• 10 جولائی, 2025

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک قرآن اور سائنس کی روسے (قسط 1)

بگ بینگ سے بگ کرنچ تک قرآن اور سائنس کی روسے
قسط 1

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾

(الانبیاء: 105)

جس دن ہم آسمان کو لپىٹ دىں گے جىسے دفتر تحرىروں کو لپىٹتے ہىں جس طرح ہم نے پہلى تخلىق کا آغاز کىا تھا اس کا اعادہ کرىں گے ىہ وعدہ ہم پر فرض ہے ىقىناً ہم ىہ کر گزرنے والے ہىں۔

کائنات کی تخلیق

کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا تخلیق کائنات واقعی ایک ابتدائی (Primordial) دھماکے ہی کا نتیجہ تھی۔کیا کائنات ہمیشہ سے ایسی ہی تھی؟ ایک زمانے کے بعد کیا یہ ایسی ہی ہو گی؟ یہ ایک ایسا معمہ ہےجس کوسمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ حیرت انگیز طور پر اتنی بڑی کائنات کا عدم سے وجود میں آجانا ایک اچھوتا خیال ہے۔اس سلسلہ میں سائنسدان توہمیشہ سے ہی کسی ایسے نظریہ کی تلاش میں رہے ہیں جس میں کوانٹم میکانیات (Quantum Mechanics)، کشش ثقل (Gravitation) اور طبعیات (Physics) کے دیگر قوانین کا احاطہ کیا گیا ہو۔

مشہور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ اگر ہمیں یہ نظریہ حاصل ہوجائے، تو پھر ہم واقعتاً اس کائنات کو سمجھ لیں گے، اور یہ بھی جان لیں گے کہ کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے۔

دراصل مذہب اور سائنس علوم کے دو ایسے جہان ہیں جن کے بارہ میں صدیوں سےمباحثہ جاری ہے۔ اور دونوں ہی انسانی زندگی پر اپنے زیادہ اثر کا دعویٰ کرتے آئے ہیں۔مذہب اور سائنس کے تعلق میں Conflict یعنی تصادم کا نظریہ عام رہا ہے جس کے مطابق دونوں ایک ساتھ کبھی چل ہی نہیں سکتے۔

جبکہ بیشتر سائنسدانوں اور عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں۔

آئن سٹائن کا مشہور قول اسی تناظر میں ہے کہ

‘‘Science without religion is lame, religion without science is blind.’’

پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پہلے احمدی نوبل لاریئیٹ کا بھی یہی خیال ہے

‘‘There is no conflict between the study of nature and the study of religion. A study of these natural laws, and seeing how they operate is a form of prayers and gratitude to Allah. ( Dr. Abdus Salam)’’

کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے تو ان قوانین قدرت کےمطالعہ کو ایک قسم کی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے حضور شکر گزاری کا اظہار قرار دیاہے۔

بعض کہتے ہیں کہ مذہب کا تعلق آپ کے عقائد سے، جبکہ سائنس کا تعلق External Material World (خارجی مادی دنیا) سے ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو سائنس بہرحال مذہب کو ہمیشہ support کرتی نظر آتی ہے۔چونکہ ہم اس وقت تخلیق کائنات کی بات کر رہے ہیں اس لئے اس وقت مذاہب کا موازنہ کئے بغیر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تخلیق کائنات کے سلسلہ میں قرآن کریم نے ایک بنیادی اُصول یہ بیان کیا ہے کہ اِبتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں موجود تھا، جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس سے کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز مسلسل جاری و ساری ہے۔ اور یہی نظریہ اس وقت گزشتہ ایک سو سال سے تقریباً تمام سائنسدان اور عام حلقوں میں مقبول ہو چکا ہے۔

Astrophysicists ابتدائے کائنات کی وضاحت‘‘بگ بینگ’’یعنی انفجار عظیم یاعظیم دھماکا کے ذریعہ کرتے ہیں اور تقریباً گزشتہ ایک سو سال سے وسیع طور پر قبول کیا جارہا ہے۔ اور یہی نظریہ تخلیق کائنات کے بارے میں مضبوط ترین نظریہ مانا جاتا ہے۔

جیسے جیسے یہ نوزائیدہ کائنات پھیلتی گئی ویسے ویسے یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اور ساتھ ہی اس کی density بھی کم ہوتی چلی گئی۔آپ سوچیں کہ ایک چائے کی کیتلی سے بھاپ نکل رہی ہے۔ اس کے منہ کے بالکل قریب بھاپ اچھی بھلی گرم ہوتی ہے اور بھاپ کے ذرات یہاں چھوٹے سے حصہ میں مرکوز دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے بھاپ کیتلی سے دور ہوتی جاتی ہے تو یہ ذرات ایک دوسرے سے دور ہوتے چلےجاتے ہیں اور ساتھ کے ساتھ بھاپ ٹھنڈی بھی ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ سارے کچن میں پھیل جاتی ہے۔

بگ بینگ کے مطابق ابتدا میں تمام مادہ ایک بہت ہی چھوٹے سے نقطے کی صورت میں ’’لامحدُود کثافت‘‘ (infinite density) اور حرارت لئے چھپا بیٹھا تھا جسے ’’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘‘ (zero volume singularity) کا نام دیا جاتا ہے۔ اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے اور اس اکائی سےیہ کائنات معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ اور اس دھماکے کے نتیجے میں ہی کائنات میں ماضی اور حال میں موجود ہر قسم کا مادہ تقریباً 15ارب سال پہلے بیک وقت وجود میں آتا ہے۔گوموجودہ زمانہ میں کائنات کی تخلیق کے بارہ میں اور بھی ماڈرن نظریات موجود ہیں، جیسا کہ Steady State Theory یا Oscillating Universe Theory یعنی جھولتی کائنات کا نظریہ ہے لیکن بگ بینگ کا نظریہ ہی سب سے عام اور مشہور اور قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف ہمیں مادہ کی ابتداء، قوانین قدرت اور اس کائنات کی ہیئت کے بارہ میں بتاتا ہے بلکہ یہ اس کائنات کے پھیلاؤ کی بھی وضاحت پیش کرتا ہے۔

تاریخ علوم انسانی میں تخلیق و جودِ کائنات سے متعلق بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں، جو اس کے آغاز کی مختلف ابتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام نظریات ’’لامحدود کثافت‘‘ (infinite density) اور ’’صفر درجہ جسامت کی اِکائی (zero volume

singularity) کی ابتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، مثلاً:

فرائیڈمین کا خاکہ (Friedman Model)

عظیم دھماکے کا خاکہ (Big Bang Model)

ایڈوِن ہبل کا خاکہ (Edwin Hubble’s Model)

پنزیاس اور وِلسن کا خاکہ (Penzias & Wilson’s Model)

نئے پھیلاؤ کا خاکہ (New Inflationary Model)

بدنظم پھیلاؤ کا خاکہ (Chaotic Inflationary Model)

یا اِکائیت کی تحوِیل کا خاکہ (Singularity Theorem Model)

اگرچہ بگ بینگ تھیوری کائنات کی تخلیق کے بارہ میں تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے لیکن یہاں ہم صرف چند بنیادی باتیں ہی مختصراً بیان کرسکیں گے۔ تقریباً 15 ارب سال پہلے تمام مادہ اور توانائی ایک انتہائی چھوٹے ذرے میں بند تھی جس کو ایک اکائی singularity کا نام دیا جاتا ہے۔ یکلخت بے انتہا کثیف مادہ اور توانائی لئے یہ ذرہ single point of super-dense material ایک دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے اور حیرت انگیز تیز رفتاری سے پھیلنا شروع ہو تا ہے۔ ماہرین فلکیات یہ تو نہیں جانتے کہ اس وسعت پذیری یعنی expansion کاآغاز کیسے ہوا۔ لیکن وہ singularity اوردھما کے کے بعد کے چند لمحات میں کیا ہوا اس کی وضاحت بگ بینگ تھیوری کے ذریعہ کرتے ہیں۔

تقریباً 15 ارب سال پہلے بگ بینگ ہوا تھا۔ اس وقت درجہ حرارت اپنی انتہا پر تھا۔ اس کے فوراً بعد یعنی (10-43) سیکنڈ بعد فزکس کے قوانین واضح ہونے لگے اور کشش ثقل (Gravity) وجود میں آئی۔ بگ بینگ کے (35-10) سیکنڈ بعد کائنات ایک فٹ بال کے برابر تھی۔ طاقتور نیوکلیائی قوت Nuclear Force وجود میں آ چکی تھی۔ کوارک الیکٹرون اور ان کے ضد ذرے Anti-Particles بننے لگے تھے۔ اس وقت درجہ حرارت گر کر 1027 (یعنی ایک کے بعد 27 صفر) یا ایک ارب ارب ارب ڈگری سینٹی گریڈ ہو چکا تھا۔

بگ بینگ کے بعد جب ایک سیکنڈ کا دس لاکھواں حصہ گزر گیا تو کوارک آپس میں جڑ کر نیوٹرون، پروٹون اور ضد ذرے Anti-Particles بنانے لگے۔ اگرچہ ذرے اور ضد ذرے ایک دوسرے کو فنا کرتے رہے لیکن ذروں کی تعداد حاوی ہو گئی۔ اس وقت تک کائنات پھیل کر ہمارے نظام شمسی کے برابر ہو چکی تھی۔ بگ بینگ کے ایک سیکنڈ بعد برقی مقناطیسی Electromagnetic اور کمزور نیوکلیائی Weak Nuclear Force قوتیں واضح ہونے لگیں اور درجہ حرارت گر کر دس ارب ڈگری سینٹی گریڈ رہ گیا۔

تین منٹ بعد نیوٹرون اور پروٹون باہم جڑ کر ایٹمی مرکزے (Nucleus) بنانے لگے جس سے ڈیوٹیریئم اور ہیلیئم کے مرکزے وجود میں آئے اور آزاد نیوٹرون ختم ہو گئے۔ اب درجہ حرارت گر کر ایک ارب ڈگری سینٹی گریڈ رہ گیا تھا۔

سات لاکھ سال بعد ایٹمی مرکزے اس قابل ہوئے کہ الیکٹرون سے مل کر ایٹم بنا سکیں۔ ایٹم بننے سے فوٹون خارج ہوئے اور کائنات پہلی دفعہ شفاف ہو گئی۔ اب درجہ حرارت 3000 ڈگری تک ہو چکا تھا۔ ابتدا میں بننے والے ستاروں میں لوہا یا دوسرے بھاری عناصر بالکل موجود نہیں تھے۔

ایک ارب سال بعد کہکشائیں (Galaxies) بننے لگیں۔ صرف ہماری کہکشاں میں 200 ارب ستارے ہیں اور ہمارے نزدیک ترین پڑوسی کہکشاں دس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

اب ستاروں کی درمیانی جگہ کا درجہ حرارت گر کر منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ ہو چکا ہے یعنی صرف 3 ڈگری کیلون۔ کہکشا ئیں بن چکی ہیں، ستاروں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔ لوہے اور نکل سے بھی زیادہ بھاری ایٹمی مرکزے وجود میں آ چکے ہیں۔ زندگی کی ابتدا ہو چکی ہے۔ہمارا نظام شمسی لگ بھگ ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آیا تھا۔ ہماری زمین کی بھی عمر اتنی ہی ہے۔

سائنسدانوں کی اکثریت بگ بینگ نظریہ پر متفق نظر آتی ہے، فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کا نام سرن ہے اسکی رسد گاہ میں گزشتہ چند دہائیوں سے کئےجانے والے تجربات اور منی بگ بینگ کے 2010 میں کئے گئے کامیاب تجربے کےبعدسائنس اس حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے کہ کائنات کا آغاز ایک زبردست دھماکے سے ہوا جسے بگ بینگ کا نام دیا جاتا ہے۔

کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت اُس کا تمام مادّہ ایک اکائی (minute cosmic egg) کی صورت میں موجود تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اُس اکائی کو پھوڑا اور اُس کے نتیجے میں اس کائنات کو وجود ملا۔ کائنات کی تخلیق سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے اِرتقاء کی طوِیل جدوجہد کا مختصر ذِکر اس طرح ہے کہ:
1687ء میں مشہور و معروف برطانوی سائنسدان آئزک نیوٹن (Isaac Newton) نے یہ تصوّر پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیرمُتغیّر ہے۔ یہ بات بیسویں صدی تک ایک مصدقہ حقیقت کے رُوپ میں تسلیم کی جاتی رہی۔

1915ء میں البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein) نے عمومی نظریۂ اِضافیت (General Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس نے نیوٹن کا جمود کائنات کا تصوّر تو کسی حد تک ردّ کر دیا لیکن وہ خود کائنات کی اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ دینے سے قاصر رہا کیونکہ نیوٹن کے نظریات کو اُس وقت تک دُنیا بھر میں غیر متبدّل سمجھا جا رہا تھا۔

1929ء میں ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیرمتغیر نہیں ہے، بلکہ حرکت پذیر ہونے کے علاوہ شاید وہ مسلسل وسیع بھی ہو رہی ہے۔ اُس کی تحقیق نے عظیم دھماکے کے نظریئے (Big Bang Theory) کو جنم دیا۔ اور بعد میں کئی سائنسدانوں نے پروان چڑھایا۔

1920 اور 1930 کے درمیان مختلف مشاہدات کی روشنی میں کائنات کے پھیلاؤ کا اشارہ تو مل چکا تھا لیکن زیادہ تر سائنسدان Steady State Model کے حق میں تھے۔ اور بگ بینگ کے نظریہ کو زیادہ تر مذہبی خیال کرتے تھے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1949 میں پہلی دفعہ بی بی سی کے ایک پروگرام میں اس اصطلاح کا استعمال ہوا۔ آخر کار 1965 میں Cosmic Microwave Back Ground Radiation کی Discovery کے بعد بگ بینگ تھیوری کو نہ صرف پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ کائنات کے آغاز کے بارہ میں بہترین تصور کی جانے لگی۔ 1960 اور 1990 کے بیچ میں اس نظریہ کو مزید پختگی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

1965ء میں دو امریکی سائنسدانوں آرنوپنزیاس (Arno Penzias) اور رابرٹ ولسن (Robert Wilson) نے اپنے معمول کے تجربات کے دوران اِتفاقاً (cosmic background radiation) کی دریافت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ مادّی کائنات کا آغاز ایک اکائی سے ہوا تھا۔ اُس اکائی کو انہوں نے ایک نہایت چھوٹےکائناتی انڈے (minute cosmic egg) کے نام سے موسوم کیا، جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ اسے عام الفاظ میں کائنات اصغر یا micro-universe بھی کہا جا تا ہے۔ جویکدم ایک دھماکے سے پھٹی اور بڑی تیزی سے بکھرتی چلی گئی، روشنی کی رفتار سے بھی تیزرفتاری کے ساتھ۔ اور آج بھی پھیل رہی ہے۔ کائنات کی وسعت پذیری کی دریافت شاید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی دریافت ہے۔

اگر گمان و قیاس کے گھوڑوں کو سائنسی حساب کتاب کے ساتھ ماضی کی جانب دوڑایا جائے تو اب تک کی معلومات کے مطابق یہ مشاہدے میں آتا ہے کہ یہ کائنات ایک ایسے مقام سے پھیلنا شروع ہوئی ہے کہ جب اس کا تمام کا تمام مادہ اور توانائی ایک انتہائی کثیف اور گرم مقام پر مرکوز تھا۔مگر اس کثیف اور گرم نقطے سے پہلے کیا تھا؟ اس پر تمام طبعییات دان متفق نہیں ہیں۔ لیکن زیادہ سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ سر دست میسر ثبوتوں کی روشنی میں یہ بات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کائنات اربوںسال قبل ایک عظیم دھماکے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔

موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اب تک اس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش 15 ارب سال گزر چکے ہیں۔ جب کائنات کی ہر چیز بشمول ستاروں اور گیلیکسیز میں روشن مادے کے اور اس تمام ڈارک میٹر کے جس کو کبھی کسی نے دیکھا ہی نہیں، سب کا سب ایک نقطے Singularity میں بند تھا جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ توانائی کا یہ عالم تھاکہ اس کا درجہ حرارت اربوں ڈگری تک کاتھا۔ آج سے 15 ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس ابتدائی کمیّتی اکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔

قرآن کریم نے زمین و آسمان کی عدم سے پیدائش پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے۔ فرمایا:

فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّمِنَ الۡاَنۡعَامِ اَزۡوَاجًا ۚ یَذۡرَؤُکُمۡ فِیۡہِ ؕ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ وَہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱۲﴾

(الشورى: 12)

وہ آسمانوں اور زمىن کو عدم سے پىدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے لئے تمہى مىں سے جوڑے بنائے اور موىشىوں کے جوڑے بھى وہ اس مىں تمہارى افزائش کرتا ہے اُس جىسا کوئى نہىں وہ بہت سننے والا (اور) گہرى نظر رکھنے والا ہے۔

بعض مفسرین کے مطابق سورۃ الفلق کی درج ذیل آیات بھی بگ بینگ کی طرف اشارہ کرتی نظر آتی ہیں۔

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

(الفلق: 2-3)

تُو کہہ دے کہ مىں (چىزوں کو) پھاڑ کر (نئى چىز) پىدا کرنے والے ربّ کى پناہ مانگتا ہوں۔ اُس کے شر سے جو اس نے پىدا کىا۔

علم زبان کے مطابق لفظ فلق کا بنیادی مطلب ’’اچانک پھاڑا جانا اور ایک شدید دھماکہ‘‘ کے ہیں۔ ایک مفہوم ’’پھٹ جانا‘‘ بھی ہے۔ ایک مخصوص قسم کے دھماکے کو بھی یہ لفظ بیان کرتا ہے۔ ایک بیحد زیادہ اور غیر معمولی رفتار کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

لغت کے اعتبار سے فلق ایک اسم ہے اور اس کی جڑ بھی فلق ہی ہے۔

مفردات میں ہے کہ اَلْفَلَقُ کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے کے ہیں۔

پس اہمیت کی ترتیب کے لحاظ سے اَلْفَلَقُ کے درج ذیل معنی کئے جاسکتے ہیں۔

  1. عدم سے (لا وجود سے اچانک) وجود میں آجانا۔ قرآن کریم میں ہے کہ فَالِقُ الْإِصْبَاحِ (الانعام: 97)
  2. بیج کے پھٹنے کے نتیجے میں پودے کا ظہور إِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى يُخْرِجُ (الانعام: 96)

Hak Dini Kur’an Dili (Religion of the Truth, Language of the Qurʿān) Turkish, Vol.9 میں Muhammed Hamdi Yazır Elmalılı an eminent Turkishscholar (1878–1942),

نے فلق کے معنی صمد کے متبادل کے کئے ہیں۔ یعنی ایک مخلوق جس کے ظہور کو پھٹنے کے عمل کی ضرورت ہوتی ہے جو عدم سے وجود پذیر ہوتی ہے۔

چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اجرام فلکی کے اپنے اپنے کروں میں موجود ہوتی ہیں، وہ بھی اُس دھماکے کے ساتھ ہی معرض وجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں:

  1. کششِ ثقل (gravity)
  2. برقی مقناطیسیت (electromagnetism)
  3. طاقتور نیوکلیائی طاقتیں (strong nuclear forces)
  4. کمزور نیوکلیائی طاقتیں (weak nuclear forces)

اس دھماکے کی بہت سادہ تمثیل جو سائنس دان پیش کرتے ہیں کچھ اس طرح ہے کہ ایک غبارہ کے اندر بے پناہ سیال اور پیسٹ کو ڈال دیا جائے اور پھر اس میں ہوا کا دباؤ اس قدر بڑھایا جائے کہ وہ بالآخر پھٹ جائے تو جیسے ہی وہ پھٹے گا اس میں موجود سیال اور پیسٹ بہت تیزی سے اردگرد ہر جانب کو پھیلے گا اور اس میں بڑے بڑے کلسٹر بھی بنیں، اور چھوٹے چھوٹے چھینٹے بھی، اور یہ سب اسی طرح اپنے گول گول محوری گردش کرتے ہوئے دھماکے کے مرکزہ سے تیزی سے دور ہوتے چلے جائیں گے اور جتنی تیزی سے دور جاتے ہوئے اپنے محور پر گھومیں گے اتنی ہی تیزی سے گولائی کی صورت بھی اختیار کرتے جائیں گے اور اسی گولائی میں ان پر ہوا کی رگڑ کی وجہ سے دراڑیں اور اتار چڑھاؤ بھی بن جائیں گے اور ان کے کچھ حصے جن میں نمی بہت زیادہ ہو گی ان کی نمی بھی ایک طرف اکٹھی ہو کر سنٹری فیوج کے اصول کے تحت سطح کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے لگے گی۔

سر فریڈ بائل نامی سائنسدان نے ابتدا میں بگ بینگ نظریے کی بڑی شد و مد کے ساتھ مخالفت کی مگر بالآخر وہ بھی اس نظریہ پر متفق ہوگئے۔انہوں نے مزید باریک بینی سے اس کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا اور رب کائنات کی کاری گری کے معترف ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بگ بینگ نظریہ کے مطابق کائنات ایک واحد دھماکے کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آئی اور دھماکہ ویسے تو مادے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے مگر بگ بینگ نے متضاد نتیجہ پیش کرتے ہوئے مادے کو کہکشاؤں کے جھنڈوں کی صورت میں نمودار ہوتا ظاہر کیا ہے، وہ مزید کہتے ہیں کہ طبیعات کے وہ قوانین جو بگ بینگ کے ساتھ ہی وجود میں آئے 14 ارب برس گزرنے کے بعد بھی ان میں رتی برابر تبدیلی نہیں آئی، یہ اس قدر نپے تلے قوانین ہیں کہ ان کی ویلیوز میں ایک ملی میٹر کا فرق بھی پڑ جائے تو مکمل کائناتی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔

یہی بات مشہور ماہر طبیعیات پروفیسر اسٹیفن ہاکنز نےاپنی کتاب (A Brief History of Time) میں لکھتے ہوئے کہا کہ اس کائنات کو اس قدر خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ توازنوں پر استوار کیا گیا ہے اور اس قدر نفاست سے اس کو برقرار رکھا گیا ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن کریم کا بھی تو یہی دعویٰ ہے کہ

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

(البقرہ: 30)

وہى تو ہے جس نے تمہارے لئے وہ سب کا سب پىدا کىا جو زمىن مىں ہے پھر وہ آسمان کى طرف متوجہ ہوا اور اسے سات آسمانوں کى صورت مىں متوازن کردىا اور وہ ہرچىز کا دائمى علم رکھنے والا ہے۔

اس کو سمجھنے کے لئےطبیعات کے قوانین اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کسی ایسی چیز کو تسلیم کیا جائے جسے ’’negative energy‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص ایک ہموار سطح پر ایک مٹی کا ٹیلہ بنائے۔ (جسے بنانے کے لئے وہ زمین میں ایک گڑھا کھودے اور اسی مٹی کو ٹیلہ بنانے کے لئے استعمال کرے)۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ صرف ٹیلہ نہیں بنا رہا ہوتا۔ بلکہ وہ ٹیلے کے برعکس ایک گڑھا بھی بنا رہا ہوتا ہے۔ اگر وہ ٹیلہ کائنات کوظاہر کرے گا توگڑھا اس کا منفی پرتو negative version ہو گا۔ وہ ملبہ وہ مواد جو کہ اس گڑھے میں تھا وہ اب ٹیلہ بن چکا ہے۔ یہ ایک مکمل توازن کی مثال ہے۔ جہاں بگ بینگ کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر مثبت توانائی positive energy پیدا ہوئی وہیں ساتھ ہی اسی مقدار میں منفی توانائی بھی ظہور میں آئی اور اس طرح دونوں کا مجموعہ ہمیشہ صفر پر منتج ہوتا ہے۔ یہ بھی قوانین قدرت میں سے ہے۔ یہ اس بات کو یقین بخشنے کے لئے کافی ہے کہ ہر چیز کا اخیر بھی عدم ہی ہے۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ منفی تونائی ہے کہاں؟ تو یاد رکھیں کہ یہ توانائی خلاء میں ہے۔ خلاء منفی توانائی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ ایک دوسرے کوقوت کشش سے کھینچتے ہوئے لاکھوں کروڑوں گیلیکسیزکا لامتناہی جال اس توانائی کا ایک بہت بڑا منبع ہے۔ کائنات منفی توانائی کو ذخیرہ کرنے والی ایک بہت بڑی بیٹری تصور کی جا سکتی ہے۔ چیزوں کی مثبت شکل جیسا کہ کمیت اور توانائی ہمیں نظر آتی ہے وہ ٹیلے جیسی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں بننے والا گڑھا، چیزوں کی منفی سائڈ، پورے خلاء میں پھیلا ہوا ہے۔

سائنسدان تو یہ جانتے ہیں کہ کائنات میں مادہ اپنی شکل اور ہیئت بدلتا رہا ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ کائنات ایک بہت بڑی جگہ ہے جس میں بڑے بڑے فلکی اجسام بھی ہیں اور ایٹم جیسی بہت چھوٹی چیزیں بھی۔ عام آدمی کا یہی خیال ہے کہ کائنات مجموعی طور پر شروع سے ہی ایسی تھی اور اس میں کسی قسم کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن نہیں! کائنات بدل رہی ہے اوراس میں ڈرامائی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کائنات کی تخلیق کے پیچھے ایک کہانی ہے۔اس کا آغاز، بیچ کا (درمیانی) عرصہ جس میں اس وقت ہم ہیں اور شاید مستقل بعید میں اس کا خاتمہ۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:

اَوَلَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا

(الانبیاء: 21)

کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے اُن کو پھاڑ کر الگ کر دیا۔

قرآن کریم میں سورۃ الانبیاء کی یہ آیت کائنات کے اسرار پر سے ایسا پردہ اٹھاتی ہے جو اس زمانے کے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ یہ ساری کائنات ایک مضبوطی سے بند کئے ہوئے ایسے گیند کی شکل میں تھی جس میں سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اچانک ساری کائنات اس میں سے پھوٹ پڑی۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں جدید

علم تخلیقیات (Cosmology)

علم فلکیات (Astronomy)

اور علم فلکی طبیعات (Astrophysics)

کے ماہرین نے بالکل یہی نظریہ منظر عام پر پیش کیا کہ کائنات کی تخلیق ایک صفر درجہ جسامت کی اکائیت سے ہوئی۔ بگ بینگ نظریہ کی اس سے معقول تشریح و توضیح ہو ہی نہیں سکتی۔

اس طرح سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ سائنس کے اس نظریہ میں کتنی صداقت ہے۔ اسے جانچنے کیلئے ہمیں تھوڑا پیچھے جا نا ہوگا۔

(باقی کل ان شاء اللہ)

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2022