• 7 مئی, 2024

دامن تہذیب پر دھبہ نہ لگ جائے کہیں

کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست ملک عدنان نے ایک نجی محفل میں گفتگو کی مناسبت سے یہ شعر پڑھا جو شاعر نے قوموں کو مخاطب ہو کر لکھا ہے۔

دامن تہذیب پر دھبہ نہ لگ جائے کہیں
پان کھا کر تھوکنا ہر جگہ اچھا نہیں

میں نے اپنے دوست سے یہ شعر سنتے ہی برجستہ اس پر آرٹیکل لکھنے کی اجازت چاہی جو دوست نے فراخدلی سے دے دی۔ جس پر خاکسار قارئین الفضل کی عدالت میں حاضر ہے۔

ہر انسان کی دو زندگیاں ہوتی ہیں۔ ایک تو اس کی انفرادی زندگی اور ایک خاندانی و قومی زندگی۔ انفرادی زندگی کا اثر زیادہ تر خواہ وہ اچھا ہو یا برا اس کی ذات پر ہوتا ہے گو ایک انسان کا نیک یابُرا ہونے کا اثر بھی قوم کی اجتماعیت پر منتج ہورہا ہو تا ہے۔ لیکن اس کے مقابل دوسری زندگی یعنی خاندانی، معاشرتی اور قومی زندگی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس سے قومیں بنتی ہیں۔ اجتماعیت نظر آتی ہے۔ انسان کسی معاشرے میں داخل ہو جائے تو پہلی نظر میں بھانپ جاتا ہے کہ اس قوم کے طور طریق کیا ہیں۔ اگر وہ تمام کام ترتیب اور طریقے سے کر رہے ہیں تو اسے مہذب، تربیت و تعلیم یافتہ اور شائستہ قوم کہیں گے۔ جیسے یورپ میں ٹریفک ہے۔ کیا ترتیب ہے۔ جسے دیکھ کر قوم کے منتظم ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ مگر ہمارے ایشیائی کلچر میں ٹریفک کی بے ترتیبی قوم کے انتشار کی نشان دہی کر رہی ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک غیر از جماعت دوست لاہور سے ربوہ آئے اور بہشتی مقبرہ میں ترتیب سے قبروں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ جس قوم کے مردے ترتیب سے لیٹے ہوں ان کے زندوں میں ترتیب کا کیا حال ہو گا۔ اور اس طرح اگر اردگرد گند بھرا پڑا ہو اور لوگ گندگی اور بو میں زندگی بسر کر رہے ہوں تو ایسے شہر کو مظاہر ثقافت سے عاری شہر یا غیر مہذب اور غیر شائستہ قوم کہیں گے۔

تاریخ نے یہ بڑا واقعہ اپنے دامن میں محفوظ کر رکھا ہے کہ ایک بادشاہ نے عراق پر صرف اس لئے حملہ کا حکم دیا کہ اس کے سب سے بڑے شہر کی جامع مسجد کے سامنے ایک گدھا مرا پڑا تھا اور اس کی بدبو نے سارے شہر کو متعفن کر رکھا تھا۔ نمازی آتے اور ناک پر رومال، کپڑایا سر کے کپڑے کا پلو باندھ کر گزر جاتے اور کسی کو اسے اُٹھا کر پھینکنے اور دفن کرنے کی توفیق نہیں مل رہی تھی۔ بادشاہ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ یہ قوم سورہی ہے اگر حملہ کرو گئے تو کامیابی حاصل ہو گی۔ تب بادشاہ نے حملہ کر کے عراق پر فتح پائی۔

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار نے ایک ایلچی یا ایمبیسڈر صرف اس غرض کے لئے مسلمانوں کی طرف بھیجا تھا کہ وہ مسلمانوں کی طاقت کا جائزہ لے کر بتائے کہ حملہ کرنا مناسب ہے بھی یا نہیں۔ اس نے آکر دیکھا کہ صحابہ رسولؐ اپنے آقا و مولیٰﷺ کے ارد گرد جمع ہیں اور محبت اور فدائیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ آنحضورﷺ وضو کرتے ہیں تو یہ صحابہ وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے بلکہ تبرک کے طور پر خود استعمال کرتے ہیں اور یہ صحابہ اپنے پیارےرسول حضرت محمدﷺ کے ارد گرد حصار بنائے بیٹھے ہیں تو اس نے واپس جا کر اس طاقت کا ذکر کر کے اپنی قوم کو حملہ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح ایک جنگ پر کفار کے ایلچی نے اسی طرح کی محبت کا اظہار دیکھ کر اپنی قوم کو ان الفاظ میں مشورہ دیا تھا کہ وہ تو موتیں ہیں ان سے نہ لڑنا۔کسی سکالر نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ انسان کی خوش اخلاقی، شائستگی، دینی و اخلاقی تہذیب کھانے کی میز پر ظاہر ہوتی ہے جہاں بڑے سے بڑا آدمی بھی کھانے کے لالچ میں اخلاقیات کی وہ تمام حدیں پھلانگ جاتا ہے۔ جن کو اسلام نے آداب کے ساتھ باندھا ہے۔ ہم اپنے ایشیائی کلچر میں روزانہ ہی یہ مظاہرہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات اور کنوینشنز پر جب کھانا کھلتا ہے تو تہذیب سے عاری لوگوں کی طرح وہ کھانے پر جھپٹتے اورٹوٹ پڑتے ہیں۔

ہم یورپ میں بیٹھے اپنے پیارے ملک میں روزانہ کی ہڑتالوں، دھر نوں اور ان میں توڑ پھوڑ کی خبریں سن کر حیران ہو رہے ہوتے ہیں کہ جن علماء کے ہا تھ قوم کی رہنمائی کی لگام دی گئی ہے وہ مدرسوں کے بچوں کو سڑکوں پر لا کر توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ وہ جو 5 سال پڑھ کر مسیحائی کا سرٹیفکیٹ لیتے ہیں وہ ہسپتالوں میں مریضوں کورلتا چھوڑ کر سڑکوں پر ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں۔ وہ جو کالا کوٹ پہن کر اصل میں قانون کے رکھوالے کہلاتے ہیں اور اس کی جنگ لڑتے ہیں وہ عدالتوں اور اپنے چیمبر ز کو تالے لگا کر سڑکوں پر اپنے حقوق کی نہ صرف جنگ لڑتے ہیں بلکہ کرسیوں، میزوں کے ذریعہ اپنی طاقت کا برملا اظہار کرتے دکھلائی دیتے ہیں اور قانون کی خود ہی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ Education is not only education but formation اس تعلیم کا کیا فائد ہ جو اپنے آپ کو مہذب نہ بنا سکے اور نہ ہی دوسروں کو تہذ یب کا گہوارہ بنا سکے۔ ان تمام غیر مہذبانہ، غیر شائستہ حرکات سے قوم کی اصل تصویر سامنے آرہی ہوتی ہے اور پاکستان کا ایک غلط امیج دنیا میں قائم ہو رہا ہو تا ہے۔

آنحضورﷺ کے دور میں، آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں وہ اخلاق سے عاری اور شراب کے رسیالوگ ایسے مہذب بنے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡہُ کا خطاب دیا اور آج 1400 سال گزر جانے کے بعد بھی شدید سے شدید معاند اور دشمن اسلام بھی آپؐ اور آپؐ کے مبارک دور کے متبعین کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اس امر کا علی الاعلان اظہار کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیم، امن ہی کی تعلیم ہے اور اس سلسلہ میں وہ صحابہؓ کا ذکر کرتے ہیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا وہ مشہور واقعہ بھی ذہن میں لائیں جب آپ نے کسی بچے کو بارش میں کھیلتے دیکھ کر نصیحت فرمائی کہ بیٹا! ذرا احتیاط سے، کہیں گر کر چوٹ نہ لگ جائے۔ بچے نے برجستہ جواب دیا کہ امام صاحب آپ اپنی فکر کریں میرے گرنے سے تو صرف مجھے نقصان ہو گا مگر آپ کے گرنے سے قوم گر جائے گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے 52 سالہ دور میں احباب جماعت کو قومی زندگی گزارنے کی طرف متوجہ رکھا اور خوب کھول کر قوموں کی ترقی اور زوال کے طریق بتلائے کہ کن طریقوں کو اپنایا جائے تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور کن طریقوں پر عمل پیرا ہو کر قوموں کو تباہی کے دہانے پر لے جایا جا سکتا ہے۔ آج قومیں، ادارے اور تمام جماعتیں، جماعت احمدیہ کی اجتماعیت سے کیوں خوف زدہ ہیں۔ کیوں اس امر کا بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم قوم نہیں ہم صرف بھیڑ ہیں۔ ہم اژدہام کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہمارا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خلافت کا نہ ہونا ہے۔ وہ اجتماعیت کے لئے بار بار خلافت کا اعلان کرتے ہیں۔ کبھی خلافت کا تاج کسی کے سر پر رکھنے کی کو شش کرتے ہیں۔ کبھی کوئی فورم بنا کر لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ لیکن دنیا بھر میں صرف اور صرف ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جو ایک خلیفہ رکھتی ہے۔ جو ایک امام کی تابع ہونے کی دعویدار ہے۔ جو اس کے ایک اشارے کو اور ہر ادا کو سمجھ کر اس کی تابع ہو جاتی ہے۔

ہم نے بار ہا دیکھا اور غیروں کی زبان سے سنا کہ برطانیہ، جرمنی اور افریقی ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ پر ہزاروں کی تعداد میں شاملین نہایت تہذیب کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔اگر دربارِخلافت سے خاموش ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے تو تمام مجمع ایسی خاموشی اختیار کر تا ہے جیسے ان کے سروں پر پرندے آبیٹھے ہیں۔ خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر جب امام عطاءالمجیب راشد صاحب نے حضور کا یہ ارشاد سنایا کہ حضور فرما رہے ہیں کہ بیٹھ جائیں تو ایم ٹی اے نے ایک ایسا نظاره تا ابد کے لئے ریکارڈ کر لیا کہ شدید سردی میں ایک دوسرے کے اوپر گرتے پڑتے ٹھنڈی سڑک پر اور بعض ایک دوسرے کی گود میں بیٹھ گئے۔ یہ وہ اجتماعیت کی طاقت ہےجس سے دشمن خوفزدہ ہے اور یہی وہ تہذیب ہے، یہی وہ کلچر ہے، یہی وہ Way of Life ہے۔ یہی وہ ثقافت ہے یہی وہ ذہنی، اخلاقی اور روحانی ہم آہنگی ہے۔ یہی وہ اسلامی رسم و رواج ہیں جن کو لے کر جماعت پروان چڑھی ہے اور اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں ہے۔ اس لئے ہمارے امام ہر خطبہ میں اصلاح احوال، اصلاح معاشرہ اور اصلاح نفوس کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ نیک، صالح افراد سے نیک قومیں بنتی ہیں اور بُرے اور بد اخلاق سے ایسی قومیں وجود میں آتی ہیں جن کے حصہ میں سوائے تباہی و بربادی کے کچھ نہیں ہوتا۔

اس لئے ہم سب کو اس اہم نکتہ کی طرف اپنے آپ کو متوجہ کرنا اور رکھنا ہے کہ میری معمولی غلطی کی وجہ سے کہیں جماعت پردھبہ نہ لگ جائے۔ یہ ویسے ہی ہے جیسےدھوبی سے ایک چادردُھل کر آئے جس پر کو ئی دھبہ نہ ہو تو وہ بھلی لگتی ہے لیکن اگر ایک معمولی سا چھوٹا سا دھبہ لگ جائے تو اس کی خوبصورتی میں فرق آجاتا ہے۔ پس جماعت احمدیہ کی چادر اخلاق اور اعمال صالحہ لئے بدیوں، بُرائیوں اور بد اخلاقیوں سے دھلی چادر ہے۔ اسے اپنے بُرے اعمال سے داغ دار کرنے سے ہم میں سے ہر ایک کو بچنا چاہئے۔ اور شاعر کے اس شعر کو حرز زبان بنائے رکھنے کا عزم کرنا چاہئے۔

دامن تہذیب پر دھبہ نہ لگ جائے کہیں
پان کھا کر تھوکنا ہر جگہ اچھا نہیں

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح موعود رضی الله عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں۔
’’1924ء میں میں انگلستان تبلیغ اسلام کے مواقع دیکھنے کے لئے گیا تو میں نے اس وقت وہی لباس پہنا ہوا تھا جو میں ہندوستان ( قادیان) میں پہنتا تھا اور یورپین لوگ نہ صرف یہ کہ اس لباس کو ذلیل سمجھتے ہیں بلکہ چونکہ ان کا رات کا لباس ایسا کھلا ہوتا ہے جیسے ہماری شلوارقمیضں، وہ اس لباس کو رات کے وقت پہنتے ہیں۔اسلئے وہ کسی کے سامنے نہیں آتے۔ایک دن ہمارے مبلغ انچارج میرے پاس آئے اور بڑی تشویش سے کہنے لگے کہ آپ کے اس لباس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بہت ٹھوکر لگ رہی ہے آپ اگر پتلون نہیں پہن سکتے تو کم از کم علی گڑھ فیشن کا گرم پاجامہ پہن لیں اور قمیض کو اس کے اندر ٹھونس لیا کریں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آخر میں ایسا کیوں کروں ان لوگوں کو میرے قومی لباس پر اعتراض کرنے کا حق کیا ہے ؟ مبلغ صاحب نے کہا کہ حق ہو یانہ ہو بہر حال اس سے بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور ہماری قومی تحقیر ہوتی ہے۔ اسی دن مجھے ملنے کے لئے لندن کے اورینٹل کالج کے پرنسپل سرڈینی سن راس اور کچھ اور بڑے بڑے آدمی آئے۔ میں نے ان کے سامنے یہی سوال رکھا اور کہا کہ کیا آپ لوگ اس لباس کو ذلیل سمجھتے ہیں؟ جیسا کہ یورپین تہذیب ہے انہوں نے کہا نہیں نہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہم آپ کے لباس کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں۔ میں نے سمجھ لیا کہ محض مغربی تہذیب کے نتیجہ میں یہ ایسا کہہ دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں یہ بات نہیں۔ میں نے پھر اصرار کیا کہ آپ میرے دوست ہیں سچ سچ بتائیے کہ آپ کی قوم پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا کہ سچ بات تو یہی ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ اس لباس میں لوگوں کے سامنے آنے کوبُرا سمجھتے ہیں اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ سرڈینی سن راس علی گڑھ اور کلکتہ میں بھی پروفیسر رہ چکے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سرڈینی سن راس! آپ یہ بتائیں جب آپ ہمارے ملک (ہندوستان) میں تھے تو کیا آپ شلوار قمیض اور دھوتی پہنا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا تو پھر آپ یہ بتائیں کہ آپ ہمارے ملک میں آکر اپنا ہی لباس رکھیں تو حرج نہیں تو ہم آپ کے ملک میں آکر اپنا لباس رکھیں تو یہ بُری بات ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ386-387)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2022