• 16 مئی, 2024

قرآن کریم سمجھ کے پڑھو تا کہ تمہیں سمجھ بھی آئے

ایک دفعہ میں وقف عارضی پر کسی کے ساتھ گیا ہوا تھا۔ تو ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے کہنے لگے کہ میاں تم سے مجھے ایسی امید نہیں تھی۔ میں سمجھا پتہ نہیں مجھ سے کیا غلطی ہو گئی۔ میں نے پوچھا ہوا کیا ہے۔ کہنے لگے کہ مَیں دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تم تلاوت کرتے ہو تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے تلاوت کرتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اٹکتے ہو تمہیں ٹھیک طرح قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا۔ تو میں نے ان کو کہا کہ اٹکتا نہیں ہوں بلکہ مجھے اسی طرح عادت پڑی ہوئی ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریق ہوتا ہے۔ اس حدیث کا حوالہ تو نہیں پتہ تھا۔ قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں نہیں آئی۔ لیکن مَیں نے کہا مجھے تیز پڑھنا بھی آتا ہے بے شک تیز پڑھنے کا مقابلہ کر لیں لیکن بہرحال جس میں مجھے مزا آتا ہے اسی طرح میں پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی علمیت دکھانے کے لئے بھی سمجھتے ہیں کہ تیز پڑھنا بڑا ضروری ہے حالانکہ اللہ اور اللہ کے رسول کہہ رہے ہیں کہ سمجھ کے پڑھو تاکہ تمہیں سمجھ بھی آئے اور یہی مستحسن ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہر ایک کی اپنی اپنی استعداد ہے۔ ہر ایک کی اپنی سمجھنے کی رفتار اور اخذ کرنے کی قوت بھی ہے تو اس کے مطابق بہرحال ہونا چاہئے اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہئے۔ قرآن کریم کا ادب بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھ کر پڑھا جائے۔ اگر اچھی طرح ترجمہ آتا بھی ہو تب بھی سمجھ کر، ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھنا چاہئے تاکہ ذہن اس حسین تعالیٰم سے مزید روشن ہو۔

(خطبۂ جمعہ فرمودہ 21 اکتوبر 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جولائی 2022