• 4 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 26)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 26

اس اعظم

اسم اعظم رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی تکرار نماز کے رکوع سجود وغیرہ میں اور دوسرے وقتوں میں کریں۔ یہ خدا نے اسم اعظم بتلا یا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ135)

آنحضورؐ کی عربی دعائیں
عربی میں پڑھنی چاہئیں

ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے۔ اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے جو شخص یہ کہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے بلکہ ہم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں۔ دوسرے جو اپنی حاجات وغیرہ ہیں ماثورہ دعا کے علاوہ صرف اپنی زبان میں مانگی جاویں۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ368 ایڈیشن 1984ء)

تدبیر اور دعا کا اتحاد اسلام ہے

گناہ اور غفلت سے پرہیز کے لئے اس قدر تدبیر کی ضرورت ہے جو حق ہے تدبیر کا اور اس قدر دعا کرے جو حق ہے دعا کا۔جب تک یہ دونوں اس درجہ پر نہ ہوں اس قت تک انسان تقویٰ کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور پورا متقی نہیں بنتا۔ اگر صرف دعا کرتا ہے اور خود کوئی تدبیر نہیں کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا امتحان کرتا ہے۔ یہ سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امتحان نہیں کرنا چاہیئے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک زمیندار اپنی زمین میں تردد تو نہیں کرتا اور بدوں کاشت کے دعا کرتا ہے کہ اس میں غلہ پیدا ہوجائے وہ حقِ تدبیر کو چھوڑتا ہے اور خداتعالیٰ کا امتحان کرتا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اور اسی طرح پر جو شخص صرف تدبیر کرتا ہے اور اسی پر بھروسہ کرتا اور خدا تعالیٰ سے دعا نہیں مانگتا وہ ملحد ہے۔

تدبیر اور دعا کا اتحاد اسلام ہے۔ جیسے پہلا آدمی جو صرف دعا کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا وہ خطا کار ہے۔ اسی طرح پر یہ دوسرا جو تدبیر ہی کو کافی سمجھتا ہے وہ ملحد ہے۔ مگر تدبیر اور دعا دونو باہم ملا دینا اسلام ہے۔ اسی واسطے میں نے کہا ہے کہ گناہ اور غفلت سے بچنے کے لئے اس قدر تدبیر کرے جو تدبیر کا حق ہے اور اس قدر دعا کرے جو دعا کا حق ہے۔ اسی واسطے قرآن شریف کی پہلی ہی سورۃ فاتحہ میں ان دونو باتوں کو مدنظر رکھ کر فرمایا کہ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (الفاتحہ: 5) اِیَّاکَ نَعۡبُدُ اسی اصل تدبیر کو بتاتا ہے اور مقدم اس کو کیا ہے کہ پہلے انسان رعایت اسباب اورتدبیر کا حق ادا کرے مگر اس کے ساتھ ہی دعا کے پہلو کو چھوڑ نہ دے بلکہ تدبیر کے ساتھ ہی اس کو مدنظر رکھے۔ مومن جب اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اس کے دل میں گزرتا ہے کہ میں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اس کا فضل اور کرم نہ ہو۔ اس لئے وہ معاً کہتا ہے اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔ یہ اک نازک مسئلہ ہے جس کو بجز اسلام کے اور کسی مذہب نے نہیں سمجھا۔ اسلام ہی نے اس کو سمجھا ہے۔ عیسائی مذہب کا تو ایسا حال ہے کہ اس نے ایک عاجزانسان کے خون پر بھروسہ کرلیا اور انسان کو خدا بنا رکھا ہے۔ ان میں دعا کے لئے وہ جوش اور اضطراب ہی کب پیدا ہوسکتا ہے جو دعا کے ضروری اجزاء ہیں وہ تو ان شاء اللہ کہنا بھی گناہ سمجھتے ہیں لیکن مومن کی روح ایک لحظہ کے لئے بھی گوارا نہیں کرتی کہ وہ کوئی بات کرے اور ان شاء اللہ ساتھ نہ کہے۔ پس اسلام کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اس میں داخل ہونے والا اس اصل کو مضبوط پکڑ لے۔ تدبیر بھی کرے اور مشکلات کے لئے دعا بھی کرے اور کراوے۔ اگر ان دونوں پلڑوں میں سے کوئی ایک ہلکا ہے تو کام نہیں چلتا ہے اس لئے ہر ایک مومن کیواسطے ضروری ہے کہ اس پر عمل کرے مگر اس زمانہ میں مَیں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی یہ حالت ہورہی ہے کہ وہ تدبیریں تو کرتے ہیں مگر دعا سے غفلت کی جاتی ہے بلکہ اسباب پرستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ تدابیر دنیا ہی کو خدا بنا لیا گیا ہے اور دعا پر ہنسی کی جاتی ہے اور اس کو ایک فضول شے قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سارا اثر یورپ کی تقلید سے ہوا ہے۔ یہ خطرناک زہر ہے۔ جو دنیا میں پھیل رہا ہے مگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس زہر کو دور کرے چنانچہ یہ سلسلہ اس نے اسی غرض کے لئے قائم کیا ہے تا دنیا کو خداتعالیٰ کی معرفت ہو۔ اور دعا کی حقیقت اور اس کے اثر سے اطلاع ملے۔

بعض لوگ اس قسم کے بھی ہیں جو بظاہر دعا بھی کرتے ہیں مگر اس کے فیوض اور ثمرات سے بے بہرہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آداب الدعا سے ناواقف ہوتے ہیں اور دعا کے اثر اور نتیجہ کے لئے بہت جلدی کرتے ہیں اور آخر تھک کر رہ جاتے ہیں حالانکہ یہ طریق ٹھیک نہیں ہے۔ پس کچھ تو پہلے ہی زمانہ کے اثر اور رنگ سے اسباب پرستی ہوگئی ہے اور دعا سے غفلت عام ہوگئی۔ خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رہا۔ نیکیوں کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور کچھ ناواقفی اور جہالت نے تباہی کر رکھی ہے کہ حق کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر اور اور طریقے اور راہ ایجاد کرلئے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ بہکتے پھر رہے ہیں اور کامیاب نہیں ہوتے۔

سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو۔ اس کو موجود۔ سمیع۔ بصیر۔ خبیر۔ علیم۔ متصرف۔ قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ مگر کیا کروں کس کو سناؤں اب اسلام میں مشکلات ہی اور آپڑی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ سے کرنی چاہیئے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ کا رتبہ انسانوں اور مُردوں کو دیتے ہیں۔ حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی۔ مگر اب جس قبر کو دیکھو وہ حاجت روا ٹھہرائی گئی ہے۔ میں اس حالت کو دیکھتا ہوں تو دل میں درد اٹھتا ہے مگر کیا کہیں کس کو جا کر سنائیں۔

دیکھو قبر پر اگر ایک شخص بیس برس بھی بیٹھا ہوا پکارتا ہے تو اس قبر سے کوئی آواز نہیں آئے گی مگر مسلمان ہیں کہ قبروں پر جاتے اوران سے مرادیں مانگتے ہیں۔ میں کہتا ہوں وہ قبر خواہ کسی کی بھی ہو اس سے کوئی مراد بَر نہیں آسکتی۔ حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کوئی اس صفت کا موصوف نہیں۔ قبر سے کسی آواز کی امید مت رکھو۔ بر خلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اور میراا پنا تجربہ ہے کہ وہ دس دفعہ ہی آواز سنتا اوردس دفعہ ہی جواب دیتا ہے لیکن یہ شرط ہے کہ پکارے اس طرح پر جو پکارنے کا حق ہے۔

ہم سب ابرار، اخیار امت کی عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں لیکن ان کی محبت اور عزت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ ہم ان کو خدا بنالیں اور وہ صفات جو خدا تعالیٰ میں ہیں ان میں یقین کرلیں۔میں بڑے دعویٰ سے کہتا ہوں کہ وہ ہماری آواز نہیں سنتے اور اس کا جواب نہیں دیتے۔ دیکھو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک گھنٹہ میں 72 آدمی آپ کے شہید ہوگئے۔ اس وقت آپ سخت نرغہ میں تھے۔ اب طبعًاہر ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جبکہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے اپنے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جاوے لیکن وہ دعا اس وقت منشاء الٰہی کے خلاف تھی اور قضاء و قدر اس کے مخالف تھے اس لئے وہ ایسی جگہ شہید ہوگئے۔ اگر ان کے قبضہ و اختیار میں کوئی بات ہوتی تو انہوں نے کونسا دقیقہ اپنے بچاؤ کے لئے اٹھا رکھاتھا مگر کچھ بھی کارگر نہ ہوا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قضا و قدر کا سارا معاملہ اور تصرف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدر ذخیرہ قدرت کا رکھتا ہے اور حیّ و قیوم ہے۔ اس کو چھوڑ کر جو مُردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پر جا کر ان سے مرادیں مانگتا ہے اس سے بڑھ کر بے نصیب کون ہوسکتا ہے؟

(ملفوظات جلد6 صفحہ268-271)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سفر نامہ حج

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2022