اپنے جائزے لیں
ازارشادات حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ (سال 2020ء)
قسط 22-24
تقویٰ پر چلتے ہوئے جائزہ
اگر گہرائی میں جا کر، تقویٰ پر چلتے ہوئے کوئی اپنا جائزہ لے تو پتا چلتا ہے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے یا عارضی طور پر فدیہ دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر آگے مزید وضاحت فرما دی کہ مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تنگی نہیں چاہتا اور جب بیماری دور ہو جائے تو پھر چھوڑے ہوئے روزے پورے کرو۔ سفر کے دوران جو روزے چھوٹ گئے انہیں پورا کرو چاہے فدیہ دے بھی دیا ہو۔ پس گھوم پھر کر بات وہیں آ جاتی ہے کہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ وہ ہماری حالتوں کو جانتا ہے اپنے فیصلے کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے بہتر صورت پیدا کرے گا، بہتر نتائج پیدا کرے گا۔
(خطبہ جمعہ 24؍ اپریل 2020ء)
حقوق اللہ اورحقوق العباد کا باریکی سے جائزہ
حقوق اللہ کیا ہیں اور حقوق العباد کیا ہیں؟ اس کی فہرست بنانے لگیں تو انسان پریشان ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ہے جو ہم ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے جتنے ہم پر احسان ہیں اس کا حق بنتا ہے کہ اس کی شکر گزاری کی جائے۔ یہ شکر گزاری کا حق ہم ادا نہیں کرتے اور نہ کر سکتے ہیں اور اس کے بغیر ہی اکثر لوگ تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں جیسے کہ یہ ہمارا حق ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو ہماری حالتوں اور ناشکرگزاری کے باوجود ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے عہد ہیں جو ہم نے خدا تعالیٰ سے کیے ہیں ان کو ہم پورا نہیں کرتے۔ مخلوق کے حقوق ہیں، والدین کے حقوق ہیں، ہمسائے کے حقوق ہیں، مسافروں کے حقوق ہیں، معاشرے کے عمومی حقوق ہیں جنہیں ہم ادا نہیں کرتے۔ جنہیں ہمیں ادا کرنے کا حکم ہے اور ہم اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر ہم باریکی سےجائزہ لیں تو نہ ہم اللہ تعالیٰ کے حق ادا کر رہے ہیں اور نہ بندوں کے۔ میں نے ایک عمومی فہرست بنوائی تھی جس میں بعض موٹے موٹے حقوق ہی رکھے تھے تو جو بندوں کے حقوق ہیں، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ہیں وہ بھی تقریباً اٹھائیس انتیس بن گئے تھے۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اصل ایمان تو یہ ہے اور تقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد بھی پورے کرو اور باریکی میں جا کر پورے کرو اور اسی طرح اس کی امانتوں کے حق بھی ادا کرو اور باریکی میں جا کر ادا کرو۔ اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کروتب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔
(خطبہ جمعہ 24؍ اپریل 2020ء)
دوسروں کی کمزوریوں کے بجائے
اپنی حالتوں کا جائزہ لیں
ایک دنیا کا ماحول جو عمومی طور پر اس وبا کی وجہ سے بنا ہوا ہے اور ایک رمضان کا ماحول اب ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والا بنا رہنا چاہیے۔ رمضان تو کل یا پرسوں چلا جائے گا، ختم ہو جائے گا لیکن اس کی نیکیاں ہمیں ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں۔ وہ پاک تبدیلیاں جو ہم نے کی ہیں وہ ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں اور پھر جب لاک ڈاؤن میں نرمی آئے تو ہمیں اپنی ذاتی بھی اور انسانیت کے لیے بھی ذمہ داریوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جہاں خود اللہ تعالیٰ کا حق اور بندوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں وہاں دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں اور اپنے پاک نمونوں سے دنیا کو خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والا بنانے کی کوشش کریں۔ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپؑ کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جہاں آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں ہمارے مقام و معیار کی طرف توجہ دلانے کی کوشش نہ فرماتے ہوں۔ پس ہمیں ہر وقت آپ کی نصائح کی جگالی کرتے رہنا چاہیے تا کہ حقیقی ایمان و ایقان ہمیں حاصل ہو۔ دوسروں کی کمزوریوں کی طرف نظر رکھنے کی بجائے ہم اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے رہیں۔
(خطبہ جمعہ 22؍ مئی 2020ء)
جائزے لیں کہ مال کی وجہ سے
دین تو نہیں بھول رہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے جزیہ کی شرط پر صلح کی تھی اور ان پر حضرت عَلَاء بن حَضْرَمِیؓ کو امیر مقرر فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہؓ کو وہاں جزیہ لینے کے لیے بھیجا۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ جزیہ لے کر واپس آئے اور لوگوں کو ان کی واپسی کا علم ہوا تو صبح فجر کی نماز سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھا کر جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ لگتا ہے تمہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ابوعبیدہؓ کچھ لائے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: جی یا رسول اللہؐ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس خوش ہو جاؤ اور اس کی امید رکھو جو تمہارے لیے بہتر ہے۔ مَیں تمہارے بارے میں محتاجی سے نہیں ڈرتا بلکہ مَیں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے اور پھر تم بڑھ چڑھ کر حرص کرنے لگ جاؤ۔ (صحیح بخاری کتاب الجزیہ و المواعدہ باب الجزیۃ و المواعدۃ مع اہل الذمۃ و الحرب، حدیث نمبر 3158) جوں جوں دنیاداری میں پڑو گے، دنیاوی آسائشیں تمہیں مہیا ہوں گی میسر آئیں گی تو حرص میں پڑ جاؤ گے اور وہ تمہیں ہلاک کر دے۔ یہ خوف ہے مجھے۔ بھوکے رہنے کا خوف کم ہے۔ یہ خوف ہے کہ دنیا داری میں پڑ کے، حرص کر کے تم کہیں اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلو۔ پس یہ تنبیہ ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور اس کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت جن کے پاس پیسہ آتا جن میں ہمارے لیڈر بھی شامل ہیں وہ اس لالچ میں پیش پیش ہیں۔ ان کی دنیا کی لالچ بےشمار بڑھ چکی ہے۔ خدا کا نام تو لیتے ہیں لیکن فوقیت دنیاوی مال و حشمت کو ہے۔ پس ہمیں اس لحاظ سے اپنی حالتوں کا ہمیشہ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مال تو آئیں گے لیکن ہمیں اس مال کی وجہ سے اپنے دین کو نہیں بھول جانا چاہیے۔
(خطبہ جمعہ 2؍ اکتوبر 2020ء)
سال 2021ء
قسط 23
ہمیں اپنی حالتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔
ماننے کے بعد کہیں ہماری توجہ دوبارہ دنیا کی طرف تو نہیں ہو گئی
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو! خدا تعالیٰ کا نام غفور ہے۔ پھر کیوں وہ رجوع کرنے والوں کو معاف نہ کرے؟ اِس قسم کی غلطیاں ہیں جو قوم میں واقع ہوگئی ہیں۔ انہیں غلطیوں (میں) سے جہاد کی غلطی بھی ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ جہاد حرام ہے تو کالی پیلی آنکھیں نکال لیتے ہیں حالانکہ خود ہی مانتے ہیں کہ جو حدیثیں خونی مہدی کی ہیں وہ مخدوش ہیں۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس باب میں رسالے لکھے ہیں۔‘‘تسلیم کیا ہے حدیثوں کے مخدوش ہونے کے بارے میں۔ ’’اور یہی مذہب میاں نذیر حسین دہلوی کا تھا۔‘‘ آجکل بھی بعض علماء اب یہی کہنے لگ گئے ہیں۔ ’’وہ ان کوقطعی صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر مجھے کیوں کاذب کہا جاتا ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ مسیح موعود اور مہدی کا کام یہی ہے کہ وہ لڑائیوں کے سلسلہ کو بند کرے گا اور قلم، دعا، توجہ سے اسلام کا بول بالا کرے گا۔‘‘ پس یہ قلم اور دعا اور توجہ یہی کام اب آج آپ کے ماننے والوں کا بھی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ‘‘اور افسوس ہے کہ لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی اس لئے کہ جس قدر توجہ دنیا کی طرف ہے دین کی طرف نہیں۔’’ ہمیں بھی اپنی حالتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ ماننے کے بعد کہیں ہماری توجہ دوبارہ دنیا کی طرف تو بہت زیادہ نہیں ہو گئی۔‘‘
(خطبات مسرورجلد 19(غیر مطبوعہ) صفحہ 192-193 خطبہ جمعہ 26؍ مارچ 2021ء)
اپنے ایمانوں کا جائزہ لو کہ
کتنے مضبوط ایمان ہیں تمہارے
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اس وقت میں دعاؤں کے حوالے سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض فرمودات پیش کر کے اس کی اہمیت اور ہمیں جو اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا چاہیے اس کے متعلق قبولیت دعا کی شرائط کیا ہیں اور اس کا فلسفہ اور اس کی گہرائی کے بارے میں جو آپؑ نے بیان فرمایا اس میں سے کچھ پیش کروں گا۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو سطحی طور پر دعا کر کے پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول نہیں کیں۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم نے ایک کام کہا جس کو اسے ماننا چاہیے تھا۔ یعنی نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ ان کے حکموں کا پابند ہے۔ جو چاہیں وہ کہیں، جس طرح چاہیں وہ کہیں، جو چاہیں ان کے عمل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ پابند ہے کہ ہماری باتیں سنے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا یہ نہیں ہو گا۔ پہلے تمہیں میری باتیں ماننی ہوں گی۔ اپنے عملوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ رمضان کے مہینے میں جب نیکیوں کا ماحول بنا ہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے تو میری ہدایات اور احکامات کو دیکھو! غور کرو! سنو اور ان پر عمل کرو۔ اپنے ایمانوں کا جائزہ لو کہ کتنے مضبوط ایمان ہیں تمہارے۔ کسی مشکل میں پڑنے پر، ابتلا آنے پر ایمان متزلزل تو نہیں ہو رہے ؟ بہرحال یہ ایک ایسا مضمون ہے جس میں قدم بندے نے ہی پہلے اٹھانا ہے اور جب اس کی انتہا ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت جوش میں آتی ہے، اس کا فضل جوش میں آتا ہے۔ پس اس بات کو سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ ‘‘
(خطبات مسرورجلد 19(غیر مطبوعہ) صفحہ 231۔خطبہ جمعہ 16 اپریل 2021ء)
ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ
ہماری ایمانی حالت کیا ہے؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اپنا عہد جو ہم نے کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اس پر حقیقی روح کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے ان انعاموں سے حصہ لینے والے ہوں گے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور تبھی ہم خلافت کے انعام سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے۔ پس یہ آیت مومنوں کے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے لیکن ساتھ ہی ہمارے لیے فکر کا مقام بھی ہے کیونکہ جو شرائط ہیں اگر اس پر پورا نہیں اتر رہے تو پھر اس انعام سے حقیقی طور پر فیض نہیں پا سکتے۔ اگر نماز، زکوٰة، حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں، حقوق العباد کی ادائیگی نہیں تو پھر جیسا کہ ذکر ہوا اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کرنے والے نہیں بن سکتے۔ پس صرف اپنی تاریخ سے واقفیت حاصل کر لینا اور یومِ خلافت منا لینا کافی نہیں ہے جب تک ہم حقیقی عبد نہیں بن جاتے۔ پس جب تک ہم اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے نہیں بن جاتے، بندوں کے حق ادا کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے نہیں بن جاتے، اس وقت تک ہمارا یہ یومِ خلافت منا لینا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری ایمانی حالت کیا ہے؟ کیا ہم میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہے؟کیا ہم تقوٰی کی باریک راہوں پر چلنے والے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ سے ہر چیز سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل فرمانبرداری کرنے والے ہیں؟ اور پھر ساتھ ہی ہماری نظر اپنے عمل کی طرف پھرنے والی ہونی چاہیے کہ کیا ہمارا ہر عمل اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق ہے؟ ہمارے عمل کہیں دکھاوے کے عمل تو نہیں؟ ہماری نمازیں کہیں دکھاوے کی نمازیں تو نہیں؟ ہمارا مال خرچ کرنا، زکوٰة دینا کہیں دکھاوا تو نہیں؟ ہمارے روزے کہیں دکھاوے کے روزے تو نہیں؟ ہمارے حج صرف حاجی کہلانے کے لیے تو نہیں؟ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی کامل فرمانبرداری تو تب ہو گی، دلی سکون اور امن تو تب ملے گا جب ہمارا ہر عمل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے ہو گا اور تبھی وہ معاشرہ خلافت کے زیرِسایہ قائم ہو گا جب ہمارا ہر عمل حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے والا ہو گا۔ پس صرف زبانی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا ہو گا کہ وہ ایمان لانے والے اس سے فیض اٹھائیں گے جن کے عمل صالح ہوں گے۔‘‘
(خطبات مسرورجلد 19(غیر مطبوعہ) صفحہ 311 خطبہ جمعہ28؍ مئی 2021ء)
اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم
اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ ہر احمدی کا ہر لمحہ جہاں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری میں گزرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے وہاں اپنے جائزے لیتے ہوئے بھی گزرنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں؟ اور جب اس سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور پھر اپنے عملوں کو بھی اس کے مطابق کریں گے اور خلافت کے قائم رہنے کے لیے دعائیں بھی کر رہے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بھی بنتے چلے جائیں گے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو تسلی بھی دی کہ خلافت کا نظام جاری رہے گا اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو جو خوشخبریاں دی ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اگر ہم ان شرائط کو پورا کرنے والے ہیں۔ ‘‘
(خطبات مسرورجلد 19(غیر مطبوعہ) صفحہ 313 خطبہ جمعہ28؍ مئی 2021ء)
اپنے جائزے لیں کہ کس طرح وہ اپنی کمیاں دور کر سکتے ہیں اور کمی دور کر کے مہمان نوازی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں ؟
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘ یہ وہ حسن ظن ہے جو آج بھی سب خدمت کرنے والوں پر ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت خدمت کرنے والے اس حسن ظن پر پورے اترنے والے ہیں اور جن میں کوئی کمی ہے وہ خود اپنے جائزے لیں اور دیکھیں کہ کس طرح وہ اپنی کمیاں دور کر سکتے ہیں اور کمی دور کر کے مہمان نوازی کے معیار کو بڑھا سکتے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ بعض شعبہ جات کے کارکنان کو بعض مہمانوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہمارا کام ہے کہ خوش خلقی کو کبھی نہ چھوڑیں۔ اس کا مظاہرہ کریں۔ ’’
(خطبات مسرورجلد 19(غیر مطبوعہ) صفحہ 458 خطبہ جمعہ6؍ اگست2021ء)
سال 2022ء
قسط 24
جائزے لیں کہ کیا تقویٰ کا حق ادا کررہے ہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو پھر سنو کہ ایمان کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور پھر فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟
پھر اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔ اب اگرہم جائزہ لیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ہمیں اپنے جائزہ سے یہ پتہ چل جائے گا کہ کیا ہم تقویٰ کا حق ادا کرتے ہوئے حقوق اللہ کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ کیا ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا کر رہے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ بات کہ تقویٰ کیا ہے اس وقت تک پتہ نہیں چل سکتی جب تک ان باتوں کا مکمل علم نہ ہو۔ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم کے کوئی چیز حاصل ہی نہیں ہو سکتی، اس کو آدمی پا ہی نہیں سکتا۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے حق ہیں؟ کیا بندوں کے حق ہیں؟ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے؟ کن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کے لیے بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔ فرمایا اور تمہیں چاہیے کہ جب قرآن شریف پڑھ رہے ہو تو بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جاؤ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہو گا۔
(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2022ء)
گھانا کے جیلوں کی جائزہ رپورٹ
بدعات کے پھیلنے اور تقویٰ سے دوری کا ذکر کرتے ہوئے آپ (حضرت مسیح موعود۔ ناقل ) فرماتے ہیں کہ ‘‘ہزارہا قسم کی بدعات ہر فرقہ اور گروہ میں اپنے اپنے رنگ کی پیدا ہو چکی ہیں۔ تقویٰ اور طہارت جو اسلام کا اصل منشاء اور مقصود تھا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطرناک مصائب برداشت کیں جن کو بجز نبوت کے دل کے کوئی دوسرا برداشت نہیں کر سکتا وہ آج مفقود و معدوم ہو گیا ہے۔ جیل خانوں میں جا کر دیکھو کہ جرائم پیشہ لوگوں میں زیادہ تعداد کن کی ہے۔’’یعنی جرائم پیشہ لوگ جو ہیں ان میں کن کی تعداد ہے آپ اس طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جرائم پیشہ مسلمان زیادہ ہیں۔ گھانا میں ہمارے ایک منسٹر تھے۔ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں وہ بتایا کرتے تھے کہ ہماری میٹنگ ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ ہماری جیلوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے کہا میں احمدی ہوں اور میں یہ چیلنج کرتا ہوں کہ ان مسلمانوں میں سے تم دیکھ لو گے کہ احمدی کوئی نہیں ہو گا یا احمدی ہوں گے تو اس نسبت کے لحاظ سے بالکل برائے نام اور جب جا کے جائزہ لیا گیا تو یہی بات صحیح نکلی۔ تو حقیقی مومن، حقیقی احمدی کی یہ نشانی ہے اور یہ پھر تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر اس چیز کو ہم اپنے سامنے رکھیں اور ہر معاملے میں، ہر عمل میں، اپنے کاروباروں میں، اپنی نوکریوں میں، اپنی روزمرہ کی لوگوں کے ساتھ dealingمیں اپنے اعلیٰ اخلاق دکھلانے والے ہوں، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے والے ہوں۔ تقویٰ دل میں پیدا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں، اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والے ہوں تو پھر جہاں یہ ہماری اصلاح کا باعث بنے گی وہاں تبلیغ کا بھی ایک خاموش ذریعہ بن جاتی ہے۔
(خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2022ء)
جائزہ لیں کہ برائیوں کے خاتمے کے لئے
بھرپورکوشش ہورہی ہے
ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا برائیوں کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کرر ہے ہیں؟ کیا نیکیوں کے اپنانے کے لیے بھرپور کوشش ہو رہی ہے؟ کیا عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟
(خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2022ء)
جائزہ لیں کس حد تک ہم
خداتعالیٰ کے حق ادا کررہےہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’اعمال کے لیے اخلاص شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ۔ یہ اخلاص ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابدال ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’…خوب یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاوے خدا تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 8 صفحہ 354-355 ایڈیشن 1984ء) پس یہ وہ گُر ہے جسے اپنانے کی ضرور ت ہے۔ ہم خود تو اللہ تعالیٰ کے حق ادا نہیں کرتے اور کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں نہیں سنتا، بعض لوگوں کو یہ بھی شکوہ رہتا ہے۔ جائزہ لیں، دیکھیں کس حد تک ہم نے خداتعالیٰ کے حق ادا کر دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو اتنا مہربان ہے۔ ہماری بےشمار غلطیوں کے باوجود بھی ہمیں نوازتا چلا جا رہا ہے۔ پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی ہے کہ کس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کاسب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے۔ مسجد ہم نے بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس میں خالص ہو کر اس کی عبادت کے لیے آئیں۔
(خطبہ جمعہ 7؍ اکتوبر 2022ء)
جائزے لیں کہ کتنے منٹ
اللہ کی عبادت کودیتے ہیں
ہر احمدی کو بڑا غور کرنا چاہیے، سوچیں، جائزہ لیں اور دیکھیں کہ سارے دن میں کتنے منٹ اللہ تعالیٰ کی عبادت کو دیتے ہیں؟ کیا چند منٹ کی نماز پڑھ کر اور وہ بھی کچھ سمجھ کر اور کچھ بغیر سمجھے ہم اپنی زندگی کے مقصدِ پیدائش کو پا سکتے ہیں!جماعت کو اعلیٰ اخلاق کی نصیحت بھی آپؑ نے خاص طور پر فرمائی کیونکہ اعلیٰ اخلاق دکھانا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی۔’’ اپنا جائزہ نہ لیتے رہو، اپنی باتیں جو تم سارا دن کرتے ہو جس طرح زندگی گزاری، دن گزار رہے ہو اس کا جائزہ نہ لو کہ کیا اچھائی کی کیا برائی کی، کیا نیک باتیں کیں، کیا غلط باتیں کیں۔ جب تک جائزہ نہ ہواس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی۔(خطبہ جمعہ 14؍ اکتوبر 2022ء)
اللہ کےاحسانوں کا شکرگزار ہونے کے لئےاپنا جائزہ لیں
اگر ہم نے اپنا حق بیعت ادا کرنا ہے، اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر اس کا شکر گزار ہونا ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کا ہر وقت جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے اندر پیدا ہو جائے اور ہم حقیقت میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا حق ادا کرنے والے بنیں اور ہم آخرین کی اس جماعت میں شامل ہو جائیں جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(خطبہ جمعہ 14؍ اکتوبر 2022ء)
دعا کے اعلیٰ معیار کا جائزہ لیں
دعا کرنے والے کے صبر کے معیارکو بیان فرماتے ہوئے آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ سچی بات ہے کہ دعا میں بڑے بڑے مراحل اور مراتب ہیں جن کی ناواقفیت کی وجہ سے دعا کرنے والے اپنے ہاتھ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کو ایک جلدی لگ جاتی ہے اور وہ صبر نہیں کر سکتے حالانکہ خد اتعالیٰ کے کاموں میں ایک تدریج ہوتی ہے۔
دیکھو! یہ کبھی نہیں ہوتا کہ آج انسان شادی کرے تو کل کو اس کے گھر بچہ پیدا ہو جاوے حالانکہ وہ قادر ہے جو چاہے کر سکتا ہے مگر جو قانون اور نظام اُس نے مقرر کر دیا ہے وہ ضروری ہے۔ پہلے نباتات کی نشوونما کی طرح کچھ پتہ ہی نہیں لگتا۔‘‘ پودے، بوٹے جس طرح نشوونما پاتے ہیں پہلے تو کچھ نہیں پتہ لگتا انسان کی یا کسی بھی جانور کی پیدائش کے وقت۔ اب انسان کی مثال ہے کہ ’’چار مہینے تک کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ پھر کچھ حرکت محسوس ہونے لگتی ہے اور پوری میعاد گذرنے پر بہت بڑی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر بھی اب بارہ ہفتے کے بعد ہی سکین کر کے کچھ بتاتے ہیں۔ تو بچہ کا پیدا ہونا باوجودسب ماڈرن ٹیکنالوجی کے ڈاکٹروں کو صحیح پتہ لگتا ہے اور وہ بھی اسی وقت سکین کرتے ہیں جب بارہ ہفتے گزر جاتے ہیں۔ اُس زمانے میں جب آپؑ بیان فرما رہے ہیں اُس وقت اتنی ٹیکنالوجی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایک قانونِ قدرت کے بارے میں آپؑ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ’’بچہ کا پیدا ہونا ماں کا بھی ساتھ ہی پیدا ہونا ہوتا ہے۔‘‘ پھر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ساتھ ہی، یہ نہیں ہے کہ آرام سے پیدا ہو گیا۔ ماں کا بھی نئے سرے سے پیدا ہونا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ’’مرد شاید اُن تکالیف اور مصائب کا اندازہ نہ کر سکیں جو اس مدتِ حمل کے درمیان عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ مگر یہ سچی بات ہے کہ عورت کی بھی ایک نئی زندگی ہوتی ہے۔ اب غور کرو کہ اولاد کے لئے پہلے ایک موت خود اس کو قبول کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جا کر وہ اس خوشی کو دیکھتی ہے۔ اسی طرح پر دعا کرنے والے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ تلوُّن اور عجلت کو چھوڑ کر ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا رہے۔‘‘ جلد بازی نہ کرے، تکلیفوں کو برداشت کرے، دعا میں لگا رہے۔ ’’اور کبھی بھی یہ وہم نہ کرے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ آخر آنے والا زمانہ آجاتا ہے۔ دعا کے نتیجہ کے پیدا ہونے کا وقت پہنچ جاتا ہے جبکہ گویا مراد کا بچہ پید اہوتا ہے۔ دعا کو پہلے ضروری ہے کہ اس مقام اور حدتک پہنچایا جاوے۔ جہاں پہنچ کر وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔‘‘ دعا کو اس معیار تک لے جانا پہلے ضروری ہے۔ فرمایا کہ ’’جس طرح پر آتشی شیشے کے نیچے کپڑا رکھ دیتے ہیں اور سورج کی شعاعیں اس شیشہ پر آکر جمع ہوتی ہیں اور ان کی حرارت اور حدّت اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جو اس کپڑے کو جلا دے۔ پھر یکایک وہ کپڑا جل اٹھتا ہے۔ اس طرح پر ضروری ہے کہ دعا اس مقام تک پہنچے جہاں اس میں وہ قوت پیدا ہو جاوے کہ نامرادیوں کو جلادے اور مقصدِ مراد کو پورا کرنے والی ثابت ہو جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 418 ایڈیشن 1984ء)
پس ہر دعا کرنے والے کو اپنے جائزے سے خود ہی پتہ چل جائے گاکہ اس نے یہ معیار حاصل کیا ہے کہ نہیں۔
(خطبہ جمعہ 16؍ دسمبر 2022ء)
جائزے لیں کہ کیا ہم خدا سے
محبت کی کوشش کررہے ہیں
جماعت کو قائم کرنے کا مقصد اصل توحید کو قائم کرنا اور محبت الٰہی پیدا کرنا ہےآپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین، جورو، اپنی اولاد، اپنے نفس، غرض ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی رضاء کومقدم کر لیا جاوے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا(البقرہ: 201) یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اور سخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لئے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی محبت ہوئی تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لئے اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًارکھ دیا۔ اگر اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہو سکتا تھا۔ مگر اب اس نے اس کو حل کر دیا۔’’
(ملفوظات جلد3صفحہ188 ایڈیشن 1984ء)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی محبت جو ایک مومن کے دل میں ہونی چاہیے کہ تمام دنیاوی رشتوں سے زیادہ خدا کی محبت ہو۔
ہمیں اپنےجائزے لینے چاہئیں کہ کیا یہ محبت ہم اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا کیا اس کے لیے ہمارے دل میں کوئی خواہش اور تڑپ ہے؟
(خطبہ جمعہ 23؍ دسمبر 2022ء)
(ابو مصور خان۔ رفیع ناصر)