اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے لا تعداد اولیاء و علماء پیدا کئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک نہایت ہی عظیم الشان بزرگ محدِّث حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ آپؒ کا نام محمد بن اسماعیل تھا۔ آپؒ 13 شوال 194ھ (مطابق 21 جولائی 810ء) بروز جمعہ بخاریٰ کے ایک ایرانی گھر میں پیدا ہوئے۔ اسی لئے آپ کو بخاری کہتے ہیں۔ بخاریٰ آج کے جغرافیائی نقشہ میں ازبکستان کا ایک شہر ہے۔ آپؒ کا سلسلہ نسب اس طرح سے ہے: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بَذدِذبَہ۔ حضرت امام بخاریؒ کے خاندان میں اسلام آپؒ کے پر دادا مغیرہ کے ذریعہ آیا جنہوں نے یمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ حضرت امام بخاریؒ کے والد کی وفات آپؒ کے بچپن میں ہی ہو گئی تھی۔ آپؒ کے والد نہایت نیک شخص تھے اور ایک عظیم محدِث تھے۔ وفات سے پہلے انہوں نے کہا کہ ’’میرے مال میں حرام تو دور کی بات ہے، حرام کا شائبہ تک نہیں ہے۔‘‘
(سیرت امام بخاری رحمہ اللہ، صفحہ 76، دار السلام ریسرچ سینٹر)
آپؒ نے اپنی تعلیم اپنی والدہ اور بڑے بھائی کی سرپرستی میں پائی۔ آپؒ کی والدہ بھی بہت پارسا اور نیک خاتون تھیں۔ ہر دم دعا میں مشغول رہتی تھیں۔ بچپن میں ایک دفعہ امام بخاریؒ کی آنکھیں سخت خراب ہو گئیں یہانتک کہ بصارت جاتی رہی۔ اطباء علاج سے عاجز آگئے۔ امام بخاری کی والدہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ وہ فرما رہے ہیں: ’’اے خاتون اللہ تعالیٰ نے تمہارے رونے اور دعا کرنے سے تمہارے بیٹے کی آنکھیں درست کر دیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ جس شب کو میں نے خواب دیکھا، اسی کی صبح کو میرے بیٹے (محمد) کی آنکھیں درست ہو گئیں، روشنی پلٹ آئی اور وہ بینا ہو گئے۔
(سیرۃ البخاری، صفحہ 54، از عبد السلام مبارکپوری)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ بچپن سے ہی ذہین اور عقل مند تھے۔ آپؒ کی تربیت نہایت باکیزہ اور علمی و دینی ماحول میں ہوئی۔ علامہ قسطلانی آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ: ’’آپ علم کی گود میں پَل کر جوان ہوئے اور تا دم زیست اسی انداز سے شرف و فضیلت حاصل کرتے رہے۔‘‘
(سیرت امام بخاری رحمہ اللہ، صفحہ 78، دار السلام ریسرچ سینٹر)
حضرت امام بخاریؒ کو اللہ تعالیٰ نے کمال کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ امام بخاریؒ کے ایک کاتب محمد بن ابی حاتم کا بیان ہے کہ میں نے امام ممدوہ سے سوال کیا: ’’آپ نے حفظِ حدیث کا آغاز کب کیا؟‘‘ فرمانے لگے: ’’حفظِ حدیث کا ملکہ مجھے اُسی وقت ودیعت کر دیا گیا تھا جب میں بالکل ابتدائی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’اس وقت آپ کی عمر کتنی ہوگی؟‘‘ فرمایا: ’’دس برس یا اس سے بھی کم۔‘‘
(سیرت امام بخاری رحمہ اللہ، صفحہ79، دار السلام ریسرچ سینٹر)
عبد السلام مبارکپوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ محمد بن ابی حاتم وراق کہتے ہیں:
سمعت البخاری یقول: ’’أُلْھِمْتُ حفظَ الحدیث و أنا فی الکُتَّابِ۔‘‘
یعنی میں نے خود امام بخاری کو فرماتے ہوئے سنا۔ وہ کہتے تھے کہ خدا نے مجھے اس وقت حفظ حدیث کا شوق دیا جب کہ میں مکتب میں ہی تھا۔
(سیرۃ البخاری از عبد السلام مبارکپوری، صفحہ 59)
جب امام بخاریؒ سولہ سال کے ہوئے تو اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ حج کے موقعہ پر مکہ مکرمہ آئے اور ان کے لوٹنے کے بعد وہ تحصیل علم کے لئے یہیں (مکہ) میں رہ گئے۔
(دیباچہ صحیح بخاری تعارف حضرت امام بخاری، صفحہ 16، 17، نظارت نشر و اشاعت قادیان)
حضرت امام بخاریؒ جہاں تک ممکن ہو سکتا سنتِ رسول اللہ ﷺ پر عمل کرتے۔ امام ذہبی نے امام بخاری کے کاتب محمد بن ابی حاتم کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن امام بخاریؒ نے مجھ سے فرمایا: ’’تمہیں کوئی بھی حاجت یا ضرورت ہو تو مجھے بلا جھجک بتا دیا کرو، شرمایا نہ کرو۔ میں تمہاری وجہ سے اللہ کے ہاں مواخذے سے ڈرتا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘ فرمایا: ’’نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے مابین بھائی چارہ قائم کیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے حضرت سعد بن ربیع ؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے مابین بھائی چارہ کا تذکرہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: ’’عالی جاہ! میرے بارے میں آپ کو جو فکر لاحق ہے، میں اس سے آپ کو بریءالذمہ سمجھتا ہوں۔ آپ بالکل فکرمند نہ ہوں اور آپ جو مال مجھے عنایت فرمانا چاہتے ہیں، میں آپ کی یہ پیش کش شکریے کے ساتھ آپ کو واپس کرتا ہوں۔ میں تو صرف آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میری بیوی کے علاوہ میرے پاس لونڈیاں بھی ہیں، جب کہ تم نے ابھی شادی بھی نہیں کی، اس لئے میں ضرور سمجھتا ہوں کہ اپنا آدھا مال تمہیں دے دوں تاکہ ہم دونوں مالی لحاظ سے برابر ہو جائیں (اور باہم مل کر گزر بسر کرلیں)۔‘‘
(سیرت امام بخاری رحمہ اللہ، صفحہ 82، دار السلام ریسرچ سینٹر)
ایک مرتبہ امام صاحبؒ کسی سفر پر تھے اور جو خرچ وطن سے آتا تھا وہ بر وقت نہ آسکا تو امام صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں گھاس کھا کر گزارہ کرتا رہا۔ لیکن میں نے اپنی یہ کیفیت کسی سے بھی بیان نہ کی۔ تیسرے دن ایک اجنبی میرے پاس آیا۔ اس نے دیناروں کی ایک تھیلی مجھے دی اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ اس سے اپنی ضروریات پوری کر لو۔‘‘
(سیرت امام بخاری، صفحہ 240)
حضرت امام بخاریؒ بہت عاجزی و انکساری اختیار کرنے والے، دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے والے بزرگ تھے۔ ایک دفعہ امام بخاریؒ نے ایک نابینا شخص ابو معشر سے فرمایا: ’’مجھے معاف کر دو۔‘‘ ابو معشر کہنے لگا: ’’کیا معاف کر وں!‘‘ امام بخاری نے کہا: ’’میں نے ایک دن حدیث بیان کی تھی، میں نے تمہیں دیکھا۔ تعجب سے تم اپنا سر اور ہاتھ ہلا رہے تھے تو میں یہ دیکھ کر مسکرا دیا۔ (کہ دیکھو خوشی سے یہ بھی سر ہلا رہا ہے، پھر مجھے خیال آیا کہ یہ تو نابینا ہے، میرے مسکرانے کو دیکھ نہیں رہا۔ بینا ہوتا تو کہیں میرے مسکرانے کو تمسخر نہ سمجھ لیتا)۔‘‘ ابو معشر نے کہا: ’’اللہ آپ پر رحمت فرمائے، میں نے آپ کو معاف کر دیا۔‘‘
(سیرت امام بخاری رحمہ اللہ، صفحہ 66، دار السلام ریسرچ سینٹر)
حضرت امام بخاریؒ کے ہر عمل اور ہر فعل سے ان کا عشقِ رسولﷺ نظر آتا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ تیر اندازی باوجود اس کے کہ علماء کا فن نہیں ہے لیکن چونکہ احادیث میں اس کی سنیت وارد ہوئی ہے، امام بخاریؒ تیر اندازی کی مشاقی کے لئے سوار ہو کر برابر میدان میں تشریف لے جاتے تھے اور اس قدر مشاق ہو گئے تھے کہ آپ کا تیر کبھی نشانہ سے خطا نہ کرتا۔ وراق کہتے ہیں کہ میں نے دو مرتبہ کے سوا کبھی امام بخاری کا تیر خطا کرتے نہیں دیکھا حالانکہ میں مدتوں ان کی صحبت میں رہا۔
(سیرۃ البخاری از عبد السلام مبارکپوری، صفحہ 109)
حضرت امام بخاری ؒ بہت سی کتب کے مصنف تھے۔ آپؒ کی چند تصانیف کے نام یوں ہیں:
صحیح البخاری، الادب المفرد، التاریخ الکبیر، التاریخ الاوسط، الجامع الکبیر، المسند الکبیر وغیرہ وغیرہ۔ آپ کی تصنیف صحیح البخاری کو ’’اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
اِغْتَنِمْ فی الفَراغِ فَضْلَ رُکوعٍ
فَعَسَیٰ أَنْ یَکُونَ مَوْتُکَ بَغْتَہْ
کَمْ صَحیحٍ رَأَیتُ مِن غَیرِ سُقْمٍ
ذَھَبَتْ نَفْسُہُ الصَّحِیحَۃُ فَلْتَہْ
یعنی فراغت کے وقت رکوع (نماز) کی فضیلت حاصل کرنے کو غنیمت جانو۔ کیا معلوم موت اچانک پہنچ جائے۔ بہتیرے صحیح اور تندرست آدمیوں کو میں نے دیکھا کہ ان کی جان ہر طرح صحیح سالم تھی، اچانک جاتی رہی۔
حضرت امام بخاریؒ کا ایک قول ہے
’’کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی وقت ایسی حالت میں ہو جس میں اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول نہ فرمائے۔‘‘
(سیرت امام بخاریؒ صفحہ 85)
حضرت امام بخاری کے حافظہ کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ آپؒ جو سنتے اسے لکھنے کے بجائے یاد کر لیتے۔ آپؒ کو کم و بیش چھ لاکھ روایتیں مع ان کی اسناد کے یاد تھیں۔ حد درجہ کی تحقیق اور تدقیق اور نہایت چھان بین کے بعد ہی امام موصوف نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں تقریباً سات ہزار روایات درج کیں۔ (دیباچہ صحیح بخاری تعارف حضرت امام بخاری، صفحہ ۱۷، نظارت نشر و اشاعت قادیان)۔ امام بخاریؒ کے کاتب محمد بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ وہ اُن (امام موصوف) کے ساتھ سفر و حضر میں رہے۔ امام موصوفؒ رات کو بعض وقت پندرہ پندرہ بیس بیس دفعہ اٹھتے اور چقماق کے ذریعہ سے دیا جلاتے اور احادیث کے متعلق کچھ نوٹ کرتے اور پھر لیٹ جاتے۔
(دیباچہ صحیح بخاری تعارف حضرت امام بخاری، صفحہ 17، نظارت نشر و اشاعت قادیان)
’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو صحیح اور مستند روایات کی تفحیص و ترتیب میں پورے سولہ برس لگے اور جب انہیں تحقیق سے کسی روایت کی صحت ثابت ہو جاتی تو دو رکعتیں پڑھ کر دعائے استخارہ کرنے کے بعد اُسے اپنی کتاب میں درج کرتے۔‘‘ (دیباچہ صحیح بخاری تعارف حضرت امام بخاری، صفحہ 17، نظارت نشر و اشاعت قادیان)۔ حضرت امام بخاری کو امیر المؤمنین فی الحدیث بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح البخاری کے متعلق فرماتے ہیں:
’’دیکھو بخاری اور مسلم کو کیسی محنت کی ہے۔ آخر انہوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے۔ بلکہ جہانتک بس چلا صحت و سفائی کے ساتھ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال یعنی سنّت کو جمع کیا اور اکثر حدیثوں مثلاً بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نُور ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ سے نکلی ہیں۔‘‘
(ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جلد دوم صفحہ 248)
پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اور مفید کتاب ہے۔‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 65)
(سید حاشر۔ طالبعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)