• 25 اپریل, 2024

Muslim for Life, Muslim for Peace

مکرم مولانا شمشاد احمد ناصر مبلغ امریکہ کے پریس اور میڈیا کے ذریعہ تبلیغ کے حوالہ سے مضامین کی ایک سیریز بعنوان ’’تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے‘‘ قسط وار الفضل آن لائن کا حصہ بن رہی ہے۔ موٴرخہ 11؍جنوری 2023ء کو طبع ہونے والی قسط 74 اس وقت نوک پلک درست کرنے کے لیے میرے سامنے ہے۔ جس میں 11/9 کے واقعہ پر دس سال پورے ہونے پر بعض مسلمان تنظیموں کی طرف سےخوشی کے اظہار کا ذکر ہے جس کا امن پسند مذہب اسلام کے حوالہ سے بہت غلط پیغام عوام کو جارہا تھا۔ جس پر جماعت احمدیہ نے امریکہ میں ایک مہم کے ذریعہ اسلام کا امن و آشتی کا پیغام دیا۔ یہ پیغام میڈیا کے ذریعہ سے اور چھوٹے چھوٹے جلسوں اور میٹنگز کا انعقاد کر کے عوام تک پہنچایا گیا اور خون کے عطیات کی مہم بھی چلائی گئی کہ مسلمان تو زندگی عطا کرتا ہے۔ مسلمان زندگی بخش ہے اور امن قائم کرتا ہے۔

مکرم مولانا موصوف نے مشن میں ایک وفد سے اس حوالہ سے خطاب کیا۔ جس میں آپ نے اس موقع پر احمدیوں کی طرف سے جاری سلوگن

Muslim for Life, Muslim for Peace

کا ذکر کر کے اسلام احمدیت کو ایک امن پسند مذہب کے طور پر پیش کیا۔ آج خاکسار اسی سلوگن کو عنوان بنا کر اداریہ قلمبند کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ یہ عنوان تو ابدی ہے اور دنیا میں بالخصوص مغربی دنیا میں اس پر گاہے بگاہے روشنی ڈالنے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس عنوان کے دو حصے ہیں۔

مسلمان خود بھی زندگی ہے اور دوسروں کو بھی زندگی کے سامان مہیا کرتا ہے۔

مسلمان خود بھی امن ہے اور دوسروں کے لیے بھی امن مہیا کرتا ہے۔

جہاں تک اس مضمون کے پہلے حصے کا تعلق ہے۔ اس حوالہ سے سب سے پہلے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 34 ذہن میں آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حکماً کسی نفس کا قتل حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَمَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا ﴿۳۴﴾

ترجمہ: اور اُس جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اللہ نے حُرمت بخشی ہو اور جو مظلوم ہونے کی حالت میں قتل کیا جائے تو ہم نے اُس کے ولی کو (بدلے کا) قوی حق عطا کیا ہے۔ پس وہ قتل کے معاملہ میں زیادتی نہ کرے۔ یقیناً وہ تائید یافتہ ہے۔

(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اور پھر فرمایا:

مِنۡ اَجۡلِ ذٰلِکَ ۚ کَتَبۡنَا عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَنَّہٗ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَمَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَلَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا بِالۡبَیِّنٰتِ ۫ ثُمَّ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ بَعۡدَ ذٰلِکَ فِی الۡاَرۡضِ لَمُسۡرِفُوۡنَ

(المائدہ: 33)

ترجمہ: اسی بِنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کر دیا کہ جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ لی ہو یا زمین میں فساد نہ پھیلایا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا اور یقیناً ان کے پاس ہمارے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آ چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان میں سے کثیر لوگ زمین میں حدسے تجاوز کرتے ہیں۔

(ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اسلام نے تو جنگ و جدل میں بچوں، عورتوں اور جانوروں حتٰی کہ بے جان درختوں کو کاٹنے اور نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ان درختوں میں بھی ذی روح انسانوں کی زندگی ہے۔ درخت نہ ہوں تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسان تو انسان فصلوں کو نقصان پہنچانے سے منع اس لیے کیا کہ اس میں انسان کی خوراک اور توانائی موجود ہے۔

بخاری کی روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو 7 تباہ کرنے والی چیزوں سے روکا۔ جس میں تیسرے نمبر پر وَلَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ یعنی کسی انسان کو ناحق قتل کرنے سے روکا گیا ہے۔

جانی طور نقصان پہنچانا تو ایک طرف رہا۔ قطع تعلق کرنے والوں سے تعلق قائم کرنے کا حکم دے کر معاشرہ کو زندہ رکھنے کا پیغام بھی دیا گیا ہے۔ تمام برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کو اپنانا دوسرے معنوں میں معاشرہ کو زندگی دینے ہی کے مترادف ہے۔ اس مضمون پر ایک ایسی حدیث صادق آتی ہے جو عمومی طور پر ہمارے درسوں، تقریروں اور تحریروں میں بہت کم بیان ہو تی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے لفظ ’’مفلس‘‘ کی تعریف پوچھی۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ روپیہ ہو نہ سامان۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی اور کسی پر تہمت لگائی ہو گی کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی ناحق کا خون بہایا ہو گا یا کسی کو مارا ہو گا۔ پس ان مظلوموں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی۔ یہاں تک کہ اگر ان کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دئیے جائیں گے اور اسے جنت کی بجائے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا یہی شخص دراصل مفلس ہے۔

(حدیقۃ الصالحین مرتبہ حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم صفحہ812)

گویا ایک مسلمان نیکیاں بجا لا کر خود بھی زندہ رہنے کے سامان کرتا ہے اور معاشرہ میں امن پیدا کر کے دوسروں کے لیے بھی زندگی بخش ثابت ہوتا ہے۔

دوسرے حصہ کا تعلق

جہاں تک اس سلوگن کے دوسرے حصّہ یعنی Muslim for Peace کا تعلق ہے۔ یہ بھی ایک مسلمان کی زندگی کا حصہ ہے۔ بلکہ اگر یوں کہیں کہ مسلمان کے لفظی معنی بھی سلامتی اور امن دینے والے کے ہیں۔ اسلام کہتے ہی سلامتی اور امن کو ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ یَدِہٖ (صحیح بخاری کتاب الایمان) کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

اسلام مذہب پر ایمان لانے والا مومن کہلاتا ہے اور مومن کی تعریف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی:

والمؤمنُ من أمنَهُ النَّاسُ علَى دمائِهِم وأموالِهِم

(سنن نسائی کتاب الایمان)

کہ مومن وہ ہے جس سے دوسرے انسان کے خون و اموال امن میں رہیں۔ ہمارے بعض اسکالرز نے ان دونوں تعریفوں میں یہ فرق کیا ہے کہ مسلم والی حدیث میں مسلمان کی سلامتی دوسرے مسلمانوں کے لیے ہے جبکہ مومن کا دائرہ اسلام سے نکل کر دنیا میں اور معاشرہ میں بسنے والے دوسرے انسانوں تک پھیل جاتا ہے۔ جس میں خون اور اموال کی حُرمت بھی آجاتی ہے۔ جہاں تک مسلمان کی تعریف کا تعلق ہے اس میں یہ بھی اضافہ کرتا چلوں کہ ہم آپس میں ملتے السلام علیکم کا پیغام دیتے ہیں اور پانچوں وقت فرض اور نفلی نمازوں کے اختتام پر دائیں بائیں بسنے والوں کو السلام علیکم کے الفاظ میں سلامتی کا پیغام جا رہا ہوتا ہے۔

جماعت احمدیہ آج کل اسلام جیسے پیارے نام پر دہشت گردی کے دھبے دھونے اور صاف کرنے میں مصروف عمل ہے۔ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی پارلیمنٹس میں جو خطاب فرمائے ان میں اسلام کی حسین تعلیم امن و آشتی بیان فرمائی۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے دورہ کے دوران زائن اور ڈیلس کی مساجد کی افتتاحی تقاریب میں بھی حضور نے اسلام کی سلامتی اور امن کی تعلیم بیان فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا جو سلوگن جماعت کو دیا تھا وہ اب عالمگیر حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کسی جھگڑے فساد، ایجیٹیشن، ہنگامہ آرائی اور جلوس و ہڑتال میں حصہ نہیں لیتی۔ ہم اللہ کے حضور راتوں کو اٹھ کر احتجاج کرتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ ہماری جماعت کی 133 سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔ ہم کسی دنگا فساد میں حصہ نہیں لیتے۔ ہماری تعلیم ہے :؎

گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
کبر کی عادت جو دیکھو! تم دکھاؤ انکسار

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2023