تبرکات
(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ)
(حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے نے 1933ء میں ٹی۔ آئی۔ ہائی سکول قادیان کے میگزین کے سالانہ نمبر کے لئے درج ذیل مضمون تحریر فرمایا۔ آئیے اس متبرک تحریر کا مطالعہ کریں اور اپنا جائزہ لیں)
میں اس وقت انسانی زندگی کے مسئلہ پر کچھ کہنا چاہتا ہوں یعنی یہ کہ دنیا میں انسان امکانی طور پر کس کس رنگ میں زندگی گزار سکتا ہے اور زندگی کی وہ کونسی قسم ہے جو مفید ہونے کے لحاظ سے سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے۔ غور کرنے سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے انسانی زندگی مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے۔
- وہ زندگی جو انسان اپنی ذات کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان اپنے اہل وعیال کیلئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان اپنے خاندان کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان اپنی قوم کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان اپنے ملک کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان بنی نوع انسان کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان کُل مخلوقات کے لئے گزارتا ہے۔
- وہ زندگی جو انسان خدا کے لئے گزارتا ہے۔
زندگی کی یہ تقسیم محض خیالی یا علمی تقسیم نہیں ہے بلکہ حقیقتاً دنیا میں انسانی زندگی انہیں اقسام میں منقسم پائی جاتی ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں جس کی زندگی ان اقسام سے باہر کبھی جا سکے۔
گو یہ ممکن ہے کہ انہیں اقسام کو کوئی شخص کس دوسرے نام کے ساتھ پیش کرے۔ مگر یہ ایک محض اصطلاحی فرق ہو گا ورنہ حقیقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اب جب ہم ان اقسام پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نقشہ بالا میں زندگی کی اقسام (سوائے قسم نمبر 4و نمبر 5 کے جو بعض صورتوں میں ایک دوسرے کے مقابل کم یا زیادہ وسیع ہو جاتی ہیں) ایک طبعی ترتیب میں مرتب ہیں۔ یعنی پہلی قسم کی زندگی کی غرض و غایت کا دائرہ بہت ہی محدود ہے۔ دوسری قسم میں یہ دائرہ پہلی قسم کی نسبت کسی قدر وسیع ہے۔ تیسری میں اور زیادہ وسیع ہے۔ و علیٰ ہذا القیاس حتی کہ آخری قسم میں نیچے کی ساری اقسام شامل ہیں۔ یعنی جو انسان خدا کے لئے زندگی گزارتا ہے ضروری ہے کہ اس کی زندگی عملاً نہ صرف خدا کے لئے بلکہ کل مخلوقات عالم کے لئے اور بنی نو ع آدم کے لئے اور ملک و قوم کے لئے اور خاندان و اہل و عیال کے لئے اور بالآخر خود اس کی ذات کے لئے وقف ہو۔
کیونکہ خدا کے لئے زندگی گزارنے کے مفہوم میں جملہ اقسام کی زندگی کی غرض و غایت شامل ہے۔ مگر اس کے الٹ نہیں ہے یعنی قسم اوّل میں قسم دوم شامل نہیں اور قسم دوم میں قسم سوم شامل نہیں۔
ایک دوسری جہت سے نقشہ بالا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو گا کہ پہلی تین قسم کی زندگیاں دراصل حیوانی زندگی کی قسمیں ہیں کیونکہ ان میں حیوانی خاصہ کے مطابق یا تو صرف اپنی ذات کی ضروریات پوری کرنے تک زندگی کا مقصد محدود رہتا ہے اور یا اپنے قریب یا دور کے رشتہ داروں تک پہنچ کر زندگی کی غرض و غایت ختم ہو جاتی ہے۔ پس ان تین قسموں میں سے خواہ انسان کسی قسم میں داخل ہو وہ حیوانی درجہ سے اوپر نہیں نکلتا۔ دراصل حیوانوں میں بھی مدارج ہیں سب سے ادنیٰ قسم حیوانوں میں وہ ہے جن کی زندگی کی غرض و غایت عملاً صرف انہی کی ذات تک محدود ہوتی ہے کیونکہ ان کا کوئی گھر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اہل زندگی ہوتی ہے۔ ان سے اوپر وہ حیوان ہیں جو اپنا ایک گھر بنا کر رہتے ہیں اور ان کی زندگی کی کشمکش خود ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کا دائرہ ان کے اہل و عیال یعنی بیوی بچوں وغیرہ تک وسیع ہوتا ہے مگر اس حلقہ سے باہر ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بیشتر حیوان اسی قسم میں داخل ہیں لیکن حیوانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو اس سے بھی اوپر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس قسم کے حیوانات خاندانوں اور قبائل کی صورت میں اکھٹے رہتے ہیں اور بسا اوقات ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا طریق اختیار کرتے ہیں۔ یہ قسم حیوانوں کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے۔ چنانچہ چیونٹی اور شہد کی مکھی وغیرہ اسی قسم میں داخل ہیں۔
ان تین قسموں سے اوپر حیوانی زندگی کا دائرہ ختم ہو کر انسانی زندگی کا دائرہ شروع ہوتا ہے اور گو شاذ کے طور پر بعض حیوانات میں قومی یا ملکی یا نوعی زندگی کی جھلک بھی پائی جاتی ہے مگر حقیقتاً یہ دائرہ حیوانی زندگی سے بالا ہے لیکن جس طرح حیوانی زندگی کے مختلف درجے اور طبقے ہیں اس طرح انسانی زندگی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ یعنی کوئی انسان تو اپنی زندگی کی غرض و غایت کے لحاظ سے اپنے قومی دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور اس سے باہر اس کی ہمدردی اور اس کی قربانی اور اس کا تعاون نہیں جاتے۔ اور کوئی انسان قوم کی قیود سے نکل کر ملکی حدود تک اپنی ہمدردی اور قربانی اور تعاون کو وسیع کر دیتا ہے اور کوئی اس سے بھی آگے نکل کر کُل بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا نصب العین بناتا ہے۔ اور قومی یا ملکی حدود اس کے راستے میں حائل نہیں ہوتیں۔ اور پھر بعض انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگیوں کو جمیع مخلوقات عالم کی خدمت کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ یہ سب مختلف طبقے انسانی زندگی کے ہیں۔ اور جوں جوں انسان کی نظر بلند ہوتی جاتی ہے توں توں وہ اپنی زندگی کے مقصد اور غرض و غایت کو وسیع کرتا چلا جاتا ہے۔مگر اس سے بھی اوپر ایک اَور درجہ ہے جو دراصل مَلکی (یعنی فرشتوں کی) زندگی کی غرض و غایت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ درجہ خدا کی خاطر زندگی گزارنے کے ساتھ وابستہ ہے۔ خدا چونکہ ایک غیر مادی ہستی ہے اور فرشتے بھی عالم ارواح کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔اس لئے حقیقتاً زندگی کی یہ قسم فرشتوں کے ساتھ ہی خاص ہے۔ گویا زندگی کے مدارج کا آغاز حیوانیت سے ہو کر بالآخر مَلکیت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے اور دونوں کے درمیان انسان ہے جو دراصل حیوان اور مَلک کے بین بین ایک معتدل ہستی ہے۔ ایک طرف انسان حیوانی جنس کے ساتھ ملتا ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ ملائک کا جوڑ ہے۔ قدرت نے اسے ایسا بنایا ہے کہ وہ اپنے دونوں ہمسائیوں کی زندگی کے دائرہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی فطرت میں حیوانی اور مَلکی دونوں قسم کے خمیر ودیعت کئے گئے ہیں، بالمقابل حیوانوں فرشتوں کے جو اپنے اپنے حلقہ کے اندر بالکل محصور ہیں اور ا سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اسی لئے انسان کا مرتبہ اپنی فطری طاقتوں کی وجہ سے فرشتوں سے بالا سمجھا گیا ہے۔ کیونکہ جہاں فرشتے اپنی مَلکیت میں بطور ایک قیدی کے محصور ہیں وہاں جب انسان مَلکیت کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ خود اپنے ارادے سے مَلکیت کے مقام کو اپنے لئے پسند کر کے اور اسے بہتر سمجھ کر اس میں داخل ہوتا ہے لیکن اگر ایک طرف اس کے لئے اوپر چڑھنے کا راستہ کھلا ہے تو دوسری طرف اس کے واسطے نیچے گرنے کا بھی دروازہ بند نہیں ہے۔ اور اسی لئے جب انسان گرنے پر آتا ہے تو وہ حیوانی زندگی کے بھی ادنیٰ ترین طبقہ تک جا پہنچتا ہے۔ چنانچہ بہت سے ایسے انسان نظر آئیں گے جن کی زندگی کا مقصد سوائے اس کے اَور کوئی نہیں ہوتا کہ کھائیں اور پئیں اور اپنے نفس کی دوسری ضروریات کو پورا کریں اور جب موت آئے تو مر جائیں۔ یہ ایک بدترین قسم کی حیوانی زندگی ہے۔ مگر بہت سے انسان اس زندگی پر قانع نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو کسی دوسرے انسان یا کسی دوسری مخلوق یا کسی دوسری ہستی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا سوائے اس حد تک کے تعلق کے کہ وہ انہیں اپنے نفس کی ضروریات اور خواہشات کے پورا کرنے میں ممد و معاون بنائیں۔ ان کی تمام زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ انہوں نے کبھی کسی دوسرے شخص کے لئے کوئی قربانی کی ہو یا کسی دوسرے کے ساتھ خود اُس کے مفاد کی خاطر تعاون سے کام لیا ہو۔ اور قسم دوم یا سوم کی زندگی گزارنے والے انسان تو بہت ہی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ دنیا میں 70یا 80 فیصدی انہیں حیوانی زندگیوں میں اپنی عمر بسر کر کے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں اور انہیں کبھی بھی یہ توفیق نہیں ملتی کہ حیوانی دائرہ سے خارج ہو کر انسانیت کے دائرہ میں قدم رکھیں۔ جو شخص زندگی کی پہلی تین قسموں میں محصور رہتے ہوئے اپنے آپ کو انسان سمجھتا ہے وہ سخت غلطی خوردہ ہے۔ وہ کسی صورت میں ایک حیوان سے افضل نہیں سوائے اس کے کہ دل و دماغ کی نسبت اپنی حیوانیت کو آرام میں رکھنے اور فربہ کرنے کی زیادہ تدبیریں سوچ سکتا ہے۔ اور اس جہت سے اگر ایسے انسان کو حیوانوں سے بھی زیادہ گرا ہوا کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ الغرض انسانیت کا پہلا مرتبہ یہ ہے (اور اس کے نیچے صرف حیوانیت ہی حیوانیت ہے) کہ انسان کی زندگی صرف اس کے نفس کےلئے یا اس کے اہل و عیال کے لئے یا اس کے خاندان اور قبیلہ کیلئے نہ ہو بلکہ اس کی وسیع قوم کے لئے ہو اور وہ اپنی ذاتی ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات اور خاندانی ضروریات کو قومی ضروریات کے مقابل پر قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہو۔ اور اس کی زندگی کے حرکت و سکون سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ صرف اپنی قوم کی خاطر جی رہا ہے۔ مگر یہ درجہ انسانی زندگی کے سب درجوں میں سے ادنیٰ اور ابتدائی درجہ ہے اور انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو کُل مخلوقاتِ عالم کے فائدے کے لئے گزارے۔ یعنی نہ صرف ہر دوسرا خاندان اور ہر دوسری قوم اور ہر دوسرا ملک اور ہر دوسرا انسان اس کی قربانی اور اس کے تعاون سے حصہ پا رہا ہو بلکہ نوع انسانی کی حدود سے باہر نکل کر اس کی زندگی دوسری مخلوقات عالم کیلئے بھی برکت اور رحمت کا موجب ثابت ہو رہی ہو۔ ایسا انسان مَلکیت کے درجہ کو خارج از بحث رکھتے ہوئے اپنی انسانیت میں کامل سمجھا جائے گا اور جوں جوں اس کی قربانی اور اس کا اخلاص اور اس کی خدمت ترقی کرتے جائیں گے اس کا کمال زیادہ روشن ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے انسانی فطرت میں یہ طاقت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ انسانیت کی مادی حدود سے نکل کر ملکیت کے دائرہ میں داخل ہو جائے۔ اس لئے وہ انسان جس کی نظر مخلوقات عالم تک وسیع ہو کر رک جاتی ہے کبھی بھی کامل انسان نہیں سمجھا جا سکتا۔ بلکہ کامل انسان وہ ہو گا جس کی نظر مخلوقات کے مقام کو سمجھتے ہوئے اپنے خالق کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے اور چونکہ خالق کی خدمت میں مخلوق کی خدمت طبعاً شامل ہے اس لئے ایسے انسان کی زندگی خالق و مخلوق دونوں کے لئے وقف ہو گی اور یہی وہ اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جس پر انسانی زندگی کا سلوک ختم ہوتا ہے۔ ایسا شخص اپنے نفس کو بھی زندہ رکھتا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی پالتا ہے اور اپنے خاندان کی پرورش میں بھی حصہ لیتا ہے مگر چونکہ وہ سب کچھ خدا کی خاطر کرتا ہے اس لئے اس کی زندگی کا یہ حصہ بھی دراصل حیوانی نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ حقیقتاً مَلکیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
یہ وہ مختلف درجے ہیں جن میں انسانی زندگی منقسم پائی جاتی ہے۔ اب ہر شخص خود سوچ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی زندگی کس قسم میں داخل ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اکثر لوگ دیانتداری کے ساتھ اس معاملہ میں غور کریں تو ان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی زندگی ایک محض حیوانی زندگی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد اپنی ذات یا اہل و عیال یا خاندان کی ضروریات کے پورا کرنے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا اور اس دائرہ سے باہر ان کے جتنے تعلقات ہوں گے ان کی بھی اصل غرض و غایت یہی ہو گی کہ وہ اپنی یا اپنے اہل و عیال یا اپنے خاندان کی ترقی اور آرام و آسائش کا سامان مہیا کریں۔ حقیقی معنوں میں انسانی زندگی بسر کرنے والے لوگ دنیا میں تھوڑے ہوتے ہیں تو پھر ان لوگوں کی تعداد تو بہت ہی کم ہے جو مَلکی دائرہ میں داخل ہو کر کامل انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ انسان کی پیدائش کی اصل غرض و غایت ہی یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے زندگی گزارے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّاریات:57)۔ یعنی ہم نے دنیا میں انس و جن کو صرف اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ ہمارے عبد بن کر زندگی گزاریں۔ اس جگہ عبادت سے صرف نماز اور روزہ وغیرہ کی معین رسمی عبادت مراد نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو اسی غرض سے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خدا کے منشاء کے ماتحت چلائے اور ہر کام میں خواہ وہ دنیا کا ہو یا دین کا اس کے مدنظر خدا کی خوشنودی ہو اور اسی لئے خدا کی خاطر زندگی گزارنے میں حقوق العباد کی ادائیگی بھی شامل ہے کیونکہ جب کہ خدا نے دنیا کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کا منشاء ہے کہ ہر چیز اپنے مقررہ حلقہ کے اندر مفید طور پر زندگی بسر کرے تو لازماً اس کے عبد کا بھی یہی فرض ہو گا کہ وہ خدا کے منشاء کو پورا کرتے ہوئے خالق کی خدمت کے ساتھ ساتھ مخلوق کی خدمت کو بھی اپنا نصب العین بنائے۔
پس اے ہمارے عزیز بچو! آپ کو چاہئے کہ آپ اپنی زندگیوں کا مطالعہ کریں اور ہمیشہ کرتے رہیں اور اس بات کو دیکھتے رہیں کہ آپ کس قسم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ آپ کی زندگی صرف کھانے پینے اور اپنے نفس کی ضروریات پوری کرنے تک محدود ہے یا یہ کہ آپ کی زندگی کی غرض و غایت اپنے رشتہ داروں اور خاندان سے باہر نہیں جاتی اور آپ کے ساتھ کام اسی نیت کے ماتحت ہیں کہ ان سے آپ کی ذات کو یا آپ کے رشتہ داروں کو یا خاندان کو یا دوستوں کو (کیونکہ دوست بھی دراصل رشتہ داروں کے حکم میں ہیں) کوئی فائدہ پہنچ جائے اور آپ کی تعلیم بھی اسی غرض سے ہے کہ آپ مندرجہ بالا دائرہ کی ضروریات کو زیادہ بہتر صورت میں مہیا کر سکیں تو آپ یقین کریں کہ آپ کی زندگی دراصل ایک حیوانی قسم کی زندگی ہے اور جس قدر جلد آپ اس زندگی کی لعنت سے نکل سکیں اتنا ہی اچھا ہے۔
کم سے کم مقصد جو آپ کو ابتداء میں اپنے سامنے رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ آپ انسانی زندگی کے دائرہ میں داخل ہو جائیں اور یہ نیت کر لیں کہ آپ کی زندگی صرف آپ کے نفس یا آپ کے خاندان کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی قوم اور جماعت کے لئے ہے اور جو کام بھی آپ کریں اس میں قوم اور جماعت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں۔ یہ وہ ادنیٰ ترین مقام ہے جس سے آپ انسان کہلانے کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے انسان کی پیدائش کی غرض و غایت سے اس سے بھی بہت بلند ہے۔
پس آپ لوگوں کی صرف یہ کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ حیوانیت کے مقام میں گرنے سے بچ جائیں کیونکہ تنزل میں پڑنے سے بچ جانا کوئی قابل تعریف خوبی نہیں ہے بلکہ خوبی یہ ہے کہ انسان اوپر کی طرف چڑھے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بچے اپنا نصب العین اس ارفع مقام کو بنائیں گے جس کی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔ آمین
(مشکوٰۃ مارچ 2005ء بحوالہ ماہنامہ خالد دسمبر 1963ئ)