• 27 اپریل, 2024

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ دیکھیں توحضرت مسیح موعود ؑنے ان کی شہادت کے متعلق تحریر فرمایا کہ جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اُس حالت میں جب کہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیااور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتا ہوں۔ اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر۔ تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللّٰہ سچائی سے کیونکر انکار ہو سکتا ہے اور جان کی کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں۔ مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا۔

دے چکے دل اب تن خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا

’’تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے۔ کافر ہے۔ اس کو جلد سنگسار کرو۔ اُس وقت امیر اور اس کا بھائی نصراللہ خاں اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے۔
جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں۔ تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں۔تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے۔ اس میں میرا کوئی دخل نہیں۔ تب قاضی نے گھوڑے سے اُتر کر ایک پتھر چلایا۔ جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا۔ پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو۔ یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا …… بیان کیا گیا ہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا 14جولائی 1903ء کو وقوع میں آیا‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد نمبر20: صفحہ: 54 تا 59)

حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام اس واقعہ کا فارسی نظم میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آں جواں مرد و حبیبِ کردگار
جوہر خود کرد آخر آشکار
بیں کہ ایں عبداللطیف پاک مرد
چوں پئے حق خویشتن برباد کرد
جاں بصدق آں دلستاں را دادہ است
تا کنوں در سنگہا افتادہ است
ایں بود رسم و رہِ صدق و وفا
ایں بود مردان حق را انتہا

یعنی وہ جواں مرد اور رب کریم کا محبوب تھا۔ اس نے اپنے پوشیدہ خدا داد جوہر کو خوب ظاہر کر دیا۔ دیکھو دیکھو اس پاک وجود عبداللطیف نے اپنے مولا اور حق و صداقت کی خاطر قربانی دے دی اور اُس وجود نے صدق اور سچائی کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی تبھی تو اس نے اپنے آپ کو اس طرح پر سنگساری کے پتھروں کے سپرد کر دیا۔ یہی صدق و وفا کے راستہ کی رسم ہے اور مردان حق کا انتہائی مقام یہی ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا:۔
’’اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا‘‘۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 4 جولائی 2020ء