• 6 مئی, 2024

آئینہ کے اوصاف اپنانے کی تلقین

آئینہ کے اوصاف اپنانے کی تلقین
الفضل آن لائن کا بھی بطور آئینہ استعمال ضروری ہے

آئینہ جس کو انگلش میں Mirror، عربی میں مِرْاٰۃٌ اور اردو میں اسے شیشہ کہتے ہیں جس کے ایک طرف خاص قسم کا مصالحہ لگا ہو اور اُس میں اپنی شبیہ دیکھی جا سکے۔ اس کو Looking Glass بھی کہا جاتا ہے۔ قریباً ہر زبان میں اس لفظ کو بہت اہمیت حاصل ہے اور مختلف محاوروں میں اسے استعمال کرتے ہیں جیسے انگلش میں Mirror Image کے الفاظ، جو ہوبہو درج ذیل معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ شبیہ، ہم آہنگی اور ایسی چیز جو کسی شئے کو منعکس کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔

آنحضورﷺ نے عربی کےلفظ مِرْاٰۃٌ کو محاورۃً نہایت خوبصورت انداز میں استعمال فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں اَلْمُؤْمِنُ مِرْاٰۃُأَخِيْہِ (ابوداؤد) کہ ایک مومن دوسرے مومن بھائی کے لئے آئینہ کی طرح ہے۔ ایک اور حدیث میں ’’اَلْمُسْلِمُ مِرْاٰۃُ الْمُسْلِمِ‘‘ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ جس طرح آپ Looking Glass میں ایک شبیہ کو ہو بہو دیکھ سکتے ہیں ویسی ہی آپ کو اپنی شبیہ دوسرے مومن کے وجود میں نظر آنی چاہئے۔ اگر تمام مومن اس اصول کو سامنے رکھ کر اپنی زندگیاں گزاریں تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔

آئیں دیکھیں! آئینہ کی کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔

  1. بغیر کسی سجاوٹ یا تبدیلی کے شیشہ آپ کا اصل چہره دکھلا دیتا ہے۔ اسی لئے کسی کو اوقات د کھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اپنا چہرہ تو شیشے میں دیکھ لو۔
  2. اگر شیشہ میں بال یعنی کریک آجائے تو شبیہ درست نظر نہیں آتی۔
  3. شیشے کی پشت (Back) پر اگر مصالہ صحیح نہ لگا ہو تو سامنے سے شبیہ بےڈھنگی اور ٹیڑھی میڑھی دکھائی دیتی ہے۔
  4. شیشے کے سامنے کے حصہ پر اگر پانی یا کسی اور چیز کے داغ لگ جائیں یا پشت پر مصالحہ خراب ہو جائے یا اس پر لکیریں آجائیں تو پھر بھی شبیہ صحیح نظر نہیں آتی۔
  5. شیشے میں اپنی تصویر دیکھنے کے لئے شیشے کا درست زاویہ پر ہونا بھی ضروری ہے۔ جن شیشوں کا زاویہ (Angle) ٹھیک نہ ہو تو تصویر بھی درست نظر نہیں آرہی ہوتی۔
  6. شیشہ آپ کے عیوب صرف آپ کو دکھلا تا ہے کسی اور کو نہیں۔
  7. آج کل ایسے Looking Glass بھی آئے ہیں جو چہرے کو بڑا (Enlarge) کر کے دکھلا دیتے ہیں تاکہ چہرے کی خوبصورتی اور بد نمائی واضح طور پر نظر آئے۔ گویا وہ چہرہ کے ایسے دھبوں پر بھی Focus کر کے دکھلا دیتا ہے جو بہت چھوٹے اور باریک ہوتے ہیں۔

آج کے دور میں آئینہ نما شیشوں سے بڑے بڑے مقررین، اینکرز، سنگرز اور اداکاروں نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کے کسی ایک کمرہ کو ریہرسل روم بنایا ہوتا ہے جس کے چاروں طرف بڑے بڑے شیشے لگار کھے ہوتے ہیں اور وہ پر وگر امز ریکارڈ کروانے سے قبل ان شیشوں کے سامنے بیٹھ کر ایکٹنگ کرتے اور اپنے نقوش سنوارتے ہیں۔ سابق صدر امر یکہ اوباما نے ایک دفعہ اپنے ایک انٹر ویو میں یہ بتایا تھا کہ میں نے تقریر کرنی شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر سیکھی ہے۔

*آئینہ میں موجود ان خوبیوں کو اگر آنحضورﷺ کے بیان شده ارشاد مبارک کی روشنی میں دیکھیں تو ایک بہت ہی لطیف مضمون اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

جس طرح انسان عیب بینی اور تزئین و حسن کے لئے آئینہ دیکھتا ہے۔ آئینہ میں اسے اپنا عکس نظر آتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کی پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ آئینہ کی طرح اتنا صاف شفاف ہو کہ لوگ اسے بآسانی اپناسکیں۔ اس کو دیکھ کر اپنی اصلاح کر سکیں۔ اس کے اندر دین محمدؐ کی صحیح تصویر بن رہی ہو جو سامنے کھڑے بندے کو نظر آئے۔

*اس حدیث کے مطابق ایک مومن پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ نمبر1 وہ دوسروں کے لئے خود آئینہ ہے اور نمبر 2 یہ کہ دوسروں کو اپنے لئے آئینہ سمجھے۔ اگر کسی مومن میں کسی کو برائی یا کمی نظر آئے تو چشم پوشی کرے اور صرف خاموشی کے ساتھ ادب کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے نشاندہی کر دینی چاہئے جس طرح شیشہ خاموشی سے نشاند ہی کر رہا ہو تا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرہ اور سوسائٹی میں دیکھا ہے کہ اگر کسی میں کوئی برائی نظر آجائے تو ہم اس کا معاشرے میں ڈھنڈورا پیٹتے اور اسے بدنام کرتے ہیں۔ جو ’’مِرْاٰۃٌ‘‘ کے مفہوم کے بر عکس ہے۔ احادیث میں اس حوالہ سے بہت سے اسباق ہمیں ملتے ہیں۔ فرمایا کہ زبان سے سمجھاؤ اگر نہیں تو خاموش رہ کر اس کے حق میں برائی کے دور ہونے کے لئے دعاہی کردو۔ آج کل معاشرہ میں غیبت، چغلی اور کسی کو بدنام کرنے کی عادت ناسور بنتی جارہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس حدیث میں بیان سبق کو سمجھا ہی نہیں ورنہ حقیقی بھائی چارہ قائم ہو چکا ہوتا۔

*آج کل اس حدیث میں بیان سبق کے برعکس ہم نے دیکھا ہے کہ ہم کسی میں برائی ہونے کے باوجود اس کی تعریفوں کے پل باند ھنا شروع کر دیتے۔ اس کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ اسے اپنی برائی نظر بھی آتی ہے تو وہ اسے بھلا دیتا ہے اور مزید گناہ کرنے پر دلیر ہو جاتا ہے۔

حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں۔ ’’بہت آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعاعیں نکلتی معلوم ہو تی ہیں جن سے مجھے پتالگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے یا یہ یہ خوبی ہے مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کردیتا وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا۔ اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اس وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کر دے۔‘‘

(الفضل 9 مارچ 1938ء)

*اس حدیث میں ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اپنی زندگیوں کو پاک و صاف بنائے رکھیں۔ قرآن، احادیث و سنت کو اپنے وجودوں میں اُتاریں۔ جس طرح شیشے پر معمولی سی میل کچیل یا دھبہ لگنے پر چہرہ بد نما نظر آنے لگتا ہے اسی طرح اپنے وجود کو پاک و شفاف رکھیں۔ میل کچیل اور جودھبے لگ جاتے ہیں۔ ان کو دھونا ضروری ہے۔ اس کا بہترین طریق محاسبہ اور خود احتسابی ہے۔ آنحضورؐ روزانہ رات کو بستر پر جانے سے قبل خود احتسابی کے عمل سے اپنے وجود کو گزارتے تھے۔ اب رمضان کے مبارک دن ہیں جو خود احتسابی کے لئے بہت اہم ہیں۔

اسی طرح شیشے کی پُشت پر اگر قیمتی سے قیمتی مصالحہ لگا ہو اور اس کو بال آنے سے بچائے رکھیں تو شبیہ بھی اچھی نظر آتی ہے اسی طرح دینی تعلیم کے مصالحہ کو بھی ہر جہت سے دیکھ کر اس کو خوبیوں اور آداب سے مرصع کر کے اگر اپنی پُشت پر لگائیں گے تو دوسروں کو اپنی شبیہ بھی عمدہ اور دینی نظر آئے گی اور جس طرح آج کل ایسے شیشے آگئے ہیں جو چہرہ کو بڑا کر کے دکھاتے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی ان تمام دینی تعلیمات کو اکٹھا کر کے اپنے اوپر ایسے رنگ میں لاگو کریں کہ ہمارے نقوش اتنے واضح اور نمایاں ہوں کہ ہر ایک چلتا پھرتا مومن نظر آئے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ قرآنی تعلیم کو بغور پڑھیں، احادیث و سنت رسول ؐ کا مطالعہ کریں۔ حکم و عدل کی تعلیمات کو سامنے رکھیں اور بالخصوص آج کے دور کے روحانی رہبر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات و ارشادات کو حرز جان بنائیں۔

پھر اخبار الفضل آن لائن سے بھی آئینہ کا کام لیا جا سکتا ہے جس کو www.alfazlonline.org پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر روزانہ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو باآسانی علم ہو سکے گا کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو حقیقی معنوں میں دین محمدؐ پر کار بند رہنے اور تمام تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق سے نوازتا چلا جائے۔ آمین

(خاکسار کا یہ اداریہ آئینہ کے عنوان سے روزنامہ گلدستہ علم وادب،لندن میں شائع ہوا تھا جو معمولی تبدیلے کے ساتھ رمضان کی مناسبت سے قارئین الفضل آن لائن کے استفادہ کے لئے پیش ہے۔ ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

رمضان میں تضرعات کا رنگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اپریل 2022