• 2 مئی, 2024

اسلامی قانون میں قذف، زنا بالرضایا زنا بالجبر (قسط 1)

اسلامی قانون میں قذف، زنا بالرضایا زنا بالجبر
کے ثبوت کاطریق اوراس کی سزا
قسط 1

اسلامی سزاؤں کا فلسفہ

جرم وسزا کے اسلامی قوانین کےبارہ میں پہلا سوال ان کی حکمت و فلسفہ کے متعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس بارہ میں یادرکھنا چاہیے کہ اسلامی لائق عبرت سزاؤں کا اصل مقصد معاشرہ کا امن اور اصلاح ہے۔تاہم ان سزاؤں کے نفاذ میں سختی کی بجائے نرمی کی نصیحت کی گئی ہے۔مگراسلامی نظریہ کے مطابق اصل محاسبہ قیامت اورجزاسزا کے وقت ہوگا۔رسول کریمﷺنے فرمایاکہ مسلمانوں کو حتی الوسع سزاؤں سے بچاؤ اگر مجرم کے لیے بچنے کا کوئی راستہ نکلتا ہو تو اس کےلیے راہ خالی چھوڑ دو کیونکہ امام کا معافی میں غلطی کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ سزا دینے میں غلطی کا مرتکب ہو۔

(ترمذی ابواب الحدود بَابُ مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الحُدُودِ)

اسلامی حدود اور ان کی شرائط

اسلام میں محض گناہ ِ زنا کی سزا سوکوڑے نہیں بلکہ یہ اس اعلانیہ بدکاری کی سزا ہے جسے کئی لوگوں نے دیکھاہو۔لیکن اگرزنا کاجرم ایسا پوشیدہ ہو کہ نہ توخودملزم اس کا اعتراف کرے اور نہ ہی اس واقعہ کے چارعادل معتبر چشمدید گواہ موجودہوں تواسلامی قانون کے مطابق اس کی کوئی سزا نہیں۔ ایسے شخص کا محاسبہ خدا کے سپرد ہے۔ البتہ چار گواہوں کے ذریعہ یہ جرم ثابت ہونے پریہ سزانافذ ہوگی۔ جسے فقہی اصطلاح میں ’’حدّ‘‘ کہتے ہیں۔ حدود چونکہ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ ہیں جن میں زناکی سزا سو کوڑے، قذف (جھوٹا الزام لگانے) کی سزا اسّی کوڑے اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹناہے۔ اس لیے ان سزاؤں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔البتہ جرم زنا جب اورزیادہ بھیانک شکل اختیار کرجائے یعنی زنا کاری کے ساتھ اس کی تشہیر اور اشاعت ِفحشاء کا جرم بھی اس میں شامل ہوجائے یا زنابالجبر ہوتو اس کی سزابطورتعزیر سنگساری یاموت بھی ہوسکتی ہے۔ (الاحزاب:61-62) جس کااختیار ریاست کو ہے کہ وہ حسب حالات جرم کی نوعیت کے مطابق عوام کے جان و مال کی حفاظت اور قیام امن کےلیے ایسے مجرموں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے، جلاوطنی اور موت تک کی سزائیں دے سکتی ہے۔ (المائدہ:34) تاکہ قومی زندگی کے لئےایسے تباہ کن اورمہلک جرائم کا استیصال ہو۔ چنانچہ چوری کی سزاہاتھ کاٹنے کو بھی قرآن شریف میں ’’نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ‘‘ کہہ کر باعث عبرت قرار دیا (المائدہ:39) اور بدکاری کی سزا سو کوڑےبھی سبق سکھانے کی خاطر ہے۔ اس لیے فرمایا: ایسے مجرموں کی سزا مومنوں کے ایک گروہ کی موجودگی میں دی جائے۔(النور: 3) تاکہ زنا کا مجرم نشانِ عبرت بن جائے۔

اشاعت فحشاء سے بچنے کی خاطر سترپوشی کی تعلیم

اشاعت فحشاء ایک ایساقومی جرم ہےجس کی سزا موت تک بیان ہوئی ہے۔جبکہ اسلام سترپوشی کی تعلیم دیتا ہے،رسول کریمﷺ نے ایک طرف مسلمانوں کو معاشرہ میں اخوت و محبت کا ماحول پیدا کرنے کی خاطر غیبت اور بدظنی سے بچنے کا حکم دیا تودوسری طرف ستر پوشی کی بھی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی سترپوشی کرے گا۔

(بخاری کتاب المظالم والغصب بَابٌ: لاَ يَظْلِمُ المُسْلِمُ المُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ)

حتی کہ جن معاشرتی گناہوں کی سنگین سزائیں حدودکی صورت میں مقرر ہیں اشاعت فاحشہ سے بچنے، برائی کی سنگینی اور نیکی کا رعب قائم رکھنے کی خاطر ان کی تشہیر سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
حدود یعنی سزاؤں والے جرم خود ایک دوسرے کو معاف کردیا کرو۔ جب شکایت مجھ تک پہنچ جائے تو پھر سزا کا قانون (حسبِ شرائط) لاگو ہوگا۔

(سنن نسائی کتاب قطع السارق باب مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لَا يَكُونُ)

اس بارہ میں سنت رسولؐ و صحابہ میں امت کےلیے قابل تقلید نمونہ ہے:
1۔ ماعز اسلمی زناکا مرتکب ہوا تو رسول کریم ﷺ نے ان کے مالک حضرت ہزالؓ کو جنہوں نے انہیں اعتراف جرم پر آمادہ کیا، فرمایا کہ ’’اگر تم اس معاملہ کی پردہ پوشی کرتے تو تمہارے لیے بہتر تھا۔‘‘

(سنن ابو داؤدکتاب الحدودبَابٌ فِی السَّتْرِ عَلَى أَهْلِ الْحُدُودِ)

2۔ اسلم قبیلہ کے ایک شخص کے اعتراف زنا اور توبہ پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے پردے میں چھپے رہنے کی تلقین فرمائی۔

(مؤطا امام مالک کتاب الحدود باب الإِقْرَارِ بِالزِّنَا)

3۔ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اعتراف گناہ کرکے اپنے اوپر حد جاری کرنے کی درخواست کی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے۔ اللہ نے تمہارے گناہ اور حد معاف فرمادی۔

(مسلم کتاب التوبة بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ)

ترمذی اور نسائی کی روایت میں وضاحت ہے کہ اس نے عورت سے محض مخالطت اور ملامست کا ارتکاب کیا تھا نہ کہ مباشرت۔ حضرت عمرؓ نے اسے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیری ستر پوشی فرمائی تھی۔ کاش تم بھی اپنی پردہ پوشی کرتے۔

(ابوداؤدکتاب الحدودبَابٌ فِي الرَّجُلِ يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ دُونَ الْجِمَاعِ، فَيَتُوبُ قَبْلَ أَنْ يَأْخُذَهُ الْإِمَامُ)

الغرض انسان کے اپنی ذات کے متعلق کسی گناہ کے اقرارواظہار کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنی نسبت الزام کا اظہار واعلان باعث ننگ و عار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اپنی طرف اس الزام کی نسبت دیناکہنے والے کے تقویٰ اور اس کی نیکی کا ثبوت ہوتا ہے حالانکہ اپنی نسبت الزام لگانا تو الزام لگانے والے کی وقاحت اور بے شرمی پر دلالت کرتا ہے نہ کہ اس کے تقویٰ اور پاکیزگی پر۔کیا یوسف علیہ السلام پر عزیز مصر کی بیوی نے اپنی ذات کے متعلق الزام نہیں لگایا تھا۔پھر کیا اس سے زلیخا کے تقویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 264)

تاہم اسلامی سزاؤں کے اصول وقوانین میں ضابطہ کی ایسی پابندی موجود ہے کہ جب تک ایسے جرائم پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے، مجرم سزا کا مستوجب نہیں ہوسکتا۔

بلاثبوت جھوٹاالزام لگانے کی سزا

قرآن شریف میں جھوٹے اخلاقی الزام لگانے والوں کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

(النور: 5)

یعنی ایسے لوگ جومحصنات یعنی شادی شدہ اور پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں پھر چار معتبر گواہ پیش نہیں کرتے ان کو اسّی کوڑے مارو اور ان کی گواہی قبول نہ کرو۔یہی لوگ نافرمان ہیں سوائے ان کے جواس کے بعد توبہ کرکے اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے۔

(النور:6)

حضرت مسیح موعودؑ نےاس آیت کے تفسیری ترجمہ میں ’’محصنات‘‘ کے معنے صرف شادی شدہ کی بجائے تمام پاک دامن عورتوں کے کئے کیونکہ ’’محصن‘‘ کے اصل معنی قلعہ بند ہونے کے ہی ہیں۔ آپؑ نے تحریرفرمایا:
’’جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور اس تہمت کے ثابت کرنے کےلیے چار گواہ نہ لاسکیں تو ان کو اسّی درّے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ آپ ہی بدکار ہیں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ318)

حضرت مصلح موعودؓ نے ’’محصنات‘‘ سے صرف پاک دامن عورتیں ہی نہیں،تمام ایسے مرد بھی مراد لیے ہیں جو پاک دامن ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’فقہاء نے بحث کی ہے کہ گویہاں محصنات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے محصنین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا مگر اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جبکہ مردوں کے ذکر میں عورتیں شامل سمجھی جاتی ہیں تو عورتوں کے ذکر میں مرد کیوں نہ شامل سمجھے جائیں گے۔پس وہ اس آیت کو مردوں اور عورتوں دونوں کےلیے سمجھتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ261-262)

چنانچہ رسول کریم ﷺ نے واقعہ افک میں الزام لگانے والے مردوں (حسان بن ثابتؓ اور مسطح بن اثاثہؓ)، عبداللہ بن ابی سلول اور خاتون (حمنہ بنت جحشؓ) سب کو اسّی کوڑوں کی سزا دے کر اس قانون پر عمل فرمایا۔

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بہتان تراشی کی سنگینی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’الزام لگانے والے کےلیے خد اتعالیٰ نے اسّی کوڑے سزا رکھی ہے جو زنا کی سزا کے قریب قریب ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ262)

یکطرفہ اعتراف کے باوجود
ثبوت نہ ملنے پردوہری سزا

جب کوئی مجرم اپنی بدکاری کا اعتراف کرتے ہوئے کسی دوسرے کو بلاثبوت اس میں ملوّث کرے تو وہ دوہری سزا یعنی حدّ زنا اور حدّ قذف کا سزاوار ہوگا۔ چنانچہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کے پاس چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ ایک عورت سے بدکاری کا مرتکب ہوا ہے۔ رسول کریمﷺ نے اس شخص کو سو کوڑے کی سزا دی۔ پھر آپؐ نے اس سے عورت کے خلاف ثبوت طلب کیا۔ اس عورت نے کہا یا رسول اللہﷺ! اس نے جھوٹ بولا ہے۔ حضورﷺ نے اس عورت کو کوئی سزا نہیں دی البتہ اعتراف گناہ کرنے والے کواپنا الزام ثابت نہ کرسکنے پرحد قذف کے طورپرمزیداسّی کوڑے سزادی گئی۔

(ابو داؤدکتاب الحدود بَابٌ إِذَا أَقَرَّ الرَّجُلُ بِالزِّنَا، وَلَمْ تُقِرَّ الْمَرْأَةُ)

زنا کے ثبوت کےلیے معیار شہادت

اسلامی قانون کے مطابق کسی معاملہ کے ثبوت کےلیے دو معتبر گواہ مقرر ہیں لیکن زنا کے ثبوت کےلیے چار سچے عادل غیرمتنازعہ اور معتبر گواہ ضروری ہیں۔ معیار شہادت میں اس سختی کی وجہ دراصل معاشرہ میں برائی کی شناعت اور نیکی کا رعب قائم رکھنا ہے اور یہ پیغام دیناہے کہ جب تک برائی فرد کی حد تک محدود ہے اور اجتماعی امن کو خراب نہیں کرتی تب تک معاشرتی قانون حرکت میں نہیں آئے گا۔ اگر کوئی ایک گواہی بھی مشتبہ ہوتو زنا کی سزا سو کوڑے جاری نہیں کی جاسکتی۔

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓنے حضرت عمرؓ کے زمانہ کی ایک مثال سے اسے یوں واضح فرمایا ہے:
’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ پرجو بصرہ کے گورنرتھے بدکاری کا الزام لگایا گیا۔ حضرت عمرؓ نے گواہی لی تو ایک شخص نے گواہی میں خفیف سی کمزوری دکھائی اور کہا کہ میں نے زنا ایسی صورت میں نہیں دیکھا کہ مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ کے اندر داخل ہو۔اس پر دوسرے تینوں گواہوں کو قذف کی حد لگائی گئی۔ (طبری جلد5 صفحہ529تا533) اور کسی نے نہ کہا کہ تین گواہ تو موجود ہیں۔چوتھے نے صرف کسی قدر کمزور شہادت دی ہے۔اس لیے کم ازکم الزام لگانے والوں کو کوڑے ہی نہ لگائیں اورملزم کو قسم دے کر پوچھ لیں کہ یہ بات سچ ہے یا نہیں۔مگر اس کو قسم تک نہ دی گئی اور الزام لگانے والوں کو کوڑوں کی سزا کے علاہ شہادت سے بھی محروم کر دیا گیا اور حضرت عمرؓ نے اعلان فرمایا کہ ان لوگوں کی شہادت آئندہ کسی معاملہ میں قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ 265-266)

اعترافِ زنا کی صورت میں باریک بینی سے جانچ پڑتال
اور تحقیق کا مسنون طریق

رسول کریمﷺ تو اعتراف زنا کے جرم کے باوجودحد سے بچانے کےلیے باریک بینی سے گہری تحقیق فرماتے تھے۔جس سے استنباط کرتے ہوئے دعویٰ زنابالجبر کی تحقیق بھی اس طرز پر کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ماعز بن مالک کا واقعہ ایک مثال ہے جس نےزنا کا اعتراف کیا تو ابتداءاً رسول کریمﷺ تین مرتبہ اس سےاعراض فرماتے رہے۔پھر چوتھی مرتبہ اقرار کے بعد آپ نے پہلے تو اس سے پوچھا کیا تمہیں جنون کی بیماری تو نہیں یعنی کوئی نفسیاتی مسئلہ وغیرہ تو نہیں۔

(مسنداحمد جزء22 صفحہ353)

مقصودیہ تھاکہ بیان بقائمی ہوش و حواس ہےیانہیں۔اس کے واضح انکار کے باوجود رسول کریمﷺ نے مزید تسلی کےلیے اس کے قبیلہ و قوم سے پتہ کروایا کہ اس کی ذہنی حالت کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے علم کے مطابق عقل کے لحاظ سے یہ ہمارے ٹھیک لوگوں میں ہی شمار ہوتا ہے۔

(مسلم کتاب الحدودبَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى)

پھر رسول اللہﷺ نے اس سے سوال کیا کہ تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اعتراف زنا کی مزید تفتیش کرتے ہوئے آپؐ نے پوچھا کہیں ایسا تو نہیں کہ تم نے صرف بوسہ لیا ہو؟ یا محض عورت کو چھوا ہویا اس کے (جسم کو) دیکھا ہو۔ یعنی کہیں ان مبادیات زنا کو تم زناتو نہیں سمجھ رہے۔ جب اس نے بغیر کسی کنایہ و اشارہ کے واضح الفاظ میں مباشرت کا اعتراف کیا تب آپؐ نے اسے سزا دی۔

( ابو داؤد کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ)

ایک اور روایت کے مطابق آپ نے اس سےیہ بھی پوچھا کہ تم نے شراب تو نہیں پی یعنی نشہ کی حالت میں تو یہ بیان نہیں دے رہے۔اس کے انکار پر ایک شخص نے قریب ہوکر اس کے منہ کی بُو سونگھی تو کوئی بُو نہ تھی۔

(مسلم کتاب الحدودبَابُ مَنِ اعْتَرَفَ عَلَى نَفْسِهِ بِالزِّنَى)

پھر حضورؐ نے اس سے واضح الفاظ میں زنا کی بابت پوچھا کہ کیا تم نے اس (عورت) میں دخول کیا تھا؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔

تو آپؐ نے پوچھا کیا اس طرح دخول ہوا جس طرح سرمہ دانی میں سلائی اور ڈول کنوئیں میں ڈالتے ہیں؟ اس نے پھر اثبات میں جواب دیا۔

پھر آپﷺ نے فرمایا کیا تمہیں پتہ ہے کہ زنا کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ میں اس عورت کے پاس اس کی حرام اور ممنوع جگہ سے آیا اور وہ کام کیا جوایک آدمی اپنی بیوی سے جائز طور پر کرتا ہے۔

پھر آپﷺ نے پوچھا کہ تمہارا اس اعتراف جرم سے کیا مقصدہے؟ اس نے عرض کیا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کریں چنانچہ وہ آپؐ کے حکم سے رجم کیا گیا۔

(ابوداؤد کتاب الحدودبَابُ رَجْمِ مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ)

ماعزؓ  کا یہ واقعہ کسی زنابالجبر کے دعویٰ کی تحقیق و تفتیش کےلیے بہت کافی رہنما ثابت ہوسکتا ہے۔

میاں یا بیوی کے ایک دوسرے پر الزام زنا کے متعلق
اصولی قانون اور اس پر عملدرآمد

جب کوئی مرد اپنی بیوی کو خود بدکاری کرتے دیکھ لےمگراس کے پاس اپنے علاوہ کوئی اور گواہ نہ ہوں۔تو قرآنی حکم کے مطابق چار گواہوں کی بجائے وہ خود چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر گواہی دےگا کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت۔ بیوی اگر شوہر کی اس شہادت کا انکار کرے تو زنا کی سزا سے بچنے کےلیے اس پر لازم ہے کہ وہ بھی چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر یہ گواہی دے کہ اس کا شوہر اس پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہوتو اس عورت پر اللہ کا غضب نازل ہو۔

(النور: 7تا10)

اگرکوئی خیال کرے کہ اس طرح تو ملزم قسمیں کھا کر دنیوی سزاسےبچ جاتے ہیں توایساناقص قانون کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے؟

اس کے جواب میں یہ یادرہے کہ جھوٹی قسم پر اصرار کرنے والے قہرالہٰی سے بہرحال نہیں بچ سکتے۔چنانچہ جب رسول کریمﷺ کے پاس ایک مسلمان اشعث بن قیس کسی یہودی سے تنازعہ لے کر آئے اوروہ رسول کریمﷺ کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے تو آپؐ نے یہودی سے حلف کا مطالبہ کیا۔اشعث نے کہا یہ تو ٍ محض قسم کھا کر میرا مال ہڑپ کرجائے گا۔رسول کریمﷺ نے وہ قرآنی آیت پڑھی جس کے مطابق جو لوگ قسم کو اہمیت نہیں دیتے،ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ روز قیامت ان سے نہ تو کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر کرم فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

(آل عمران:78)

(ابوداؤدکتاب الایمان والنذوربَابٌ فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ)

مؤکد بہ لعنت قسم سے ملزم کابری ہونا ایسامسلّم قانون ہے جس کے بعدملزم کے خلاف واضح قرائن زنا مل جانے پر بھی رسول کریمﷺ نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔ درج ذیل واقعات اس کا ثبوت ہیں:
1۔عویمر عجلانیؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک اور مرد کو پائے تو کیا وہ اسے قتل کر دے اور پھر خود قصاص میں مارا جائے یا وہ کیا کرے؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ تیرے اور تیری بیوی کے بارہ میں وحی نازل ہوئی ہے پس جاکر اپنی بیوی کو لے آؤ چنانچہ ان دونوں نے مسجد میں ایک دوسرے پر لعنت ڈالی جس کے بعد عویمر نے کہا کہ یارسول اللہﷺ! اب اگر میں اس بیوی کو اپنے پاس رکھتا ہوں تو میں جھوٹا ہوں۔ چنانچہ اس نے اسے تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ دیکھنا اگر اس (عورت) کے ہاں سانولے رنگ کا، سیاہ آنکھوں والا، بڑی سرین والا، موٹی پنڈلیوں والا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے اس کے بارہ میں سچ ہی کہا اور اگر وہ عورت ایسا بچہ جنے جو گہرے سرخ رنگ کا ہو جیسے چھوٹا گرگٹ ہوتا ہے تو پھر میرا خیال ہے کہ عویمر ؓنے اس بارہ میں جھوٹ کہا ہے۔ پھر اس عورت کے ہاں ویسا ہی بچہ پیدا ہوا جیسا رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اورجس سے عویمر ؓ کی سچائی ثابت ہوتی تھی۔ اس کے بعد وہ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوتا تھا۔

(بخاری کتاب تفسیر القرآن بَابُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ،مسلم کتاب الطلاق بَابُ انْقِضَاءِ عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَغَيْرِهَا بِوَضْعِ الْحَمْلِ)

اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ لعان کے چندماہ بعد جب ثابت شدہ قرائن سے پتہ چل گیا کہ عویمر کی بیوی نے جھوٹی قسم کھائی تھی پھر بھی رسول کریمﷺ نے اسے اور کوئی سزا نہیں دی 2۔حضرت ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک دوسرے پر لعنت ڈالنے والے مرد اور عورت کو فرمایا کہ اب تمہارا حساب اللہ کے ذمہ ہے تم میں سے ایک جھوٹا ہے اور مرد کو فرمایا کہ تمہیں اب اس عورت پر کوئی اختیار نہیں۔ اس نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرا مال جو اس کے پاس ہے، اس کا کیا ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں تمہارا مال نہیں ملے گا اگرتو تمہارا الزام سچا ہے تو وہ مال اس کے عوض ہوگیا جو پہلے تم اس سے تعلق قائم کر چکے ہو اور اگر تم نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے تو پھر تیرا اس سے کچھ مال لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔

(بخاری کتاب الطلاق بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ لِلْمُتَلاَعِنَيْنِ: إِنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ)

2۔اسی طرح ہلالؓ بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (بدکاری کا) الزام لگایا۔رسول کریمﷺ نے ان سے ثبوت طلب فرمایا ورنہ الزام لگانے کی حد یعنی اسّی کوڑے کی سزا ہوگی۔ اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! جب ہم میں سے کوئی اپنی بیوی پر کسی مرد کو دیکھے تو کیا وہ اس وقت ثبوت تلاش کرنے جائے۔ رسول کریمﷺ بدستور فرماتے رہے ثبوت دو ورنہ تم پر حد قذف جاری ہو گی۔ تب ہلالؓ نےکہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں یقیناً سچا ہوں اور لازماً اللہ تعالیٰ ایسی وحی اتارے گا جو مجھے اس سزا سے بری الذمہ کرے گی پھر جبرائیلؑ اترے اور آپﷺ پر سورة نور کی آیات 7تا10 (بابت لعان) نازل ہوئیں۔

چنانچہ ہلالؓ نے اس آیت کے مطابق (چار مرتبہ) گواہی دی کہ وہ سچے ہیں اور نبی کریمﷺ فرماتے رہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے پس کیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرتا ہے پھر اس عورت نے کھڑے ہوکر خاوند کے خلاف گواہی دی۔جب وہ پانچویں دفعہ خاوند کے خلاف جھوٹا ہونے اور اس کے سچا ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے غضب کی بددعا کرنے لگی تو لوگوں نے اسے روک لیا اور کہا کہ یہ پانچویں قسم (غضب الہیٰ کو) واجب کرنیوالی ہوگی۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ تب وہ عورت لڑکھڑائی اور پیچھے ہٹی یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ اپنے موقف سے رجوع کرلے گی پھر اس نے یہ کہہ کرکہ میں اپنی قوم کو ہمیشہ کےلیے رسوا نہیں کروں گی، پانچویں قسم بھی کھالی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس کو دیکھنا اگر اس کے ہاں سرمگیں آنکھوں والا پُرگوشت بھرے سرین والا اورموٹی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کا ہوگا۔ پھر ایسا ہی بچہ پیدا ہوا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو نازل ہوچکا ہے اگر وہ نہ ہوتا تو میں اس عورت سے نبٹ لیتا۔ (یعنی آپؐ نے لعان کے بعد اس کا جرم ثابت ہوجانے کے بعد کوئی سزا نہ دی۔)

(بخاری کتاب تفسیرالقرآن بَابُ وَيَدْرَأُ عَنْهَا العَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الكَاذِبِينَ)

قرآنی آیت سے دیگر
بلاثبوت الزامات کےلیے اصولی رہنمائی

اس آیت میں شوہر کے اپنی بیوی پر الزام لگانے کی صورت میں جواصول بیان ہوا ہے اسے اصطلاح میں ’’لعان‘‘ ہتے ہیں۔ اگر بیوی شوہر پر ایسا الزام لگائے تو اس کا مداوا بھی اسی طریق لعان سے ہوگا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مردوں یا عورتوں کے ایک دوسرے پر دیگر بلاثبوت سنگین الزامات کا حل بھی اسی آیت سے استنباط کیا ہے۔ چنانچہ مقدمہ کرم دین جہلمی کے دوران حضورؑ نے اسےلعنت سے مؤکد قسم کھانے کی دعوت دیتے ہوئے اپنے لیے بھی حلف کا یہ مضمون منظور کیا کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو جبکہ کرم دین نے ایسی قسم کھانے کو شرعاً ناپسند کیا، اس پر حضورؑ نے بلاثبوت پیچیدہ معاملات میں ملزَم فریق سے مؤکدبہ لعنت قسم لینے کے اصول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’شریعت اسلام میں جب کسی اور ثبوت کا دروازہ بندہویا پیچیدہ ہو تو قسم پر مدار رکھا جاتا ہے ۔۔ ۔ایسا ہی قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے: أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ۔ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (النور: 7-8) یعنی شخص ملزم چار قسمیں خدا کی کھائے کہ وہ سچا ہےا ور پانچویں قسم میں یہ کہے کہ اس پر خدا کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ511۔512)

اسی طرح دوسری جگہ بھی حضورؑ نے اسی اصول لعان کو ایسے مردوں عورتوں ک ےلیے بھی تسلیم فرمایا ہے جن پرمجرم ہونے کا شبہ ہواور ان پر کوئی گواہ نہ ہو۔آپؑ فرماتے ہیں:
’’اسلام میں لعنت اللہ علی الکاذبین کہنا ایک بددُعا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص کاذب ہے وہ خدا کی رحمت سے نومید ہو اور اُس کے قہر کے نیچے آجائے۔ اِسی لئے قرآن شریف میں ایسے مَردوں یا ایسی عورتوں کے لئے جن پر مجرم ہونے کا شبہ ہو اور اُن پر اَور کوئی گواہ نہ ہو جس کی گواہی سے سزاد ی جائے۔ ایسی قسم رکھی ہے جو مؤکّد بہ لعنت ہوتا اِس کا نتیجہ وہ ہو جو گواہ کے بیان کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی سزا اور قہر الٰہی۔ منہ‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ75 طبع اول)

پس حضرت مسیح موعودؑ کے استنباط کےمطابق اس آیت کی روشنی میں کسی بھی قسم کے الزام خواہ وہ عام زنا کا ہو یا زنابالجبر کا، گواہ نہ ہونے کی صورت میں ملزَم شخص مؤکد بہ لعنت حلفیہ بیان دے کر اس جرم سے دنیوی قانون میں بری ہوسکتا ہے۔

قرآن کریم سےعورت کے دعویٰ زنا بالجبر
کے متعلق رہنمائی

زنابالجبر کا معاملہ انتہائی نازک ہوتا ہے خصوصاً ایسی صورتحال میں جب گواہ بھی میسر نہ ہوں تو بہت مشکل پیش آتی ہے اور طبعاً صنف نازک کےلیے معاشرہ میں ’’مظلومیت‘‘ اور ہمدردی کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔

قرآن شریف میں ایک عورت کی طرف سے حضرت یوسفؑ پر زنابالجبر کے الزام اور اس کے فیصلہ کی نظیر سورة یوسف میں موجود ہے اس سورة کے آغاز میں اسے ’’حقائق پر مشتمل بہترین بیان‘‘ قرار دیا۔ (یوسف:4) تو آخر سورة میں فرمایا کہ انبیاء کے واقعات کے بیان میں عقل مندوں کےلیے عبرت کا سامان ہے۔(یوسف:112) اس تناظرمیں اس نظیرسے بہترین رہنمائی اخذ کی جاسکتی ہے۔

واقعہ کے مطابق عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے اپنے کنعانی غلام حضرت یوسفؑ کوبَد ارادے سے اپنے گھر کے دروازے بندکرکے اپنی طرف بلایا جبکہ حضرت یوسفؑ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس سے بچنے کی خاطر دروازے کی طرف بھاگے تو وہ عورت بھی پیچھے بھاگی۔اس کشمکش میں حضرت یوسفؑ کا کرتہ پیچھے سے پھٹ گیا۔اتفاق سےعین موقع پرعزیز مصر بھی پہنچ گیا تو اس کی عورت نے الٹا حضرت یوسفؑ پر یہ الزام لگادیا کہ ایسے شخص کی سزا قید کے سوا کیا ہوسکتی ہے جوآپ کی بیوی سے بدی کا ارادہ کرے۔ حضرت یوسفؑ نے اس الزام سے انکار کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ دراصل اس عورت نے ہی میری مرضی کے خلاف بدی کرنا چاہی۔ اس پر افراد خانہ میں سے ایک گواہی دینے والے نے صاحب خانہ اور مالکہ کے رعب کے باوجودیہ گواہی دے دی اور اپنے بیان میں یہ کہا کہ اگر تو حضرت یوسفؑ کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو وہ جھوٹے اور عورت سچی ہے اور اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی اور حضرت یوسفؑ سچے ہیں۔جب عزیز مصر نے کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوادیکھا تو یہ فیصلہ سنایا کہ یہ عورتوں کی چالبازی ہے اور عورتوں کی چالبازی بہت بڑی ہوتی ہے۔

(یوسف:23تا29)

چار استنباط

قرآن کریم کے اس پُرحکمت بیان سے درج ذیل امور کا استنباط ہوتا ہے:

1. اس واقعہ سےقرائن کی شہادت کے جواز کا پتہ چلتا ہے کہ حسب ضرورت قرائن سے بھی شہادت اخذکی جاسکتی ہے یا اگر اکیلی گواہی میں نقص ہوتو گواہی کی تقویت کےلیے قرائن قویہ سے مزیدمدد لی جاسکتی ہے جیساکہ اس واقعہ کے صرف ایک گواہ نے گھر کی مالکہ کے رعب سے گول مول گواہی دی مگر ساتھ ہی کرتہ کے پیچھے سے پھٹا ہونے کے مضبوط قرینہ کابھی ذکرکردیا(جو دوسرے گواہ کا متبادل ٹھہرا)۔یوں مبہم گواہی کے ساتھ قرینہ قویّہ نے ایک فرد کی گواہی کو دوگواہوں کے برابرتقویت دے دی۔

2. اس واقعہ میں زنابالجبر کی شکایت کرنے والی مدعیہ کا وقوعہ کے فوری بعد شکایت کی صورت میں فیصلہ نسبتاً آسان ہوگیا۔جبکہ تاخیرکے نتیجہ میں شواہد و قرائن ضائع ہوجانے سے دونوں فریق کی حق تلفی یا نقصان کا احتمال ہوسکتاہے جیسے اس واقعہ میں پیچھے سے تازہ پھٹا ہوا کرتہ حضرت یوسفؑ کوالزام سے بری کرنے میں بطورقرینہ قویّہ ممدثابت ہوا۔

3. تیسری بات اس واقعہ سے یہ مستنبط ہوتی ہے کہ عورت باوجود کمزور اور مظلوم لائق ہمدردی طبقہ سمجھے جانےکے بعض دفعہ نفسانی خواہش سے چالبازی اور مکاری سے ظالم ہوکر جھوٹا الزام بھی لگا سکتی ہے۔

(یوسف:29-30)

4. عزیز مصر نے اپنے فیصلہ میں عورت کو ظالم اور خطاکار قرار دے کر اپنے گناہ کی معافی مانگنے کی نصیحت کی اور حضرت یوسفؑ کو بری قرار دے کر اس واقعہ کو بھول کر اعراض کرنے کامشورہ دیا (یوسف:30) تاکہ اس کی عورت کی عزت محفوظ رہے۔ مگر بعد میں عزیز مصر نے بیوی کے غلط اصرار اور ارادۂ گناہ کے عزم صمیم کے آثار دیکھ کر حضرت یوسفؑ کو کچھ عرصہ کے لیے قید کر دینے کا فیصلہ کیا۔ تو اس سے آزادی حضرت یوسفؑ نے اس وقت تک گوارا نہ کی جب تک زنا کی تہمت سے میری بریّت نہ ہو۔

ضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’یوسفؑ جو ایک نبی تھا اس پر ایک جھوٹا الزام اقدام زنالگاکر اس کو قید کیاگیا اور پھر مدت کے بعد معافی دی گئی تو اس نے اس معافی کو قبول نہ کیا۔حالانکہ نائب السلطنت کا عہدہ بھی ملتا تھا بلکہ صاف کہا کہ جب تک زنا کی تہمت ہے میری بریّت نہ ہومیں زنداں سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات صفحہ509)

سنت رسولؐ سے زنابالجبر کے بارہ میں رہنمائی

رسول کریمﷺ کے زمانہ میں زنابالجبر کا صرف ایک واقعہ ملتا ہے۔حضرت وائل بن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ کی ایک عورت رات کے وقت نماز پڑھنے آ رہی تھی کہ راستہ میں ایک شخص نے اسے زبردستی دبوچ لیا اور اس پر اپنی چادرڈال کربدکاری کی۔ اس عورت کے چلانے پر لوگ آگئے اور اس عورت نے جس راہگیر کی طرف اشارہ کیا کہ اس نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔انہوں نے اسے پکڑلیا۔اور رسول کریمﷺ کے پاس لے آئے جن آپؐ نے اس کے رجم کا حکم دیا یا دینے لگے تو وہ شخص جس نے اس سے زیادتی کی تھی،کھڑا ہوااور اعتراف جرم کرلیا۔رسول کریمﷺ نے اس عورت سے کہا کہ اللہ نے تمہیں بخش دیا اور دوسرے شخص کو کہا کہ تم نے اچھی بات کہی اور مجرم کے رجم کا حکم دیا اور فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ پر تقسیم کی جائے تو وہ ان سب کی طرف سے قبول ہوجائے۔

(ترمذی ابواب الحدود باب فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا وابوداؤد)

فنّی لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے۔خودامام ترمذی نے اس حدیث کے بارہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ غریب روایت ہے اور اس کی سند متصل نہیں۔

(ترمذی ابواب الحدود باب فی المرأۃ اذا استکرھت علی الزنا)

درایتاًبھی اس روایت میں کمزوری پائی جاتی ہے جیساکہ راوی کے مطابق عورت نے جس شخص پر الزام لگایا آنحضورﷺ نے تحقیق مزید کے بغیر اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا۔ جو رسول اللہﷺکے سابقہ دستور اور ارشادات کے سراسرخلاف ہے۔کیونکہ یہ صرف اس صورت میں ممکن تھا جب وہ شخص خوداعتراف کرتا یا عورت کوئی بیّنہ پیش کرتی۔ مگر ماخوذ غیرمجرم شخص کے انکار کے باوجود نبی کریمﷺ کبھی اس کے رجم کا فیصلہ نہیں فرما سکتے تھے اور نہ ہی آپؐ نے ایسا کیا۔ اس لیے لازماً آپ نےتحقیق کےلیے توقف فرمایا ہوگا جس کا روایت میں ذکر نہیں۔اس کے بعد اصل مجرم کے پیش ہونے پر اسے ہی سزا ہوئی۔ چنانچہ یہی بات اس حدیث کی تشریح میں علماء سلف نے بھی لکھی ہے:
’’اور یہ بات مخفی نہیں کہ محض ایک عورت کے دعویٰ زنابالجبر پر کسی شخص کو رجم کا فیصلہ سنانا بظاہر مشکل امر ہے کیونکہ رجم کا حکم بغیر کسی دلیل و شہادت یا مجرم کے اعتراف کے بغیر نہیں ہوسکتا اور محض عورت کا دعویٰ دلیل نہیں ہوتا بلکہ وہ الزام لگانے کی صورت میں حد قذف اور اسّی کوڑوں کی سزا کی مستحق ہوتی ہے۔پس راوی کے الفاظ کہ ’’رجم کا حکم دے دیا‘‘ کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ جب آپؐ رجم کا فیصلہ سنانے لگے۔ راوی نے یہ ظاہری معاملہ دیکھتے ہوئے محض آخری فیصلہ کا ذکر کردیا کہ مجرم کو امام کے پاس فیصلہ کےلیے لے جایا گیا اور امام اس کی تحقیق و تفتیش میں مصروف ہوا جس کے بعد فیصلہ سنایاگیا۔‘‘

(عون المعبود (شرح ابوداؤد)وحاشية ابن القيم جزء 12صفحہ 28)

اس واقعہ سے دوسری یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ عورت کی طرف سے زنابالجبر کے الزام میں غلطی کے امکان کی گنجائش ہوسکتی ہے اس لیے جب ملزم کے انکارکی صورت میں مزید شواہد و قرائن کی جانچ کے بغیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور بعد تحقیق کوئی شواہد و قرائن نہ ملنے پر آخری صورت یہی رہ جاتی ہے کہ جس پر الزام ہو وہ قسمیں کھا کر بری الذمہ ہوجائے اورجھوٹے فریق کا فیصلہ خدا تعالیٰ کے قہر و عذاب پر چھوڑدیا جائے۔

(علامہ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر