• 8 مئی, 2025

محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کا ذکر خیر

مقام ِ نعیم پر فائز درویش صفت خادم ِ سلسلہ
محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کا ذکر خیر

مقام نعیم پر فائز، درویش صفت، بے نفس بے ریا، دیرینہ خادم ِسلسلہ محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری سابق امیر و مشنری انچارج سیرالیون و امریکہ، نائب وکیل التبشیر و زعیم اعلیٰ ربوہ مورخہ 15فروری 2015ء کو87سال کی عمر میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہوئے۔ 20فروری 2015ء کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی خدمات اور شمائل حسنہ کا تذکرہ فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ یہ خطبہ جمعہ الفضل انٹر نیشنل 13مارچ 2015ء میں طبع شدہ ہے۔

محترم مولانا محمد صدیق شاہد صاحب 31اکتوبر 1928ء کو لودھی ننگل تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم میاں کرم دین صاحب نے 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ مولانا صاحب نے پرائمری پاس کرنے کے بعد 1940ء میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور 1947ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ آپ ایک ذہین طالب علم تھے اور کلاس میں پوزیشن بھی لیا کرتے تھے۔آپ نے 1952ء میں شاہد پاس کیا۔ اسی سال اکتوبر میں بذریعہ بحری جہاز مغربی افریقہ کے ملک سیرالیون بھجوادئیے گئے۔اور چار سال تک فریضہ دعوت الی اللہ ادا کرنے کے بعد اکتوبر 1956ء میں واپس پاکستان آئے اور پھر تین سال مرکز میں خدمات بجالاتے رہے۔دسمبر1959ء میں سیرالیون کے امیر و مشنری انچارج بنا کر بھجوائے گئے اور 1962ء میں واپس آئے۔

15جنوری 1966ء کو آپ کو غانا بھجوایا گیا اور سالٹ پانڈ میں مشنری ٹریننگ کالج کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں تیسری بار سیرالیون متعین ہوئے اور 1972ء تک امیر و مشنری انچارج رہے۔ صرف اس عرصہ قیام میں 1966 تا 1970ء آپ کی فیملی آپ کے ہمراہ رہی ۔باقی عرصہ بیرون ممالک آپ فیملی کے بغیر رہے۔

1973ء میں آپ نیویارک امریکہ متعین ہوئے اور پھر واشنگٹن آگئے۔ امریکہ میں آپ کا قیام 1977ء تک رہا۔اکتوبر 1979ء میں آپ کو ایک بار پھر سیرالیون میں امیر و مشنری انچارج بنا کر بھجوایا گیا۔ 1980ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنائجیریا و غانا تشریف لئے گئے تو آپ سیرالیون سے وفد لیکر حضرت صاحبؒ کی ملاقات کے لئے حاضرہوئے۔آپ کے قیام سیرالیون اور امریکہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ان ممالک کے دورہ پر بھی تشریف لائے تھے۔

جلسہ سالانہ 1982ء کے موقع پر آپ مرکز واپس آئے اور چار ماہ کے بعد اپریل 1983ء میں آپ دوبارہ سیرالیون چلے گئے اور تقریباً ڈیڑھ سال بعد 1984ء میں آپ واپس ربوہ آگئے۔مرکز میں آپ استاد جامعہ احمدیہ,نائب ناظر اصلاح وارشاد مقامی،ایڈیشنل سیکرٹری نصرت جہاں اور پھر 1993ء تا 2012ء نائب وکیل التبشیر کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔

جولائی 1992ء میں ایک بار آپ کو ایک ہفتہ کے لئے قائم مقام ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ کی خدمت بھی سونپی گئی۔چنانچہ 24جولائی 1992ء کو آپ نے بحیثیت قائم مقام ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ مسجد اقصیٰ میں جمعہ پڑھایا۔آپ علمی ذوق رکھنے والے اور وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ آپ کو رمضان المبارک میں مسجد مبارک میں درس قرآن دینے کی بھی توفیق ملتی رہی۔خاکسارکوآپ کے اسّی کی دہائی میں وہ درس بھی یاد ہیں جب شدید گرمی کا موسم اور لاؤڈ سپیکر کی بھی اجازت نہ تھی۔ سخت گرمی میں روزہ رکھ کر آپ درس دیتے۔ سامعین تک آواز پہنچانے میں دقت بھی محسوس ہوتی اور بسا اوقات گلا ساتھ نہ دیتا لیکن بڑی ہمت اور جدوجہد کے ساتھ یہ فریضہ ادا کرتے رہے۔چونکہ آپ علمی ذوق کے حامل تھے اس لئے اپنے علم کو اپنے تک ہی نہ رکھتے بلکہ روزنامہ الفضل کے ذریعہ سے اپنے علم اور ذاتی مشاہدات و تجربات کو احباب ِ جماعت تک پہنچایا۔ میدان ِ عمل کے ایمان افروز واقعات اور تاریخ احمدیت کے کئی اوراق کو آپ نے محفوظ کر دیا جو آئندہ نسلوں کے لئے روشن تاریخ اور مشعل راہ ہے۔جامعہ احمدیہ میں ہمیں آپ کے علم سے استفادہ اور آپ کی نیک سیرت سے فیض حاصل کرنے کی توفیق ملی۔ آپ جیسے عالم باعمل اور صاحب ِکردار وجود نے یقینا ہماری کردار سازی میں بھی نمایاں حصہ لیا۔

مجلس انصاراللہ میں خدمات

محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کی جماعتی خدمات کا ایک حصہ مجلس انصاراللہ کے لئے آپ کی لمباعرصہ اور مستقل مزاجی کے ساتھ بھرپور خدمات ہیں۔آپ سیرالیون سے ربوہ آگئے تو جہاں آپ کوارٹرز تحریک جدید کے صدر کے طور پرخدمات بجالاتے رہے وہاں آپ انصاراللہ مرکزیہ سے بھی وابستہ رہے۔ بطور مرکزی نمائندہ آپ کو متعدد مجالس پاکستان کے دورے کرنے کی توفیق ملی جن میں آپ کوتنظیمی امور کا جائزہ لینے کے ساتھ تربیتی موضوعات پر تقاریر اور محافل سوال وجواب میں شرکت کا موقع ملتا رہا۔پھراگست 1988ء میں آپ کو زعیم اعلیٰ ربوہ مقرر کر دیا گیا۔ اس منصب پر آپ سال 2001ء تک فائز رہے۔زعیم اعلیٰ ربوہ پاکستان کی سب سے بڑی مجلس انصاراللہ کا نگران ہوتا ہے۔آپ نے اس خدمت کا حق ادا کیا۔ روزانہ دفتر حاضر ہونا اور ربوہ کے حلقہ جات کی تنظیمی ذمہ داریوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برا ء ہونا ایک جہد پیہم، عزم و استقلال،مستقل مزاجی اور قربانی کا متقاضی ہے۔ آپ نے 14سال اسی لگن، خلوص اور محنت کے ساتھ یہ ذمہ داری نبھائی اورنمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔

موجودہ زعیم اعلیٰ ربوہ چوہدری نصیر احمد صاحب جنہوں نے محترم مولانا صدیق گورداسپوری صاحب کے ساتھ بطور منتظم عمومی لمبا عرصہ 1991 تا 2001ء خدمت کی توفیق پائی وہ بیان کرتے ہیں کہ مولوی صاحب روزانہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ بروقت دفتر حاضر ہوجاتے تھے۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ نماز عصر یہیں ادا ہو جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت دفتر کو دیا جاسکےاور دفتر آنے والے زعماء و عہدے داران سے ملاقات اور راہنمائی کا سلسلہ جاری رہے۔ آپ عموماً نماز مغرب دفتر مقامی میں پڑھ کر گھر جایا کرتے تھے۔

آپ مولوی صاحب کی ایک خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے دل میں نومبائعین کی تربیت کا بہت خیال رہتا کہ دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں جو پھل مجلس نے حاصل کئے ہیں انکو جماعت کا مفید وجود بنایا جاسکے۔ چنانچہ آپ جمعہ کے دن رخصت منانے کی بجائے آپ مضافات ربوہ میں موجود نومبائعین کی ملاقات و تربیت کے لئے دورہ پر نکل جاتے اور انکے پاس جا کر جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ سکھیکی، جھنگ موڑ، ڈاور، عثمان والا وغیرہ کے علاقوں میں آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔

مولوی صاحب کے سارا عرصہ خدمت میں انصاراللہ مقامی ربوہ کے دوران خاکسار کے والد محترم چوہدری محمد صادق صاحب اکاؤنٹنٹ وکالت تبشیر ربوہ بطور منتظم مال انصاراللہ مقامی ربوہ خدمت کی توفیق پاتے رہے۔مولوی صاحب کے عرصہ خدمت میں زعامت علیاربوہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسابقت فی الخیرات کی روح کو زندہ رکھتے ہوئے بہت سے اعزازات حاصل کئے اور ان14سالوں میں ربوہ نے متفرق کامیابیوں کے علاوہ 6 بار علم انعامی بھی حاصل کیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

آپ کی سیرت کے چند نمایاں پہلو

محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کو مجھے بہت قریب سے سالہا سال دیکھنے اور آپ کی صحبت سے فیضاب ہونے کا موقع ملا۔جب آپ 1984ء میں مستقل طور پر پاکستان آگئے تو پھر تادم واپسیں آپ سے تعلق رہا۔ایک عرصہ تک ہم کوارٹرز تحریک جدید میں ساتھ رہے۔ آپ ہمارے صدر محلہ بھی تھے۔جامعہ احمدیہ میں آپ سے استاد شاگرد کا تعلق بھی رہا۔میرے والد محترم کا آپ سے محلہ، وکالت تبشیر اور انصاراللہ مقامی ربوہ میں سالہا سال کا ساتھ رہا۔آپ کے بچے ہمارے دوست تھے۔ آپ کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب مربی سلسلہ امریکہ میرے کلاس فیلو اور قریبی دوست ہیں۔ ان ناطو ں کی بدولت آپ کے ساتھ مستقل میل جول رہا اورآپ کی شفقت، محبت اور حسن ِ سلوک سے مستفیض ہوتا رہا ہوں۔
آپ کا وجود باعث ِ برکت تھا۔ آپ بے نفس اور بے ریا تھے سادہ اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل تھے۔آپ کا شمار حضرت مصلح موعود ؓ کے ان مجاہدوں میں تھا جن کا اوڑھنا بچھونا سلسلہ کی خدمت تھا۔آپ مستجاب الدعوت اور فانی فی اللہ بزرگ تھے۔ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کی عملی تصویر، پاک طینت، نیک سیرت اور عالم باعمل تھے۔

محترم مولانا محمد صدیق شاہد صاحب نے اپنے نام کے ساتھ گورداسپوری کا لاحقہ استعمال کیا اور یہ آپ کی پہچان کا ذریعہ بن گیا۔اس لاحقہ کے استعمال کے پیچھے بھی آپ کی طبیعت کی حلیمی اور جذبہ ایثار کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ مربیان کرام میں آپ کے ہم نام محترم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری آپ سے سینئر تھے اور وہ امرتسری کے نام سے مشہور ہوئے۔آپ کے ہمعصر مربی مکرم محمد صدیق ننگلی صاحب بھی تھے جو آپ کے ساتھی اور ہم نام بھی تھے۔ آپ نے خاکسارسےبیان کیا کہ ہم دونوں کا نام محمد صدیق تھا تو میں نے جامعہ پاس کر کے اپنا نام محمد صدیق شاہد کر لیا۔ اس پر ننگلی صاحب نے بھی اپنا نام محمد صدیق شاہد کر لیا پھر نام ایک جیسے ہوگئے۔ آپ بتاتے ہیں کہ چونکہ میں لودھی ننگلی کا تھا تو میں نے اپنے ساتھ ننگلی کا لاحقہ لگا لیا۔ مولانا محمد صدیق صاحب بھی ننگل کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی ننگلی کا لاحقہ رکھ لیا۔ تب میں نے اپنے ساتھ ننگلی کی بجائے گورداسپوری کا اضافہ کر دیا۔ یہ کہانی آپ نے بڑے مزے سے سنائی۔ آپ ایثار کا مظاہرہ کرتے رہے اور بالآخر ناموں میں شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

آپ کی پاک سیرت اور عظمت کردار کا خوبصورت اور لازوال بیان سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی زبان مبارک سے بھی ہوا جو یقینا آپ کے لئے اور آپ کی نسلوں کے لئے ہمیشہ باعث ِ اعزاز رہے گا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جب 1970ء میں افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19جون 1970ء میں افریقہ کی سر زمین پر خدمات ِسلسلہ بجالانے والے ان مبلغین کا تذکرہ فرمایا جو کہ ’’مقام نعیم‘‘ پر فائز ہیں۔ ان مبلغین میں حضورؒ نے محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کا نام بھی لیا۔ یقینا آپ ایسے ابرار میں شامل تھے جن کے چہرے ہمیشہ رضائے الٰہی کی خوشبو سے معطر رہتے تھے۔

تاریخی جلسہ سالانہ قادیان 1991ء جس میں تقسیم بر صغیر کے بعد قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح کی پہلی بار آمد ہوئی تھی اور پاکستان کی تشنہ روحوں کو بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی مقدس صحبت اور کلمات طیبات کو براہ ِ راست سننے کا موقع ملا تھا۔اس تاریخی جلسہ میں محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب بھی شامل تھے اور خاکسار کو بھی جانے کا موقع ملاتھا۔ ہم اہل محلہ کو بہشتی مقبرہ کے خیمہ جات میں رہائش ملی۔ برسات سے سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا بزرگان کے لئے تو یہ رہائش موافق نہ تھی۔ ابتدائی چند دن مولوی صاحب بھی اسی خیمہ میں ہمارے ساتھ رہے۔اس خیمہ میں خاکسار کے والد محترم اور مکرم مولانا منیر احمد عارف صاحب نیز محلہ کے دوسرے نوجوان بھی تھے اور مولوی صاحب کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب بھی بعد میں اسی خیمہ میں آئے۔ مولوی صاحب کو بعد میں دوسری جگہ رہائش مل گئی تھی لیکن کوئی حرف ِ شکایت ان بزرگان کی زبان پر نہ تھا اور جو جماعتی انتظام موجود تھا اسی پر ہی قانع رہے۔

اس تاریخی موقع پر مولوی صاحب کے ساتھ ہم قادیان کی مقدس بستی کے مختلف مقامات کو دیکھنے کے لئے گئے اور مولوی صاحب ہمیں ان کی تاریخی اہمیت بھی بتاتے رہے اور اپنے بیتے ہوئے ایام کو یاد کرتے رہے۔اسی سفر میں مولوی صاحب کی سادہ مزاجی اور بچوں کے ساتھ شفقت کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آیا کہ ہم لوگ تو پہلے قافلہ میں ہی قادیان پہنچ گئے تھے اور مولوی صاحب ساتھ تھے۔آپ کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب چند روز بعد قادیان آئے یہ قادیان کی زیارت کا ہمارے لئے پہلا موقع تھا۔ اس سفر میں ہم اپنے بستر ساتھ لیکر گئے تھے۔ سعید خالد صاحب نے چونکہ اپنے سنٹر سے بعد میں آنا تھا تو مولوی صاحب اپنے بیٹے کے لئے بستر اپنے ہمراہ لے آئے تاکہ اس کو بعد میں مشکل نہ ہو۔ مولوی صاحب کی اس بات کو میں اکثر یاد کرتا ہوں کہ کس قدر سادگی اور بچوں کے لئے شفقت ہے۔ اور جب سعید صاحب چند روز بعد قادیان پہنچ گئے اور ہم قادیان کے ماحول سے خوب آشنا ہو چکے تھے تو مولوی صاحب نے ہمیں کہا کہ سعید کا خصوصی خیال رکھیں۔ یہ بات بھی مولوی صاحب کی سادہ مزاجی کا پرتو تھی کہ سعید ہم سے عمر میں بھی سینئر لیکن آپ نے ہمیں یہ بات کہی کیونکہ ہم نے ماحول ِقادیان سے خوب واقفیت پیدا کر لی تھی۔ بہشتی مقبرہ قادیان کی اس رہائش اور پورے جلسہ سالانہ کی پُر کیف یادیں ہر وقت کانوں میں رس گھولتی ہیں۔

مولوی صاحب کے زہد و تقویٰ اور عبادات میں خشوع و خصوع کے بارہ میں آپ کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب مربی سلسلہ امریکہ بیان کرتے ہیں کہ فرض نمازیں توجماعت کے بغیر تصور نہ تھا۔ آپ تہجد بھی ایسے ادا کرتے جیسے فرض نماز ہوتی ہے۔ جب سفر سے رات تاخیر سے بھی گھر پہنچتے تب بھی تہجد کا ناغہ نہیں ہوتا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کبھی نماز میں ہنڈیا ابلنے والی کیفیت میں نے دیکھی ہے تو وہ والد محترم کی نماز تہجد میں مشاہدہ کی ہے۔ سعید صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابا جان نماز باجماعت ہر حال میں مسجد میں ادا کرتے۔ آخری سالوں میں گھٹنوں کی خرابی کی وجہ سے پیدل یا سائیکل پر مسجد نہیں جا سکتے تھے تو میری ڈیوٹی تھی کہ آپکو کار میں مسجد لیکر جاتا اگر کبھی کسی کام کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو ناراض ہو جاتے کہ میری نماز ضائع کر دی۔ اپنے بچوں کے ساتھ بھی صرف نماز کے معاملہ میں ہی سختی سے پیش آئے ہیں۔

خدمت ِدین کے جذبہ کا یہ عالم تھا کہ خواہش تھی کہ تادم ِ واپسیں خدمت پر مامور رہیں۔آخری چند سالوں میں گھٹنوں کی تکلیف سے پیدل یا سائیکل پر جانا تو ممکن نہ رہا تھا۔ اس دوران آپ کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب کو یہ سعادت ملی کہ وہ آپ کو کار پر وکالت تبشیر لیکر جاتے۔ سعید صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کی صحت کمزورہوئی اور گھٹنوں کا توازن بگڑنے لگا جس کی وجہ سے آپ بعض دفعہ گر بھی گئے تھے تو میں نے کہا ابا جان اب آپ آفس سے رخصت لے لیں اس پر آپ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمانے لگے کیا تمہیں وقف ِزندگی کا مطلب معلوم ہے؟ پھر خود ہی فرمایا کہ میں نے زندگی وقف کی ہے اور میں ابھی زندہ ہوں اس لئے میرا وقف ختم نہیں ہوا۔ سعید صاحب کہتے ہیں کہ 2010ء میں انکی تقرری امریکہ ہوگئی تو فکر لاحق ہوئی کہ اب والد صاحب کیسے دفتر جائیں گے۔ والد صاحب سے اس فکر کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم امریکہ جاؤ یہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ میراکوئی بہتر انتظام کر دے گا۔ چنانچہ آپ سعید صاحب کے امریکہ جانے کے بعد بھی دفتر جاتے رہے۔ لیکن یہ کسی کی بات پسند نہ کرتے تھے کہ اب دفتر جانا بند کریں۔

آپ نے جماعتی اموال اور امانتوں کی خوب پاسداری کی ہے۔کوئی ذاتی فائدہ اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور یقین کامل تھا کہ وہ آپ کی ہر ضرورت پوری کر دے گا۔آپ کے بیٹے محمد سعید خالد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابا جان جن ایام میں امریکہ میں خدماتِ سلسلہ بجا لارہے تھے (یعنی 1973 تا 1977ء) اسی دور میں بڑے بھائی محمد نصیر صاحب نے الیکٹریکل انجینئر نگ کی ڈگری مکمل کی۔بعض احباب نے مشورہ دیا کہ اعلیٰ تعلیم اور بہتر مستقبل کے لئے امریکہ چلے جائیں۔ اس کے لئے آپ والد صاحب کو کہیں کہ وہ آپ کو سپانسر کر دیں۔جب والد محترم سے اس بارہ میں بات کی تو انہوں نے کہا مجھے گرین کارڈ جماعت کی وجہ سے ملا ہے جو کہ میرے پاس جماعت کی امانت ہے۔ اس کو میں کسی ذاتی مصرف میں نہیں لا سکتا اور ساتھ کہا کہ میں دعا کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو اتو وہ خود تمہارے لئے امریکہ جانے کے سامان پیدا فرما دے گا۔ چنانچہ والد صاحب امریکہ کے بعد افریقہ چلے گئے تھے وہاں سے بھائی کو لکھا کہ میں نے خدا سے دعا کی ہے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ تمہیں ویزہ مل گیا ہے۔ آپ کے بیٹے نے امریکہ کے لئے سٹوڈنٹ ویزا اپلائی کیا جو اس کو مل گیا۔ اس وقت مولوی صاحب کی بیشتر اولاد امریکہ میں مقیم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور مولوی صاحب کی دعاؤں سے مستفیض ہو رہی ہے۔

اس ضمن میں محترم حنیف احمد محمود صاحب خاکسارسے بیان کرتے ہیں کہ جب 1984ء میںمولوی صاحب سیرالیون سے واپس پاکستان آرہے تھے تو وہ بھی سیرالیون تھے۔ سیرالیون کے احباب جماعت کے ساتھ مولوی صاحب بہت محبت رکھتے اور احباب جماعت آپ سے بہت پیار کرتے تھے۔جب رخصت ہونے لگے تو بہت سے احباب نے آپ کو قیمتی تحائف دئیے اُن میں ایک قیمتی ھمک (Hammock) یعنی لٹکانے والا ڈوریوں سے بنا پلنگ بھی دیا۔ مولانا محمد صدیق صاحب نے ان تمام تحائف کو فروخت کیا اور ان کی رقم کو مشن ہاؤس میں یہ کہتے ہوئے جمع کروادیا کہ یہ تحائف مجھے ذاتی حیثیت سے نہیں ملے بلکہ میں تو یہاں خلیفۂ وقت کا نمائندہ تھا اس لئے یہ جماعت کی امانت ہے اور یہ امانت آپ نے جماعت کے سپرد کردی۔ سبحان اللہ۔

محترم حنیف احمد محمود صاحب مزید بتاتے ہیں کہ آپ مربیان کے ساتھ شفیق باپ کی طرح سلوک فرماتے تھے۔ مربیان کی بہت عزت و احترام کرتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ مربیان پر کوئی ابتلاء نہ آئے بلکہ اصلاحِ احوال ہو جائے اور وہ احسن طریق سے اپنا وقف نبھاتے رہیں۔ آپ اپنے ماتحت مربیان سے شفقت بھی کرتے اور اپنے اوپر بھی وہی قواعد لگاتے جن کی اپنے ماتحتوں کو ہدایت دیتے۔ چنانچہ آپ نے بیان کیا کہ ہم مربیان کو مشن ہاؤس میں مچھر سے بچاؤ کیلئے سپرے خریدنے کی اجازت دی گئی تھی نیز یہ کہ اس کا بل بھجوادیا کریں لیکن جب بل مقررہ بجٹ سے زائد ہوجاتا تو آپ ہدایت دیتے کہ اب یہ سپرے جماعتی خرچ سے خریدنا بند کر دیں اور اپنے مشن ہاؤس میں بھی فوراً یہ ہدایت کردیتے کہ یہاں بھی سپرے نہ خریدا جائے۔

دفتر انصاراللہ پاکستان کے کارکن عبدالصمد بلوچ صاحب بیان کرتے ہیں کہ انصاراللہ پاکستان آنے سے پہلے وہ انصاراللہ مقامی میں کارکن تھے اور مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری اس وقت زعیم اعلیٰ ربوہ تھے اور چوہدری محمد صادق صاحب (خاکسار کے والد محترم) منتظم مال ربوہ تھے جب میں انصاراللہ پاکستان میں ملازم ہو گیا اور مقامی سے رخصت کیا جانے لگا تو منتظم صاحب مال ربوہ نے مولوی صاحب کو تجویز دی کہ عبدالصمد نے یہاں بہت اچھا کام کیا ہے اب اسے ایک اضافی تنخواہ دیکر یہاں سے رخصت کرنا چاہئے۔چنانچہ مولوی صاحب نے احسان کا سلوک کرتے ہوئے مجھے ایک اضافی تنخواہ کے ساتھ انصاراللہ مقامی سے رخصت کیا۔

محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے تمام عمر اخلاص و وفا کے ساتھ خدمت ِ دین میں گزاری اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت کا یہ سلسلہ آپ کی اولاد میں بھی جاری ہے۔ مجھے یاد ہے کہ آپ اپنے بیٹے محمد سعید خالد صاحب کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ کی وجہ سے بہت خوش تھے اوربار بار اس کا ہم سے اظہار کیا اور اس کے میدان ِ عمل میں بالخصوص افریقہ میں خدمت کی توفیق ملنے پر شاداں رہتے تھے۔ اب انہیں امریکہ میں خدمت ِ سلسلہ کی توفیق مل رہی ہے۔ 2012ء تک جب تک صحت اور ہمت نے ساتھ دیا مولوی صاحب خدمت ِ دین پر کمر بستہ رہے اور پھر آخری تین سال بیماری میں گزرے۔ بیماری کے ان ایام میں آپ کے بیٹے محمد ناصر صاحب اور انکی اہلیہ کو غیر معمولی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔محمد ناصر صاحب امریکہ میں مقیم تھے اور خدمت ِ والدین کی خاطر انکے پاس ربوہ آگئے۔ اللہ تعالیٰ انکو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔ آمین۔

شادی و اولاد

محترم مولانا محمد صدیق صاحب گورداسپوری کی شادی 1952ء میں مکرم خلیل احمد صاحب آف گولبازار ربوہ کی بیٹی مکرمہ امتہ المجید بیگم صاحبہ سے ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بقید حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر و صحت میں برکت عطافرمائے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کی قربانی کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطاب فرمودہ یکم اگست 1992ء بر موقع جلسہ سالانہ مستورات برطانیہ میں ان خواتین میں فرمایا تھا جنہوں نے اپنے واقف ِ زندگی خاوندوں کے ساتھ ساتھ قربانی دی اور لمبا عرصہ اپنے شوہروں کے بغیر گزارا۔ (اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد دوم صفحہ275) آپ کی اہلیہ اور بچے صرف ایک بار افریقہ مولوی صاحب کے ساتھ چار سال قیام پذیر رہے۔ باقی تمام عرصہ مولوی صاحب اپنی فیملی کے بغیر میدان ِعمل میں خدمات بجالاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کو پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کیں۔

  1. مکرمہ عائشہ الٰہی صاحبہ اہلیہ مکرم مقصود احمد قمر صاحب مربی سلسلہ نظارت اشاعت
  2. مکرم انجینئر محمد نصیر صدیق صاحب کیلیفورنیا امریکہ
  3. مکرم محمد منور صاحب حال ربوہ
  4. مکرم محمد سعید خالد صاحب مربی سلسلہ امریکہ
  5. مکرم محمد ناصر صاحب حال ربوہ
  6. مکرمہ صادقہ فرحت صاحبہ ربوہ
  7. مکر محمد ظہیر صدیق صاحب کیلیفورنیا امریکہ

اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو اپنے بزرگ والد کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین۔

مضمون کا اختتام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس مکتوب پر کررہا ہوں جو سیدی کی طرف سے خاکسار کو محترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب کی وفات اور تعزیت کے بعد موصول ہوا تھا۔یہ دراصل مولوی صاحب کی سیرت کا خلاصہ ہے۔3مارچ 2015ء کے محررہ خط بنام خاکسار میں حضورا نور ایدہ الودود نے فرمایا:
’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے مولانا محمد صدیق شاہد گورداسپوری صاحب کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ مرحوم علمی، عملی، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اعلیٰ مثال اور قابل ِتقلید نمونہ تھے۔ بلا شبہ وہ خلافت کے جاں نثار اور سلطانِ نصیر تھے۔ وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول خدمت کی توفیق پاکر حاضر ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی اولاد کو بھی ان کے نقش ِ قدم پر چلائے اور انکی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق دے۔آمین۔‘‘

(مرتبہ: محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 04 اگست 2020ء