• 3 مئی, 2024

ایک دوسرے پر منکرِ ختم نبوت ہونے کا الزام

احمدیہ مسلم جماعت احمدیہ مسلمہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ختم نبوت کی منکر ہے اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ نے، جسے کسی بھی صورت کسی فرد یا گروہ کے دین کا فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا، اسے کافر قرار دے دیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے علماء ایک دوسرے کو ختم نبوت کا منکر قرار دے چکے ہیں، جیسا کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے، لیکن ’’حُبِّ علی ؓ نہیں بلکہ بغض معاویہؓ‘‘ کے تحت تکفیر کی یہ تلوار صرف احمدیہ مسلم جماعت پر چلائی گئی۔

مقلّدین ختم نبوت کے منکر

شاہ ولی اللہ دہلویؒ:
’’ہر شہر میں تم عام لوگوں کو دیکھوگے کہ وہ متقدمین میں سے کسی ایک کے مذہب کی پابندی کرتے ہیں اور کسی انسان کا اپنے امام کے مذہب سے خروج اگرچہ وہ ایک مسئلہ ہی میں کیوں نہ ہو، ملت سے خروج کی طرح خیال کرتے ہیں گویا کہ وہ امام ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور اس کی اطاعت اس پر فرض کی گئی ہے۔‘‘

(تفہیمات الٰہیہ از شاہ ولی اللہ دہلوی ؒجلد اوّل صفحہ 152)

قاضی ابن ابی العز حنفی:
’’ایک گروہ نے امام ابوحنیفہؒ کی تقلید میں غلو کیا ہے پس وہ ان کا کوئی قول ترک نہیں کرتے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کا قائم مقام ٹھہرادیتے ہیں اور اگر ان کے قول کے خلاف کوئی نص ان کے سامنے پیش کی جائے تو وہ اس کی غیر مناسب تاویل کرتے ہیں تاکہ ان کا دفاع کیا جاسکے۔‘‘

(الاتباع۔ صفحہ۔30)

علامہ جلال الدین السیوطیؒ:
’’ان میں سے ایک اپنے امام کی محض تقلید کی بناء پر پیروی کرتا ہے گویا کہ وہ ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے باوجودیکہ اس کا مذہب دلائل سے دور ہے۔ ایسا کرنا حق کی مخالفت اور صواب سے دور ہے اور کوئی بھی عقلمند اس پر راضی نہیں ہوتا۔‘‘

ارشاد الحق اثری:
’’امام رازی، امام عبدالرحمٰن بن اسماعیل ابوشامہ، علامہ الشعرانی، علامہ صالح الفلانی اور علامہ لکھنوی رحمھم اللہ وغیرہ حضرات نے بھی بعض مقلدین کے اسی طرز عمل کی نشاندہی کی ہے کہ وہ تقلید و جمود میں نصوص کی قطعًا کوئی پرواہ نہیں کرتے اور امام کے اقوال کی ایسی پابندی کرتے ہیں جیسے نبی ﷺ کے فرمودات کی پابندی ہوتی ہے۔‘‘

(آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے صفحہ18)

شیعہ منکرِ ختم نبوت

’’معلوم شد کہ امام باصطلاح ایشان معصوم مفترض الطاعۃ منصوب للخلق است و وحی باطنی در حق امام تجویز می نمایند پس درحقیقت ’’ختم نبوت‘‘ را منکر اند گو بزبان آنحضرت را ﷺ خاتم الانبیاء میگفتہ باشند۔‘‘

(شاہ ولی اللہ دہلویؒ تفہیمات الٰہیہ جلد دوم صفحہ244)

جان لو کہ ان کی اصطلاح میں امام معصوم واجب الاطاعت اور خلق کی طرف مامور کیا گیا مانا جاتا ہے اور وہ امام کے حق میں وحی باطنی بھی تجویز کرتے ہیں۔ پس درحقیقت وہ ختم نبوت کے منکر ہیں اگرچہ زبان سے نبی اکرم ﷺ کو خاتم الانبیاء کہتے ہیں۔

’’قادیانیوں سے بھی پہلے جس مکتبۂ فکر نے ’’امامت‘‘ کے نام پہ ختم نبوت کا انکار کیا وہ شیعہ مکتبۂ فکر ہے۔ ان کے نزدیک ’’امامت‘‘ کا وہی مفہوم ہے جو مسلمانوں کے نزدیک ’’نبوت‘‘ کا ہے ۔۔۔ اُس فکر کہ جس پہ شیعہ مذہب کی عمارت اور اُس فکر کے درمیان کہ جس پہ شریعتِ اسلامیہ کی عمارت ایستادہ ہے ایک واضح فرق یہ ہے کہ اسلام کے برعکس شیعہ مذہب میں ختم نبوت کا کوئی تصور نہیں ۔۔۔ شیعہ قوم اپنے بارہ اماموں کو ان صفات سے متصف کرتی ہے جو کہ نبوت کا خاصہ ہیں۔ 1۔ اُن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونا 2۔اُن کا معصوم عن الخطا ہونا 3۔اُن کی اطاعت کا فرض ہونا 4۔ان پر وحی اور فرشتوں کا نزل ہونا۔یہ چاروں صفات اگر کسی بھی انسان میں مان لی جائیں تو اس میں اور انبیائے کرام میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جب کوئی شخص کسی کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ: 1۔ وہ اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث ہے 2۔ وہ معصوم عن الخطا ہے 3۔ اس کی اطاعت فرض ہے 4۔ اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ تو گویا کہ وہ اسے اللہ کا نبی خیال کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہے۔ شیعہ مذہب میں بارہ اماموں کو یہ چاروں حیثیتیں حاصل ہیں چنانچہ اس مذہب میں محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی نہ تھے۔اور نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ بلکہ ’’امامت‘‘ کے لبادے میں نبوت جاری و ساری رہی اور بارہ امام بارہ امام نہیں بلکہ بارہ نبی تھے۔‘‘

(الشیعہ والسنۃ۔شیعہ اور عقیدۂ ختم نبوت عطاء الرحمٰن ثاقب صفحہ242-245)

’’دورِ صحابہ سے آج تک امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہ ہوگا لہٰذا خصوصیات نبوت وحی شریعت و عصمت وغیرہ قیامت تک بند ہیں۔ مگر یہ شیعہ لوگ اگرچہ برملا عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کی جرأت نہیں کرتے مگر درپردہ یہ لوگ اجرأ نبوت کے قائل ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ امامت انکار ختم نبوت کو مستلزم ہے لہٰذا یہ لوگ درحقیقت تقیہ کی وجہ سے اپنے اماموں کے لئے نبی کے استعمال کرنے سے تو گریز کرتے ہیں مگر درحقیقت یہ لوگ اپنے ائمہ کے لئے خصوصیات نبوت ثابت کرتے ہیں۔‘‘

(ادیان باطلہ اور صراط مستقیم از مفتی محمد نعیم صفحہ51)

’’29،30،31 اکتوبر 1986ءکو دارالعلوم دیوبند میں ختم نبوت کانفرنس ہوئی اور تحفظ ختم نبوت کے عالمی نمائندگان کا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ اجلاس میں حضرت مولانا منظور احمد نعمانی نے ایک تجویز پیش کی جو بحث و تمحیص کے بعد منظور کرلی گئی۔ اس تجویز کا متن دارالعلوم بابت جنوری 1987ءسے بلا تبصرہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ علماء دیوبند کا شیعہ اثنا عشریوں کے متعلق موقف واضح ہوجائے۔ یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ شیعہ اثنا عشری مسلک جو فی زمانہ دنیا کے شیعوں کی اکثریت کا مسلک ہے اور ایران میں اسی مسلک کے ذریعے ماضی قریب میں ایک انقلاب برپا ہوا ہے جس کو اسلامی انقلاب کہہ کر عالم اسلام کو ایک زبردست دھوکہ دیا جارہا ہے۔اس مسلک کا ایک بنیادی عقیدہ عقیدہ امامت براہ راست ختم نبوت کا انکار ہے۔اسی بناء پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے صراحت کے ساتھ ان کی تکفیر کی۔ لہٰذا یہ اجلاس تحفظ ختم نبوت اعلان کرتا ہے کہ یہ مسلک موجب کفر اور ختم نبوت کے خؒاف پُرفریب بغاوت ہے۔ نیز یہ اجلاس تمام اہل علم سے اس فتنہ کے خلاف سرگرم ہونے کی اپیل کرتا ہے۔‘‘

(مذہب شیعہ اور عقیدہ ختم نبوت ایک تحقیقی جائزہ صفحہ8,9 النّجم ریسرچ اکیڈمی)

دیوبندی ختم نبوت کے منکر

’’۔۔۔ اور قاسمیہ قاسم نانوتوی کی طرف منسوب جس کی تحذیر الناس ہے اور اس نے اپنے رسالہ میں کہا ہے بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں الخ حالانکہ فتاوی تتمہ اور الاشباہ والنظائر وغیرہما میں تصریح فرمائی کہ اگر محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سب سے پچھلا نبی نہ جانے تو مسلمان نہیں اس لئے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا آخر الانبیاء ہونا سب انبیاء سے زمانہ میں پچھلا ہونا ضروریاتِ دین سے ہے‘‘

(حسام الحرمین از احمد رضا خان بریلوی صفحہ101)

’’ختم نبوت کا انکار۔ممکن ہے ڈاکٹر صاحب کہہ دیں کہ ہم حضور کی نظیر کو جو محال کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وقوع محال ہے امکان محال نہیں۔ جوابًا گذارش ہے کہ اس طرح بھی ختمِ نبوّت کا انکار لازم آتا ہے۔‘‘

(علمائے دیوبند کی کفریہ اور متضاد عبارات سے متعلق دیوبندیوں سے لاجواب سوالات از محمد نعیم اللہ خان قادری صفحہ1072)

مولانا قاسم نانوتوی پروحی کا بوجھ:
’’قاسم نانوتوی نے حاجی امداد اللہ سے جو ان کے پیرومرشد تھے شکایت کی کہ جب بھی میں تسبیح اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں تاکہ اللہ کا ذکر کروں تو بہت بڑی مصیبت میرے اوپر آن پڑتی ہے اور وزن و بوجھ اتنا زیادہ اپنے دل پر محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے اوپر کئی کئی سو من کے پتھر رکھ دئیے گئے اور میرا دل و زبان دونوں رک جاتے ہیں، تو حاجی امداد اللہ نے کہا یہ بوجھ تمہارے دل پر فیضان نبوت کا ہے اس طرح کا بوجھ رسول اللہ ﷺ اپنے اوپر بوقت وحی محسوس فرماتے تھے۔‘‘

(سوانح قاسمی صفحہ 852-952) (تبلیغی جماعت صفحہ46)

ملاحظہ فرمایا آپ نے! مولانا قاسم نانوتوی آنحضرت ﷺ کی طرح اپنے دل پر فیضان نبوت یعنی وحی کا بوجھ محسوس فرمائیں تو ان کی بزرگی مسلّم سمجھی جاتی ہے اور عقیدہ ختم نبوّت میں کسی قسم کا نقص نہیں آتا لیکن اسی نوعیت کی تحریر جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں پائی جائے تو قابل گرفت و لائق تکفیر ٹھہرتی ہے۔

مجلس تحفظ ختم نبوت والے ختم نبوت کے منکر:
’’قابل غور مقام ہے کہ بانی مدرسہ دیوبند مولانا قاسم صاحب نانوتوی کے بیان کے مطابق اگر آپ ﷺ کے بعد بھی نبی آجائے تب بھی آپ ﷺ خاتم الانبیاء ہوں گے تو ایسی صورت میں مرزا غلام احمد قادیانی و دیگر جھوٹے نبیوں کے دعوائے نبوت کو ختم نبوت کے خلاف سمجھنے کا آخر کیا جواز رہ جاتا ہے اور جماعت دیوبند جب آپ ﷺ کے بعد ہر قسم کے نبی کے آنے کو ختم نبوت کے خلاف نہیں سمجھتی تو وہ مجلس تحفظ ختم نبوت کیوں بنا کر بیٹھی ہے؟ اور جب یہ جماعت ہر جھوٹے نبی کے آنے کے لئے دروازہ کھول کر بیٹھی ہے تو پھر دنیا میں کسی مدعی نبوت کے خلاف شور کس لئے مچاتی ہے؟۔۔۔اس تمام قصہ کو معلوم کرلینے کے بعد اب دیوبندی علماء کی جانب سے مجلس تحفظ ختم نبوت کے قیام کا سبب کھل کر ہمارے سامنے آجاتا ہے اور وہ سبب ہے خوف! یعنی قادیانیوں کو کافر قرار دئیے جانے کے بعد ختم نبوت کے مسئلہ میں اپنے سیاہ ماضی ۔۔۔ کو دیکھتے ہوئے دیوبندی علماء کو یہ خوف لاحق ہوا کہ بریلوی حضرات ان کے خلاف بھی کہیں کافر قرار دئیے جانے کی کوئی مہم نہ شروع کردیں جس کے نتیجہ میں انہیں کافر تو بہرحال نہیں قرار دیا جاسکے گا کیونکہ دیوبندی اپنے بیشتر عقائد میں شیعوں کی طرح تقیہ کرتے ہیں مگر جو تحریریں ان کی کتابوں میں موجود ہیں وہ عوام الناس کے سامنے آجائیں گی جس سے مسلک دیوبند کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا چنانچہ حفظ ماتقدم کے طور پر دیوبندیہ نے مجلس تحفظ ختم نبوت قائم کی گویا مجلس تحفظ ختم نبوت کو اگر مجلس تحفظ مسلک دیوبند کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ختم نبوت کے سلسلہ میں مسلک دیوبند کا عقیدہ اہل سنت والجماعت سے موافق نہیں ہے اور مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کے دعویٰ کے اصل ذمہ دار یہ دیوبندی علماء ہی ہیں کیونکہ قادیانی مذہبی اعتبار سے حنفی دیوبندی ہیں اور عقیدہ ختم نبوت کے ضمن میں ان کی اس لغزش کا اصل سبب دیوبندی علماء کی کتابیں ہیں۔‘‘

(تبلیغی جماعت عقائد افکار نظریات اور مقاصد کے آئینہ میں از ابوالوفاء محمد طارق خان صفحہ62تا65)

بریلوی ختم نبوت کے منکر

’’رضا خانی اپنے نام نہاد مجدد احمد رضا خان بریلوی کو نبی مانتے ہیں۔‘‘

(رضا خانی مذہب علامہ سعید احمد قادری صفحہ76)

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2022

اگلا پڑھیں

تم میں سے بہترین شخص