشرہ میں ہو رہا ہے۔ مسلمان ان حرکتوں سے اس وقت اسلام کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں اور مغرب کی تقلید کر رہے ہیں انہیں یہ احساس کمتری ہے کہ اگر ان کی تقلید نہ کی گئی تو انہیں معاشرہ میں بُرا سمجھا جائے گا۔ افسوس ہے کہ یہ لوگ ان کی نظروں میں اچھا بننے کے لئے یہ کر رہے ہیں۔ اور خدا کی نظروں کا ان کو کچھ خوف اور احساس نہیں ہے۔ کیا خدا کے حکم کو بالائے طاق رکھ کر ہم اچھا بن سکتے ہیں؟

افسوس ہے کہ مسلمان خواتین بھی اپنے مقام کو نہیں سمجھ رہیں۔ کچھ عرصہ ہوا نیویارک میں ایک خاتون نے نماز جمعہ پڑھائی۔ آخر یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ یہ مغربی معاشرہ چاہتا ہے کہ مسلمان خواتین بھی انہی کی طرح ہوجائیں اور یہ مسلمان جو آئے دن یہ ڈھول بجاتے رہتے ہیں کہ ہمارا دین افضل ہے یہ جھنجٹ ہی ختم ہوجائے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسلمان خواتین کو اپنے جیسا کر لیں تو ان کی اگلی نسلیں خودبخود تباہ ہوجائیں گی اور ان کا رنگ اختیار کرلیں گی۔

بعض انٹرفیتھ میٹنگ میں مسلمانوں کی طرف سے خواتین نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں (تقریر وغیرہ) جب کہ اسی گروپ کے مسلمان مرد خاموشی سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ خاکسار نے اس قسم کی ایک میٹنگ کا ذکر کیا کہ مجھے ایک سوال کیا گیا کہ آپ مسلمان عورت کو لیڈر شپ کیوں نہیں دیتے۔ میں نے پوچھا کس قسم کی لیڈر شپ؟ کہنے لگی ان کو امام کیوں نہیں بناتے؟میں نے جواب دیا کہ حضرت عیسیٰ نے کس خاتون کو لیڈر بنایا تھا۔ کیا انجیل یا تورات میں کوئی اس قسم کی بات ہے؟ کیا حضرت موسیٰ نے کسی خاتون کو لیڈربنایا تھا؟ اسی طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی خاتون کو امام اور لیڈر نہیں بنایا۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں اب زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے۔

میں نے کہا آپ جو چاہیں کریں۔ آپ کی تعلیمات میں سے بہت سی تعلیمات بگڑ چکی ہیں مگر اسلامی تعلیمات قیامت تک وہی رہیں گی۔ آخر میں خاکسار نے اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کو ہر شئے پر مقدم رکھنے کے بارے میں تلقین کی اور حضرت مسیح موعودؑ کا یہ حوالہ لکھا:۔
’’ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’غیر قوموں کی تقلید نہ کرو‘‘ (کشتی نوح)

بقیہ ان شاء اللّٰہ (بدھ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

گمشدہ اونٹنی