• 22 جون, 2025

عبادالرحمٰن کی نشانیاں

قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کی سب سے پہلی صفت جس کے تعارف کا بیان ہمارے سامنے آتا ہے وہ صفت رحمٰن ہی ہے یعنی قرآن کریم کا آغاز بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کے ساتھ شروع ہوتا ہے گویا وہ رحمٰن خدا اپنے بندے سے ایک تعلق کو بیان کرتا ہے کہ میرے بندے مجھے ایسے یاد کریں۔ تو انسان جب بھی اس اللہ کا نام لیتا ہے تو یہی صفت سب سے پہلے بطور تعارف کے آتی ہے جو ساری کائنات کے لئے عام ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورت فاتحہ کی تفسیر جلد اوٌل میں بیان فرماتے ہیں ’’صفت الرحمٰن کا فیضان انسان اور دوسرے حیوانات کو قدیم زمانہ سے حکمت الہٰیہ کے اقتضاء اور جوہر قابل کی قابلیت کے مطابق پہنچتا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس صفت رحمانیت میں انسانوں یا حیوانوں کے قویٰ کے کسب اور عمل اور کوشش کا کوئی دخل نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا خالص احسان ہے۔ جس سے پہلے کسی کا کچھ عمل بھی موجود نہیں ہوتا اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک صفت عام رحمت ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صفت رحمانیت کا فیضان کسی عمل کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی استحقاق کا ثمرہ ہے۔ بلکہ یہ ایک خاص فضل ایزدی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ انسانوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے لئے یہ مہیا فرمایا۔ اس میں متقیوں کے لئے نصیحت اور یاددہانی ہے‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ 42۔ 43)

خدا تعالیٰ کی یہ صفت رحمٰن یعنی کہ وہ بن مانگے دینے والا ہے اس بات کی علامت ہے کہ وہ رب العالمین ہمیشہ سے اپنے بندوں پر مہربان ہے اور اس کو اپنی مخلوق سے نہایت اعلیٰ درجہ کا تعلق شفقت اورمحبت ہے۔ اس کا اپنے بندوں سے ایسا گہرا تعلق ہےکہ جس کو انسان بھول نہیں سکتا۔

لفظ عَبَدَ کے معنیٰ ہیں ’’اس نے اطاعت کی۔ اس کے حکم کے آگے سر جھکایا۔ اس کی توحید کا اقرار کیا۔ اس نے عبادت کی۔ کسی کے نقش قبول کرنے کے ہیں‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 28)

اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس خالق و مالک نے اتنے سامان آرام انسان کو مہیا کئے۔ وہ اس خدا کو جانے اور اس کو مانے۔ اس کی تلاش کرتے ہوئےاسی کا سچا عبد بنے جو حقیقی عبادت کے لائق ہے۔ تمام علم و معرفت کے چشمے اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اب میں اپنے مضمون کی طرف مزید بڑھتی ہوں۔ خدا تعالیٰ کا بہت بڑا احسان اپنے بندوں پر یہ بھی ہے کہ اس نے قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل کی اور جہاں ہماری جسمانی ضروریات کا خیال رکھا۔ اسی طرح ہماری روحانی ترقی کے سامان ہمیں عطا کئے۔

قرآنِ مجید میں عبادالرحمٰن کی یہ علامات اور نشانیوں کے بارےمیں خود علیم و خبیر خدا بیان کرتا ہے۔

جس کا سورۃ الفرقان کی آیات 61تا77 میں تفصیلاً ذکر موجود ہے۔ خدا تعالیٰ بیان کرتا ہے۔

اَلَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۚۛ اَلرَّحۡمٰنُ فَسۡـَٔلۡ بِہٖ خَبِیۡرًا

(الفرقان: 60)

ترجمہ :وہ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہے چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔ وہ رحمٰن ہے۔ پس اس کے متعلق کسی واقف حال سے سوال کر۔

پھر اگلی ہی آیت میں صفت رحمٰن کا ذکر دو بار تکرار سے بیان ہوا ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ جب بھی رحمٰن خدا نے انسانوں پر رحم کرتے ہوئے بن مانگے ان کی روحانی اصلاح اور ترقی کے لئے انبیاء کو معبوث کیا اور کتاب و حکمت نازل کی کہ اس رحمٰن خدا کی اطاعت میں جھکتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاؤ۔ تو ہر زمانے کے نافرمان ابلیس صفت لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم رحمٰن کو سجدہ نہیں کریں گے رحمٰن کیا چیز ہے؟ کہ ہم اس کو سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے۔ یہ تکبر خود سری ان کو نفرت میں مزید بڑھا دیتی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ جبکہ ابھی آدم کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی اس وقت سے یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ شیطان کا تکبر کرنا اور اس رحمٰن کے حکم کا انکار کرنا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر دنیا میں بھیجے اور اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتا رہا شیطان کا حکم ماننے والے ہر دور میں اس رحمٰن خدا کا انکار کرتے رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’جب کافروں اور بے دینوں اور دہریوں کو کہا جاتا ہے کہ تم رحمٰن کو سجدہ کرو تو وہ رحمٰن کے نام سے متنفٌر ہو کر بطور انکار سوال کرتے ہیں کہ رحمٰن کیا چیز ہے؟ (پھر بطور جواب فرمایا) رحمٰن وہ ذات کثیر البرکت اور مصدر خیرات دائمی ہے جس نے آسمان میں بُرج بنائے بُرجوں میں آفتاب اور چاند کو رکھا جو کہ عامہ مخلوقات کو بغیر تفریق کافر و مومن کے روشنی پہنچاتے ہیں۔

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 537)

قرآن مجید کی وہ آیت یہ ہے:

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمُ اسۡجُدُوۡا لِلرَّحۡمٰنِ قَالُوۡا وَ مَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَ زَادَہُمۡ نُفُوۡرًا

(الفرقان: 61)

ترجمہ اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمان کے حضور سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمان کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے اور ان کو اس بات نے انہیں نفرت میں اور بھی بڑھا دیا۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کی نشانیوں کا ذکر ایسے کرتا جو حقیقی طور پر عبادالرحمٰن ہیں۔ تاکہ آئندہ آنے والے وقتوں کے لوگ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عبادالرحمٰن بنیں۔ وہ خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. شکر گزاری۔
  2. عاجزی و انکساری۔
  3. جاہلوں سے بحث نہیں کرتے بلکہ سلام کہتے ہیں۔
  4. عبادت گزار۔
  5. دعاگو۔
  6. انفاق فی سبیل اللہ۔
  7. اسراف و بخل نہیں کرتے۔
  8. میانہ راوی۔
  9. کسی جان کو قتل نہیں کرتے۔
  10. وہ زنا نہیں کرتے۔
  11. توبہ کرنے والے۔ نیک صالحہ اعمال کرنے والے۔
  12. جھوٹ نہیں بولتے۔
  13. لغویات سے عزت و شرافت سے گذرنے والے۔
  14. جب نصیحت کی جاتی ہے اندھے اور بہرے سا سلوک نہیں کرتے۔
  15. صبر کرنے والے۔


1۔ شکر گزاری

انسان جب اپنے محسن کے احسان کو یاد کرتاہے تو وہ شکر گزار ہوتا ہے اور لازمی ہے کہ محسن کو یاد کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ سے بڑھ اور کون ہے جو سب سے زیادہ احسان کرنے والا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا

(الفرقان: 62)

بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس نے آسمان میں بُرج بنائے اور اس (آسمان) میں ایک روشن چراغ (یعنی سورج) اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا

(الفرقان: 63)

اور وہی ہے جس نے دن اور رات کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا اُس کے لئے جو چاہے نصیحت حاصل کرے یا شکر کرنا چاہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خدا وہ ہے کہ جو رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے۔ تا جس نے یاد کرنا ہو وہ یاد کرے یا شکر کرنا ہے تو شکر کرے یعنی دن کے بعد رات کا آنا اور رات کے بعد دن کا آنا اس بات پر ایک نشان ہے۔ کہ جیسے ہدایت کے بعد ضلالت اور غفلت کا زمانہ آ جاتا ہے۔ ایسا ہی خدا کی طرف سے یہ بھی مقرر ہے کہ ضلالت اور غفلت کے ہدایت بعد کا زمانہ آتاہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ537)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے تفسیر کبیر میں بیان فرمایا کہ ’’دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کی نیکی کا پہلو اتنا کمزور ہوتا ہےکہ وہ شیطانی راہوں پر چلتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں انتباہ کیا جائے اور بُرے افعال سے بچنے کی نصیحت کی جائے۔ دوسرے وہ جو مذہب کی اِتباع میں انسان کو حاصل ہوتا ہے مگر ان کے اندر جذبہ شکر گزاری پایا جاتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی نعماء اور اُسکی عطا کردہ قوتوں کا غلط استعمال نہیں کرتے بلکہ ان سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چونکہ لیل و نہار کے آنے جانے میں اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ خدا کے نبی اور رسول دنیا کی اصلاح کے لئے آتے ہیں اور پھر کبھی تاریکی اور ظلمت کا دورہوتا ہے۔ اس لئے لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا میں بتایا ہے کہ روحانی رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں کیا حکمت ہے۔ ہم کیوں رات کے بعد دن لاتے ہیں اور کیوں روحانی تاریکی کے بعد آفتابِ ہدایت سے روشن کرتے ہیں۔ ہماری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ گہنگار ہوں۔ اُن کو اس سلسلہ رسالت کے ذریعہ نیک بنا دیا جائے۔ اور جو لوگ فطری نیکی کے مقام پر کھڑے ہوں انہیں خدا کا کلام اور الہام اس سے بھی اعلٰی مقام یعنی شکر کی طرف لے جائے۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ -557 558)

ہمارے لئے اس میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے وہ روشن چمکتے ہوے سورج ہیں جو فطرت کی نیکی کے سب سے اونچے مقام پر تھے اس لئے وہ خاتم ٹھہرے پھر اسلام پر ایک تاریکی کا زمانہ آیا جس میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے لئے وہ چاند بنا دیا جس نے اُس سورج سے روشنی حاصل کی اور ہماری ہدایت کے سامان کردئیے۔ اب ہم پر اس خدا کی شکر گزاری واجب ہے اور اس رنگ میں ہے کہ ہم اس کے حقیقی عبد شکور بن جائیں۔

2۔ عاجزی وانکساری

وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا

(الفرقان: 64)

اور رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔

انسان جب خدا کی شکر گزاری کرتا ہے تو وہ شکر گزاری اسے عاجزی و انکساری کی طرف لے جاتی ہے وہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی عظمت کو جانتا ہے۔ اس لئے وہ اسکے بندوں کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آتا ہے اور ان کی چال ایسی پُر وقار اور میانہ روی والی ہوتی ہےجو انہیں اپنے ماحول میں سب سے نمایاں کر دیتی ہے۔

ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج میں یہ صفت خصوصیت سے نمایاں تھی۔ آپ ہر ایک ساتھ نہایت عاجزی و انکساری سے پیش آتے۔ خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ خادم سے ہو، بیوی سے، دشمن سے ہو،صحابہ کے ساتھ ہو ہر ایک سے آپ عاجزی و انکساری سے پیش آتے تھے آپ کی پاکیزہ سیرت کے بے شمار واقعات ہیں اور موجودہ زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی طریق رہا ہے۔ آپ علیہ السلام ہر ایک ملاقات کرنے والا خواہ اس نے بیعت کی ہوئی ہے یا نہیں آپ اس سے نہایت عاجزی و انکساری سے ملتے اور آنے والے کا ہر طرح خیال رکھتے۔ موجودہ دور میں خلفائے مسیح کے پاک نمونوں کو ہم سب دیکھتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ میں بیان فرماتے ہیں:
’’عبادالرحمٰن میں سے سب سے بڑے عبد رحمن وہ نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی قوت قدسی نے عبادالرحمٰن پیدا کئے۔ تکبر سے رہنے والوں کو عجز کے راستے دکھائے۔ ان کے ذہنوں سے غلام اور آقا اور امیر اور غریب کی تخصیص ختم کر دی۔ یہ سب انقلاب کس طرح آیا۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی دلوں میں کس طرح پیدا ہوئی۔ کیا صرف پیغام پہنچانے سے؟ تعلیم دینے سے؟ نہیں، اس کے ساتھ ساتھ خود بھی عبدیت کے اعلیٰ معیار آپؐ نے قائم کئے۔ خود بھی یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے دکھا کر اپنے عمل سے ثابت کرکے دکھایا کہ جو کچھ مَیں کہہ رہا ہوں اس کے اعلیٰ معیار بھی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ یہ عاجزی اور انکساری کے نمونے آپؐ نے عمل سے دکھائے کہ یہ میری زندگی کے ہر پہلو میں نظر آئیں گے۔ معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے سے بھی میرا یہی سلوک ہے، جاہل اور اجڈ لوگوں سے بھی میرا یہی سلوک ہے، بڑوں سے بھی یہی سلوک ہے اور چھوٹوں سے بھی یہی سلوک ہے۔ اور یہی سلوک ہے جو میری زندگی کے ہر لمحے میں ہر ایک کے ساتھ تمہیں نظر آئے گا۔ اور یہی کچھ دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ نے آپؐ کو یہ سند عطا فرمائی کہ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم: 5) یعنی ہم قسم کھاتے ہیں کہ تو اپنی تعلیم اور عمل میں نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی اس قسم نے آپؐ کو عاجزی میں اور بھی بڑھایا۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت حسین بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا ہے اور رسول بعد میں۔ ۔‘‘

(مجمع الزوائد للھیثمی -کتاب علامات النبوۃ -باب فی تواضعہﷺ)

ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں، اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھریلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے۔ آپؐ کپڑے خود دھو لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے تھے۔ خود اونٹ کو باندھتے تھے۔ اپنے پانی لانے والے جانور اونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے۔ بکری کا دودھ خود دوہتے تھے، اپنے ذاتی کام بھی خود کر لیتے تھے۔ خادم سے کوئی کام لیتے تو اس میں اس کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔ حتیٰ کہ اس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے۔ بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے۔

(تلخیص از مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ121 و اسد الغابۃ ذکر محمد ؐ ذکر جمل من اخلاقہ ومعجزاتہﷺ، مشکوٰۃ المصابیح -کتاب الفضائل – باب فی اخلاقہ وشمائلہﷺ بحوالہ خطبہ جمعہ 11 مارچ 2005ء)

یہ وہ پاک نمونے ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

3۔ جاہلوں سے بحث نہیں کرتے بلکہ سلام کہتےہیں

رحمٰن کے بندوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ جاہلوں سے بحث نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رحمٰن کے فرمانبردار بندے تو وہی ہیں جو زمین میں سکینت۔ وقار اور تواضع کی چال چلتے ہیں۔ نہ تکبر اور سستی کی۔ اور جب جاہل ان سے الجھیں تو ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں۔ جس میں نہ بدی و ایذاء ہو اور نہ جہل و نادانی۔‘‘

(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ262. حقائق الفرقان جلد سوم۔ صفحہ251)

مؤمنین کو جب ایسے حالات پیش آتے ہیں کہ جاہلوں سے کوئی علمی کلام یا معاملات ہوں تو جہاں ان کو علم ہو جائے کے اب وہ جہالت پر اتر آئے ہیں تو اسی وقت وہ ان کو سلامتی کی دعا کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہدایت اور علم پا چکے ہوتے ہیں۔

اس لئے وہ جاہلوں کی جہالت کی باتوں اور ایسے کاموں سے دور ہی رہتے ہیں اور وقار کے ساتھ سلام کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
’’پہلی علامت یہ ہے کہ وہ زمین پر بڑے سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں اس کے ایک معنیٰ تو یہ ہیں کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی بڑے اعتدال کے ساتھ بسر کرتے ہیں یعنی نہ تو بے جا غضب اور تیزی سے کام لے کر لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ سستی اور جمود کا شکار ہوکر اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی سے غافل ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا وجود لوگوں کی ترقی اور انکی فلاح و بہبود کا موجب بنتاہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ561)

4۔ عبادت گزار

وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا

(الفرقان: 65)

اور وہ لوگ اپنے گھروں میں راتیں سجدوں میں اور کھڑے ہو کر گزارتے ہیں۔

خدا تعالیٰ کے یہ بندے اس رحمٰن کے عبادت گزار ہوتے ہیں۔ وہ اس کی ہستی کو جان چکے ہوتے ہیں۔ اور قدرتوں کا انہیں علم ہے کہ وہی خدا ہی ہے جو حقیقی عبادت کے لائق ہے۔ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہ صرف پانچ وقتہ نماز کے پابند ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ تہجد گزار بھی ہوتے ہیں۔ اور اسکے سوا کسی سے نہیں مانگتے۔ کیونکہ انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جائے وہ اس کا پورا حق ادا کرنے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ایسی رہی کہ آپ خدا تعالیٰ کے وہ عبادت گزار بندے بنے رہے اور اپنے صحابہ کو یہی تلقین کرتے رہے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے خود کہا کے اب اعلان کر دے کہ میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔

ان باتوں میں ہمارے لئے بہت گہرا پیغام ہے کہ ہم بھی عبادت کے حق کو پوری طرح ادا کرنے والے ہوں۔

5۔ دعاگو

وہ بندے عبادت کے ساتھ ساتھ دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ تاکہ زندگی کے ہر مرحلے میں خدا تعالیٰ کا فضل و کرم ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا

(الفرقان: 66۔ 67)

اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب: ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ یقیناًوہ عارضی ٹھکانہ کے طور پر بھی بری ہے اور مستقل ٹھکانہ کے طور پر بھی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں جہنم سے مراد اخروی جہنم ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی جہنم کے رنگ ہیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے ہیں کہ الہٰی ہمیں ہر ایسے کام سے بچائیو جو ہمیں دنیا و آخرت میں ذلیل کرنے والا ہو۔ تو ہمیں افلاس اور تنگدستی کی جہنم سے بچا۔ ہمیں جہالت اور کم علمی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں بداخلاقی اور عیاشی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں دنیاداری اور ہوس پرستی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں اپنی نسلوں کی خرابی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں کفر اور شیطانیت کے جہنم سے بچا۔ ہمیں خودسری۔ جھوٹ۔ ظلم اور تعدی سے بچا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مستقل طور پر یہ خرابیاں پیدا نہ ہوں اور ہمیشہ ہمارا قدم صراطِ مستقیم پر قائم رے‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ565)

وہ عبادت کے دوران اس کے حضور دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں وہ رحمٰن انکی دعائیں سنے گا۔ جیسا کہ وہ ہر نماز میں اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد مانگتے ہیں یہ دعا کرتے ہی رہتے ہیں۔ وہ سمیع و بصیر ہے۔ وہ اپنے بندوں کو مانگنے پر ضرور عطا کرتا ہے۔ خدا نے خود بندوں کو حکم دیا کہ مجھے پکارو میں جواب دونگا تم بھی میرے حکموں پر عمل کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہی ہے۔ اس میں ہمارے لئے نصیحت یہ ہے کہ ہم اپنی عبادت کو ایسے مضبوط طریق پر ادا کرتے ہوئے دعائیں مانگتے رہیں کہ خدا ہمیں اس راستے پر دوام عطا کرے اور اس کے حضور دعا مانگتے ہوئے اس کے نیک بندوں میں شامل ہو جائیں۔

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

(الفرقان: 75)

اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

ہمیں کثرت سے یہ دعا اپنے لئے۔ اپنے جیون ساتھی کےلئے اور اپنی اولاد کرتے رہنا چاہئے۔

6۔ انفاق فی سبیل اللہ

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا

(الفرقان: 68)

اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ اس کے درمیان اعتدال ہوتا ہے۔

یہ رحمٰن کے خاص بندے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
’’رحمٰن کے بندوں کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو دو باتیں ان کے مد نظر رہتی ہیں۔ اول۔ یہ کہ وہ اسراف سے کام نہیں لیتے اور دوسرا وہ بخل نہیں کرتے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ568)

خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرکے وہ خوشی اور اطمینان قلب حاصل کرتے ہیں۔ اور کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

7۔ اسراف و بخل نہیں کرتے

عبادالرحمٰن کی ایک یہ علامت ہے کہ وہ اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی وہ بخل سے کبھی کام لیتے ہیں۔ بلکہ ضرورت کہ موقعے اور محل پر خدا اور اس کے بندوں کے لئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے علامت بیان ہوئی ہے کہ وہ انفاق فی سبیل کرتے ہیں۔ جب بھی موقعہ ملے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اور اسراف اور بخل سے بچتے ہیں۔

بخیل اس شخص کو کہتے ہیں جو مال جمع کرتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خرچ کرنا نہیں چاہتا۔ نہ ضرورت مند پر۔ نہ کسی غریب پر۔ نہ رشتہ داروں پر بلکہ وہ اپنے مال جمع کرتا رہتا ہےاور گنتا رہتا ہے۔ اسے توفیق ہی نہیں ہوتی کہ وہ اسے خرچ کرے۔ مگر وہ خاص بندے انفاق فی سبیل کے ساتھ ساتھ اسراف اور بخل سے بچنے والے ہوتے ہیں۔

8۔ میانہ راوی

رحمٰن کے بندوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دین آسان ہے لیکن جو دین پر قابو پانا اور اس پر غالب آنا چاہتا ہے وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے گا لہٰذا میانہ روی اختیار کرو سہولت کے قریب قریب رہو۔ لوگوں کو خوشخبری دو۔ صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (بذریعہ نوافل) اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ732)

9۔ کسی جان کو قتل نہیں کرتے

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا

(الفرقان: 69)

اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو ناحق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ایسا کرے گا گناہ کی سزا پائے گا۔

رحمٰن کے بندوں میں ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ کسی جان کو ناجائز طور پر قتل نہیں کرتے۔ یہ بات اپنی پوری شان سے صحابہ رضوان کی زندگی کے واقعات سے معلوم ہوتی ہے کہ ایسے مواقع بھی آئے دشمن پر ان کو پورا اختیار حاصل تھا مگر انہوں نے ناحق کسی جان کو قتل نہیں کیا۔ نہ بچوں کو نہ عورتوں کو۔ جیسا کہ جنگوں کے حالات میں واقعات سے ملتا ہے۔

10۔ وہ زنا نہیں کرتے

عبادالرحمٰن کی یہ علامت بھی ہے کہ وہ پاکیزگی ان کی صفت خاص ہوتی ہے اس لئےوہ زنا کے قریب نہیں جاتے بلکہ ان کے دل خدا تعالیٰ کے حکموں کے تابع عمل کرتے ہیں اس لئے وہ کسی بے حیائی کے قریب نہیں جاتے۔ بلکہ جائز طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی ز ندگی بسر کرتے ہوئےخدا کی اطاعت میں سرشار ہوتے ہیں۔

11۔ توبہ کرنے والے۔

نیک صالحہ اعمال کرنے والے

اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔ وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا

(الفرقان: 71۔ 72)

سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ خوبیوں میں بدل دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو وہی ہے جو اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’صوفیاء کے نزدیک حقیقی توبہ کا نام موت ہے جو توبہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ3)

جب وہ توبہ اور استغفار کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے جاذب بن جاتے ہیں۔ گو کہ بہت مشکلات راستے پر آتی ہیں مگر وہ مستقل مزاجی سے اسی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔

توبہ ایک ایسی سڑک ہے جو انسان کو عمل صالح کی منزل کی طرف لے جاتی ہے۔

انسان جب توبہ کرکے خدا کی فرمانبرداری اختیار کرتا ہے اور نیکیوں میں آگے آگے ترقی کرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتا ہے تواس کی گزشتہ کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں ان کی جگہ اللہ تعالیٰ خوبیوں کو پیدا کر دیتا ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ چمکتے ہوئے ستارے بن گئے۔

12۔ جھوٹ نہیں بولتے

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا۔ وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا۔ وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

(الفرقان: 73تا75)

اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے ربّ کی آیات یاد کروائی جاتی ہیں تو ان پر وہ بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربٌ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔

عبادالرحمٰن کی یہ صفت ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ بلکہ سچائی کی راہ پر چلتے اور سچائی اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔

جھوٹ بولنے والا انسان گویا ایسا ہی ہے کہ وہ خدا کے مقابلہ میں شرک کا ایک بت کھڑا کرلیتا ہے۔ جو اس کو پناہ دے گا۔ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کیا جی حضور ضرور بتائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا شریک ٹھہرانا۔ والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ تکیے کا سہارا لئے ہوئے جوش میں آکر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو! تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کاش حضور خاموش ہو جائیں۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ817)

13۔ لغویات سے عزت و شرافت
سے گذرنے والے

‌عبادالرحمٰن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ سب لغویات سے عزت و شرافت سے گذر جاتے ہیں۔ کہ تمام لغویات سے ایسے اپنے دامن کو بچا کر گذر جاتے ہیں کہ گویا کہ وہ لغویات کو دیکھتے ہی نہیں۔

14۔ جب نصیحت کی جاتی ہے اندھے اور
بہرے سا سلوک نہیں کرتے

عبادالرحمٰن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس کو غور سے سنتے اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ وہ نیکی کے ہر میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہوئے اپنی عملی حالتوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ جو بھی خدا کا پیغام اور نصیحت ہو اس پر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کے مظہر ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ صرف جسمانی طور سننے اور دیکھنے والے نہیں ہوتے بلکہ روحانی لحاظ سے بھی سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ ہوتے ہیں۔

15۔ صبر

یہ ایک ایسا اخلاقی عمل ہے جو بہت مشکل ہے مگر عبادالرحمٰن کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صبر کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایمان لانے پر جن مشکلات کا انہیں سامنا رہا اس وقت وہ صلوٰۃ اور صبر کے ذریعے خدا سے مدد مانگتے رہے اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے انہیں وہ مضبوطی عطا کی جو عام لوگوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو صابر ہی شرح صدر کا رتبہ پاتا ہے۔ جو صبر نہیں کرتا وہ گویا خدا تعالیٰ پر حکومت کرتا ہے۔ خود اس کی حکومت میں رہنا نہیں چاہتا۔ ایسا گستاخ اور دلیر جو خدا تعالیٰ کے جلال اور عظمت سے نہیں ڈرتا وہ محروم کردیا جاتاہے اور اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صبر کی حقیقت میں سے یہ بھی ضروری بات ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۔ صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ192)

دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیں حقیقی عبادالرحمٰن بنا دے اور ہمارے عملوں کو مزید ترقی عطا کرے کہ ہم خدا اور اس کے رسول اور امام وقت اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہر نصائح پر لبیک کرنے والے ہوں تاکہ ہم ان نیک بندوں میں شامل ہوں جائیں جن میں یہ خصوصیات ہیں۔ آمین ثم آمین

(نصرت قدسیہ وسیم۔ فرانس)

پچھلا پڑھیں

سالانہ جلسہ ریجن اپواسو Appoisso، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2022