• 3 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 14)

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
اللہ تبارک تعالیٰ اپنے پیاروں کی خود حفاظت فرماتا ہے
قسط 14

اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ؐ سے اللہ پاک نے وعدہ فرمایا

وَاللّٰہ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس

(المائدہ: 68)

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ250 حاشیہ نمبر 11)

خدا تجھے ان لوگوں کے شر سے بچائے گا کہ جو تیرے قتل کرنے کی گھات میں ہیں۔

عصمت سے مراد یہ ہے کہ بڑی آفتوں سے جودشمنوں کا اصل مقصود تھا بچایا جاوے دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عصمت کا وعدہ کیا گیا تھا حالانکہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت زخم پہنچے تھے۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ529)

سورۃ المائدہ مدینہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس میں یہود و نصاری کی بے دینی ’’مسلسل بد عہدیوں اور گستاخانہ رویہ کا ذکر کرکے اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے پیارے حضرت محمد مصطفیٰ  ؐ کو ارشاد فرمایا کہ آپؐ اعلائے کلمہ ٔ حق کا فرض ادا کر تے رہیں میں خود آپ کی حفاظت کروں گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی آپؐ کے خیمے کے گرد پہرہ تھا آپؐ نے پہرے پر مستعد سرفروشوں سے فرمایا

آپ جاسکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔

نیز آپ ؐ نے فرمایا
اے لوگو! تم اگر میری سچائی کی دلیل تلاش کرتے ہو تو سن رکھو خدا نے مجھ سے وعدہ کررکھا ہے کہ اے محمدؐ! جب بھی لوگ تمہیں شر پہنچانا چاہیں گے تو میں تیری حفاظت کروں گا۔

(روایت حضرت عائشہ ؓ ترمذی ابواب التفسیر سورہ مائدہ)

اللہ تعالیٰ نے آپ کی جسمانی اور روحانی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لے لیا۔ کل عالم کو فریضۂ تبلیغ کا کام جان پر کھیلے بغیر ممکن نہ تھا۔ قلبِ محمد ؐ کی تقویت اور جمعیتِ خاطر کے لئے مولیٰ کریم کی حفاظت کا وعدہ ایک طرف یہ بتا رہا تھا کہ یہ راہ پر خطر ہے اور دوسری طرف روحانی طاقت میں اضافہ کا حوصلہ تھا اور بڑھتے ہوئے قربِ الہٰی کا سکون تھا۔ فی الوقت اس مضمون میں آپؐ کی معجزانہ جسمانی حفاظت کا ذکر ہوگا۔ جو آپؐ کی صداقت کی ایک دلیل بھی ہے۔

حفاظت الہٰی کی تجلیات آپؐ کی پیدائش سے پہلے شروع ہوگئی تھیں ابرہہ سے خانۂ خدا کو بچانا دراصل آنے والی بابرکت ذات کو بچانا تھا۔ پھر قریبی عزیزوں کی پے در پے وفات سے آپؐ دربدر نہیں ہوئے زیادہ لاڈ پیار نازونعم اور عمدہ پرورش کے سامان ہوتے رہے۔ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا خانۂ خدا میں سجدہ ریز رسول اللہ ؐ کا سر کچلنے کے ارادے سے بڑا سا پتھر لے کرآنے والے ابوجہل کو بڑے بڑے دانتوں والے ہیبتناک مست اونٹ کے نظارے نے شل کردیا۔ آپؐ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جبریل ؓ کو بھیجا تھا۔ سجدے میں پیشانی رکھنے والے کو گردو پیش میں کسی کارروائی کا علم بھی نہیں ہوا جبکہ اس کی حفاظت کے ضامن نے ابوجہل کو ناکام ونامراد لوٹا دیا۔

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برّانِ محمدؐ

مشرکینِ مکہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اسلام کے خلاف زہر اگلنے کے بعد یہ فیصلہ کرکے اٹھتے ہیں کہ برداشت کی حد ختم ہوگئی اب ایک ہی صورت ہے کہ اس فتنے کے سرغنہ محمد ؐکو جان سے مار دیا جائے ایک بہادر سپوت ننگی تلوار لے کر نکلتا ہے ابھی منزل تک نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اس کا دل پھیرنے کے سامان کردیتا ہے اور وہ کلمہ شہادہ پڑھ کے مسلمان ہوجاتا ہے۔ قتل کے ارادے سے آنے والا خود مقتول ہوجاتا ہے اس پر وار کس نے کیا؟ اسی کریم ذات نے جس نے محمد ؐ سے حفاظت کا وعدہ کیا تھا۔

حضرت مصلح موعود ؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ آپ عبادت کررہے تھے آپ ؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کرلوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں اتنے میں ابوبکر ؓوہاں آگئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے۔ ایک دفعہ آپؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپؐ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اس وقت تک آپؐ سر نہ اٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اس اوجھری کو آپؐ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں۔

آپؐ کے گھر میں ارد گرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے۔ باورچی خانے میں گندی چیزیں پھینکی جاتیں جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتیں۔ جب آپؐ نماز پڑھتے تو آپؐ کے اوپر گردوغبار ڈالی جاتی تھی حتی کہ آپ ؐ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ198)

طائف کی سنگلاخ زمین پر پتھروں کی چوٹیں سہتے اور زخم کھاتے ہوئے اس حالت میں کہ نعلین مبارک خون جم جانے سے پاؤں میں چپکی ہوئی تھیں تین کوس تک جس طرف رخ تھا بھاگتے گئے۔ اس بظا ہر بے یارومددگار بندہ ٔ خدا کو ان ظالموں سے قادر و توانا خدا نے بچایا۔

ہجرت کے وقت غارثور کے دہانے پر کھوجی کہہ رہا تھا یہاں تک تو پیروں کے نشان ملتے ہیں اس کے بعد انہیں زمین کھا گئی یا آسمان پر چڑھ گئے۔ آپ ؐوہیں تھے ان کی آوازیں سن رہے تھے مگراپنے اللہ کی حفاظت میں تھے ذرا سی مکڑی کمزور سا جالا ننھی کبوتری کا گھونسلا اور انڈے یہ ان خونخوار دشمنوں سے نہیں بچا رہے تھے وہ قادروتوانا خدا تھا جو حصار بنائے کھڑا تھا۔ سراقہ بن مالک سَو اونٹوں کے لالچ میں پیچھا کرتا ہوا اپنے مطلوب تک پہنچ گیا تھا کسی طاقت ور کے ہاتھ نے اس کے گھوڑے کو باربار گرایا یہاں تک کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ان کے ساتھ تو کوئی اور ہی طاقت کام کررہی ہے۔ چشم تصور میں ان کے اقتدار کے نقشہ سے دل پر لرزہ طاری ہوا وہ اتنا مرعوب ہوا کہ خو د پناہ مانگنے پر مجبور ہوگیا۔

بادشاہ ایران خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا آنحضور ؐ کا دعوت الی اللہ کا خط پہنچا تو خط پھاڑ دیا، ایلچی کو قتل کرادیا اور اپنے سپاہی روانہ کئے کہ اس مدعی نبوت کو گرفتار کرکے لے آئیں۔

اس واقعہ کے بارے میں حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’وہ شام کے قریب پہنچے اور کہا ہمیں گرفتاری کا حکم ہے۔ آپ ؐ نے اس بے ہودہ بات سے اعراض کرکے فرمایا ’’تم اسلام قبول کرو۔‘‘

’’اس وقت آپ ؐ صرف دوچار اصحاب کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے مگر ربانی رعب سے وہ دونوں بید کی طرح کانپ رہے تھے آخر انہوں نے کہاکہ ہمارے خداوند کے حکم یعنی گرفتاری کی نسبت جناب عالی کا کیا جواب ہے کہ ہم جواب ہی لے جائیں حضرت نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا کل تمہیں جواب ملے گا۔ صبح کو جوو ہ حاضر ہوئے تو آنجناب ؐ نے فرمایاکہ وہ جو تم خداوند خداوند کہتے ہو وہ خداوند نہیں ہے خداوند وہ ہے جس پر موت اور فنا طاری نہیں ہوتی۔ مگر تمہارا خداوند آج رات کو مارا گیا میرے سچے خداوند نے اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کردیا سو وہ آج رات اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا۔ اور یہی جواب ہے، یہ بڑا معجزہ تھا‘‘

(نور القرآن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ385)

’’یہ معجزہ اس لئے بھی بڑا تھا کہ ایک باپ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ شیرویہ کے ایلچی کو بھیجے ہوئے مکتوب کے الفاظ بھی غیر معمولی ہیں۔ ’’یاد رکھو کہ میرے باپ نے جو حکم عرب کے ایک مدعی نبوت کو گرفتار کرنے کے لئے بھیجا تھا وہ بھی ظالمانہ حکم تھا اسے بھی ہم منسوخ کرتے ہیں اور جب تک کوئی نیا حکم نہ آئے اس کے متعلق کوئی کارروائی نہ کرو‘‘

(طبری جلد3 صفحہ1584)

سن چھ ہجری کا واقعہ ہے جنگ احزاب کی ہزیمت کے بعد ابوسفیان نے سوچا کہ ہر تدبیر ناکام ہوگئی ہے۔ اب کسی دشمن اسلام کو آمادہ کیا جائے کہ وہ چپکے سے مدینہ جائے اور آپؐ کو قتل کرآئے اس نے دیکھا تھا کہ آپ بغیر کسی پہرے کے گلی کوچوں میں بے تکلف چلتے پھرتے ہیں پانچوں وقت کی نمازیں پڑھاتے ہیں۔ قتل کرنے والے کا کام کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ اسے اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے ایک بدوی مل گیا جس نے وعدہ کیا کہ وہ خنجر چھپا کے رکھے گا اور موقع ملتے ہی کام تمام کردے گا۔ پھر بھاگ کر کسی قافلے کے ساتھ مل کر بچ کر نکل جائے گا۔ ابو سفیان نے اسے تیز رفتار اونٹنی اور زاد راہ دے کر رخصت کیا یہ معاملہ انتہائی راز میں رکھا گیا۔ وہ چھ دن سفر کرکے مدینہ پہنچا اور سیدھا قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد گیا جہاں آنحضور ؐ تشریف فرما تھے۔ آپؐ نے اسے آتے دیکھ کر فرمایا یہ شخص کسی بری نیت سے آیا ہے وہ یہ سن کر اور بھی تیزی سے آگے بڑھا ایک انصاری حضرت اسید بن حضیر نے اسے دبوچ لیا جس سے اس کاخنجر نیچے گرگیا۔

آنحضور ؐ نے اسے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ تم کون ہو اور کس ارادے سے آئے ہو؟ اس نے جاں بخشی اور معافی کے وعدے سے ابو سفیان کا سارا منصوبہ بتا دیا اور چند دن وہاں قیام کے بعد اسلام قبول کرلیا۔

(سیرۃ خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد خلاصہ صفحات 741 تا 743)

سن سات ہجری میں فتحِ خیبر کے بعد ابھی آپؐ خیبر میں مقیم تھے کہ یہودیوں نے آپؐ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی ایک خاتون زینب بنت الحارث نے آنحضور ؐ کے لئے بھنی ہوئی ران میں زہر ملا کر آپؐ کو پیش کی آپ ؐ اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے کے لئے بیٹھے ابھی آپ نے ایک لقمہ ہی لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو اسے کھانے سے منع کردیا جس صحابی بِشر ؓ نے ایک لقمہ کھایا تھا وہ وفات پا گئے۔ آنحضور ؐ نے اس عورت کو بلا کرپوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ ہم آپؐ کو قتل کر نا چاہتے تھے آپ ؐ نے فرمایا ’’اللہ تمہیں ایسا نہیں کرنے دے گا۔‘‘ اس نے کہا ’’کیا آپ کو قتل نہیں کیا جاسکتا؟‘‘ آپ نے فرمایا نہیں۔

(مسلم باب السلام کتاب السم)

اس نبیٴ رحمت ؐنے اسے بھی معاف کردیا۔ کوئی انتقام نہ لیا۔

(ابو داؤد)

جنگِ حنین کے بعد ایک شخص شیبہ نے آپؐ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ کہتے ہیں:
’’میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پاکر رسول اللہ ؐ کو قتل کردوں گا اور میں نے دل میں یہ کہا کہ عرب اور غیر عرب تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد ؐ کے مذہب میں داخل ہوگئی تو میں تو نہیں ہونے کا جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور ادھر کے آدمی ادھر کے آدمیوں سے مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ ؐ کے قریب ہونا شروع ہوا۔ اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ میرے اور آپ ؐ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کردے۔ اس وقت مجھے رسول اللہ ؐ کی آواز آئی ’’شیبہ میرے قریب ہوجاؤ۔‘‘

میں جب آپ ؐ کے قریب گیا تو آپؐ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کہا۔ اے خدا شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے۔

شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ ؐ کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اڑ گئیں اور اس وقت سے رسول اللہ ؐ مجھے اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہوگئے۔‘‘

(دیباچہ تفسیرالقرآن صفحہ 223)

حضرت اقدس غلامِ احمد مسیح موعود علیہ السلام سے الہٰی حفاظت کے وعدہ میں مماثلت

اللہ تعالیٰ نے دور آخرین میں آنحضور ؐ کے نائب سے بھی معجزانہ حفاظت کا وعدہ فرمایا آپ کو احیائے دین اسلام کا فریضہ سونپا۔ انتہائی صبر آزما کام ’’شش جہات خطرات‘‘ ہر مذہب و ملت کے ماننے والے جانی دشمن‘‘ ہر وسیلہ آپؑ کی جان اور پیغام کو مٹا دینے کے درپے تھا ایسے میں حوصلہ دیتی ہوئی قادرو توانا اللہ تعالیٰ کی آواز آئی۔

یظل ربک علیک و یغیثک و یرحمک و ان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس

خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ608-609 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

ان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ و ان لم یعصمک الناس

اگرچہ لوگ تجھے نہ بچاویں یعنی تباہ کرنے میں کوشش کریں مگر خدا اپنے پاس سے اسباب پیدا کرکے تجھے بچائے گا۔ خدا تجھے ضرور بچالے گا اگرچہ لوگ بچانا نہ چاہیں۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ528)

انی احافظ کل من فی الدار الاالذین علوا من استکبار۔ واحافظک خاصۃ سلام قو لا من رب رحیم

یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں اور میں تجھے خصوصیت کے ساتھ بچاؤں گا خدائے رحیم کی طرف سے تجھے سلام

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ401)

’’انی احافظ کل من فی الدار یعنی خدا فرماتا ہے کہ جو لوگ اس گھر کی چاردیواری کے اندر ہیں سب کو میں طاعون سے بچاؤں گا سو گیارہ برس سے بڑے بڑے حملے طاعون کے اس نواح میں ہورہے ہیں مگرخدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھر کا ایک کتا بھی طاعون سے نہیں مرا‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 547)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف میں یعصمک اللّٰہ کی بشارت ہے ایسا ہی اس خدا کی وحی میں میرے لئے یعصمک اللّٰہ کی بشارت ہے اور سلسلہ کے اول اور آخر کے مرسل کو قتل سے محفوظ رکھنا اس حکمتِ الہٰی کے تقاضا سے ہے کہ اگر اول سلسلہ کا مرسل جو صدر سلسلہ ہے شہید کیا جائے تو عوام کو اس مرسل کی نسبت بہت شبہات پیدا ہو جاتے ہیں … اور اگر آخر سلسلہ کا مرسل شہید کیا جائے تو عوام کی نظر میں خاتمہ سلسلہ پر ناکامی اور نامرادی کا داغ لگایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ خاتمہ سلسلہ کا فتح اور کامیابی کے ساتھ ہو۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 70)

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑسے حفاظت کا بار بار وعدہ فرمایا:
’’خدا نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور اس پر ہمارا ایمان ہے وہ وعدہ واللّٰہ یعصمک من الناس کا ہے۔ پس اسے کوئی مخالف آزمالے اور آگ جلاکر ہمیں اس میں ڈال دے آگ ہرگز ہم پر کام نہ کرے گی اور وہ ضرور ہمیں اپنے وعدہ کے مطابق بچالے گا لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہم خود آگ میں کودتے پھریں یہ طریق انبیاء کا نہیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ (البقرہ: 196) پس ہم خود آگ میں دیدہ دانستہ نہیں پڑتے بلکہ یہ حفاظت کا وعدہ دشمنوں کے مقابلہ پر ہے کہ اگر وہ آگ میں ہمیں جلانا چاہیں تو ہم ہرگز نہیں جلیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 480)

’’دنیا میں اک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔

ہم خوب دیکھ چکے ہیں کہ جب کبھی کسی دشمن نے ہمارے ساتھ بدی کے واسطے منصوبہ کیا خدا تعالیٰ نے ہمیشہ اس میں سے ایک نشان ہمارے تائید میں ظاہر فرمایا ہمارا بھروسہ خدا پر ہے انسان کچھ چیز نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ26)

اللہ تبارک تعالیٰ فرشتوں کی افواج کے ساتھ اپنے پیارے کو کس طرح محفوظ رکھتا ہے بے شمار مثالوں میں سے چند ایک کا ذکر تاریخ کے صفحات سے درج ہے۔

’’حضرت مسیح موعود ؑ سیالکوٹ تشریف لائے تو آپؑ نے سب سے پہلے محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چوبارے پر قیام فرمایا۔ ایک دفعہ حضور پندرہ سولہ افراد کے ساتھ اس چوبارے میں آرام فرمارہے تھے کہ شہتیر سے ٹک ٹک کی آواز آئی اس پر آپ ؑ نے ساتھیوں کو سختی سے نکلنے کا حکم دیا جب آپؑ کے ساتھی نکل گئے توآپؑ نے باہر آنے کا قصد کرتے ہوئے ابھی دوسرے زینے پر ہی قدم رکھا تھا کہ چھت دھڑام سے آ گری اور آپ معجزانہ طور پر بچ گئے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 18)

ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ایک دن بارش ہورہی تھی جس کمرے میں مَیں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہوگیا گندھک کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا اسی وقت وہ بجلی ایک مندر پر گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندوؤں کی رسم کے مطابق طواف کے لئے پیچ در پیچ ارد گرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جاکر اس پر پڑی اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہوگی۔

(سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 532)

’’مولوی محمد حسین بٹالوی نے سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی چنانچہ مولوی عمرالدین شملوی کی شہادت ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی اور حافظ عبدالرحمن صاحب سیاح امرتسری آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ مرزا صاحب کو چپ کرانے کی کیا تجویز ہو حافظ عبدالرحمن صاحب نے کہا میں بتاتا ہوں مرزا صاحب اعلان کرچکے ہیں کہ اب میں مباحثے نہیں کروں گا انہیں مباحثے کا چیلنج دے دو اگر وہ تیار ہو گئے تو انہیں کا قول یاد دلا کرانہیں نادم کیا جائے کہ ہم پبلک کو صرف یہ دکھانا چاہتے کہ آپ کو اپنے قول کا پاس نہیں اور اگر مباحثے سے انکار کیا تو ہم یہ اعلان کردیں گے کہ دیکھو ہمارے مقابل پر آنے کا حوصلہ نہیں مولوی عمرالدین نے کہا مجھے کہو تو میں جا کر انہیں مار آتا ہوں جھگڑا ہی ختم ہوجائے اس پر وہ کہنے لگے تمہیں کیا معلوم ہم یہ سب تدبیریں کر چکے ہیں کوئی سبب ہی نہیں بنتا۔ یہ سنتے ہی مولوی عمرالدین صاحب کے دل میں حضور ؑ کی صداقت کا یقین ہوگیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اپنی اس حسرت کا دوبارہ اظہار اور عیسائی حکومت کو آپؑ کے قتل پر اُکساکر 1897 میں لکھاحکومت و سلطنت اسلامی ہوتی تو ہم اس کا جواب آپ کو دیتے۔ اسی وقت آپ کا سر کاٹ کر آپ کو مردار کردیتے۔ سچے نبی کو گالیاں دینا مسلمانوں کے نزدیک ایک ایسا کفر اور ارتداد ہے جس کا جواب بجز قتل اور کچھ نہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 390)

حضرت اقدس ؑ 1891 میں دہلی تشریف لے گئے تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے آپؑ کو اطلاع دئے بغیر جامع مسجد میں مباحثے کا اعلان کردیا۔ آپؑ اس میں جانے کے اخلاقاََ پابند نہیں تھے تاہم دعوت الی اللہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہاں جانے کا فیصلہ فرمایا۔ مخالفین انتہائی اشتعال انگیز تقریریں کرکے عوام کو شرارت پر اُکسا رہے تھے۔ دہلی میں آپؑ کے گھر کا محاصرہ کرکے فساد کے لئے تیار تھے۔ آپ ؑ یہ شوروشر دیکھ کر بالا خانے پر تشریف لے گئے ہجوم کواڑ توڑ کر گھر کے اندر گھس گیا اور کچھ لوگ بالا خانے تک پہنچ گئے۔ اس صورت حال میں مباحثہ ناممکن تھا۔ بالآخر 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔ آپؑ کو پیغام آنے لگے کہ آپؑ جامع مسجد ہرگز نہ جائیں آپؑ کی جان کو خطرہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے اس شیر نے فرمایا۔
’’کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاللّٰہ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اللہ تعالیٰ کی حفاظت کافی‘‘

(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 344-345)

آپؑ اپنے احباب کے ساتھ بگھیوں میں مسجد کی طرف روانہ ہوئے راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھ گئے کہ حضور پر فائر کریں گے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جس راہ حضرت اقدس اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے اس طرح آسمانی حفاظت نے آپ کی جان کو محفوظ رکھا۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 423تا 425کا خلاصہ)

یہ بھی 1981ء کا واقعہ ہے لدھیانہ میں ایک گنوار شخص مخالفانہ تقاریر سن کر جوش میں آگیا اہو لٹھ لے کر حضرت اقدس ؑ کے بالا خانے میں پہنچ گیا۔ آپؑ اس حاضرین کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے وہ بیٹھ کرسننے لگا کچھ دیر بعد وہ لٹھ اس کے کندھے سے اتر کر ہاتھ میں آگیا آپؑ کا خطاب ختم ہوا تو کہا
’’میں ایک مولوی صاحب کے وعظ سے اثر پاکر اس ارادہ سے یہاں اس وقت آیا تھا کہ اس لٹھ کے ساتھ آپؑ کو قتل کرڈالوں اور جیسا کہ مولوی صاحب نے وعدہ فرمایا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جاؤں۔ مگر آپؑ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا اور آپؑ کی ان تمام باتوں کو سننے کے بعد مجھے یہ یقین ہوگیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا آپؑ بے شک سچے ہیں اور آپؑ کی باتیں سچی ہیں میں بھی آپؑ کے مریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔‘‘

(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق ؓ صفحہ41، 51)

دشمنوں کے آٹھ حملے

’’کپتان ڈگلس صاحب ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں میرے پر خون کا مقدمہ دائر کیا گیا میں اس سے بچایا گیا۔ بلکہ بریت کی خبرپہلے سے مجھے دے دی گئی۔ اور قانون ڈاک کی خلاف ورزی کا مقدمہ میرے پر چلایا گیا جس کی سزا چھ ماہ قید تھی اس سے بھی میں بچایا گیا اور بریت کی خبر پہلے سے مجھے دے دی گئی اسی طرح مسٹر ڈوئی ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ایک فوج داری مقدمہ میرے پر چلایا گیا آخر اس میں بھی خدا نے مجھے رہائی بخشی اور دشمن اپنے مقصد میں نامراد رہے اور اس رہائی کی پہلے مجھے خبر دی گئی پھر ایک مقدمہ فوج داری جہلم کے ایک مجسٹریٹ سنسار چند نام کی عدالت میں کرم دین نام کے ایک شخص نے مجھ پر دائر کیا اس سے بھی میں بری کیا گیا اور بریت کی خبر پہلے سے خدا نے مجھے دی اسی طرح میرے دشمنوں نے آٹھ حملے میرے پر کئے اور آٹھ میں ہی نامراد رہے اور خدا کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو آج سے پہلے براہین احمدیہ میں درج ہے یعنی یہ کہ ینصرک اللّٰہ فی مواطن کیا یہ کرامت نہیں؟‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن22 صفحہ981)

؎آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر