• 11 دسمبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 11؍ مارچ 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ مارچ 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو بھی مَیں اسامہ کے لشکر کے بارے میں رسول اللہ کے جاری فرمودہ فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا‘‘ (حضرت ابوبکر صدیقؓ)

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

دنیا کے فکرانگیز حالات، امتِ مسلمہ کو اس جنگ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اکائی حاصل کرنے کی تلقین

اسیرِ راہِ مولیٰ مکرم محمود اقبال ہاشمی صاحب آف لاہور کی والدہ محترمہ سیدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحبہ کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکرؓکو خلافت کے بعد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اُن کا ذکر

ہو رہا تھا۔ ان میں سے پہلی مشکل جو بیان کی گئی تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم تھا جوہر مسلمان کو تھا لیکن سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ جو بچپن کے ساتھی تھے ان کو بہت زیادہ دکھ تھا اور اس کے علاوہ ان کا وفا کا جو مقام تھا اور بیعت کی گہرائی میں جا کر اس کا ادراک تھا وہ کسی اَور کو تو نہیں تھا لیکن اس وقت انہوں نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا، ایمان کا مظاہرہ کیا۔ یہ بیان ہوا ہے کہ پہلا نازک اور ہولناک مرحلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ تھا کہ جس سے سارے صحابہ مارے غم کے دیوانے ہو رہے تھے۔ موت کے اس اچانک صدمے سے کوئی سنبھل نہیں پا رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حادثہ اس قدر شدید اور المناک تھا کہ بڑے بڑے صحابہ مارے غم کے حواس کھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ جیسے بہادر کا محبت کی اس دیوانگی میں اَور بھی برا حال تھا۔ وہ تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی نے یہ کہاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر تن سے جدا کر دوں گا اور یہ ایک ایسا ردّعمل تھا کہ مسلمان اس بات کو سن کر اس شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واقعی فوت ہو گئے ہیں کہ نہیں۔ اور قریب تھا کہ یہ عشاق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں توحید کے بنیادی سبق کو بھولتے ہوئے یہ کہنے لگ جاتے کہ نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی فوت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی فوت ہوئے ہیں۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق ؓمسجد نبوی میں تشریف لائے اور وہاں جمع شدہ سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللّٰهَ فَإِنَّ اللّٰهَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ۔ جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا۔ باوجود بے انتہا محبت کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؓ کو تھی جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا لیکن توحید کا درس آپؓ نے دیا۔

پھر فرمایا۔ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰى اَعْقَابِكُمْ (آل عمران: 145) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ کے ایک رسول تھے اور آپؐ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں۔ پھر آپؐ کیوں نہ فوت ہوں گے۔ اگر آپؐ فوت ہو جائیں گے یا قتل کیے جائیں گے تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے؟ اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے کمال ہمت اور حکمت سے اس وقت غم کی اس کیفیت میں صحابہ کی ڈھارس بندھائی اور غم کے مارے ان عشاق کے دلوں پر مرہم لگانےکا سبب بنے اور دوسری طرف توحید کی لرزتی ہوئی عمارت کو سنبھالا دیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشاد کے مطابق جس میں آپؑ فرماتے ہیں ’’اور پھر وہ خیالات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہو گئے تھے ایک عام جلسہ میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر ان تمام خیالات کو دور کر دیا اور ساتھ ہی اس غلط خیال کی بھی بیخ کنی کر دی جو حضرت مسیح کی حیات کی نسبت احادیث نبویہ میں پوری غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض کے دلوں میں پایا جاتا تھا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد17 صفحہ184)

دوسرا بڑا کام

یا صدمہ جو پہنچا، اور کس طرح آپؓ نے اس پر قابو پایا یا انجام دیا۔ وہ دوسرا بڑا کام ہے

انتخابِ خلافت کے وقت امّت مسلمہ کو اتفاق کی لڑی میں، اتحاد کی لڑی میں پرونا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو ایک دوسرا ممکنہ خدشہ پیدا ہوا وہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کا اجتماع تھا جہاں ابتدا میں تو گویا یوں لگتا تھا کہ انصار کسی طور سے بھی مہاجرین میں سے کسی کو اپنا امیر یا خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں گے اور مہاجرین انصار میں سے کسی کو خلیفہ بنانے پر تیار نہ ہوں گے۔ اور قریب تھا کہ اختلافی تقریروں سے بڑھ کر بات تلواروں تک جا پہنچتی کہ اس نازک موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے وہ تاثیر پیدا کی اور دوسری طرف لوگوں کے دلوں کو حضرت ابوبکرؓ کی طرف مائل کیا کہ یہ سارا انتشار اور اختلاف ایک بار پھر محبت و اتحاد میں تبدیل ہو گیا۔

جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اور جس طرح بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد یُوشَع بن نُون کی باتوں کے شنوا ہو گئے اور کوئی اختلاف نہ کیا اور سب نے اپنی اطاعت ظاہر کی یہی واقعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیش آیا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں آنسو بہا کر دلی رغبت سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کو قبول کیا۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ186)

تیسری اہم بات، اور ایسا فتنہ جس کو سنبھالنا بڑا ضروری تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو کس طرح سرانجام دیا اور وہ بات تھی

لشکر اسامہ کی روانگی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لشکر شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کے لیے تیار کیا تھا۔ جنگ مؤتہ اور غزوۂ تبوک کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہل روم عرب پر حملہ نہ کر دیں۔

جنگِ مؤتہ میں حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓمسلمانوں کے تین امیر یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ مؤتہ اردن کے مشرق میں ایک زرخیز زمین میں واقع ایک شہر ہے۔

(ابوبکرصدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ123مکتبہ جدید لاہور)
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد21 صفحہ731 زیر لفظ مؤتہ)

بہرحال اس بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حضرت زیدؓ، حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی موت کی خبر دی پیشتر اس کے کہ لوگوں کے پاس اس سے متعلق کوئی خبر آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زید نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہوا۔ پھر جعفر نے پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گیا۔ پھر ابنِ رَوَاحہ نے جھنڈے کو پکڑا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اور آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے جھنڈا لیا یہاں تک کہ اللہ نے اسے ان مخالفین پر فتح دی۔

(صحیح البخاری کتاب المناقب باب مناقب خالد بن الولیدؓ حدیث 3757)

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس مسلمانوں کو ہمراہ لے کر جانب تبوک روانہ ہوئے لیکن دشمن کو میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور اس نے شام کے اندرونی علاقوں میں گھس کر مسلمانوں کے حملوں سے محفوظ ہونے میں اپنی خیریت سمجھی۔ ان غزوات کے باعث مسلمانوں کے متعلق رومیوں کے ارادے بہت خطرناک ہو گئے اور انہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔

(ابوبکرصدیق اکبر از محمد حسین ہیکل مترجم شیخ محمد احمد پانی پتی صفحہ 124مکتبہ جدید لاہور)

اور ایک مقصد جنگ مؤتہ کے شہیدوں کا بدلہ لینا بھی تھا۔لشکر اسامہ کی تیاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپؐ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صفر کے آخر میں رومیوں سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔ حضرت اسامہ ؓکو بلایا اور فرمایا اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور انہیں گھوڑوں سے روند ڈالو۔ مَیں نے تم کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے۔

(فتح الباری لابن حجر جلد8 صفحہ192 قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)

ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

بَلْقَاء اور دَارُوم کو گھوڑوں کے ذریعہ سے روند ڈالو۔

یعنی یہ لوگ ایسے ہیں جو جنگ کرنا چاہتے ہیں ان سے اچھی طرح جنگ کرو۔ بَلْقَاء جو ہے وہ ملک شام میں واقع ایک علاقہ ہے جو دمشق اور وادی القریٰ کے درمیان ہے۔ دَارُوم کے بارے میں یہ تعارف لکھا ہے کہ مصر جاتے ہوئے فلسطین میں غَزَّہ کے بعد ایک مقام ہے۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ 224 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
(معجم البلدان جلد1 صفحہ579 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ119 زوار اکیڈمی پبلیکیشنز کراچی 2003ء)

بہرحال ملک شام کے لیے روانگی کا ارشاد کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ صبح ہوتے ہی اہل اُبْنٰی پر حملہ کرو۔ اُبْنٰی بھی ملک شام میں بلقاء کی جانب ایک جگہ کا نام ہے اور تیزی کے ساتھ سفر کرو تا ان تک اطلاع پہنچنے سے پہلے پہنچ جاؤ۔ پس اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کامیابی عطا کرے تو وہاں قیام مختصر رکھنا اور اپنے ساتھ راستہ دکھانے والے لے جانا اور مخبروں اور جاسوسوں کو اپنے آگے روانہ کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہؓ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جھنڈا باندھا۔ پھر کہا: اللہ کے نام کے ساتھ اس کی راہ میں جہاد کرو اور اس سے جنگ کرو جس نے اللہ کا انکار کیا۔ حضرت اسامہؓ یہ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے بندھا ہوا جھنڈا لے کر نکلے اور اسے حضرت بُرَیْدَہ بن حُصَیبؓ کے سپرد کیا اور جُرْف مقام پر لشکر کو جمع کیا۔ جُرْفبھی مدینہ سے تین میل شمال کی جانب ایک جگہ ہے۔ بہرحال مہاجرین و انصار کے معززین میں سے کوئی شخص بھی باقی نہ بچا مگر اس کو اس جنگ کے لیے بلا لیا گیا۔ ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابوعُبیدہ بن جَرَّاحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت سعیدبن زید ؓ، حضرت قَتَادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ، حضرت سَلَمَہ بن اسلم رضی اللہ عنہ یہ سب بھی شامل تھے۔ کچھ لوگوں نے باتیں شروع کر دیں اور کہا یہ لڑکا اوّلین مہاجرین پر امیر بنایا جا رہا ہے۔ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے۔ آپؐ نے اپنے سر کو ایک رومال سے باندھا ہوا تھا اور آپؐ ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے۔ آپؐ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا اے لوگو! تم میں سے بعض کی گفتگو اسامہ کو امیر بنانے کے متعلق مجھے پہنچی ہے۔ اگر میرے اسامہ کو امیر بنانے پر تم نے اعتراض کیا ہے تو اس سے پہلے اس کے باپ کو میرے امیر مقرر کرنے پر بھی تم اعتراض کر چکے ہو۔

خدا کی قسم! وہ امارت کے لائق تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا بھی امارت کے لائق ہے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور یقیناًیہ دونوں ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں ہر قسم کی نیکی اور بھلائی کا خیال کیا جا سکتا ہے۔

پس اسامہ کے لیے خیر کی نصیحت پکڑو کیونکہ یہ تم میں سے بہترین لوگوں میں سے ہے۔ یہ 10؍ربیع الاول اور ہفتے کا دن تھا یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے دو دن قبل کی بات ہے۔ وہ مسلمان جو حضرت اسامہؓ کے ساتھ روانہ ہو رہے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وداع کر کے جُرْف کے مقام پر لشکر میں شامل ہونے کے لیے چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی لیکن آپؐ تاکید فرماتے رہے کہ لشکرِ اسامہ کو بھیجو۔ اتوار کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درد اَور زیادہ ہو گیا۔ حضرت اسامہ لشکر میں سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بےہوشی کی حالت میں تھے۔ اس روز لوگوں نے آپ کو دوا پلائی تھی۔ حضرت اسامہؓ نے سر جھکا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا۔ آپؐ بول نہیں سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور حضرت اسامہؓ کے سر پر رکھ دیتے۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپؐ میرے لیے دعا کر رہے ہیں۔ حضرت اسامہ لشکر کی طرف واپس آ گئے۔ حضرت اسامہؓ سوموار کو دوبارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپؐ کو افاقہ ہو گیا تھا۔ آپؐ نے اسامہ سے فرمایا کہ

اللہ تعالیٰ کی برکت سے روانہ ہو جاؤ۔

حضرت اسامہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہو کر اپنے لشکر کی طرف روانہ ہوئے اور لوگوں کو چلنے کا حکم دیا۔ آپؓ نے ابھی کوچ کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمنؓ کی طرف سے ایک شخص یہ پیغام لے کر آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری وقت دکھائی دے رہا ہے۔ اس پر حضرت اسامہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعُبیدہؓ بھی ان کے ساتھ تھے اور آپؐ پر نزع کی حالت تھی۔ 12؍ربیع الاول کو پیر کے دن سورج ڈھلنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر جُرْف مقام سے مدینہ واپس آ گیا اور حضرت بُرَیدہ بن حُصَیبؓ حضرت اسامہؓ کا جھنڈا لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر گاڑ دیا۔ ایک روایت کے مطابق جب حضرت اسامہؓ کا لشکر ذِیْ خُشُب میں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ یہ ذِیْ خُشُب مدینہ سے شام کے راستے پر ایک وادی کا نام ہے۔ بہرحال جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی گئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بُرَیدہ بن حُصَیبؓ کو حکم دیا کہ جھنڈا لے کر اسامہؓ کے گھر جاؤ کہ وہ اپنے مقصد کے لیے روانہ ہوں۔ حضرت بُرَیدہؓ جھنڈے کو لشکر کی پہلی جگہ پر لے آئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ146-147 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ302 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد1 صفحہ101دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ114،87 زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)

اس لشکر کی تعداد تین ہزار بیان کی جاتی ہے۔

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد4 صفحہ 155 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت اسامہ بن زیدؓ کو سات سو آدمیوں کے ساتھ شام کی طرف بھیجا گیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دوسرے روز حضرت ابوبکرؓ نے منادی کرا دی کہ اسامہ کی مہم پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ اسامہ کے لشکر میں سے کوئی شخص بھی مدینہ میں باقی نہ رہے مگر یہ کہ وہ سب جُرْفمیں ان کے لشکر سے جا ملیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تمام عرب میں خواہ کوئی عام تھا یا خاص تقریباً ہر قبیلہ میں

فتنۂ ارتداد

پھیل چکا تھا اور ان میں نفاق ظاہر ہو گیا تھا اور اس وقت یہود و نصاریٰ نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور مسلمانوں کی کم تعداد اور دشمن کی کثرت کے باعث ان کی حالت بارش والی ریت میں بھیڑ بکریوں کی مانند تھی یعنی اس طرح تھے کہ بالکل بے یارومددگار تھے اس پر لوگوں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہؓ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپؓ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپؓ سے بغاوت کر دی ہے۔ پس مناسب نہیں کہ آپؓ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کرلیں یعنی اسامہؓ کے لشکر کو بھیجیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا

قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو بھی مَیں اسامہ کے لشکر کے بارے میں رسول اللہ کے جاری فرمودہ فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا۔

ایک اَور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اس ذات کی قَسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاؤں کتے گھسیٹتے پھریں۔ مَیں پھر بھی اس لشکر کو جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے واپس نہیں بلاؤں گا اور نہ مَیں اس جھنڈے کو کھولوں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے۔

(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 302 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ244، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 2012ء)
(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ 199 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اِس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علا قہ پر حملہ کرنے کے لئے تیا ر کیا تھا اور حضرت اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپؐ کی وفات پر جب عرب مرتد ہوگیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد او ر بچے اور عورتیں رہ جا ئیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا۔ چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکرؓ کی خدمت میں جائے اوران سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓنے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ

کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقُحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟

پھر آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پِھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا۔ یہ جرأت اور دلیری حضرت ابوبکرؓ میں اِسی وجہ سے پیدا ہو ئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جا ئے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپؐ کے ماننے والے بھی اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے مصداق بن گئے۔‘‘

(سیر روحانی (6)، انوارالعلوم جلد22 صفحہ593-594)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة و السلام جیشِ اسامہ کی روانگی کی بابت اپنی تصنیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ابنِ اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور آپؐ کی وفات کی خبر مکہ اور وہاں کے گورنر عَتَّاب بن اَسِیْد کو پہنچی تو عَتَّاب چھپ گیا اور مکہ لرز اٹھا اور قریب تھا کہ اس کے باشندے مرتد ہو جاتے اور مزید لکھا ہے کہ عرب مرتد ہو گئے۔ ’’ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص۔ اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کی وجہ سے ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے اس پر لوگوں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں اور جیسا کہ آپؓ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپؓ سے بغاوت کر دی ہے۔ پس مناسب نہیں کہ آپؓ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں۔ اس پر (حضرت) ابوبکرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔ جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔‘‘

(اردو ترجمہ سرالخلافۃ صفحہ 188-189حاشیہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

الغرض آپؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو کما حقہ قائم رکھا اور نافذ فرمایا اور جو صحابہ حضرت اسامہؓ کے لشکر میں شامل تھے انہیں واپس لشکر میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے فرمایا کہ

ہر وہ شخص جو پہلے اسامہؓ کے لشکر میں شامل تھا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شامل ہونے کا ارشاد فرمایا تھا وہ ہرگز پیچھے نہ رہے

اور نہ ہی میں اسے پیچھے رہنے کی اجازت دوں گا۔ اسے خواہ پیدل بھی جانا پڑے وہ ضرور ساتھ جائے گا۔ تو ایک بھی اس سے پیچھے نہ رہا۔

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد4 صفحہ 155 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

بہرحال لشکر ایک بار پھر تیار ہو گیا۔ بعض صحابہؓ نے حالات کی نزاکت کے باعث پھر مشورہ دیا کہ فی الحال اس لشکر کو روک لیا جائے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت اسامہؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس جا کر ان سے کہیں کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تا کہ ہم مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہوں اور خلیفۂ رسول اور حرمِ رسول اور مسلمانوں کو مشرکین کے حملوں سے محفوظ رکھیں۔ حضرت اسامہؓ کے لشکر میں شامل کچھ انصار نے حضرت عمرؓ سے یہ بھی کہا کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ اگر لشکر کوروانہ کرنے پر ہی مصر ہوں تو انہیں ہماری طرف سے یہ پیغام دیں اور یہ مطالبہ کریں کہ وہ کسی ایسے شخص کو لشکر کا سردار مقرر کر دیں جو عمر میں اسامہ سے بڑا ہو۔ حضرت عمرؓ حضرت اسامہؓ کے کہنے پر حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں بتایا جو حضرت اسامہؓ نے کہا تھا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر کتے اور بھیڑیے بھی مجھے نوچ کر کھائیں تو میں اسی طرح اس فیصلے کو نافذ کروں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا تھا اور میں اس فیصلے کو تبدیل نہیں کروں گا جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ اگر ان بستیوں میں میرے سوا کوئی ایک بھی باقی نہ بچا تب بھی میں اس فیصلے کو نافذ کر کے رہوں گا۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ انصار کسی ایسے شخص کو امیر کے طور پر چاہتے ہیں جو اسامہ سے عمر میں بڑا ہو۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ جو بیٹھے ہوئے تھے کھڑے ہوئے اور حضرت عمرؓ کی داڑھی سے پکڑا اور کہا

اے ابن خطاب! تیری ماں تجھے کھوئے!! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امیر مقرر کیا ہے اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں اسے امارت سے ہٹا دوں۔

(ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ 199-200 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)

حضرت عمرؓ لوگوں کی طرف واپس پہنچے تو لوگوں نے آپؓ سے کہا کہ کیا بنا؟ تو حضرت عمرؓ نے ان سے کہا: چلے جاؤ۔ تمہاری مائیں تمہیں کھوئیں۔ یعنی ان کو برا بھلا کہا۔ ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ آج تمہاری وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کی طرف سے مجھے کوئی بھلائی نہیں ملی۔ (ماخوذ از تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 2012ء)(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ 293 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء) یعنی انہوں نے میری باتوں کا بہت بُرا منایا۔

جب حضرت ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق جیش اسامہ جُرْف کے مقام پر اکٹھا ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ وہاں خود تشریف لے گئے اور آپؓ نے وہاں جا کر لشکر کا جائزہ لیا اور اس کو ترتیب دیا۔

روانگی کے وقت کا منظر

بھی بہت حیرت انگیز تھا۔ اس وقت حضرت اسامہ ؓسوار تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپؓ سوار ہو جائیں یا پھر میں بھی نیچے اترتا ہوں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ بخدا نہ ہی تم نیچے اترو گے اور نہ ہی مَیں سوار ہوں گا اور مجھے کیا ہے کہ میں اپنے دونوں پیر اللہ کی راہ میں ایک گھڑی کے لیے گرد آلود نہ کر لوں کیونکہ غزوہ میں شامل ہونے والا جب کوئی قدم اٹھاتا ہے تو اس کے لیے اس کے بدلے میں سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کو سات سو درجے بلندی دی جاتی ہے اور اس کی سات سو برائیاں ختم کی جاتی ہیں۔

(ماخوذ از الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ 200 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2006ء)

پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے کہا اگر آپ مناسب سمجھیں تو حضرت عمرؓ کو میرے کاموں میں معاونت کے لیے چھوڑ دیں تو حضرت اسامہؓ نے اجازت دے دی۔

( تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، 2012ء)

اس کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اسامہؓ سے ملتے یہاں تک کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد بھی تو آپ کو مخاطب ہو کر کہتے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا الْأَمِیْرُ۔ حضرت عمرؓ کیونکہ قافلے میں شامل تھے اس لیے اس وقت ان کے امیر تھے تو حضرت عمرؓ یہ کہا کرتے تھے کہ اے امیر! السلام علیکم۔ حضرت اسامہؓ جواب دیا کرتے تھے کہ غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْن کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ آپؓ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔

(السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ 294 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

بہرحال آگے ذکر ہےکہ سب سے آخر پر لشکر کو خطاب فرماتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں تم کو

دس باتوں کی نصیحت

کرتا ہوں: تم خیانت نہ کرنا؛ اور مال غنیمت سے چوری نہ کرنا؛ تم بدعہدی نہ کرنا؛ اور مُثلہ نہ کرنا یعنی کسی کے ناک کان نہ کاٹنا آنکھیں نہ نکالنا چہرہ نہ بگاڑنا؛ اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو؛ اور نہ کھجور کے درخت کو کاٹنا اور نہ اس کو جلانا؛ اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا؛ نہ تم کسی بکری گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا سوائے کھانے کے لیے؛ اور تم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں وقف کر رکھا ہے پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا یعنی راہب، عیسائی پادری، جتنے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا؛ اور تم ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو تمہیں مختلف قسم کے کھانے برتنوں میں پیش کریں گے تم ان پر اللہ کا نام لے کر کھانا۔ یہ نہیں کہ اگر انہوں نے کھانا پیش کیا تو نہ کھاؤ کہ حرام ہے، بسم اللہ پڑھ کے کھا لینا؛ اور تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے سر کے بال درمیان سے صاف کیے ہوں گے اور چاروں طرف پٹیوں کی مانند بال چھوڑے ہوں گے تو تلوار سے ان کی خبر لینا۔ یہ لوگ جو ہیں ان کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ یہ آتا ہے کہ عیسائیوں کا ایک گروہ ایسا تھا جو راہب تو نہیں تھے لیکن مذہبی لیڈر ہوتے تھے اور وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکاتے رہتے تھے اور جنگ میں حصہ بھی لیتے تھے۔ اس لیے آپؓ نے یہ تو فرمایا کہ جو راہب ہیں گرجوں کے اندر ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا، ان سے نہیں لڑنا لیکن ایسے لوگ اور ان لوگوں کے پیچھے چلنے والے جو لوگ ہیں ان سے بہرحال جنگ کرنی ہے کیونکہ یہ لوگ جنگ کرنے والے بھی ہیں اور جنگ کے لیے بھڑکانے والے بھی ہیں۔ فرمایا کہ اللہ کے نام سے روانہ ہو جاؤ۔ اللہ تمہیں ہر قسم کے زخم سے اور ہر قسم کی بیماری اور طاعون سے محفوظ رکھے۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت 2012ء)

پھر حضرت ابوبکرؓ نے اسامہ سے فرمایا کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب کچھ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری لابی جعفر محمد بن جریر طبری جلد2 صفحہ246، دارالکتب العلمیۃ، بیروت 2012ء)

اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ کو ساتھ لے کر مدینہ تشریف لے آئے۔

(سیرت سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ، مترجم مولفہ عمرابوالنصرصفحہ 561)

حضرت ابوبکرؓ نے اُسامہ بن زید کے لشکر کو ربیع الاول 11 ہجری کے آخر میں روانہ فرمایا۔

(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ302 سنہ 11 ہجری دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

اور ایک روایت کے مطابق انہیں یکم ربیع الثانی گیارہ ہجری کو روانہ فرمایا۔

(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ جلد 2 صفحہ 147 سریہ اسامہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت اسامہ ؓبیس راتوں کا سفر طے کر کے اہلِ اُبْنٰی کے پاس پہنچے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا اور مسلمانوں کا شعار

’ یَا مَنْصُوْرُ اَمِتْ‘

تھا۔ یعنی اے منصور! مار دو۔ یعنی جو بھی مقابلہ کرنے آیا ہے اسے مارو۔ جو اُن کے سامنے آیا اسے قتل کر دیا اور جس پر قابو پا لیا اسے قیدی بنا لیا۔ حضرت اسامہؓ نے ان کے میدانوں میں اپنے گھڑ سواروں کوگشت کرایا۔ اس روز جو کچھ انہیں مال غنیمت ملا اسے سنبھالنے میں مصروف رہے۔ حضرت اسامہؓ اپنے والد کے سَبْحَہ نامی گھوڑے پر سوار تھے اور انہوں نے حملہ کر کے اپنے والد کے قاتل کو بھی قتل کر دیا۔ جب شام ہو گئی تو حضرت اسامہؓ نے لوگوں کو کوچ کا حکم دیا اور اپنی رفتار تیز کر دی۔ آپؓ نَو راتوں میں وادِی القریٰ پہنچ گئے اور آپؓ نے خوشخبری دینے والوں کو مدینہ روانہ کیا کہ وہ لشکر کی سلامتی کی خبر دے۔ اس کے بعد انہوں نے روانگی کا قصد کیا اور چھ راتوں میں مدینہ پہنچ گئے۔ اس معرکہ میں مسلمانوں کا کوئی آدمی بھی شہید نہیں ہوا۔ جب یہ کامیاب اور فاتح لشکر مدینہ پہنچا تو حضرت ابوبکرؓ مہاجرین اور اہلِ مدینہ کے ساتھ لشکر کی سلامتی پر خوش ہوتے ہوئے ان کو ملنے کے لیے باہر نکلے۔ حضرت اسامہؓ اپنے والد کے گھوڑے پر سوار ہو کر داخل ہوئے اور حضرت بُرَیدہ بن حُصَیبؓ آپؓ کے آگے جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ آپؓ مسجد نبویؐ پہنچے۔ آپؓ نے مسجد میں داخل ہو کر دو رکعات پڑھیں۔ پھر آپؓ اپنے گھر چلے گئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ147 سریہ اسامہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

متفرق روایات کے مطابق یہ لشکر چالیس سے لے کر ستر روز تک باہر رہنے کے بعد مدینہ واپس پہنچا تھا۔

(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ200 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ 2006ء)

لکھا ہے کہ غالباً یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابوبکرؓ کی محبت کا سبب تھا کہ اسامہؓ کے جس جھنڈے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے گرہ لگائی تھی حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابنِ ابو قُحافہ اس جھنڈے کی گرہ کھول دے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی ہے۔ چنانچہ لشکر اسامہ کی واپسی پر اس جھنڈے کی گرہ نہ کھولی گئی اور وہ جھنڈا بعد میں بھی حضرت اسامہؓ کے گھر میں ہی رہا یہاں تک کہ حضرت اسامہؓ کی وفات ہو گئی۔

(المسیرۃ الاسلامیہ لجیل الخلافۃ الراشدۃ تالیف منیرمحمدالغضبان، جلد اول ص34-35 دار السلام2015ء)

لشکر اسامہ کے اثرات کے بارے میں لکھا ہے کہ اس لشکر کے بہت ہی اہم اور دُوررَس اثرات ظاہر ہوئے: ایک تو یہ کہ وہ سب لوگ جو کہ پہلے بہت شدت سے قائل تھے کہ حالات کا تقاضا ہے کہ لشکرِ اسامہ کو ابھی نہیں بھیجنا چاہیے وہ جان گئے کہ خلیفہ کا فیصلہ کتنا بروقت اور مفید تھا اور وہ جان گئے کہ حضرت ابوبکرؓ بہت ہی عمیق نظر اور فہم و فراست کے حامل تھے؛ نمبر 2 یہ کہ اس لشکر کی روانگی سے قبل قبائل عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وہ سوچنے لگے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو یہ لشکر روانہ نہ کرتے۔ اس کا ان پر کافی رعب پڑا؛ تیسری بات یہ کہ عرب کی سرحدوں پر نظریں لگائے غیر ملکی قوتیں خاص طور پر رومیوں پر مسلمانوںکا رعب طاری ہو گیا۔ رومی کہنے لگے یہ کیسے لوگ ہیں کہ ایک طرف تو ان کا نبی فوت ہو رہا ہے اور پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

(سیدنا ابوبکر صدیقؓ۔ازصلابی صفحہ268،258)

مشہور برطانوی ماہر تعلیم اور مستشرق سر تھامس واکر آرنلڈ (Thomas Walker Arnold) لشکرِ اسامہ کے بارے میں لکھتا ہے:

[AFTER the death of Muhammad, the army he had intended for Syria was despatched thither by Abu Bakr, in spite of the protestations made by certain Muslims in view of the then disturbed state of Arabia. He silenced their expostulations with the words: ‘‘I will not revoke any order given by the Prophet. Medina may become the prey of wild beasts, but the army must carry out the wishes of Muhammad.’’ This was the first of that wonderful series of campaigns in which the Arabs overran Syria, Persia and Northern Africa—overturning the ancient kingdom of Persia and despoiling the Roman Empire of some of its fairest provinces.]

(The Preaching of Islam By T.W. Arnold. Chapter III. Page 41.London Constable and Company Ltd. 1913)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر نے لشکر اسامہ کو روانہ کیا جسے شام کی طرف بھیجنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم کر رکھا تھا۔ باوجودیکہ عرب میں اضطرابی کیفیت کے پیش نظر بعض مسلمانوں نے اس سے اختلاف کیا لیکن ابوبکرؓ نے ان کے تردّد کو اپنے اس قول کے ذریعہ سےخاموش کر دیا کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیے گئے کسی حکم کو منسوخ نہیں کروں گا خواہ مدینہ جنگلی درندوں کا شکار بن جائے پھر بھی یہ لشکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات کی ضرور تکمیل کرے گا۔ یہ ان شاندار مہمات میں سے پہلی مہم تھی جس کے ذریعہ سے عرب شام، ایران اور شمالی افریقہ پر قابض ہوئے اور قدیم فارسی سلطنت کو ختم کیا اور رومی سلطنت کے پنجے سے اس کے بہترین صوبوں کو آزاد کرا لیا۔

اسی طرح ایک اَور جگہ ہے اس کا تذکرہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں حضرت اسامہ کے ذیل میں اس طرح لکھا ہے :

The newly-elected caliph Abu Bakr ordered the expedition to be resumed, in accordance with the Prophet’s wishes, though the tribes were already in revolt. Usama reached the region of al-Balka in Syria, where Zayd had fallen, and raided the village of Ubna…… His victory brought joy to Medina, depressed by news of the ridda, thus acquiring an importance out of proportion to its real significance, which caused it later to be regarded as the beginning of a campaign for the conquest of Syria.

(The Encyclopaedia of Islam vol. 10 Page913 Under Usama Printed by Leiden brill 2000)

کہ نئے منتخب ہونے والے خلیفہ ابوبکرؓ نے حکم دیا کہ اسامہ کا لشکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات کی تکمیل کے لیے بدستور جائے گا اگرچہ قبائل میں پہلے ہی بغاوت چل رہی تھی۔ اسامہ ملک شام میں بلقاء کے علاقے میں پہنچے جہاں زید کو مارا گیا تھا اور اسامہ نے اُبنٰیکی بستی پر حملہ کیا ان کی فتح سے اہل مدینہ جو کہ ارتداد کی خبروں کی وجہ سے شدید پریشان تھے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پس اس مہم نے ایک عمومی مہم کی حیثیت سے زیادہ بڑھ کر اہمیت حاصل کر لی جس کی وجہ سے

اس مہم کو فتح شام کا پیش خیمہ قرار دیا گیا۔

پھرحضرت ابوبکرؓ کو جو ایک اَور چیلنج کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا

مانعین اور منکرین زکوٰة اور ان کا فتنہ

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سارے عرب میں پھیل گئی تو ہر طرف ارتداد اور بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تمام عرب نے ارتداد اختیار کر لیا ماسوائے دو مسجد والوں کے یعنی مکہ اور مدینہ کے۔

(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیرجلد3 جزء 6 صفحہ309 فصل فی تنفیذ جیش اسامہ بن زید، دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل مکہ ارتدادسے محفوظ رہے جس کی تفصیل یوں ملتی ہے کہ سہیل بن عمرو جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا تھا وہ غزوۂ بدر میں کافر ہونے کی حالت میں مسلمانوں کے قیدی بنے۔ انہوں نے اپنے ہونٹوں پر نشان بنا رکھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! اس کے سامنے والے دو دانت نکلوا دیں جہاں اس نے نشان بنائے ہوئے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کبھی بھی خطاب کرنے کے لیے کھڑا نہیں ہو سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اے عمر! اسے چھوڑ دو قریب ہے کہ یہ ایسے مقام پر کھڑا ہو کہ تم اس کی تعریف کرو۔

حضرت عمرؓ تو اس کو سزا دلوانا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا نہیں، کچھ نہیں کہنا۔ ایک موقع آئے گا جب یہ اس مقام پر کھڑا ہو گا اور ایسی باتیں کرے گا کہ تم اس کی تعریف کرو گے۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ یہ مقام اس وقت آیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو مکہ والے متزلزل ہو گئے۔ جب قریش نے اہلِ عرب کو مرتد ہوتے دیکھا اور حضرت عَتّاب بن اَسِیْد اُمَوِیؓ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہلِ مکہ پر امیر مقرر تھے وہ چھپ گئے تو اس وقت حضرت سُہیل بن عمروؓ خطاب کرتے ہوئے کھڑے ہوئے اور کہا: اے قریش کے گروہ ! آخر میں اسلام لا کر سب سے پہلے ارتداد اختیار کرنے والے نہ بننا۔ خدا کی قَسم! یہ دین اسی طرح پھیلے گا جس طرح کہ چاند اور سورج طلوع سے غروب تک پھیلتے ہیں۔ اس طرح آپؓ نے یعنی سہیل نے ایک طویل خطاب کیا۔ چنانچہ اس خطاب نے مکہ والوں کے دلوں پر اثر کیا اور رک گئے۔ حضرت عَتّاب بِن اَسِیْد رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو چھپ گئے تھے وہ بھی بلائے گئے اور قریش اسلام پر ثابت قدم ہو گئے۔

(اسد الغابۃ جلد2 صفحہ 585 سہیل بن عمروؓ ۔ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

وہ لوگ

جنہوں نے ارتداد اختیار کیا تھا ان کی متعدد اقسام

تھیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی سیرت پر ایک لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ارتداد کی بھی مختلف شکلیں رہی ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو سرے سے اسلام چھوڑ کر وَثْنِیّت اور بت پرستی اختیار کر لی۔ کچھ لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ کچھ لوگ اسلام کے معترف رہے۔ نماز بھی قائم کرتے رہے لیکن زکوٰة کی ادائیگی سے رک گئے۔ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے خوش ہوئے اور جاہلی عادات و اعمال میں لگ گئے۔ کچھ لوگ حیرت و تردّد کا شکار ہوئے اور اس انتظار میں لگ گئے کہ کس کو غلبہ ملتا ہے۔ ان تمام شکلوں کی وضاحت سیرت و فقہ کے علماء نے کی ہے۔ امام خطابی کہتے ہیں کہ مرتدین دو طرح کے تھے ایک تو وہ جو دین سے مرتد ہوئے۔ ملت کو چھوڑا اور کفر کی طرف لوٹ گئے۔ اس فرقے کے دو گروہ تھے ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی پر ایمان لائے۔ ان کی نبوت کی تصدیق کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو دینِ اسلام میں مرتد ہوئے۔ شرعی احکام کا انکار کیا۔ نماز و زکوٰۃ وغیرہ جیسے امور کے تارک ہو کرجاہلی دین کی طرف لوٹ گئے اور مرتدین کی دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے نماز و زکوٰة کے درمیان تفریق کی۔ نماز کا اقرار کیا اور زکوٰة کی فرضیت اور اسے خلیفہ کو دینے کے وجوب سے انکار کیا۔ ان زکوٰة روکنے والوں میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو زکوٰة دینا چاہتے تھے لیکن ان کے سرداروں نے ان کو اس سے روک رکھا تھا۔

مرتدین کی جو مختلف تقسیمیں ہیں اس تقسیم سے قریب تر قاضی عِیاض کی تقسیم ہے لیکن انہوں نے تین قسمیں بیان کی ہیں: ایک وہ جنہوں نے بت پرستی اختیار کر لی؛ دوسرے وہ جنہوں نے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کی پیروی کی، دونوں نبوت کے دعویدار تھے؛ تیسرے وہ جو اسلام پر قائم رہے لیکن زکوٰة کا انکار کیا اور اس تاویل کے شکار ہوئے کہ اس کی فرضیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک محدود تھی۔

پھر ایک ڈاکٹر عبدالرحمٰن ہیں وہ کہتے ہیں کہ مرتدین کی چار قسمیں ہیں: ایک وہ جو بت پرستی میں لگ گئے؛ دوسرے وہ جنہوں نے جھوٹے مدعیان نبوت اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سَجَاحکی اتباع کی؛ اور تیسرے وہ جنہوں نے وجوبِ زکوٰة کا انکار کیا؛ اور چوتھے وہ جنہوں نے وجوب زکوٰة کا تو انکار نہ کیا لیکن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دینے سے انکار کیا۔

(ماخوذ از سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ272-273مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

وہ قبائل جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا

تھا ان میں نمایاں مدینہ کے قریبی قبائل عَبْس اور ذُبْیَان تے اور ان سے ملحقہ قبائل بَنُو کِنَانَہ، غَطْفَان اور فَزَارَہ تھے۔

(ماخوذ از حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ101 علم و عرفان پبلشرز لاہور)

قبیلہ ہَوَازِن والے متردّد تھے انہوں نے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا تھا۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ254دار الکتب العلمیۃ لبنان 2012ء)

مانعینِ زکوٰۃ کے حوالے سے حضرت ابوبکرؓ کا صحابہ سے مشورہ طلب کرنے کا ذکر

ملتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کبار صحابہ کو جمع کر کے ان سے منکرینِ زکوٰۃ کے ساتھ جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن زکوٰۃ سے انکاری تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ اور بیشتر مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے لوگوں سے ہرگز نہیں لڑنا چاہیے بلکہ انہیں ساتھ ملا کر مرتدین کے خلاف مصروفِ کار ہونا چاہیے۔ بعض لوگ اس رائے کے مخالف بھی تھے لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔

(ماخوذ از حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 135مکتبہ جدید لاہور)

ایک روایت کے مطابق صحابہ نے حضرت ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ مانعینِ زکوٰۃ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیں اور ان کی تالیف قلب کریں یہاں تک کہ ایمان ان کے دلوں میں متمکن ہو جائے پھر ان سے زکوٰۃ وصول کی جائے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس کو نہ مانا اور انکار کر دیا۔

(البدایۃ والنھایۃ جلد 3 جزء 6 صفحہ 308 دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)

حضرت ابوبکرؓ اس رائے کے حامی تھے کہ منکرینِ زکوٰۃ سے جنگ کر کے بزور ادائے زکوٰۃ پر مجبور کرنا چاہیے۔ اس امر میں ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ بحث کرتے ہوئے پُرزور الفاظ میں فرمایا۔

واللہ! اگر منکرینِ زکوٰۃ مجھے ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔

(ماخوذ از حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 136،135 مکتبہ جدید لاہور)

بخاری کی ایک روایت میں اس امر کی تفصیل یوں بیان ہے۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰى يَقُوْلُوْا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّيْ مَالَهٗ وَنَفْسَهٗ إِلَّا بِحَقِّهٖ وَحِسَابُهٗ عَلَى اللّٰهِ۔ مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الّا اللہ کا اقرار کریں اور جس نے اس کا اقرار کر لیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی سوائے کسی حق کی بنا پر اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: بخدا! مَیں ضرور قتال کروں گا اس سے جس نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کیا کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ بخدا! اگر انہوں نے بکری کا بچہ بھی مجھے نہ دیا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں اس کو روکنے پر ان سے قتال کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا پس اللہ کی قسم! یہ نہ ہوا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کا سینہ کھول دیا۔ میں جان گیا کہ یہی حق ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰة باب وجوب الزکوٰة حدیث نمبر1400،1399) یعنی حضرت عمرؓ کو بعد میں تسلیم کرنا پڑا کہ حضرت ابوبکرؓ صحیح فرما رہے تھے۔

حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے حدیث عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہٗ وَنَفْسَہٗ اِلَّا بِحَقِّہٖ کی تشریح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اِلَّا بِحَقِّ الْاِسْلَامِ کا جملہ نفس مضمون پر اَور زیادہ روشنی ڈالتا ہے۔ ایک مسلمان شخص لا الٰہ الّا اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اگر اسلامی حقوق کی نگہداشت نہیں رکھتا تو وہ بھی قابل مؤاخذہ ہے۔ صرف ایمان لا کر وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔ بِحَقِّ الْاِسْلَامِ کے دو طرح معنے کئے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں اسلامی حقوق کا تعلق ہو ’’حق‘‘ مصدر ہے جو جمع کا مفہوم بھی دیتا ہے دوسرے یہ معنی ہیں جہاں اسلام ان مالوں اور جانوں کے لینے کو ضروری قرار دیتا ہو۔ حَقَّ الْاَمْرَ أَثْبَتَہٗ وَاَوْجَبَہٗ یعنی اس کو ضروری قرار دیا۔ یہ متعدی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الایمان جلد1 صفحہ65)

’’افرادِ امت کی سلامتی کا دارومدار حقوق کی ادائیگی ہی پر ہے۔

جس طرح ٹیکس کی عدم ادائیگی بغاوت اور مستوجب سزا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کی عدم ادائیگی بھی۔ حضرت عمرؓ نے پہلے حضرت ابوبکرؓ سے اتفاق نہیں کیا مگر جب اِلَّا بِحَقِّہٖ کے الفاظ سے ان کا استدلال سنا تو ان کی رائے تسلیم کی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صرف زبان سے لا الٰہ الّا اللہ کہہ دینا عمل صالح نہ ہونے کی حالت میں قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتا …… اس باب کا عنوان یہ آیت ہے فَإِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ۔

اس سورت میں مذکورہ بالا آیت کا مضمون دہراتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَإِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ۔ یعنی اگر توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں ان سے تعارض نہ کیا جائے۔ ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ترک کرنے والا مسلمان نہیں۔ اسلام کے پانچوں ارکان کی پابندی فرض ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِلَّا بِحَقِّہٖ فرما کر انفاق فی سبیل اللہ کو معاشرہ کے کمزور طبقے کا حق قرار دیا ہے۔ یعنی ذی استطاعت لوگوں کا فرض ہے کہ احکامِ اسلامی کی پابندی کریں اور جو مالی حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ ادا کریں۔ اس صورت میں ان کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے۔ اِلَّا بِحَقِّہٖ کے الفاظ سے حضرت ابوبکرؓ کا استدلال عمیق اور وسیع نظر پر دلالت کرتا ہے …… حضرت ابوبکرؓ کے نزدیک زکوٰۃ کی عدم ادائیگی بغاوت ہے اور زکوٰۃ نہ دینے والا معاشرۂ اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا اور یہ کہ اس کی اس بغاوت پر اس سے جنگ کرنا ضروری ہے۔ بیشک اسلام نے لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ۔ (دین میں کوئی جبر نہیں) کے ارشاد سے دین کے بارے میں آزادی دی ہے مگر جو فرد بظاہر اسلام کا دعویدار ہے اور اسلامی سوسائٹی میں شامل ہو کر اس کی پناہ میں ہے اور اس کی برکات سے مستفید اور اپنے اجتماعی حقوق سے پورے طور پرمتمتع ہے مگر جو فرائض اور واجبات اسلام نے بحیثیت اسلامی معاشرہ کے فرد ہونے کی حیثیت سے اس پر عائد کیے ہیں ان کو وہ ادا نہیں کرتا تو ایسا فرد اجتماعی حفاظت اور پناہ کا حق نہیں رکھتا۔ دنیا میں کوئی حکومت بھی قانون شکن اور باغی افراد کو برداشت نہیں کرتی۔ اسلامی نظامِ زکوٰۃ و صدقات کا تعلق دراصل معاشرہ سے ہے نہ کسی ایک فرد سے۔ اور اس کے نتائج اور اثرات کا تعلق بھی معاشرہ ہی سے ہے فردسے نہیں۔‘‘

(صحیح بخاری کتاب الزکوٰة مترجم جلد3 صفحہ15،14)

ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اے خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں کے ساتھ تالیفِ قلب اور نرمی کا سلوک کریں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ جاہلیت میں تو تم بڑے بہادر تھے اور اسلام میں اب اس طرح بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔

(ماخوذ ازمشکوٰۃ المصابیح جلد2 کتاب الفضائل و شمائل حدیث 6024 صفحہ492 مکتبہ دارالارقم)

بہرحال مانعین زکوٰۃ کے رویے سے ان کے ساتھ جنگ اور اس کے اپنوں اور غیروں پر کیا نتائج ظاہر ہوئے اس بارے میں ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

آج پھر مَیں دنیا کے جو موجودہ حالات ہیں، اس بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ دونوں طرف کی حکومتوں کو عقل دے، سمجھ دے اور انسانیت کا خون کرنے سے یہ لوگ باز آ جائیں۔ ساتھ ہی یہ جنگ جو ہے اس سے ہمیں، مسلمانوں کو بھی سبق لینا چاہیے کہ کس طرح یہ لوگ ایک ہو گئے ہیں لیکن مسلمان باوجود ایک کلمہ پڑھنے کے کبھی ایک نہیں ہوتے۔ ایک ملک تباہ کیا، عراق تباہ کروایا، سیریا تباہ کروایا، یمن کی تباہی ہو رہی ہے اور غیروں سے کرواتے ہیں اور خود بھی کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ ایک ہوں۔

کم از کم یہ اکائی کا سبق ہی یہ مسلمان ان لوگوں سے سیکھ لیں۔

اللہ تعالیٰ مسلم قوم پر بھی رحم کرے۔ مسلمانوں پر بھی رحم کرے۔ امّتِ مسلمہ پر رحم کرے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ لوگ زمانے کے امام کو ماننے والے بھی ہوں جو اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل اور سمجھ دے اور ساتھ ہی جہاں یہ اپنی حالتیں درست کرنے والے ہوں وہاں دنیا کے لیے دعا بھی کریں اور اپنے وسائل اور ذرائع استعمال کر کے دنیا کو جنگوں سے روکنے والے بھی ہوں نہ کہ خود جنگوں میں شامل ہونے والے۔

نماز کے بعد میں

ایک جنازہ غائب

بھی پڑھاؤں گا جو

سیدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحبہ

کا ہے جو ظفر اقبال ہاشمی صاحب لاہور کی اہلیہ تھیں گذشتہ دنوں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت سید محمد علی بخاری صاحبؓ کی پوتی تھیں۔ سید نذیر احمد بخاری صاحب کے گھر پیدا ہوئیں۔ شادی کے بعد یہ مختلف جگہوں پر رہیں۔ 1961ء میں ان کی شادی ہوئی تھی اس کے بعد 1981ء میں علامہ اقبال ٹاؤن لاہور شفٹ ہو گئیں۔ وہاں لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی اور صدر کے طور پر بھی اور سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دیتی رہیں۔ صوم و صلوٰة کی پابند تھیں۔ دعا گو، ہمدرد، مہمان نواز، صابرہ و شاکرہ، بڑی نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ خلافت سے بے انتہا محبت اور اطاعت کا تعلق تھا۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ چندہ سال کے شروع میں ہی ادا کر دیا کرتی تھیں۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں میاں کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ایک بیٹے محمود اقبال ہاشمی صاحب اسیر راہ مولیٰ ہیں جو آجکل کیمپ جیل لاہور میں ہیں۔ ان کو جیل سے نکلنے کی تواجازت نہیں ملی لیکن بہرحال انتظامیہ نے یہ نرمی کا سلوک کیا کہ والدہ کی میت کو جیل لے جا کر انہیں والدہ کا آخری دیدار کروا دیا۔ احمدیوں کے خلاف اسلامی شعائر کے استعمال کے الزام میں اتنی بڑی سزائیں دی جاتی ہیں کہ جنازہ پڑھنے کے لیے بھی جیل سے نہیں نکالا گیا جبکہ بڑے بڑے قاتلوں کو نکلنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس ملک کی حکومتوں پر بھی رحم کرے۔ محمود اقبال صاحب اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف جون 2019ء میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ ان کی ضمانت بھی ہو گئی تھی لیکن پھر اگست 2021ء میں ضمانت مسترد ہو گئی اور ان کو عدالت میں ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے بھی جلد سامان فرمائے۔ مرحومہ کے ایک پوتے ہاشم اقبال ہاشمی صاحب یہاں یوکے میں مربی سلسلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی دادی کی نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق دے، ان کی اولاد کو بھی عمل کرنے کی توفیق دے۔ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 01اپریل 2022ء

پچھلا پڑھیں

رمضان میں تضرعات کا رنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022