• 1 مئی, 2024

یہ عاجزانہ راہیں تھیں جنہوں نے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ وہ صبر کی حالت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم قائم رہو گے تو میرے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔ ایسی صبر کی حالت میں کی گئی دعائیں میرے فضلوں کا وارث بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو ضائع ہونے کے لئے نہیں چھوڑتا۔ جب مکمل انحصار خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے تو وہ ایسے صبر کا بدلہ بھی ضرور دیتا ہے۔ فرمایا جب ایسا صبر اور استقلال پیدا ہو جائے تو پھر تمہاری دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے۔ صبر کر کے بیٹھ نہیں جانا بلکہ صلوۃ کا بھی حق ادا کرنا ہے اور صلوٰۃ کیا ہے؟ صلوٰۃ نماز بھی ہے، دعائیں بھی ہیں جو آدمی چلتے پھرتے کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر درخواست کرنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کا فضل مانگنا بھی ہے۔ فرمایا اس قسم کی صلوٰۃ کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو مکمل طور پر عاجزی کی راہوں پر چلنے والا ہو۔ جس میں تکبر کی کچھ بھی رمق نہ ہو۔ جس کے اندر انانیت اور بڑائی کا کچھ بھی حصہ نہ ہو۔ اُس کی صلوٰۃ، صلوٰۃ نہیں ہے جس میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔ بیشک ایسا شخص نمازیں پڑھ رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو اُس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اُنہی صبر کرنے والوں اور نمازیں پڑھنے والوں اور دعائیں کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے جو عاجزی میں بھی بڑھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کئے ہوئے ہیں جو کبھی نہ ٹوٹنے والا ہے۔ اس زمانے میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘

(تذکرہ صفحہ595 ایڈیشن چہارم)

یہ عاجزانہ راہیں تھیں جنہوں نے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں۔ پس ہم جو آپ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے، ہم نے اگر خدا تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینا ہے، ہم نے اگر اپنے صبر کے پھل کھانے ہیں، ہم نے اگر اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے اور مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ضروری ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں سے بھی بچا کے رکھے گی اور یہی چیز ہے جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے گی اور یہی چیز ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ عاجزی کوئی آسان کام ہے۔ بہت سی اَنائیں، بہت سی ضدیں، بہت سی سستیاں، بہت سی دنیا کی لالچ، بہت سی دنیا کی دلچسپیاں ایسی ہیں جو یہ مقام حاصل کرنے نہیں دیتیں۔ فرمایا اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ۔ یہ آسان کام نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے۔ وہ تمام باتیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو صبر اور صلوۃ کو اُس کی صحیح روح کے ساتھ اور عاجزی دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے بجا لانے سے روکتی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اُس کا بندہ اُس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے اور ایسی عبادت کے معیار بنائے جس میں ایک لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال نہ آئے۔ دنیاوی کاموں کے دوران بھی دل خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ ایسی حالت پید کرنا آسان نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے۔ اور اس بوجھل چیز کو اُٹھانا بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس کی مدد چاہو، اُس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکو، کوشش کرو۔ لیکن یہ مدد اُس وقت ملے گی جب عاجزی اور انکساری بھی ہو گی۔ جب اس یقین پر قائم ہوں کہ اَنَّھُمْ مُلٰقُوْا رَبِّھِمْ (البقرہ: 47) یعنی کہ وہ اپنے ربّ سے ملنے والے ہیں۔ جب یہ یقین ہو گا تو پھر ہم صبر اور دعا کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنے سامنے رکھنے والے بھی ہوں گے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی وجہ سے اپنانے والے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی آگ کو اپنے سینے میں لگاتے ہوئے آپ کے ہر عمل پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اور یہی حقیقی حالت ہے جو ایک مومن کو مومن بناتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی یہی حقیقی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ جو اُس پر چلے گا تو یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران: 32) کہ جو اس کو یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ کا حقیقی مصداق بناتی ہے۔ یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں بھی بڑھاتی ہے اور یہی محبت ہے جو پھر اِنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ کہ وہ اُس کی طرف لَوٹ کر جانے والے ہیں، کا حقیقی ادراک بھی پیدا کرتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والا انسان پھر ایک انسان بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں اور تُو ہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سن لے، اور ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا کر، ہمیں اس معیار پر لے کر آ، تو پھر صبر اور صلوۃ پر قائم رہنے کی بھی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ سے یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر کہیں اس میں، ہماری دعاؤں میں، ہماری کوششوں میں یا ہماری ظاہری عاجزی میں ہمارے نفس کی ملونی ہے تو ہمیں معاف کر دے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہماری یہ عاجزی کا احساس ہمارے نفس کا دھوکہ ہو۔ پس ہمیں اُن خٰشِعِیْن میں شمار کر جو حقیقی خٰشِعِیْن ہیں۔ ہمیں اُن عاجزی اور انکسار دکھانے والوں میں شمار کر جن کے بارے میں تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُنہیں ساتویں آسمان تک اُٹھا لیتا ہے۔ ہمیں اس طرز پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما جس پر تیرے محبوب رسول کے عاشقِ صادق ہمیں چلانا چاہتے ہیں، اُن توقعات پرپورا اترنے کی توفیق عطا فرما جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے کی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 7؍جون 2013ء)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2022