• 28 اپریل, 2024

میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں مرزائی بننے نہیں جا رہا،

میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں مرزائی بننے نہیں جا رہا،
صرف قرآنِ شریف سننے جا رہا ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت سید ولایت شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں 1897ء میں شہر سیالکوٹ کے امریکن مشن ہائی سکول کی پانچویں جماعت میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ پہلے بورڈنگ ہاؤس میں رہتا تھا۔ پھر اپنے انگریزی کے استاد کی سفارش پر آغا محمد باقر صاحب قزلباش رئیس کے ہاں اُن کے دو برادرانِ خورد کا ٹیوٹر مقرر ہوا اور ایک الگ چوبارہ رہائش کے واسطے دیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی کی نسبت سنا ہوا تھا لیکن چونکہ یہ اپنے پرانے رسمی عقائد کے مطابق نہ تھے اس لئے تحقیق کی طرف بھی توجہ نہ دی۔ علاوہ ازیں عوام کچھ ایسے غلط پیرائے میں حضرت اقدس کی تعلیم پیش کرتے تھے کہ دل میں ان کو سننے سے بھی نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ کچھ دنوں بعد شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور کثرت سے لوگ مرنے لگے۔ ایک دن نیچے بازار میں دیکھا تو کئی جنازے اور ارتھیاں گزر رہی تھیں اور اُن کے لواحقین ماتم کرتے جا رہے تھے۔ اس عبرتناک نظارے سے مجھے خیال آیا کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے۔ ممکن ہے کہ مجھ پر بھی حملہ کر دے اور اگر خدانخواستہ موت آ جائے تو مجھ جیسا نالائق انسان خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں کونسے نیک اعمال پیش کرے گا۔ پھر اعمال حسنہ تو ایک طرف رہے، چھوٹی سی عمر میں اپنے گاؤں کی مسجد میں پڑا ہوا قرآنِ کریم بسبب تلاوت نہ جاری رکھنے کے بھول چکا ہے۔ (یعنی نیکیاں تو علیحدہ رہیں جو بچپن میں قرآن شریف پڑھا تھا وہ بھی بھول گیا ہے کیونکہ اُس کے بعد کبھی پڑھا نہیں)۔ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ میں اپنی کلاس میں اوّل ہوں لیکن عقبیٰ میں یہ تو نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے انگریزی اور حساب وغیرہ میں کتنے نمبر حاصل کئے۔ اس خیال سے اتنی ندامت محسوس ہوئی کہ دل میں مصمّم ارادہ کر لیا کہ قرآنِ شریف کو از سرِ نو کسی نہ کسی سے ضرور صحیح طور پر پڑھوں گا۔ پہلے خود قرآنِ کریم کو کھول کر پڑھا لیکن یقین نہ آیا کہ آیا میں بالکل صحیح پڑھ رہا ہوں (یا غلط ہے)۔ اس کے بعد سوچا کہ کسی مسجد کے مُلّاں سے پڑھوں لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ وہ کہے گا کہ تم اتنے بڑے ہو گئے ہو، قرآن شریف بھی پڑھنا نہیں جانتے۔ آخر کار یہ ترکیب سوجھی کہ اگر کہیں کلام اللہ کا درس دیا جاتا ہے تو وہاں جا کر مَیں بھی بیٹھ کر قرا ءت سنتا رہوں اور صحیح قرأت کے علاوہ ترجمہ بھی سیکھ جاؤں۔ ادھر اُدھر سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سوائے احمدیہ مسجد کے اور کہیں درس نہیں ہوتا۔ میں نے دل میں کہا کہ خیر قرآنِ کریم سن لیا کروں گا اُن کے عقائد اور تعلیم کے بارے میں بالکل توجہ نہیں دوں گا۔ جب میں جانے لگا تو آغا صاحب نے روکا اور کہنے لگے کہ اگر تم وہاں گئے تو ضرور مرزائی ہو جاؤ گے۔ میں نے اُن کو یقین دلایا کہ میں مرزائی بننے نہیں جا رہا، صرف قرآنِ شریف سننے جا رہا ہوں۔ وہ نہ مانے۔ لیکن اگلے دن موقع پا کر میں مسجد احمدیہ میں پہنچ گیا۔ حضرت میر حامد شاہ صاحب مرحوم اُن دنوں درس دیا کرتے تھے۔ میں بلا ناغہ ہر روز درس میں حاضر ہو جایا کرتا تھا اور حقائق و معارف سنتا رہتا تھا۔ جب کبھی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم قادیان سے آ کر درس دیتے تو اُن کے رُعب کی وجہ سے ہمارے غیر احمدی استاد بھی درس میں حاضر ہو جاتے تھے۔ گو مجھے خاص طور پر بھی تبلیغ نہیں کی گئی لیکن قرآنِ کریم کے درس کے دوران میں ہی میرے سب شکوک رفع ہو گئے اور معلوم ہو گیا کہ سلسلہ احمدیہ پر سب الزامات بے بنیاد ہیں۔ ان میں ذرا بھی صداقت نہیں۔ آخر میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ چند دنوں کے بعد منظوری کا جواب آ گیا اور میں خوش قسمتی سے احمدیت کی آغوش میں آگیا۔ میں تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے مجھے شریف خاندان میں پیدا کیا۔ ڈاکٹری جیسا شریف پیشہ سیکھنے کی توفیق دی۔ میری اکثر دعائیں قبول فرمائیں۔ سب مرادیں پوری کیں۔ رزق دیا، اولاد دی اور سب سے بڑھ کر جو نعمت عطا فرمائی، وہ نبی آخر الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شناخت تھی جس سے احمدی بننے کا فخر حاصل ہوا۔ آغا صاحب کی بات سچی نکلی(جو انہوں نے کہا تھا نا کہ مرزائی ہو جاؤ گے) کہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مَیں سیدھے رستے پر پڑ گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ (غیر مطبوعہ) جلدنمبر1صفحہ173تا176 روایت حضرت سید ولایت شاہ صاحبؓ)

یہ چند واقعات تھے جو مَیں نے بیان کئے۔

دعا کی تحریک

اِس وقت مَیں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ جوں جوں جماعت ترقی کی منازل طے کر رہی ہے، حاسدوں کی اور مفسدین کی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی چلی جا رہی ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے جماعت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ بعض دفعہ چھپ کر حملے کرتے ہیں، بعض دفعہ ظاہری حملے کرتے ہیں، بعض دفعہ ہمدرد بن کر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو دشمن کے ہر قسم کے شر سے بچنے کے لئے بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل اذا خاف قوماً حدیث نمبر 1537)

رَبِّ کُلُّ شِیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

(تذکرہ صفحہ 363 ایڈیشن چہارم)

اور اس طرح باقی دعائیں بھی۔ ثبات قدم کی دعا رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

(البقرہ: 251)

یہ ساری دعائیں اور درود شریف بھی میں نے کہا تھا، اس کو بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم دشمن کے ہر قسم کے شر سے محفوظ رہیں۔

(خطبہ جمعہ 12؍ اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سالانہ جلسہ ریجن اپواسو Appoisso، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2022