• 3 مئی, 2024

’’لیکھرام کا نشان ایک عظیم الشان نشان ہے‘‘ (قسط اول)

’’لیکھرام کا نشان ایک عظیم الشان نشان ہے‘‘ (مسیح موعودؑ)
قسط اول

پنڈت لیکھرام کے بارے میں حضرت مسیح موعود ؑ کی پیشگوئی 6؍مارچ 1897ء کو پوری ہوئی۔ جس کو 125 سال بیت رہے ہیں۔ اس مناسبت سے ادارہ الفضل آن لائن موٴرخہ 4 اور 5 مارچ کو اپنے قارئین کو تاریخ کے آئینہ میں لے جارہا ہے۔

اس عظیم الشان پیشگوئی کو تب تک صحیح طور پر نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ قاری آریہ سماج، اس کی تشکیل، تاریخ، بانیان، فلاسفی اور لوگوں پر اس فلاسفی کے اثرات کو نہ سمجھے۔ اس لئے اس مضمون کے پہلے حصہ میں ہم ان سب نکات پر کچھ بیان کریں گے پھر اس پیشگوئی کی تفصیلات اور اس کے پورے ہونے کے بارہ میں آگاہی حاصل کریں گے۔

آریہ سماج

یہ تحریک ہندو مذہب میں سن 1875ء میں سوامی دیانند سرسوتی (1824ء تا 1883ء) نے شروع کی۔ یہ تحریک ایک اصلاحی تحریک سے بڑھ کر آہستہ آہستہ ایک فرقہ کا روپ دھار گئی۔

آپ سے متاثر ہونے والے لوگوں میں لالہ راجپت رائے (1865ء تا 1928ء)، سوامی شردھانند (1856ء تا 1926ء) ان صاحب نے بعد میں ہندوستان میں شدھی تحریک کی ابتداء کی۔، شیام جی کرشنا ورما (1857ء تا 1930ء) ونایک دامودر ساورکر (1883ء تا 1966ء) اور پنڈت لیکھرام (1858ء تا 1897ء) وغیرہ سر فہرست ہیں۔ آپ نے ایک کتاب ستیارتھ پرکاش لکھی جو اس وقت کی معروف ترین ہندو لٹریچر کے طور پر متعارف ہوئی۔ اس کتاب میں آپ نے وید کی تعلیم کا احیائے نو، قدیم ترین ہندو مذہبی لٹریچر کو پھیلانے اور اس پر عمل کرنے اور وید کے بعد آئی تمام تر تعلیمات اور ہدایتوں کے مقابل پر وید کی عظمت کے قائل ہونے کے بعد اس کی عظمت کو بیان کرنے پر زور دیا۔ اس تحریک نے اوّل اوّل مغربی اور شمالی ہندوستان میں زور پکڑا۔ اس تحریک کے ماننے والے عام ہندوؤں کی طرح بت پرست نہیں تھے۔ اور ان میں کچھ عقائد مثلاً بت پرستی کی مخالفت، جانوروں کی قربانی، قومی و نسلی تعصبات کو ختم کرنا، کم سنی میں شادی کی مخالفت، عورتوں کے لئے تعلیم کا حق دینا، عورتوں کے لئے برابر کے حقوق، بیواؤں کی شادی اور مندروں میں چڑھاوے باقی ہندو مت سے یکسر مختلف تھے۔ اس تحریک میں ویدوں کے من جانب اللہ ہونے، کرما، سمسارا، گاؤ ماتا کی عظمت اور معاشرتی برائیوں کو دور کرنے پر بہت زور دیا گیا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستان کے طول وعرض میں یتیم خانوں، مشن ہاوسز، سکولز، کالجز، طبی سہولیات اور آسمانی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب اور قحط سالی کے دوران خدمت خلق پر کافی کام کیا۔

اس تحریک کے بارہ میں پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب The Discovery of India میں لکھتے ہیں۔

‘‘One of the most notable reform movements was started in the second half of the nineteenth century by a Gujarati, Swami Dayananda Saraswati, but it took root among the Hindus of the Punjab. This was the Arya Samaj and its slogan was ‘Back to the Vedas.’ This slogan really meant an elimination of developments of the Aryan faith since the Vedas…Even the Vedas were interpreted in a particular way. The Arya Samaj was a reaction to the influence of Islam and Christianity, more especially the former. It was a crusading and reforming movement from within, as well as a defensive organization for protection against external attacks. It introduced proselytization into Hinduism and thus tended to come into conflict with other proselytizing religions. The Arya Samaj, which had been a close approach to Islam, tended to become a defender of everything Hindu, against what it considered as the encroachments of other faiths. It is significant that it spread chiefly among the middle-class Hindus of the Punjab and the United Provinces. At one time it was considered by the Government as a politically revolutionary movement.’’

(The Discovery of India, page 335, 336, Printed at Rekha Printers Pvt. Ltd., New Delhi 110020 and published by Neil O’Brien, Oxford University Press)

انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سب سے قابل ذکر اصلاحی تحریکوں میں سے ایک آریہ سماج کے نام سے شروع ہوئی۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے، سوامی دیانند سرسوتی اس کے بانی تھے۔ مگر اس تحریک نے گجرات کے بجائے پنجاب کے ہندوؤں میں جڑ پکڑ لی۔ تحریک آریہ سماج کا نعرہ ’ویدوں کی طرف واپسی‘ تھا۔ اس نعرے کا اصل مطلب ویدوں کے ما بعد آریائی عقائد (جن کا ویدوں میں ذکر نہیں) کو ختم کرنا تھا۔ یہاں تک کہ ویدوں کی تشریح ایک خاص طریقے سے کی گئی۔ آریہ سماج خاص طور پر اسلام اور بالعموم عیسائیت کے اثر کا ردعمل تھا۔ یہ اندر سے ایک صلیبی اور اصلاحی تحریک تھی، نیز بیرونی حملوں سے تحفظ کے لیے ایک دفاعی تنظیم تھی۔ اس نے ہندومت میں مذہب کی تبدیلی کو متعارف کرایا اور اس طرح دوسرے متفرق مذاہب کے ساتھ متصادم ہونے کا رجحان پیدا ہوا۔ آریہ سماج، جو اسلام کے قریب تھا، ہندوؤں کی ہر چیز کا محافظ بننے کا رجحان رکھتا تھا، اور جو بھی اس کے بر خلاف سوچ رکھتا ہو اس کو یا ان عقائد کو ’’تجاوزات‘‘ سمجھتا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پنجاب اور متحدہ صوبوں کے متوسط طبقے کے ہندوؤں میں خاص طور پر پھیلا۔ کسی زمانے میں حکومت اسے سیاسی انقلابی تحریک تصور کرتی تھی۔

سوامی دیانند کے ایک شاگرد لالہ راجپت رائے (1865ء تا 1928ء) جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے نے ایک کتاب لکھی جس میں پنڈت دیانند کے دئیے ہوئے اس تحریک کے ایک آئین کا ذکر بھی ملتا ہے جو کہ 28 دفعات پر مشتمل تھا۔ ان میں قابل ذکر ویدوں کی بنیادی حیثیت، اس کے تحت مختلف مقامات پر مراکز، اپنی تربیت اور پھر دوسروں کی تربیت پر توجہ، تعصب سے دور پیار و محبت سے کام کرنا، ہر ممبر اپنی کمائی کا سوواں حصہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے دے، رسوم و رواج، روایات و تعلیم وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔

(آریہ سماج کی تایخ۔ مصنفہ لالہ لاجپت رائے۔ صفحہ57، 58۔ ترقی بورڈ اردو۔ نئی دہلی۔1977)

اس تحریک نے ہندوازم میں ایک نئی روح پھونکی۔ اس کی اصلاحی اقدامات نے جہاں ایک جانب مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچا اور دوسری جانب ان آنکھوں میں زندگی کی بہبود کے خواب بھی دکھائے۔ اس سلسلہ میں لالہ راجپت رائے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
’’آریہ سماج نے ہر انسان کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے جو وہاں پناہ لینے کا خواہشمند تھا۔ جو ہندو مذہب کو چھوڑ کر عیسائی یا مسلمان ہو گئے تھے اور پھر ہندو ہونے کو تیار تھے یا جو عیسائی اور مسلمان ہندو ہونا چاہتے تھے آریہ سماج نے ان سب کا خیر مقدم کیا۔‘‘

(آریہ سماج کی تایخ۔ مصنفہ لالہ لاجپت رائے۔ صفحہ249۔ ترقی بورڈ اردو۔ نئی دہلی۔1977)

اس تحریک کے اصلاحی انقلاب اور سارے فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ ان کی دوسرے مذاہب سے سختی اور دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس سلسلہ میں انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا لکھتا ہے،

‘‘It has been criticized, however, as overly dogmatic and militant and as having exhibited an aggressive intolerance toward both Christianity and Islam.’’

(Arya Samaj | religious sect, India | Britannica)

(اخذ شدہ مؤرخہ 20دسمبر 2021 بوقت 12:38)

یعنی اس تحریک پر اس کے حد سے زیادہ کٹر اور جارحانہ ہونے اور اسلام اور عیسائیت کی جانب عدم رواداری اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے بہت تنقید کی گئی ہے۔

اس تحریک نے کیسے ہندوستانیوں پر اپنے پنجے گاڑے؟ اس سوال کا جواب کسی ایک مآخذ تاریخ یا کسی ایک منبع علم سے ملنا محال محض ہے۔ اس کو دیکھنے کے لئے تاریخ کے طالبعلم کو جہاں اس وقت کے عمرانی جائزے لینا ہوں گے وہیں اس وقت میں لکھا جانے والا لٹریچر اس معمہ کی پردہ کشائی کرے گا۔ یہاں یہ بات واضح ہو کہ وہ لٹریچر جس سے یہ سوال حل ہو وہ جانبدارانہ نہ ہو بلکہ فریقین کی مقصدیت، اہداف اور تاریخی عوامل کو بھرپور طور پر واضح کرتا ہو۔ اس سلسلہ میں ایک حوالہ پنڈت کشن پرشاہ کول کے ایک مضمون جو ’’آریہ سماج‘‘ کے عنوان سے رسالہ زمانہ (کانپور) میں چھپا، سے دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔ آپ اس تحریک کے اوّل اثرات کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں:۔
’’رشی دیانند کی امت نے اپنے مشن کی عظمت سے متاثر ہو کر اپنے عقیدے کے جوش میں ایک طرف تو مورتی پوجا کی مخالفت کی، اور جات پات کے اختلاف، چھوت چھات کے جھگڑے اور کرم کانڈ کی ریتوں اور رسموں کے خلاف بغاوت کا جھنڈا اونچا کیا، دوسری طرف وہ ویدک دھرم کی فوقیت کا اعلان کر کے دیگر مذاہب کی مخالفت کے میدان میں اتر آئی۔ اور جن لوگوں نے ہندودھرم سے منہ موڑ کر دیگر مذاہب کے دامن میں پناہ لی تھی انہیں شدھی کا پرچار کر کے پھر ویدک دھرم کا حلقہ بگوش بنا دیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ انیسویں صدی کے ختم ہونے تک آریہ سماج کامل پچیس برس تک اپنے عقیدے کے جوش میں لڑتی رہی اور اس نے دیگر مذاہب اور فرقہ ہائے ہنود میں ایک کھلبلی مچا دی۔ اس لڑائی میں جیسا کہ ہونا لازمی تھا اس کے تیور چڑھے ہوئے تھے اور لب و لہجہ بھی درشت تھا۔ اسی لئے آریہ سماجیوں کو لڑاکا سمجھا جانے لگا۔ لیکن ان کے جوش و خروش میں کمی نہیں ہوئی۔ جو ان ہونی باتیں ہیں ان میں تو آریہ سماج کو کامیابی نہیں ہوئی لیکن آریہ سماج کے بڑے سے بڑے مخالف بھی اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس نے ہندو سماج کے مہمل اصول، زیادتیوں اور کمزوریوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے صدیوں بعد پھر ایک مرتبہ گوتم، کبیر اور نانک کی یاد کو تازہ کر دیا اور ہندو قوم کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک کر اسے پھر ایک مرتبہ جیتا جاگتا دنیا کے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ اور یہ بہت بڑا کام تھا جو آریہ سماج نے کیا۔ اس لحاظ سے رشی دیانند کی عظمت پُراتم رشیوں اور مُنیوں سے کم نہیں۔‘‘

(رسالہ زمانہ 1903ء تا 1942 کانپور از دیانرائن نگم 1943ء تا 1949ء کے شماروں سے انتخاب۔ صفحہ114، 115۔ مطبوعہ خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)

ستھیارتھ پرکاش 1875ء میں پہلی بار طبع ہوئی، اس کے بعد سوامی جی کی وفات کے بعد اس کو دوسری بار 1884ء میں طبع کیا گیا۔ اس کا اردو ترجمہ 1899ء میں آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب نے لاہور سے شائع کیا۔ اس کے بعد اس کا اردو ترجمہ (اردو رسم الخط میں) دھرم پال نے کیا جو سیوک سٹیم پریس لاہور نے 1912ء میں شائع کیا۔

سوامی دیانند صاحب کوان کی وفات سے کوئی 3 ماہ قبل، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کی وفات کی خبر دی تھی، آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’اس (دیانند) کو زندگی میں مرنے سے پہلے یہ خبر بذریعہ ایک رجسٹری شدہ خط کے دی گئی تھی۔ اور شرمپت اور ملاوامل موجود ہیں۔ ان کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا تین مہینے پہلے یہ خبر دی گئی تھی یا نہیں؟‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ277)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اور آریہ ورت

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی کاروائیوں کا اوائل ہی سے علم تھا۔ اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ لالہ شرمپت رائے جو کہ قادیان میں آریہ سماج کے جنرل سیکریٹری تھے، حضور علیہ السلام سے آریہ سماج کی تحریک سے بہت پہلے ہی تعلق ارادت رکھتے تھے۔ 1870ء میں ان کے ایک بھائی لالہ بشمبر داس کے حوالے سے حضرت اقدس کی ایک پیش خبری بھی پوری ہوئی جس پر لالہ شرمپت رائے نے ایک زندہ نشان بھی دیکھا۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ657 تا 658 حاشیہ در حاشیہ)

اس بات کا دوسرا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان آریہ سماج کے عقائد و تعلیمات کے حوالے سے لٹریچر اس تحریک کے آغاز میں ہی سپرد قرطاس کرنا شروع کر دیا تھا، یہ ہے کہ مؤرخہ 7 دسمبر 1877ء کے ’’وکیل ہندوستان‘‘ میں روح کے بے انت ہونے اور ان کی تعداد کا پرمیشر کے عدم علم اور مکتی سے متعلق اپنا عقیدہ شائع کیا تو حضرت اقدس نے ’’سفیر ہند‘‘ میں اس کا ردّ لکھ کر اس عقیدہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اور پنڈت دیانند صاحب کو چیلنج دیا کہ اگر وہ اس مضمون کا جواب لکھیں تو ان کو مبلغ پانچ سو روپے انعام دیا جائیگا۔

(تاریخ احمدیت، جلد اوّل صفحہ 153۔ مطبوعہ پرنٹ ویل امرتسر۔ 2007)

اس کا تیسرا ثبوت یہ ہے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس تحریک کا آغاز 1875ء میں ہوا اور اسی برس تحریک کی پہلی کتاب ستھیارتھ پرکاش ضبط تحریر میں آئی۔ حضور علیہ السلام نے بعض مضامین براہین احمدیہ سے قبل 1879ء میں تحریر فرمائے تھے۔ ان میں آپ نے ان کے عقائد تناسخ، روح کا قدیم و انادی ہونا، مکتی اور ضرورت الہام وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی، ان کے عقائد کا رد کیا اور اسلام کی تعلیم پیش فرمائی۔

آپؑ نے آریہ سماج کے ایک خدا کو ماننے کے حوالہ سے نہایت عارفانہ بات لکھی، آپ لکھتے ہیں؛۔
’’بت پرستی سے دستبرداری کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم (قوم آریہ) پیدا کر دی۔ یہ لوگ اسلام کی ڈیوڑھی پر ہیں۔ ایک غیب کا دھکا لگے گا، تو تمہارے بھائی ہو جائیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4، صفحہ 624)

آریہ سماج کے اسلام اور نبی اسلام ؐپر سفلی حملے

اس حقیقت کو جاننے کے بعد کہ آریہ سماج نے ہندوازم میں ایک نئی روح پھونکی اوراپنے عقائد میں رد و بدل کر کے ان کو اسلام کے بالمقابل لا کھڑا کیا اور وہ برکات جو اسلام کے ساتھ خاص ہیں کو آریہ عقائد کی مدد سے اپنے حق میں بیان کرنا شروع کیا۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہندو جو اپنے مذہب کے معاملہ میں ویسے تو بہت متشدد سمجھے جاتے تھے، عیسائی یلغار سے بری طرح پٹنے کے بعد اس وقت میں اتنے لاغر و کمزور تھے کہ جب آریہ سماج نے بت پرستی کو ’’پاکھنڈ‘‘ قرار دیا تو وہ اپنے لبوں کو حقیر سی جنبش بھی نہ دے سکے!

آریہ سماج نے کتاب ستھیارتھ پرکاش کو مآخذ بنا کر اسلام پر ناپاک حملے شروع کئے اور نبی اسلام ﷺ کی ذات با برکات پر نہایت دلآزار اور رکیک حملے کئے۔ آریہ سماجیوں کا یہ شر انگیز رجحان سوامی دیانند کی کتاب ستھیارتھ پرکاش سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد لکھی جانے والی کتب نے اسی کتاب کی مدد سے انہی گھسے پٹے اعتراضات کو بار بار استعمال کیا ہے۔ ستھیارتھ پرکاش کی اس ’’قلمی دہشتگردی‘‘ سے نہ یہودیت محفوظ رہی نہ عیسائیت اور نہ ہی اسلام، بلکہ ان سے تو خود ہندومت بھی مامون نہ رہ سکا۔ اس کی منہ زور تلوار سے کوئی پیشوائے مذہب محفوظ نہیں رہا۔ اس سارے اجمال کی تفصیل خواجہ غلام الحسنین پانی پتی کی کتاب ’’سوامی دیانند اور ان کی تعلیم‘‘ میں ملتی ہے۔ جو جو الفاظ حضرت رسول کریم ﷺ کی ذات کے لئے استعمال کئے گئے، قلم کا یارا نہیں کہ بیان کر سکے۔ آپ ﷺکے مقدس وجود پر اتنے گھٹیا الزامات لگائے گئے کہ کوئی لا مذہب شریف النفس ان کو بیان کرنے سے پہلے ہزاروں بار سوچے اور پھر اس سوچ کو جھٹک دے۔ ایسی بازاری زبان استعمال کی گئی جس کا بولنا اب شائد اب بازاروں میں بھی موقوف ہو چکا۔

جو سخت، دشنام دہ اور درشت طریقہ کار آریہ سماج نے اپنے دھرم کی تبلیغ و دعوت کے لئے استعمال کیا وہ خود ہندو علماء و مؤرخین نے تسلیم کیا اور اس حقیقت کو مانا کہ آریہ مبلغین نے اس کا اتنا استعمال کیا کہ ان کو ‘‘لڑاکا’’ کہا اور سمجھا جانے لگا۔

پنڈت دیانند اور آریہ سماج کی بدزبانیوں اور بد گوئیوں سے حضور علیہ السلام واقف تھے۔ اس کا اظہار آپ کی اوائل زمانہ کتب میں جا بجا ملتا ہے۔ چند نمونے (مشتے از خروارے) پیش ہیں۔

  • براہین احمدیہ میں آپ لکھتے ہیں:۔

’’انصاف ہمارے ہم وطنوں آریہ قوم سے مٹا جاتا ہے۔ اس قوم کو تعصب نے اس قدر گھیرا ہے کہ انبیاءکا ادب سے نام لینا بھی ایک پاپ سمجھتے ہیں اور تمام انبیاءکی کسر شان کرکے اور سب کو مفتری اور جعلساز ٹھہرا کر یہ دعویٰ بلا دلیل پیش کرتے ہیں کہ ایک وید ہی خدا کی کلام ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ94)

’’ان (آریہ) کے دلوں میں یہ خیال سمایا ہوا ہے جو بجز آریہ دیس کے اور جتنے ملکوں میں نبی اور رسول آئے جنہوں نے بہت سے لوگوں کو تاریکی شرک اور مخلوق پرستی سے باہرنکالا اور اکثر ملکوں کو نورِ ایمان اور توحید سے منور کیا۔ وہ سب نعوذ باللہ جھوٹے اور مفتری تھے۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ97)

  • سرمہ چشم آریہ میں فرماتے ہیں:۔

’’وید نے اگر آریوں کے دلوں پر کچھ اثر ڈالا ہے تو وہ صرف گالیاں اور دشنام دہی ہے تمام مقدسوں کو فریبی کہنا سب پاک نبیوں کا نام مکار رکھنا دنیا کے برگزیدوں کو بجز اپنے تین یا چار وید کے رشیوں نامعلوم الوجود کو جھوٹا اور دغاباز اور ٹھگ قرار دینا انہیں لوگوں کا کام ہے کیا ان لوگوں کے مونہہ سے بجز بدظنیوں اور بدزبانیوں کے کبھی کچھ معارف الٰہی کے نکات بھی نکلے ہیں۔ کیا بجز گندی باتوں اور نابکار خیالات یا تحقیر اور توہین اور ٹھٹھے اور ہنسی اور پرشرارت اور بدبودار لفظوں کے کبھی کوئی دقیق بھید معرفت الٰہی کا بھی ان کی زبان سے سنا گیا ہے۔ کیا ان برتنوں سے کبھی کوئی صفا دلی کا قطرہ بھی مترشح ہوا ہے یا انہوں نے باطنی پاکیزگی میں کچھ ترقی کی ہے ہرگز نہیں سو جو کچھ ویدکا اثر ہے سو ظاہر ہے حاجت بیان نہیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ31، 32 حاشیہ)

  • شحنہ حق میں اس بارہ میں لکھتے ہیں:۔

’’ان آریوں نے ہم سے کس قسم کی تہذیب کا برتاؤ کیا؟ یہ ہم ابھی بیان کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ شریف آریہ ان حرکات بے جا کو بالکل روا نہیں رکھتے ہوں گے جو ہماری نسبت اپنے اقوال پر فحش سے بعض دل چلے آریوں نے اپنے وحشیانہ جوش سے ظاہر کئے ہیں۔ انہوں نے میری نسبت ایسے گندے اشتہار چھاپے ہیں۔ ایسے پردشنام گمنام خط بھیجے ہیں۔ ایسی غائبانہ گندیں باتیں کہیں ہیں کہ مجھے ہرگز امید نہیں کہ کوئی نیک ذات آریہ اس صلاح اور مشورہ میں داخل ہوگا۔ اور پھر ان نیک بختوں نے اسی پر کفایت نہیں کی بلکہ بار بار خطوط اور اشتہاروں کے ذریعہ سے مجھے قتل کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد2 صفحہ325)

ان حوالوں سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ دشنام طرازی، بد گوئی اور گالم گلوچ میں ان آریہ سماجیوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ایک جانب ان کے عقائد کا ردّ حضور علیہ السلام کی طرف سے مسلسل ہو رہا تھا دوسری جانب یہ عوام الناس میں اپنی سماجی خدمت کی وجہ سےہی مقبول ہو رہے تھے نہ کہ بے بنیاد عقائد کی وجہ سے۔

  • مؤرخہ 28 فروری 1903ء کو آریہ لوگوں کو ایک وفد حضور علیہ السلام سے ملاقات کی غرض سے قادیان آیا اور دوران گفتگو ایک آریہ بولا:

’’جاہل تو دو ہی قومیں ہیں۔ آپ برا نہ مانیں تو میں عرض کر دوں۔ ایک تو سکھ دوسرے یہ ہمارے مسلمان بھائی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ116)

سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام نے پنڈت دیاننداور اس کے اتباع کو زبان درازیوں سے بہت پہلے (جب ابھی آپ براہین احمدیہ کا مقدمہ تحریر فرما رہے تھے) ہی منع کیا اور نصیحت فرمائی تھی، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں جو زبان درازیوں سے باز رہیں جو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ106)

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی جانب سے
ردّ آریہ سماج میں نکلنے والا بے مثال لٹریچر

ویسے تو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب آریہ سماج کے عقائد کی قلعی کھولتی ہیں، ان کی تفاصیل بیان کرتی ہیں اور ان کے بالمقابل اسلام کی روشن، پاکیزہ اور قابل عمل تعلیم پیش کرتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آپ نے بعض کتب صرف آریہ سماجیوں کے عقائد کے حوالہ سے تحریر فرمائی ہیں جن میں مندرجہ ذیل بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

  • پرانی تحریریں (1879ء)
  • سرمہ چشم آریہ (1886ء)
  • شحنہ حق (1887ء)
  • ست بچن (1895ء)
  • آریہ دھرم (1895ء)
  • نسیم دعوت (1903ء)
  • قادیان کے آریہ اور ہم (1907ء)
  • چشمہ معرفت (1907ء)

حضور علیہ السلام نے آریہ سماج کے حوالے سے وقتاً فوقتاً بیسیوں اشتہارات بھی شائع کئے۔

ان خاص کتب کے علاوہ حضور اقدس نے آریہ سماج کے عقائد کا ردّ قطعی دلائل کے ساتھ کئی ایک کتب میں کیا۔ آریہ سماج کے عقائد کا ردّ اور ان کا اسلام کے ساتھ موازنہ ہمیں آپ کے تقاریر و دروس و ملفوظات میں بھی ملتا ہے۔ الحکم، البدر اور ریویو آف ریلیجنز کے اوراق بھی حضور کے اس مقدس جہاد کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ اسی جہاد کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف آریہ سماج اور دوسری طرف عیسائیت کی یلغار کے مقابلہ کے لئے اسلام کو وہ فتح نصیب جرنیل عطا ہوا جس کی پیش خبری سورۃ الکوثر إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ میں عطا فرمائی گئی تھی!

آریہ سماج کے برخلاف اس مقدس قلمی جہادکا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ ہم اپنے معاندین کی زبانوں سے بیان کریں گے کیونکہ کہاجاتا ہے،

اَلفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ اْلاَعْدآءُ

1.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنّۃ، میں سرمہ چشم آریہ کی اشاعت کے بعد فرمایا:۔
’’یہ کتاب لا جواب مؤلّف براہین احمدیہ میرزا غلام احمد رئیس قادیان کی تصنیف ہے۔ ۔ ۔ ہم بجائے تحریر ریویو اس کتاب کے بعض مطالب بہ نقل اصل عبارت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں وہ مطالب بحکم ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ خود شہادت دیں گے کہ کتاب کیسی ہے۔ اور ہمارے ریویو لکھنے کی حاجت نہ باقی رہنے دیں گے۔ ۔ ۔ مسلمانوں کی حالت پر کمال افسوس ہے کہ ایک شخص اسلام کی حمایت میں تمام جہان کے اہل مذہب سے مقابلہ کے لئے وقف اور فدا ہو رہا پھر اہل اسلام کا اس کام کی مالی معاونت میں یہ حال ہے۔‘‘

(اشاعۃ السنّۃ۔ جلد 9 نمبر 5، 6 صفحہ 157-158)

2.ایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار، لاہور لکھتے ہیں۔
’’مرزا صاحب کی تمام ترکوشش آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صَرف ہوتی ہیں جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات ’’براہین احمدیہ‘‘، ’’سرمہ چشمہ آریہ‘‘ اور بعد کے رسائل سے واضح ہے۔ ہم اس کے سوائے اور کیا کر سکتے ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ‘‘۔

(پیسہ اخبار لاہور دو شنبہ 22 فروری 1892ء)

3.سید حبیب صاحب ایڈیٹر اخبار ’’ریاست‘‘ نے آپ علیہ السلام کی آریوں اور مسیحیوں کو میدان جہاد میں شکست دینے کے بارہ میں لکھا:۔
’’مسلمانوں کو بہکانے کے لئے عیسائیوں نے دین حقہ اسلام اور اس کے بانی صلعم پر بے پناہ حملے شروع کر دئیے جن کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ آخر زمانہ نے تین آدمی ان کے مقابلہ کے لئے پیدا کئے۔ ہندوؤں میں سے سوامی شری دیانند جی مہاراج نے جنم لے کر آریہ دھرم کی بنیاد ڈالی اور عیسائی حملہ آوروں کا مقابلہ شروع کیا۔ مسلمانوں میں سرسید علیہ الرحمۃ نے سپر سنبھالی اور ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب اس میدان میں اترے…مذہبی حملوں کا جواب دینے میں البتہ سر سید کامیاب نہیں ہوئے اس لئے کہ انہوں نے ہر معجزے سے انکار کیا اور ہر مسئلہ کوبزعم خود عقل انسانی کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان میں بچے ہوئے جو علماء بھی موجود تھے ان میں اور سرسید میں ٹھن گئی۔ کفر کے فتویٰ شائع ہوئے اور بہت غلاظت اچھلی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی پروپیگنڈا زور پکڑ گیا اور علی گڑھ کالج مسلمانوں کی بجائے ایک قسم کے ملحد پیدا کرنے لگا۔ یہ لوگ محض پیدائش کی وجہ سے مسلمان ہوتے تھے ورنہ انہیں اسلام پر کوئی اعتقاد نہ ہوتا تھا… اس وقت کے آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے۔ اِکّے دُکّے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہوگئے۔ مگر کوئی کامیاب نہ ہوا۔ اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا۔ ۔ ۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دئیے۔ اسلام کے متعلق ان کے بعض مضامین لاجواب ہیں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اگر مرزا صاحب اپنی کامیابی سے متاثر ہو کر نبوت کا دعویٰ نہ کرتے تو ہم انہیں زمانہ حال میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خادم ماننے۔ ۔ ۔ مسلمان ایک ایسی قوم ہے جو اپنے خدام کی قدر کرتی ہے عیسائیوں اور آریوں کے مقابلہ میں مرزا صاحب کی خدمات کی وجہ سے مسلمانوں نے انہیں سر پر بٹھایا اور دلوں میں جگہ دی۔ مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم اور مولانا ثناء اللہ امرتسری جیسے بزرگ ان کے حامی اور معترف تھے اور انہی کے نام کا ڈنکہ بجاتے تھے۔ ۔ ۔ غرض مرزا صاحب کی کامیابی کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جب کہ جہالت مسلمانوں پر قابض تھی اور اسلام مسیحی اور آریہ مبلغین کے طعن و تشنیع کا مورد بنا ہوا تھا۔ مرزا صاحب نے اس حالت سے فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کی طرف سے سینہ سپر ہو کر اغیار کا مقابلہ کیا۔‘‘

(تحریک قادیان از مولانا سید حبیب مدیر ’’سیاست‘‘ صفحہ167 تا 169)

پنڈت لیکھرام

لیکھرام کے آباء کسی زمانہ میں ضلع جہلم کے ایک گاؤں سید پور (جو کہ آجکل جہلم کی یونین کونسل نمبر32 اور پنڈ سید پور کہلاتا ہے) میں رہا کرتے تھے۔ لیکھرام کی پیدائش سے قبل یہ خاندان کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں منتقل ہو گیا۔ لیکھرام سن 1858ء میں پنڈت تارا سنگھ اور بھاگ بھری کے گھر میں پیدا ہوا۔ یہ خاندان ایک برہمن مہیال (مہیال برہمنوں کے اس خاندان کو کہتے ہیں جو جنگی ملازمت سے جُڑے ہوں) خاندان تھا۔

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر۔ صفحہ 3 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور۔ 1903)

اکثر تاریخ نویس لیکھرام کی جنم بھومی سید پور بتاتے ہیں حالانکہ یہ غلط ہے۔ لیکھرام کی پیدائش کی جگہ کہوٹہ والی بات کو پنڈت سربدیال شرما نے اپنی کتاب پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب لیکھرام کی ہلاکت کے قریباً 6 سال بعد لکھی گئی۔ اور پنڈت سربدیال لیکھرام کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

لیکھرام نے ابتدائی طور پر فارسی پڑھی اور مہارت حاصل کی۔ 1873ء میں لیکھرام اپنے چچا گنڈا سنگھ جو پشاور میں پولیس انسپکٹر تھے کے پاس چلاگیا۔ 1876ء میں لیکھرام محکمہ پولیس میں سارجنٹ بن گیا۔ پولیس کی نوکری کے دوران ہندو کتب گیتا کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتا۔ دوران ملازمت اس نے اندرمن اور منشی کنہیا لال عالیکھ دھری کی تصنیفات سے فائدہ اٹھایا۔

ایک روز رسالہ ’’ودیا پرکاشک‘‘ (براہین احمدیہ کے صفحہ55 اور 431، 432 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ باوا نرائن سنگھ، وکیل امرتسری کا تھا)کا مطالعہ کرتے لیکھرام کو سوامی دیانند کاعلم ہوا اور ان کے مشن سے آگاہی ہوئی۔ پنڈت سربدیال کے مطابق لیکھرام نے ان کو خط لکھا۔ ان کی تصنیفات منگوائیں اور اس رسالہ ودیا پرکاشک کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا۔ اور اپریل 1881ء کو پشاور میں آریہ سماج کی شاخ قائم کی۔ اور ایک رسالہ ’’دھرم اپدیش‘‘ نکالا۔ جوکچھ ہی عرصہ بعد قلیل آمدنی کے باعث بند کرنا پڑا۔

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر۔ صفحہ 10 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور۔ 1903)

1883ء میں اس کی تعیناتی پشاور سے بیرونجات میں ہوئی وہاں بھی اس نے آریہ سماج کے قیام لئے بہت کوشش کی اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ 1883ء میں ’’نوید بیوگان‘‘ لکھی۔

اس کے بعد لیکھرام کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خبر ملی۔ اور کسی طرح براہین احمدیہ اس کے ہاتھ آئی جس کو اس نے پڑھا اور استہزانہ انداز میں کہا
’’جس طرح دور کے ڈھول سہانے ہیں اور تمام ستھرے شاہ بھی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مرزا غلام احمد صاحب رئیس اعظم قادیان کا خیال ہے۔ تمام جائیداد (اس جگہ یہ حضور علیہ السلام کے انعامی چیلنج کا ذکر کر رہا ہے) صرف خیالی پلاؤ اور تمام ملکیت پنٹ من کا الاؤ ہے۔‘‘

(تکذیب براہین احمدیہ صفحہ 3)

لیکھرام نے کوئی تینتیس (33) کتب لکھیں۔ جو کہ بعد میں ’’کلیات آریہ مسافر‘‘ کے نام سے مجموعی طور پر شائع کی گئیں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنڈت دیانند جو آریہ ورت کے بانی تھے ان کی کتب اور ان کو اتنی شہرت کیوں نہ ملی اور لیکھرام کی کتب و تقاریر اور اس کی شخصیت کیوں مشہور ہوئی؟ اس کا جواب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ دیا، آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’اس (دیانند) نے کتابیں ناگری زبان میں لکھیں اس لیے لوگوں کو اس کی گندہ زبانی کی خبر نہیں ہے۔ لیکھرام نے اردو میں لکھیں اس کی خبر سب کو ہوئی۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 158)

حضرت مسیح موعودؑ اور لیکھرام

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکھرام سے پہلے پہل تعارف کچھ ایسے ہوا کہ یہ حضور علیہ السلام کو گالیوں سے بھرے خط لکھا کرتا تھا۔ اس نے تکذیب براہین احمدیہ لکھنے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت مخالفت اور اسلام اور قرآن حکیم اور نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخیاں شروع کر دی تھیں۔ اس سے متعلق حضور علیہ السلام نے آریہ سماج کے ذمہ داروں کو بھی مطلع فرمایا، آپ کی کتاب شحنہ حق میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’لیکھرام پشاوری نے جس قدر گندے اور بدبو سے بھرے ہوئے ہماری طرف خط لکھے وہ سب ہمارے پاس موجود ہیں۔ اور گمنام خطوط جو جان سے مار دینے کے بارے میں کسی پرجوش آریہ کی طرف سے پہنچے گو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کس آریہ کی طرف سے ہیں مگر یہ ہم جانتے ہیں کہ شورہ پشتوں کے گروہ میں سے کوئی ایک ہے۔ ایسا ہی جن اشتہاروں کو یہ لوگ وقتاً فوقتاً جاری کرتے ہیں ان کے پڑھنے سے ہریک شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا کچھ بھرا ہوا ہے۔ گمنام خط جس قدر آریوں کی طرف سے آتے ہیں وہ اکثر بیرنگ ہوتے ہیں اور علاوہ ایک آنہ محصول ضائع کرنے کے جب اندر سے کھولا جاتا ہے تو نری گالیاں اور نہایت گندی باتیں ہوتی ہیں ایسے خط معلوم ہوتا ہے کہ کسی لڑکے بدخط سے لکھائے جاتے ہیں عبارت وہی معمولی ان گندہ زبان آریوں کی ہوتی ہے اور خط بچوں کا سا۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم نے ان کا کیا گناہ کیا ہے راستی کو تہذیب اور نرمی سے بیان کرنا ہمارا شیوہ ہے ہاں چونکہ یہ لوگ کسی طور سے ناراستی کو چھوڑنا نہیں چاہتے اس لئے سچ کہنے والے کے جانی دشمن ہوجاتے ہیں سو چونکہ ہمارے نزدیک کلمہ حق سے خاموش رہنے اور جو کچھ خدائے تعالیٰ نے صاف اور روشن علم دیا ہے وہ خلق اللہ کو نہ پہنچانا سب گناہوں سے بدتر گناہ ہے اس لئے ہم ان کی قتل کی دھمکیوں سے تو نہیں ڈرتے اور نہ بجز ارادہ الٰہی قتل کردینا ان کے اختیار میں ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کسی ظالم آریہ کے اقدام قتل سے ہمارے ہموطن اور ہم شہر آریہ پولیس کی کشاکشی میں پھنس جائیں۔ اس لئے اوّل تو انہیں ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اس سرحدی شخص سے جس کا نام لیکھرام یا لیکھ راج ہے پرہیز رکھیں۔‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد2 صفحہ325-326)

آپ نے لیکھرام کی زبان درزای کے بارہ میں ایک بار فرمایا:۔
’’لیکھرام بڑا ہی زبان دراز تھا اور اس کے بعد ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا کیونکہ اذا ھلک کسریٰ فلا کسریٰ بعدہٗ۔ اب اﷲ تعالےٰ زمین کو ایسے لوگوں سے پاک رکھے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3، صفحہ481)

جب حضور علیہ السلام نے سرمہ چشم آریہ تحریر فرمائی تو اس وقت بھی آپ نے لیکھرام کو دعوت حق کی اور پاک باطنی سے اسلام کو دیکھنے کی ترغیب دلائی، مگر اس کے خبث باطن نے اس کی کوئی مدد نہ کی۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’ان صاحبوں (لیکھرام بالخصوص اور دوسرے اسی قبیل کے لوگ) کو بجز دشنام دہی اور بدزبانی اور آلائش کی باتوں کے جو ان کے اندر بھری ہوئی ہیں اور کوئی حرف صلاحیت و معقولیت یاد نہیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ238)

’’تکذیب براہین احمدیہ‘‘ کی تصنیف اور اشاعت

پنڈت سربدیال اس بارہ میں لکھتے ہیں:۔
’’جب پنڈت لیکھرام جی جموں میں تشریف لے گئےتو پنڈت نراین کول کے پاس جا ڈیرہ کیا۔ پنڈت نراین کول صاحب ایک اعلیٰ کشمیری پنڈت خاندان ہونے کی وجہ سے حسب رواج ملک کشمیر فارسی اور عربی میں اعلیٰ لیاقت رکھتے تھے۔ گفتگو کرتے کرتے جب پنڈت لیکھرام کو معلوم ہوا کہ پنڈت نراین کشن صاحب فارسی میں عالم فاضل ہیں تو مناسب سمجھا کہ برھان احمدیہ (یہ نام ایسے ہی اصل کتاب میں لکھا ہوا ہے)کا جواب تیار کرنے میں ان سے مدد لی جاوے۔ چنانچہ جب پنڈت لیکھرام نے پنڈت نراین کول سے اس معاملہ میں گفتگو کی تو انہوں نے اس کو بسر چشم منظور کیا۔ پنڈت نراین کول کے رشتہ داروں سے معلوم ہوا کہ پنڈت لیکھرام جی نے اسکے پاس کئی دفعہ چند روز ٹہر کر اس تکذیب کا مصالح جمع کرنے میں بھاری امداد لی۔ اس کے بعد جن کل کتاب تکذیب براہین احمدیہ تیار ہو گئی تو اوّل مرتبہ پنڈت لیکھرام یکم اکتوبر 1884ء کو رو بروئے ایک جماعت کثیرہ کے آریہ سماج گورداسپور میں اس کو سنایا۔ باعث اس کا یہ تھا کہ (شائد کتاب دیر سے طبع ہو)۔‘‘

(پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چرتر۔ صفحہ12، 13 مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور۔ 1903)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ، نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر