• 3 مئی, 2024

مکرم خلیل احمد سولنگی شہید کا ذکر خیر

کچھ انسان زندگی سے اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان کی جدائی کا تصور بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن پھر یقین کرنا پڑجاتا ہے۔ بقول شاعر، تحریر میں آجاتا ہے جب لفظ جدائی۔۔۔۔۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ قلم ٹوٹ رہا ہے

ایسے ہی انسانوں میں خلیل احمد سولنگی شہید بھی شامل ہیں جو 51سال کی عمر میں دارالذکر پر دہشتگردوں کے حملے میں 28مئی 2010 کو شہید ہوگئے تھے۔ اس دن گھنٹوں جاری رہنے والی شدید ترین فائرنگ،گرنیڈ دھماکوں کے رک جانے کے بعددارالذکر کی پچھلی گلی کے بند گیٹ کے دروازے پر لگا تالہ پولیس اہلکاروں کی مدد سے توڑ نے کے بعد جب اندر گئے تو داخل ہوتے ہی اوپر جاتی سیڑھیوں کے نیچے آپ کا شہید جسم لیٹا پایا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ بالکل سیدھا زمین پر خون میں لت پت تھے اور سینے پر گولیوں کے نشان تھے۔وہ منظر آج بھی ذہن پر نقش ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 25جون 2010ء میں شہید سولنگی صاحب کے اوصاف حمیدہ کا اور آپکی جماعتی تحریکات میں مالی قربانیوں کا ذکر فرمایا ہے اور ساتھ ہی اپنے ذاتی تعلق کے حوالے سے بھی ذکر فرمایا۔

شہید سولنگی صاحب بیشمار صفات اور خوبیوں کے مالک تھے۔نہ صرف ایک خوبصورت، خوشگفتار اور ذہین انسان تھے بلکہ اطاعت و دینی خدمت کاجذبہ، انسانی ہمدری، مالی قربانی اور جماعتی عہدیداروں سمیت اپنے سے بڑوں کا احترام، چھوٹوں کی عزت، بہت کچھ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ عاجزی و انکساری کا بہترین نمونہ تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ایک بادب، بااخلاق انسان تھے۔ مثالی تعاون کرنا ان کی شخصیت کا قابل ذکر وصف ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ حس مزاح کی بدولت ہر مجلس کو گرمائے رکھتے تھے۔ سولنگی صاحب شہید گوجرانولہ سے لاہور میں شفٹ ہونے کے بعد اپنی نیک فطرت، دینی خدمت کا شوق رکھنے کی وجہ سے بہت جلد جماعت لاہور کے ایک ذمہ دار اور قابل اعتماد ممبر بن گئے تھے اور سبھی بزرگان سلسلہ اور جماعتی کام کرنے والوں میں یکساں مقبول تھے۔ مکرم چوہدری منور علی صاحب(قائد ضلع لاہور، انچارج قادیان جلسہ ڈیوٹی) اور مکرم شیخ ریاض محمود صاحب سیکرٹری ضیافت کیساتھ گہری دوستی اور بے تکلفی تھی۔محترم سولنگی صاحب سے میری پہلی ملاقات گوجرانوالہ میں انہی کے گھر پرہوئی تھی،خدام الاحمدیہ کے حوالے سے ایک انٹرویو کرنا تھا۔پھر وہ جب لاہور شفٹ ہو گئے تو تب ہمارے آپس میں رابطے اور جماعتی کام کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ان کی شہادت کے دن تک جاری رہا ۔مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کی زیر نگرانی جب پریس کمیٹی تشکیل ہوئی تو میرا دفتر بالآخر جدید ہال میں قائم ہوا۔انہی پرانے دنوں کی بات ہے کہ مجھے محترم خلیل سولنگی صاحب شہید کا فون آیا کہ دفتر کی کسی چیز کی کمی ہے تو بتاؤ، میں نے بتایا کہ سب کچھ آہستہ آہستہ ٹھیک ہورہا ہے، پھر خود ہی نام لیکر پو چھنے لگے، ٹی وی کا پوچھا، چائے کے برتنوں کا پوچھا، پھر جونہی ان کو علم ہوا کہ ابھی فیکس مشین نہیں موجود تو اسی وقت مجھے کہا کہ میں کل گیارہ بجے آؤں گا، تیار رہنا۔اگلے دن وہ وقت پر پہنچے اور مجھے لیکر کیولری گراؤنڈ مارکیٹ پہنچ گئے اور وہاں سے نئی فیکس مشین خریدی اور دفتر میں چھوڑدیا۔ یہ ایک معمولی مثال ہے۔مجھے کہتے تھے کہ منور، پیسے کی وجہ سے کوئی کام رکنا نہیں چاہئے۔اسی طرح ایک بار گلبرگ میں انسانی حقوق کی کانفرنس ہورہی تھی، ان کے35 غیر ملکی مندوبین کو دارالذکر لانا تھا، محترم سولنگی صاحب شہید نے گاڑیوں کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ خود بھی مہمانوں کولاتے رہے اور واپس ہوٹل تک چھوڑا۔مکرم شیخ عبد الماجد صاحب (ابن شیخ عبد القادر صاحب مبلغ سلسلہ،محقق اور مصنف تاریخ احمدیت لاہور) نے ایک تحقیقی کتاب ’’اقبال اور احمدیت‘‘ لکھی تھی، خاکسار کو ایک دن دارالذکر میں ملے تو کہنے لگے کہ میں اس کتاب کے کچھ نسخے لایا ہوں، آپ نے ان کو اپنے صاحب علم اور صاحب قلم صحافیوں میں تقسیم کرنا ہے، اور مجھے دس بارہ نسخے دے دیئے، جو تقسیم کردیئے گئے تھے۔ یاد رہے کہ مکرم شیخ عبد الماجد صاحب سولنگی صاحب کے سسر تھے۔ میر قمر سلیمان صاحب جب بھی ربوہ سے لاہور میں آتے تو ہماری مہمان دوستوں کے ساتھ ضیافت کی ملاقاتوں کی میزبانی شہید سولنگی صاحب کرتے تھے مہمانوں میں معروف صحافی اور انسانی حقوق کی شخصیات شامل ہوتی تھیں۔ سانحہ کے دن بھی ربوہ سے میرقمر سلیمان صاحب اور مقصود باجوہ صاحب مربی سلسلہ تشریف لائے ہوئے تھے اور نماز جمعہ کے بعد ایک مہمان کیساتھ دوپہر کے کھانے پر ملاقات تھی جس کی میزبانی محترم سولنگی صاحب نے کرنی تھی۔ ایک دفعہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی ایک میٹنگ میں ہم تینوں ایک ساتھ شامل ہوئے اور کاروائی اٹینڈ کی۔ میر قمر سلیمان صاحب نے بتایا کہ شہیدسولنگی صاحب ہشاش بشاش ہوکر جماعتی کام کرتے تھے، تھکتے نہیں تھے۔ قادیان جلسہ سالانہ کے دنوں میں بہت کام کرتے تھے۔ عجیب بات ہے کہ شہادت سے پہلے انہوں نے قریبی دوستوں سے معمول سے ہٹ کر طویل گفتگو کرنی شروع کردی تھی ۔ماہ مئی (2010) کے پہلے ہفتہ میں لاہور جمخانہ میں دوپہر کھانے پر لاہور کے کچھ صحافی دوست مدعو تھے جس میں لاہور کے امیر صاحب، اور سولنگی صاحب شہید سمیت دیگر احمدی احباب بھی شامل تھے۔ میٹنگ کے بعدجمخانہ کی کار پارکنگ میں عاجز کیساتھ انہوں نے جو گفتگو شروع کی تو تقریبا اڑھائی گھنٹے گزر گئے،امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے لندن میں قیام کے دوران حضور انور کیساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں خاص طور پربتایا کہ وہ ایک طویل اورمحبت سے بھرپور ملاقات تھی۔ حضور انورکیساتھ اس ملاقات پر وہ انتہائی خوش اور مطمئن دکھائی دیتے تھے اور پھر حضور انورسے وہی آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ مکرم چوہدری منور علی صاحب نے بتایا کہ28 مئی کے واقعہ سے چند دن پہلے مجھے ان کا فون آیا کہ میں آرہا ہوں اور رات کا کھانا اکھٹے کھاتے ہیں۔میں نے کہا کہ میں تو کھا چکا ہوں، کہنے لگے کوئی بات نہیں، بس میں آرہا ہے۔ اور پھر وہ مجھے ذاکر تکہ شاپ کینٹ لے گئے وہاں ہم نے کھانا بھی کھایا اور گھنٹوں تک دنیا جہان کی باتیں بھی کیں جو معمول سے ہٹ کر تھیں اور وہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی۔مجھے بتایا تھاکہ ایک دو دن میں امریکہ واپس جانے والا ہوں،پھر رات گئے وہ مجھے گھر دارالذکر چھوڑ کر گئے۔چند دنوں بعد جمعہ پر ان کی شہادت کی خبر مل گئی جبکہ میں سمجھا تھا کہ واپس امریکہ جا چکے ہیں۔مکرم شیخ ریاض محمود صاحب (حال مقیم کینڈا) ان دنوں نائب امیر لاہور تھے، نے بتایا کہ شہادت سے ایک دن قبل 27 مئی جمعرات کو مغرب کے وقت مجھے گھر فون آیا کہ میں آرہا ہوں، بھابھی سے کہہ دیں کہ گرماگرم پکوڑے بنائیں اور چائے بھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے گھر پہنچ گئے،بڑے اچھے موڈ میں تھے۔حال احوال پوچھ کر کہنے لگے کہ آج میرا آپ کیساتھ بیٹھنے اور خوب باتیں کرنے کا موڈ ہے۔اس روز ہم ساڑھے گیارہ بجے رات تک مصروف گفتگو رہے،تین چار بار گرم پکوڑے اور چائے کا دور چلتا رہا۔ میں خود حیران تھا کہ آج سولنگی صاحب کو کیا ہوگیا ہے، ہر موضوع پر کھل کر باتیں کیں، مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ آج آخری ملاقات ہے۔رات دیر ہونے پر خدا حافظ کہہ کر چلے گئے مگر جاتے ہوئے اداس لگے تھے۔ میری بیگم ناصرہ مرزا نے بھی پوچھا کہ آج سولنگی صاحب کو کیا ہوگیا ہے، کس طرح کی باتیں کرتے رہئیں۔ اگلے دن جمعہ تھا اور دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والوں میں یہ پیارا سولنگی بھی شامل تھا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

(منور علی شاہد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2022

اگلا پڑھیں

تم میں سے بہترین شخص