• 27 اپریل, 2024

فقہی کارنر

شادی کا مقصد اور تعدد ازدواج

اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں رکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پرہیزگاری حاصل ہوکر ناجائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچا رہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایا کہ نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ (البقرۃ: 224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تا لوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو و لعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کرلیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ (النساء: 25) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پرہیزگاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بچ جاؤ۔ یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی روایت ہے اور اعادہ کی حاجت نہیں ہم اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیں قرآن کریم تو اسی غرض سے نازل ہوا کہ تا ان کو جو بندہ شہوت تھے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع دلا وے اور ہریک بے اعتدالی کو دور کرے۔ عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً (النساء: 4) یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو۔ پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہرگز ناممکن ہے جیسی بعض صورتیں خروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس 10 دس 10 سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں۔ اوریا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگا دی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الٰہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا پس جس نے تعدد ازدواج کی رسم کو گھٹایا اور نہایت ہی کم کر دیا اور صرف اس اندازہ پر جواز کے طور پر رہنے دیا جس کو انسان کی تمدن کی ضرورتیں کبھی نہ کبھی چاہتی ہیں کیا اس کو کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے شہوت رانی کی تعلیم سکھائی ہے؟

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10 صفحہ44۔ 45)

(داؤد احمد عابد ۔استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

سالانہ جلسہ ریجن اپواسو Appoisso، آئیوری کوسٹ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2022