• 28 اپریل, 2024

رمضان میں تضرعات کا رنگ

حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے تشحیذ الاذہان میں ایک مضمون رقم فرمایا جو ماہ رمضان کے متعلق تھا۔ آپ نے اس مضمون میں رمضان کی برکات کو ذکر کرنے کے بعد لکھا:

’’میں رسالہ تشحیذ الاذہان کے لیے اپنی میز میں سے ایک مضمون تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایک کاغذ ملا جو میری ایک دعا تھی جو میں نے پچھلے رمضان میں کی تھی۔ مجھے اس دعا کے پڑھنے سے زور سے تحریک ہوئی کہ اپنے احباب کو بھی اس طرف متوجہ کروں، نہ معلوم کس کی دعا سنی جائے اور خدا کا فضل کس وقت ہماری جماعت پر ایک خاص رنگ میں نازل ہو۔ میں اپنا درد دل ظاہر کرنے کے لیے اس دعا کو یہاں نقل کر دیتا ہوں کہ شاید کسی سعید الفطرت کے دل میں جوش پیدا ہو اور وہ اپنے رب کے حضور میں اپنے لیے اور جماعت احمدیہ کے لیے دعاؤں میں لگ جائے جو کہ میری اصل غرض ہے۔ وہ دعا یہ ہے:

اے میرے مالک !میرے قادر خدا! میرے پیارے مولیٰ! میرے راہنما! اے خالق ارض و سماء! اے متصرف آب و ہوا۔ !اے وہ خدا! جس نے آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک لاکھوں ہادیوں اور کروڑوں رہنماؤں کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ اے وہ علی و کبیر! جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول مبعوث کیا۔ اے وہ رحمن! جس نے مسیح سا رہنما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں پیدا کیا۔ اے نور کے پیدا کرنے والے! اے ظلمات کے مٹانے والے! تیرے حضور میں، ہاں صرف تیرے ہی حضور میں، مجھ سا ذلیل بندہ جھکتا اور عاجزی کرتا ہے کہ میری صدا سن اور قبول کر کیونکہ تیرے ہی وعدوں نے مجھے جرات دلائی ہے کہ میں تیرے آگے کچھ عرض کرنے کی جرات کروں۔ میں کچھ نہ تھا تُو نے مجھے بنایا۔ میں عدم میں تھا تُو مجھے وجود میں لایا۔ میری پرورش کے لیے اربعہ عناصر بنائے اور میری خبر گیری کے لیے انسان کو پیدا کیا جب میں اپنی ضروریات کو بیان تک نہ کر سکتا تھا تُو نے مجھ پر وہ انسان مقرر کئے جو میری فکر خود کرتے تھے۔ پھر مجھے ترقی دی اور میرے رزق کو وسیع کیا۔ اے میری جان! ہاں اے میری جان! تُو نے آدم کو میرا باپ بننے کا حکم دیا اور حوّا کو میری ماں مقرر کیا۔ اور اپنے غلاموں میں سے ایک غلام کو جو تیرے حضور عزت سے دیکھا جاتا تھا ‘ اس لیے مقرر کیا کہ وہ مجھ سے ناسمجھ اور نادان اور کم فہم انسان کے لیے تیرے دربار میں سفارش کرے اور تیرے رحم کو میرے لئے حاصل کرے۔ میں گناہ گار تھا تُو نے ستاری سے کام لیا۔ میں خطا کار تھا تُو نے غفاری سے کام لیا۔ ہر ایک تکلیف اور دکھ میں میرا ساتھ دیا جب کبھی مجھ پر مصیبت پڑی تُو نے میری مدد کی اور جب کبھی میں گمراہ ہونے لگا تُو نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ باوجود میری شرارتوں کے تُو نے چشم پوشی کی۔ اور باوجود میرے دور جانے کے تُو میرے قریب ہوا۔ میں تیرے نام سے غافل تھا مگر تُو نے مجھے یاد رکھا۔ ان موقعوں پر جہاں والدین اور عزیز و اقرباء اور دوست و غمگسار مدد سے قاصر ہوتے ہیں تُو نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا اور میری مدد کی۔ میں غمگین ہوا تو تُو نے مجھے خوش کیا۔ میں افسردہِ دل ہوا تو تُو نے مجھے شگفتہ کیا میں رویا تو تُو نے ہنسایا۔ کوئی ہوگا جو فراق میں تڑپتا ہو، مجھے تو تُو نے خود ہی چہرہ دکھایا۔ تو نے مجھ سے وعدے کئے اور پورے کیے اور کبھی نہیں ہوا کہ تجھ سے اپنے اقراروں کے پورا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہو۔ میں نے بھی تجھ سے وعدے کئے اور توڑے مگر تُو نے اس کا کچھ خیال نہیں کیا۔ میں نہیں دیکھتا کہ مجھ سے زیادہ گناہ گار کوئی اور بھی ہو اور میں نہیں جانتا کہ مجھ سے بھی زیادہ مہربان تُو کسی اور گناہ گار پر بھی ہو۔ تیرے جیسا شفیق وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔ جب میں تیرے حضور میں آکر گڑگڑایا اور زاری کی تُو نے میری آواز سنی اور قبول کی۔ میں نہیں جانتا کہ تُو نے کبھی میری اضطرار کی دعا ردّ کی ہو۔

پس اے میرے خدا! میں نہایت دردِ دل سے اور سچی تڑپ کے ساتھ تیرے حضور میں گرتا اور سجدہ کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ میری دعا کو سن اور میری پکار کو پہنچ۔ اے میرے قدوس خدا! میری قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ اسے ہلاکت سے بچا۔ اگر وہ احمدی کہلاتے ہیں تو مجھے ان سے کیا تعلق، جب تک ان کے دل اور سینے صاف نہ ہوں اور وہ تیری محبت میں سرشار نہ ہوں۔ مجھے ان سے کیا غرض؟‘‘

سو اے میرے رب! اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کو جوش میں لا۔ اور ان کو پاک کر دے۔ صحابہ کا سا جوش و خروش ان میں پیدا کر دے۔ اور وہ تیرے دین کے لئے بے قرار ہو جائیں، ان کے اعمال ان کے اقوال سے زیادہ عمدہ اور صاف ہوں۔ وہ تیرے پیارے چہرہ پر قربان ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا۔ تیرے مسیح کی دعائیں ان کے حق میں قبول ہوں اور اس کی پاک اور سچی تعلیم ان کے دلوں میں گھر کر جائے۔ اے میرے خدا! میری قوم کو تمام ابتلاؤں اور دکھوں سے بچا اور قسم قسم کی مصیبتوں سے انہیں محفوظ رکھ۔ ان میں بڑے بڑے بزرگ پیدا کر۔ یہ ایک قوم ہو جائے جو تُو نے پسند کر لی ہو اور یہ ایک گروہ ہو جس کو تُو اپنے لیے مخصوص کر لے۔ شیطان کے تسلط سے محفوظ رہیں اور ہمیشہ ملائکہ کا نزول ان پر ہوتا رہے۔ اس قوم کو دین و دنیا میں مبارک کر، مبارک کر۔ آمین ثم آمین یا ربّ العٰالمین۔‘‘

اس کے بعد میں اپنے لئے، اپنے بھائیوں کے لئے، اپنی والدہ کے لئے، اپنی ہمشیروں کے لئے،اپنے دوستوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کا نام نیچے لکھتا ہوں، دعا کرتا ہوں اور نہایت عاجزی سے دعا کرتا ہوں۔ کہ ہم کو دین و دنیا میں مبارک کر،نیک کر، پاک کر، اپنے لئے چُن لے، ہدایت کا پھیلانے والا بنا۔ اسلام کا خادم بنا اور صحت و پاک عمر عطا فرما۔ ہم اسلام پر مریں اور تُو ہماری وفات کے وقت ہم پر خوش ہو اور ہماری عمر تیری ناراضگی سے پاک ہو۔ پھر میں خاص طور سے خلیفہِ وقت کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اے میرے رب! ان کے علم و فضل میں ترقی دے، ان کو اپنے کام میں کامیاب کر اور ہر قسم کے دکھوں سے بچا، ان کی تدابیر میں برکت ڈال اور ان راہوں پر چلا جو اسلام کی ہوں۔

میری اس دعا کو اس جگہ نقل کرنے سے یہ غرض ہے کہ شاید کوئی نیک روح فائدہ اٹھائے اور اس مبارک مہینہ میں خاص طور سے جماعتِ احمدیہ اور اسلام کی ترقی کے لئے دعاؤں میں لگ جائے. میں آخر میں پھر اپنے احباب پر زور دیتا ہوں کہ اس وقت کو ضائع مت کر۔ رات کو خدا کے حضور چلاؤ اور دن کو صدقہ کرو۔ یہ ایک ایسی تدبیر ہے کہ اگر تم میں سے ایک جماعت سچے دل سے ایسا کرنے والی نکل آئے تو خدا اپنے پاک کلام میں کامیابی کا وعدہ دیتا ہے۔ پس کون بدبخت ہے؟ جس کو خدا کے وعدوں پر اعتبار نہ ہو۔ خدا کرے کہ ہم لوگوں میں وحدت پیدا ہو اور ہم کو نیک اعمال اور دعاؤں کی توفیق ملے اور ظلمت کے دن دور ہو کر اسلام کا نورانی چہرہ دنیا پر ظاہر ہو۔ آمین یا ربّ العالمین۔

خاکسار مرزا محمود احمد‘‘

(تشحیذ الاذہان ستمبر 1909ء صفحہ 328 تا 331 بحوالہ سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ309-313)

(مرسلہ: قریشی عبد الحکیم۔ نمائندہ بدر بنگلور، انڈیا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ یکم؍ اپریل 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ