• 21 مئی, 2024

حج بیت اللہ روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ

حسن اس کا نہیں کھلتا تمہیں یہ یاد رہے
دوشِ مسلم پہ اگر چادرِ احرام نہ ہو

(حضرت مصلح موعودؓ)

جب ایک شخص کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنے محبوب کو راضی اور خوش کرنے کے لئے مختلف جتن کرتا ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والی چیزوں سے پیار کرتا ہے انہیں چومنے لگتا ہے اور یہ سارے والہانہ انداز اس لئے اختیار کرتا ہے تاکہ اس کا محبوب کسی طرح اس پر خوش ہوجائے۔ محبت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو یا اس کی تصویر سامنے ہو۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی

ایک مومن کا حقیقی محبوب اس کا اللہ ہے اس لئے اس کے جذبہ محبت کی تسکین کے لئے پیار اور اس کے اظہار کے لئے کچھ نمونے حج کی عبادت میں رکھے گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ حج کی اس حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے۔ کپڑوں کو سنوار کر رکھنا یہ عشق میں نہیں رہتا۔ سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی۔ اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے۔ وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی۔ غرض یہ نمونہ جو انتہائی محبت کا لباس میں ہوتا ہے۔ وہ حج میں موجود ہے۔ سر منڈا يا جاتا ہے۔ دوڑتے ہیں۔ محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے جو خدا کے سارے شریعتوں میں تصویری زبان میں چلاآیا ہے پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ97 ایڈیشن2016ء)

ایک مقام پر حضرت خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’عاشق جب سنتا ہے کہ میرا محبوب فلاں شخص کو نظر آیا اور فلاں مقام پر ملا تو وہ دیونہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور اسے تن بدن کا کچھ بھی ہوش نہیں رہتا۔ نہ کُرتے کی خبر ہے نہ پاجامہ کی۔ پھر وہاں جاکر دیوانہ وار مکانوں میں گھومتا ہے بعینہ یہ عبادت حج کا نظارہ ہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ444)

حج جو ماہ ذوالحجہ کی آٹھویں اور نویں اور دسویں تاریخوں میں ہوتا ہے صرف ایک مقدس ترین جگہ کی زیارت ہی نہیں جس کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی اور پھر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی قربانی کی مقدس روایات وابستہ ہیں بلکہ مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے مسلمانوں کے آپس میں ملنے اور تعارف پیدا کرنے اور ایک دوسرے سے ملّی معاملات میں مشورہ کرنے کا بے نظیر موقع ہے بلکہ حج مسلمانوں کی روحانی تربیت کا مرکز ہے۔جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔

اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ

(البقرہ: 198)

حج چند معلوم مہینوں میں ہوتا ہے۔ پس جس نے ان (مہینوں) میں حج کا عزم کرلیا تو حج کے دوران کسی قسم کی شہوانی بات اور بدکرداری اور جھگڑا (جائز) نہیں ہوگا۔ اور جو نیکی بھی تم کرو اللہ اسے جان لے گا۔ اور زادِسفر جمع کرتے رہو۔ پس یقیناً سب سے اچھا زادِ سفر تقویٰ ہی ہے۔ اور مجھ ہی سے ڈرو اے عقل والو۔

اسی طرح ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺفرماتے تھے جس نے اللہ کے لئے حج کیا اور پھر شہوانی بات نہ کی اور نہ احکام الٰہی کی نافرمانی کی وہ ایسا (پاک ہوکر) لوٹے گا جیسا اس دن (پاک) تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔‘‘

(صحیح البخاری جلد3 کتاب الحج حدیث نمبر 1521)

نیز آپﷺ فرماتے ہیں:۔
’’حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے ادا کرو؛ اس لیے کہ یہ دونوں افلاس اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، چاندی اور سونے کے میل کو دور کردیتی ہے۔‘‘

(مشکوٰة المصابیح کتاب المناسک)

حج بیت اللہ تو مومنین کے لیے توبہ، روحانی تربیت اور رجوع الی اللہ کا بہترین ذریعہ ہے اور بندگی و طاعت اور خودسپردگی کا مظہر ہے۔ ایک مومن کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ محبتِ الٰہی سے اپنے قلوب واذہان کو مسحور رکھے۔ جب احرام باندھے اور تلبیہ ’’لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ کا ورد کرے، تو ایسا محسوس ہوکہ بارگاہ الٰہی سے بندہ کو اطاعت و فرمانبرداری کے لیے بلایا جارہا ہے، اس پکار سے آدمی کے اندر عبودیت وبندگی کا احساس تازہ ہو اور خواہش نفس پر قابو پانے کا جذبہ نشوونما پائے۔ اس عمل سے ہر قدم پر تواضع وانکساری، روحانی کیفیت وسرور، خوف وخشیت، اخلاص پیدا ہوجائے۔ صبر وتحمل کی عادت پڑجائے، فریضہٴ حج کی ادائیگی سے مومن ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّنۡۢبِ کَمَنْ لَّا ذَنۡۢبَ لَہٗ کا حقیقی مصداق بن جاتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں یہ اہم مقصد مفقوط ہوا نظر آتا ہے کوئی مسلمان نام نمود کے لئے حج کرتا ہے تو کوئی کاروبار میں برکت کے لئے تو کوئی شیخی مارنے کے لئے لیکن حج کا جو اصل مقصد تھا اسکو آج ایک مسلمان بھول چکا ہے۔ جیسا کہ ایک مقام پر حضرت مصلح موعودؓ نے بیان کیا ہےکہ:۔
’’میں جب حج کرنے کے لیے گیا تو سورت کے علاقے کے ایک نوجوان تاجر کو میں نے دیکھا کہ جب وہ منٰی کے طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکر الٰہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عِشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں میں سفر کر رہا تھا اسی جہاز میں وہ بھی واپس آ رہا تھا ایک دن میں نے موقع پا کر اس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کے لئے کیوں آئے تھے۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منٰی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الٰہی نہیں کر رہے تھے۔اس نے کہا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دوکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں جہاں ہمارے دکان ہے اس کے بالمقابل ایک اور شخص کی دکان بھی ہے۔ وہ حج کرکے گیا اور اس نے اپنے دوکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی ادھر جانے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تو بھی حج کر آ تاکہ واپس آکر تو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دکان پر لگا سکے۔ اب بتاؤ کہ کیا اس کا حج اس کے لئے ثواب کا موجب ہواہوگا۔‘‘

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6 صفحہ35)

اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ ایک مقام پر ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس تکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہاں دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ تو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کر دیا۔تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اظہار کرے کہ تو نے تین حج کیے ہیں۔‘‘

(ماخوذ از ملفوظات جلد1 صفحہ280)

تو پھرحج کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ وہ مقصد ہے حقیقی پاکیزگی وروحانیت وتقوی میں ترقی کرنا۔اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:۔
’’حج کی عبادت محض اس غرض کے لئے ہے کہ تمہارے دلوں میں تقوی پیدا ہو۔اور تم اس ماسوی اللہ سے نظر ہٹا کر صرف اللہ ہی کو ہی اپنی ڈھال بنا لو۔اگر حج بیت اللہ یا عمرہ سے کسی کو یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی مخفی کبر اس کے سامنے آگیا ہے اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اس کی مدد سے گریہ وزاری کرے یا کم سے کم گریہ وزاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر کہےکہ اے میرے خدا: لوگوں نے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کے لیے روحانی باغ تیار ہو رہے ہیں۔پر اے میرے رب! میں دیکھتا ہوں کہ جو بیچ میں نے لگایا تھا اس میں سے تو کوئی روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی۔نامعلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ اسے کھا گیا یا میری وحشت کا کوئی درندہ اسے پاؤں کے نیچے مسل گیا۔یا میری مخفی شامت اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔ اے خدا! اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اسے اس طرح خرچ نہ کیا کہ نفع اٹھاتا مگر آج تو میرا دل خالی ہے میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوؤں اے خدا میرے اس ضائع شدہ بیج کو پھر مہیا کر دے اور میری کھوئی ہوئی متاع ایمان مجھے واپس عطا کر۔ اور اگر میرا ایمان ضائع ہوچکا ہے تو تو اپنے خزانے سے اپنے ہاتھوں سےاپنے اس دھتکارے ہوئے بندہ کو ایک رحمت کا بیج عطا فرماتا کہ میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیں اور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلی قربانی کرنے والے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کرنہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ436-437)

اسی طرح حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحب خلیفة المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:۔
’’حج میں ایک کلمہ کہا جاتا ہے لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَ النَّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ (بخاری کتاب الحج باب التلبیہ) جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مولا! تیرے حکموں کی اطاعت کے لئے اور تیری کامل فرمانبرداری کے لئے میں تیرے دروازے پر حاضر ہوں۔ تیرے احکام اور تیری تعظیم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ غرضیکہ یہ حقیقت ہے مذہب اسلام کی جس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ152)

اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:۔
’’اے تمام بنی نو انسان! یہ سن لو کہ نیکی کا جو کام بھی تم کرو گے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمہاری قدر قائم ہو جائے گی- وہ تمہاری نیکی کو پہچانے گا- کوئی چیز اس کی نظر سے غائب نہیں ہے اور اس قدر کے نتیجہ میں اس کی بے شمار نعمتوں کے تم وارث ہوگے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ حج بیت اللہ صرف ظاہری مناسک حج کا ہی نام نہیں، بلکہ ہر عبادت اسلامی کے پیچھے اس کی ایک روح ہے ظاہری عبادت جسم کا رنگ رکھتی ہے۔ اس کے پیچھے ایک روح ہے۔ جو شخص روح کا خیال نہ رکھے اور صرف جسم پر فریفتہ ہو وہ ایک مردے کی پرستش کرنے والا ہے۔‘‘

(تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم الشان مقاصد صفحہ66)

عبادت کا قبول ہونا دعاؤں سے تعلق رکھتا ہے یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہی اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور انہیں سنت اور وعدہ کے مطابق قبولیت کا شرف عطاء کرتاہے۔مگر جیساکہ وہ خود فرماتا ہے خاص اوقات کو اس کی قبولیت کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے۔ اور ایسے اوقات کی دعا یقیناً دوسرے اوقات کی نسبت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ اسی اصول کے ماتحت حضرت مسیح موعودؑ کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ:۔

چل رہی ہے نسیم رحمت کی
جو دعا کیجئے قبول ہے آج

لہذا حج کے بابرکت ایام میں ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان مبارک دنوں کو مبارک گھڑیوں کو خاص دعاوں میں گزاریں۔ لیکن اس اصول کو آج ایک مسلمان بھول چکا ہے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک مقام پر فرماتے ہیں:۔
’’ہزاروں کے مجمع میں میں نے ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو دعا کرتا ہو۔ لوگ حج صرف اس قدر سمجھتے ہیں کہ خطیب جب کھڑا ہو تو اس کے رومال کے ساتھ رومال ہلادیں۔ مگر مجھے خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اور میں نے وہاں کثرت سے دعائیں کیں۔ تو چونکہ یہ نماز کی طرح ایک معین عبادت نہیں اس لیے لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ شریعت نے صرف ظاہر بتا دیا ہے اور باطن کو انسان پرچھوڑ دیا ہے۔ مگر وہاں یہ کیفیت ہوتی ہے کہ اکثر لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ ہم نے یہاں دعا یا عبادت کرنی ہے۔ پس فرماتا ہے۔ حج کے ایام میں تمہیں استغفار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ حج میں ظاہر زیادہ نمایاں ہے اور باطن جو جوہر عبادت ہے مخفی ہے۔ اگر انسان باطن کی طرف توجہ نہ کرے اور صرف ظاہر پر عمل کرکے سمجھ لے کہ اس نے شریعت کی اصل غرض کو پورا کر دیا ہے۔ تو اُسکا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ443)

لیکن آج ایک احمدی مسلمان جو اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کر کے حقیقی مسلمان ہونے کا دعوی کر رہا ہے اس کواس اعلیٰ قسم کے عبادت کرنے سے روکا جاتا ہے لیکن آپ حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ کے اس الفاظ کو یاد رکھیں جس میں آپؒ فرماتے ہیں:۔
’’پس خدا کرے کہ ہمارا یہ حج قبول ہو کہ ہمارے جسم اگر اس پاک مقدس گھر تک پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو اے کاش ہماری روحیں ہمیشہ خدا کی محبت میں، خدا کے تصور میں اس کے گرد طواف کرتی رہیں اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے زمین کی آنکھیں یہ نظارہ دیکھنے سے محروم رہیں گی۔ زمین کے کان ان آوازوں کو نہیں سن سکیں گے جو آپ کی روحوں سے ملاءِ اعلیٰ میں بلند ہورہی ہوں گی مگر خدا اس نظارے کو دیکھے گا، خدا ان آوازوں کو سنے گا اور محبت اور پیار کی آنکھ سے ان نظاروں کو دیکھے گا محبت اور پیار کے کانوں سے ان آوازوں کو سنے گا۔ اگر یہ ہوتو ہمارا حج ہمیشہ کے لئے قبول ہے۔ ہمیں پھر کوئی پرواہ نہیں کہ ظاہری طور پر دشمن نے ہمیں کن نعمتوں سے محروم کر رکھا ہے؟ مگر اگر یہ نہ ہو تو پھر سب کچھ ہاتھ سے گیا۔ پھر نہ دنیا رہی نہ آخرت رہی۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ 28 اپریل 1996ء)

بے شک ایک احمدی مسلمان حج بیت اللہ کرنے کا ایک دلی جذبات اپنے اندر رکھتا ہے اور کیوں نہ رکھے ہم جس غلام صادق کو مانتے ہیں وہ اپنے پیارے آقا سے ایسی محبت رکھتا تھا کہ جس کے طفیل ظلی نبوت کا مقام پاگیا۔ اس وجود کے لئے جب حج کے راستے بند ہوئے تو وہ بے چین ہوا اور ایک موقعہ پر اپنے ایک مرید حضرت منشی احمد جان صاحبؓ مرحوم و مغفور کے ہاتھوں ایک دعا لکھ کے دی جب وہ حج کے لئے جارہے تھے۔ حضورؑ کے ارشاد عالی کی تعمیل میں حضرت منشی احمد جان صاحبؓ نے بیت اللہ میں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا کی اور بآواز بلند دعا کی اور جماعت آمین کہتی تھی۔ مقام عرفات پر بھی یہ دعا کی وہ الفاظ یہ تھے۔

’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجزوناکارہ پرُخطا اور نالا ئق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق ا ور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار۔ اور اپنے ہی کامل محبّین میں اٹھا۔ اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لیے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عزیز اور اس کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ضل حمایت میں رکھ کر دین اور دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دار الرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر۔ آمین یا رب العالمین

یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ انہی الفاظ سے بلا تبدیل و تغیر بیت اللہ میں حضرت ارحم الراحمین میں اس عاجز کی طرف سے کریں۔‘‘

(مکتوبات احمد یہ جلد3 صفحہ27-28)

پس اللہ تعالیٰ جب کبھی ہمیں توفیق دے حج بیت اللہ کی تو ان اصولوں کے مطابق اپنی روحانی تربیت کرنے کی ہمیں وہ توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

میری ہر ایک راہ تیری سمت ہے رواں
تیرے سوا کسی طرف اٹھتا نہیں قدم
اے کاش مجھ میں قوت ِ پرواز ہو تو میں
اڑتا ہوا بڑھوں تیری جانب سوئے حرم

(حلیم خان شاہد۔ مربی سلسلہ کٹک، اڈیشہ، انڈیا)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جولائی 2022