• 5 مئی, 2024

دنیاوی خواہشات و ترجیحات کی گٹھڑی

دنیاوی خواہشات و ترجیحات کی گٹھڑی
رمضان میں روحانی فلائیٹ بھرنے کی تیاریاں

خاکسار کو مؤرخہ 23؍ دسمبر2022ء کو مسجد مبارک اسلام آباد یوکے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتداء میں نماز جمعہ پڑھنے کی توفیق ملی۔ حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ میں قادیان اور افریقہ کے بعض ممالک میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ کے شرکاء کو بالخصوص مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا۔ جن سے آپؑ کی بعثت اور جماعت کے مقاصد بیان ہوئے ہیں تا بہت سے نو مبائع اور نئی نسل کے احمدی جوان جلسوں میں شامل ہو رہے ہیں ان کو معلوم ہو اور وہ اپنے ایمان و یقین اور اخلاص میں ترقی کر سکیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کو ہم میں سے ہر ایک نے کئی دفعہ پڑھا اور سنا ہے لیکن جب یہ الفاظ حضرت خلیفۃ المسیح کی زبان مبارک سے پھول بن کر جھڑتے ہیں تو دل پر براہ راست اثر کر رہے ہوتے ہیں۔ محولہ بالا خطبہ جمعہ میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ الفاظ دل پر براہ راست اترے جس میں حضورؑ فرماتے ہیں کہ اپنے سروں سے دنیا کی خواہشات اور ترجیحات کی گٹھڑی اتار پھینکیں۔ خاکسار نے سوچا کہ انہی الفاظ کو عنوان بنا کر اداریہ لکھوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد پڑھتے ہوئے فرمایا۔
’’ اصل توحید کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو اور یہ محبت ثابت نہیں ہو سکتی جب تک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا ہے۔ چینی یا شکر کا نام لیتا ہے تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جائے۔ میٹھا تو نہیں ہو جاتا وہ۔یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے مگر مصیبت اور وقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی اقرار ہی موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں۔ نہیں۔ میری غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو یعنی خدا تعالیٰ ہر چیز پر مقدم ہو۔ اس کے احکامات ہر چیز پر مقدم ہوں۔ اس کا بھیجا ہوا دین ہر چیز پر مقدم ہو اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہو۔ فرمایا اور یہی اسلام ہے یہی وہ غرض ہے جس کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس چشمہ کے نزدیک نہیں آتا جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے جاری کیا ہے وہ یقینا ًبے نصیب رہتا ہے۔ اگر کچھ لینا اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہئے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کے سامنے غیریت کا چولہ اتار کر آستانہ ربوبیت پر گر نہ جاوے اور یہ عہد نہ کر لے کہ خواہ دنیا کی وجاہت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا، کچھ بھی ہو جائے اللہ تعالیٰ کو نہیں چھوڑنا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بہت سے ابراہیم بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ولی پرست نہ بنو بلکہ ولی بنو اور پیر پرست نہ بنو بلکہ پیر بنو۔ تم ان راہوں سے آؤ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔ یعنی اپنا مقام وہ بناؤ۔ یہ نہیں کہ پیری مریدی شروع کر دو بلکہ اپنے آپ کو اس سطح پر لے کر جاؤ جہاں ولی بنے انسان کہلائے۔ جہاں لوگ کہیں کہ ہاں یہ وہ شخص ہے جو نیک کام کرتا ہے اس کی پیروی کرنی چاہئے۔ فرمایا کہ تم ان راہوں سے آؤ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں لیکن ان سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازے سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ یعنی اگر دنیاوی خواہشات کی اور دنیاوی ترجیحات کی گٹھڑی سر پہ اٹھائی ہوئی ہے اور دنیا غالب ہے دین پیچھے ہے۔ تو پھر یہاں سے گزرنا بہت مشکل ہے۔ اگر گزرنا چاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہئے کہ اس کو پھینک دے۔ تم یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم میں وفا داری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفا داری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھا سکتا اور نہ کوئی اسے فریب دے سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔‘‘

( خطبہ جمعہ23؍ دسمبر2022ء)

گٹھڑی بالعموم ایک کپڑے میں اپنا مال و متاع یا جمع پونجی باندھ کر انسان کاندھوں پر یا اپنے سر پر اٹھا لیتا ہے۔ پرانے وقتوں میں جب سوٹ کیس یا بیگوں کا رواج نہ تھا تو سفر میں گٹھڑی میں سامان باندھ کر لے جایا جاتا تھا۔ پوٹلی، پلندہ، بستر جامہ یا بقچہ باندھنا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ گٹھڑی اچھے صاف ستھرے مال و متاع کی بھی ہو سکتی ہے اور چوری کے مال یا رف، ناکارہ چیزوں کی بھی ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت ہی عمدہ اور احسن پیرائے میں مومنین کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح ایک انسان اس مادی دنیا میں اپنے لیے جمع پونجی اکٹھی کرتا ہے اسی طرح ایک مومن روحانی معنوں میں اس دنیا کے لیے اور اُخروی زندگی کے لیے بھی مال و متاع جمع کرتا رہتا ہے۔ اچھا اور نیکیوں پر مشتمل مال و متاع اسے اُخروی زندگی میں فائدہ دے گا مگر اس کے ایسے بد اعمال جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں وہ ان کو ساتھ لے کر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک بوجھ ہوتے ہیں جن کو ساتھ لے کر چلا نہیں جا سکتا۔ یہاں یورپ میں پیدل چلنے کا رواج بہت زیادہ ہے اور بالعموم دیکھا گیا ہے کہ وہ ہلکے پھلکے ہو کر سفر کرتے ہیں، پیدل چلتے ہیں۔ کسی قسم کا بوجھ گٹھڑی کی صورت میں ساتھ نہیں ہوتا۔ ہمارے ایشین ممالک میں سفر کے لوازمات ہی بہت زیادہ ہیں۔ اتنا بوجھ اپنے ساتھ رکھ لیتے ہیں رخت سفر باندھتے وقت کہ ہر مسافر کے ہاتھ میں بیگ، ٹرنک، گٹھڑی ہوتی ہے اور کچھ سامان کندھوں پر بھی جو بسا اوقات اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات دوسرے کی مدد لینی پڑتی ہے۔ بعض اوقات بطور قلی کسی شخص کو ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔ اس سامان کو اگر سوچ سمجھ کر پیک کیا جائے تو کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی اشیاء جن کے بغیر سفر میں گزارار ہو سکتا ہے ان کو اپنے سے الگ کر کے سامان کو ہلکا کیا جا سکتا ہے۔

آج کل کی مہذب دنیا میں بسوں اور ٹرینوں میں بالخصوص ہوائی جہاز کے سفر کے لیے سامان کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ میں نے بعض ائیر پورٹس پر دیکھا ہے کہ جہاز میں جتنا سامان لے کر جانے کی اجازت ہوتی ہے اس سے ایک دو کلو کا مارجن رکھ کر سامان کو جہاز تک لے جانے والی بیلٹس کو Fixکردیا ہوتا ہے اور وہ اس سے زائد بوجھ لے کر چلتی ہی نہیں ہیں۔ اس کو ہم ex Excess Luggage بولتے ہیں۔ جس کے لیے زائد رقم بطور penalty کے ادا کی جاتی ہے۔ عملاً ہوائی کمپنیاں دبے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ ہلکے پھلکے ہو کر سفر کرو۔ جتنا سامان allowہے وہی اپنے پاس رکھو اور زائد سامان اپنے سے الگ کر دو۔ کیونکہ جہاز کی اپنی Capacity بھی اتنی ہوتی ہے کہ اس سے زائد سامان وہ ساتھ لے کر نہیں جا سکتا ورنہ بہت بڑے نقصان کا احتمال ہوتا ہے۔ بحری جہاز اپنی Capacityسے زائد سامان لے کر اگر جائے گا تو ڈوب جائے گا۔

یہی وہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گٹھڑی کے الفاظ استعمال کر کے سمجھایا ہےکہ روحانی زندگی بھی ایک سفر کا نام ہے۔ ایک روحانی فلائٹ ہے۔ ہم نے روحانی بلندیوں کا سفر کرنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ، اس کی کتاب قرآن کی طرف کا روحانی سفر ہے۔ ان سفروں میں ہم گناہوں، بدیوں کی پوٹلیوں اور گٹھڑیوں کے ساتھ بآسانی سفر نہیں کر سکتے۔ ہمیں Excess Luggage اپنے سے جدا کر کے اپنا دینی سفر کرنا ہے اور رمضان المبارک بطور ائیر پورٹ کے قریب آرہا ہے جہاں ہم نے اپنی روحانی فلائٹ بھرنے کے لیے اپنا خود کا وزن کرنا ہو گا اوراپنے سے غلط قسم کے جو بوجھ ہیں کو اتارنا ہو گا۔ ان کو اپنے سے جدا کرنا ہو گا۔ تاکہ Check inہو کر ہم رمضان میں داخل ہوں اور روزوں کی، تقویٰ کی، نیکی کی، حب اللہ کی، حب رسولؐ کی، حب قرآن کی، حب مسیح موعودؑ کی، حب خلیفۃ المسیح کی، حب انسانیت کی، حب مخلوق کی فلائٹ لے کر اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا سفر اختیار کریں اور جس طرح جہاز اپنے اندر انسانوں کو لے کر بلندیوں پر جاتا ہے اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کو ہوائی جہاز بن کر اس رمضان میں اپنے ساتھ کئی انسانوں کو ارفع و اعلیٰ مقام کی سیر کروانے کے لیے ساتھ رکھنا ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس روحانی فلائٹ کے لیے ابھی سے اپنا سامان تیار کریں جو ہمارے ساتھ جا سکے اور جس طرح ہر انسان ائیر پورٹ پر Check inہونے سے پہلے اور اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان کا کمزور کیوں نہ ہو یہ دعا ضرور کرتا ہے کہ اس کا سامان کا وزن بالکل صحیح ہو اور سفر بخیر و عافیت ختم ہو۔ تو رمضان بھی ایک Check inہے جس کے لیے ابھی سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا روحانی سفر خیرو عافیت سے گزرے اور جس طرح جہاز اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے آہستہ آہستہ رن وے پر چلتا ہے اور پھر کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہے اور اپنے تیز دوڑنے کے لئے، اپنی اونچی پروازبھرنے کے عزم باندھتا ہے، پائلٹ بھی اپنی تمام توجہ پرواز کی طرف کرتا ہے اڑنے کا عزم باندھتا ہے اور پھر وہ تیزی کے ساتھ فلائی کر جاتا ہے بالکل اسی طرح روحانی بندوں کو بھی رمضان سے پہلے رک کر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اپنی روحانی فلائٹ کے لیے عزم باندھنے چاہئیں اور پھر رمضان کے دوران اپنی کوششوں کو اونچی پرواز کے لیے تیز کر دینا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کی برکات کے حصول کے لیے تیاری کرنے کی توفیق دے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی Wittlich کی مسجد میں تشریف آوری

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2023