• 23 اپریل, 2024

یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’آجکل پردہ پر حملے کئے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی پردہ سے مراد زندان نہیں۔‘‘ (یعنی قید خانہ نہیں ہے) ’’بلکہ ایک قسم کی روک ہے کہ غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکے۔ جب پردہ ہو گا ٹھوکر سے بچیں گے۔ ایک منصف مزاج کہہ سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں جہاں غیر مرد و عورت اکٹھے بلاتأمّل اور بے محابا مل سکیں، سیریں کریں کیونکر جذباتِ نفس سے اضطراراً ٹھوکر نہ کھائیں گے۔ بسا اوقات سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسی قومیں غیر مرد اور عورت کے ایک مکان میں تنہارہنے کو حالانکہ دروازہ بھی بند ہو کوئی عیب نہیں سمجھتیں۔ یہ گویا تہذیب ہے۔ انہی بدنتائج کو روکنے کے لئے شارع اسلام نے وہ باتیں کرنے کی اجازت ہی نہ دی جو کسی کی ٹھوکر کا باعث ہوں۔ ایسے موقع پر یہ کہہ دیا کہ جہاں اس طرح غیر محرم مرد وعورت ہر دو جمع ہوں تیسرا اُن میں شیطان ہوتا ہے۔ ان ناپاک نتائج پر غور کرو جو یورپ اس خلیع الرسن تعلیم سے بھگت رہا ہے۔ بعض جگہ بالکل قابل شرم طوائفانہ زندگی بسر کی جارہی ہے۔ یہ انہی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ اگر کسی چیز کوخیانت سے بچانا چاہتے ہو تو حفاظت کرو۔ لیکن اگرحفاظت نہ کرو اور یہ سمجھ رکھو کہ بھلے مانس لوگ ہیں تو یاد رکھو کہ ضرور وہ چیز تباہ ہو گی۔ اسلامی تعلیم کیسی پاکیزہ تعلیم ہے کہ جس نے مردو عورت کو الگ رکھ کر ٹھوکر سے بچایا اور انسان کی زندگی حرام اور تلخ نہیں کی جس کے باعث یورپ نے آئے دن کی خانہ جنگیاں اور خود کُشیاں دیکھیں۔ بعض شریف عورتوں کا طوائفانہ زندگی بسر کرنا ایک عملی نتیجہ اُس اجازت کا ہے جو غیر عورت کو دیکھنے کے لئے دی گئی۔‘‘

(ملفوظات جلداول صفحہ 34-35 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر پردہ کے طریق کے بارے میں آپ نے بتایا کہ کس طرح پردہ ہونا چاہئے؟ فرمایا کہ:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مَردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُرشہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے سَتر کی جگہ کو پردے میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر مَحرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آ جائے۔ یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 341-342)

یہاں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ بعض عورتیں یہ بھی سوال اٹھا دیتی ہیں کہ ہم نے میک اَپ کیا ہوتا ہے اگر چہرے کو نقاب سے ڈھانک لیں تو ہمارا میک اَپ خراب ہو جاتا ہے۔ تو کس طرح پردہ کریں۔ اوّل تو میک اَپ نہ کریں تو پھر یہ پردہ، کم از کم پردہ ہے جس کا معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا کہ چہرہ، ہونٹ ننگے ہو سکتے ہیں۔ باقی چہرہ ڈھانکا ہو۔ (ماخوذ از ریویو آف ریلیجنز جلد 4 نمبر 1 صفحہ 17 ماہ جنوری 1905ء) اور اگر میک اَپ کرنا ہے تو بہرحال ڈھانکنا ہو گا۔ ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر چلتے ہوئے اپنی زینت کو چھپانا ہے یا دنیا کو اپنی خوبصورتی اور اپنا میک اَپ دکھانا ہے۔

جن کے سامنے زینت ظاہر کرنے کا حکم ہے وہ قریبی رشتہ دار ہیں، بہن بھائی ہیں، خاوند ہے، باپ ہے، ماں ہے، ان کے بچے ہیں۔ ان کے سامنے بھی صرف یہ ہے کہ ان سے پردہ نہیں ہے۔ میک اَپ وغیرہ اگر ہو سکتا ہے تو ان کے سامنے تو ہو سکتا ہے اس کے علاوہ نہیں۔ زینت ظاہر کرنے کا حکم جن کے سامنے ہے اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دے دی اور وہ تمام رشتے بیان کر دئیے ہیں اور یہ زینت بھی وہ ہے جو خود بخود ظاہر ہوتی ہو یعنی اس قسم کی زینت جیسے شکل ہے، قدکاٹھ وغیرہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے سامنے بھی گھر میں بھی تنگ جِین اور بلاؤز پہن کے پھر رہی ہوں یا ننگا لباس ہو۔ یہ پردہ مَحرم رشتہ داروں کے لئے بھی ہے۔

اسی طرح ایک اور بات مَیں مربّیان اور ان کی بیویوں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی اپنے لباس اور اپنی نظروں میں بہت زیادہ احتیاط کریں۔ ان کے نمونے جماعت دیکھتی ہے۔ مربی اور مبلغ کی بیوی بھی مربی ہوتی ہے اور اس کو اپنی ہر معاملے میں اعلیٰ مثال قائم کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے مرد بھی اور ہماری عورتیں بھی حیا کے اعلیٰ معیاروں کو قائم کرنے والے ہوں اور اسلامی احکامات کی ہر طرح ہم سب پابندی کرنے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جنوری 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی Wittlich کی مسجد میں تشریف آوری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2023