• 3 مئی, 2024

اُن کے نیچے سے آفتاب کی طرح ایک ایسا روشن چہرہ نکلتا ہے جس کو دیکھنے کی آنکھیں تاب نہیں لا سکتیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ جو بات ہے یہ آج بھی قائم ہے کہ حکومتیں ملنی ہیں۔ تبلیغ کے ذریعہ سے اور دعاؤں کے ذریعہ سے فتوحات ہونی ہیں۔ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 1896ء کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ مقدس کے بعد (جو عیسائی سے جنگ تھی اور debate ہوئی تھی) جو بمقام امرتسر مسیح صاحبان اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان تحریری مباحثات کے رنگ میں واقعہ ہوا تھا۔ میرے والد مکرم کے پاس ایک جھمگٹا رہنے لگا اور روزمرہ اس کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی۔ اس مباحثے کے اختتام پر حضور نے عبداللہ آتھم کے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی۔ جب اس پیشگوئی کی مقررہ میعاد میں صرف دو تین روز باقی رہ گئے تو مخالفین نے کہنا شروع کیا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ بھلا کس طرح ہو سکتا ہے کہ ڈپٹی آتھم ایسا صاحبِ اختیار آدمی جو اپنی حفاظت کے لئے ہر قسم کے ضروری سامان نہایت آسانی سے مہیا کر سکتا ہے اور پولیس کا ایک دستہ اپنے پہرے کے لئے مقرر کرا سکتا ہے، کسی کی سازش کا نشانہ بن سکے۔ میرے والد صاحب کو یہ باتیں سخت ناگوار گزرتی تھیں اور اُن لوگوں کے طنزیہ فقروں کے جواب میں وہ کہہ اُٹھتے کہ میعادِ پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے پہلے کوئی رائے زنی کرنا سخت بے باکی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اُس دن آفتاب غروب نہ ہوگا جبتک کہ اسلامی فتح کے نشان میں یہ پیشگوئی اپنے اصلی روپ میں پوری نہ ہو لے گی۔ ایک دن باقی رہ گیا پھر خبر آئی کہ ابھی آتھم زندہ ہے۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب کی بے چینی اس خبر کو سن کر بہت ترقی کر گئی۔ (بہت بڑھ گئی) وہ برداشت نہ کرسکتے تھے کہ جو پیشگوئی اسلامی فتح کے نشان کے طور پر کی گئی ہے وہ پوری ہونے سے قاصر رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعداء خوش تھے لیکن میرے والد صاحب کے دل پر غم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اور وہ دعاؤں میں لگ گئے۔ اُسی رات خدائے کریم و حکیم نے خواب میں اُن کو ایک نظارہ دکھلایا۔ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شکل ہے جو انسانی وجود معلوم ہوتا ہے۔ اُس کے منہ پر بالخصوص اور باقی سارے جسم پر بالعموم کثرت کے ساتھ گھاس پھوس اور گرد و غبار پڑا ہوا ہے، اُس کا چہرہ بالکل نظر نہیں آتا۔ اور باقی جسم سے بھی اُس کی شناخت ناممکن ہو رہی ہے۔ ایک اور شخص ہے جس کی پیٹھ میرے والد صاحب کی طرف کو ہے لیکن اُس کا منہ اس گردو غبار سے ڈھکے ہوئے وجود کی طرف ہے۔ وہ نہایت احتیاط اور محنت اور محبت کے ساتھ ایک ایک کر کے اُس دوسرے شخص کے وجود پر سے تنکے اپنے ہاتھوں سے چُن چُن کر اُتار رہا ہے۔ کچھ وقت کے بعد وہ تمام تنکوں کو اُٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ اور گردوغبار سے اُس کے جسم کو صاف کر دیتا ہے۔ اور جونہی کہ وہ تنکے وغیرہ سب اُتر کر گر جاتے ہیں۔ اُن کے نیچے سے آفتاب کی طرح ایک ایسا روشن چہرہ نکلتا ہے جس کو دیکھنے کی آنکھیں تاب نہیں لا سکتیں۔ اُسی وقت خواب میں ہی تفہیم ہوتی ہے کہ یہ مقدس انسان جس کے جسمِ مطہر سے تنکے دور کئے گئے ہیں، وہ سیدنا حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تنکوں کو دور کرنے والے صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ رات کو یہ نظارہ دیکھا۔ صبح ہوتے ہی معاندینِ سلسلہ اکٹھے ہو کر پھر آئے اور کہنے لگے کہ دیکھئے صاحب، یہ کل آپ کیا کہہ رہے تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آتھم ابھی زندہ ہے، مرا نہیں اور آپ کے مرزا کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ تم کو جو خبر ملی ہے وہ غلط ہے۔ آتھم یقینا ًزندہ نہیں ہو گا اور اگر وہ زندہ ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے دینی بھائیوں کے لئے ضرور مر چکا ہے۔ اُس نے ان باتوں سے اگر توبہ نہیں کی تھی تو بہرحال دوبارہ اُس کا اظہار نہیں کیا۔ جب تک تمام باتوں کی حقیقت نہ کھل جائے اپنے شکوک و ابہامات کو خدا کے حوالے کریں۔ رات جو میں نے نظارہ دیکھا ہے اگر تم بھی وہ دیکھ لیتے تو پھر تمہیں پتہ لگتا کہ یہ شخص جس کے خلاف تم لوگ زہر اُگل رہے ہو کس پایہ کا انسان ہے۔ مَیں نے تو جب سے وہ خواب کا نظارہ دیکھاہے اس سے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ بہرحال یہ نشان اس طرز سے پورا ہو کر رہے گا کہ دنیا کو اپنی شوکت دکھا کر رہے گا۔ پھر اَور بھی سینکڑوں ہزاروں نشان سیدنا حضرت مرزا صاحب کے وجود سے ظاہر ہوں گے جو دشمنانِ اسلام کی پیداکردہ تمام روکوں کو توڑ کر رکھ دیں گے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ156-156الف۔ از روایات حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خاں صاحبؓ)

پس اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح چہرہ دکھانا اور آپ پر لگائے تمام الزامات کو دور کرنا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی کام تھا۔ اب یہ دیکھیں کہ یہ مقابلہ جو عبداللہ آتھم کے ساتھ تھا اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دفاع کر رہے تھے اور بعض مسلمان کہلانے والے بلکہ اُن کے علماء بھی دوسروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی سچائی ظاہر کرنا چاہتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ دکھانا چاہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔

اب آج یہ لوگ بڑے جلوس نکال رہے ہیں۔ میلادِ نبی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو حقیقی خوشی جشن منانے میں تو نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، آپ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے میں ہے۔ آپؐ پر درود بھیجنے میں ہے۔ پہلے میں نے ایک حوالہ پڑھا تھا کہ دین میں قوت پیدا کرو۔ تو یہ دین میں قوت پیدا کرنا آج ہر مسلمان کاکام ہے اگر حقیقی مسلمان ہے۔ اور وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ جڑ کر ہی ہو سکتا ہے۔ آتھم کی بھی موت کچھ عرصہ تک تو ٹل گئی تھی لیکن چھ سات مہینے بعد، کیونکہ اُس نے ایک طرح کی توبہ کی تھی، اور اُن الفاظ کو دہرانے سے پرہیز کیا تھا، احتراز کیا تھا تو چند مہینہ کے بعد پھر وہ موت واقع ہو گئی۔ تو یہی پیشگوئی تھی کہ اگرچہ کچھ دیر کے لئے موت ٹل تو سکتی ہے لیکن یہ واقعہ ضرور ہو گا۔ اور وہ ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، ایک خواب سنائی تھی کہ حکومتیں اگر حاصل کرنی ہیں، دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو تبلیغ کے ذریعہ سے ہو گا، اس طرف بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 25؍جنوری 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تقریب آمین

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2022