• 27 اپریل, 2024

ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے

ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے
اپنے نفس سے بعض سوالات کرنے کی تلقین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنوں اور غیروں سب کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ اور ہماری زبانیں دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچی رہی ہیں؟ کیا ہم عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے ہیں؟ کیا عاجزی اور انکساری ہمارا امتیاز رہا ہے۔ کیا خوشی غمی تنگی اور آسائش ہر حالت میں ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا تعلق رکھتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی شکوہ تو نہیں پیدا ہوا کہ میری دعائیں کیوں قبول نہیں کی گئیں یا مجھے اس تکلیف میں کیوں مبتلا کیا گیا۔ اگر یہ شکوہ ہے تو کوئی انسان مومن نہیں رہ سکتا۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قسم کی رسوم اور ہواوہوس کی باتوں سے ہم نے پوری طرح بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رسوم اور بدعات تمہیں گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ان سے بچو۔

(سنن الترمذی کتاب العلم باب ما جاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع حدیث 2676)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ارشادات کو ہم مکمل طور پر اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ کیا تکبر اور نخوت کو ہم نے مکمل طور پر چھوڑا ہے یا اس کے چھوڑنے کے لئے کوشش کی ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑی بلا تکبر اور نخوت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متکبر جنت میں داخل نہیں ہو گا اور تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا ان کار کرے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث 91)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے خوش خُلقی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہم نے حلیمی اور مسکینی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ مسکینوں کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ۔ مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ میں ہی اٹھانا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب مجالسۃ الفقراء حدیث 4126)

پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہر دن ہمارے اندر دین میں بڑھنے اور اس کی عزت و عظمت قائم کرنے والا بنتا رہا ہے؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد جو ہم اکثر دہراتے ہیں صرف کھوکھلا عہد تو نہیں رہا۔

پھر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی محبت میں ہم نے اس حد تک بڑھنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے مال پر اس کو فوقیت دی۔ اپنی عزت پر اس کو فوقیت دی اور اپنی اولاد سے زیادہ اسے عزیز اور پیارا سمجھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے اور اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دو۔ دوسرے معبودوں سے دستکش ہو جاؤ۔ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔

(کنز العمال جلد1 صفحہ152 کتاب الایمان والاسلام من قسم الافعال، فی فصل الثانی، فی حقیقۃ الاسلام حدیث نمبر1378دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004)

پھر ہم نے یہ سوال کرنا ہے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں یا کرتے رہے ہیں؟

پھر یہ سوال ہے کہ اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔

(المعجم الاوسط جزء4 صفحہ153 من اسمہ محمد حدیث نمبر5541 دار الفکر عمان 1999ء)

پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔

پھر یہ سوال ہے کہ کیا یہ دعا کرتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی نصیحت کرتے رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کے معیار ہمیشہ ہم میں قائم رہیں۔ ہم ہمیشہ آپ کی اطاعت کرتے رہیں۔ اعلیٰ معیاروں کے ساتھ اور اس میں بڑھتے بھی رہیں۔ پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوّت اور اطاعت اس حد تک بڑھایا ہے کہ باقی تمام دنیوی رشتے اس کے سامنے ہیچ ہو جائیں، معمولی سمجھے جانے لگیں۔ پھر یہ سوال ہے کہ کیا ہم خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کے تعلق میں قائم رہنے اور بڑھنے کی دعا سال کے دوران کرتے رہے؟ کیا اپنے بچوں کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے اور وفا کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہے کہ ان میں یہ توجہ پیدا ہو؟

پھر سوال یہ ہے کہ کیا خلیفۂ وقت اور جماعت کے لئے باقاعدگی سے دعا کرتے رہے۔؟

اگر تو اکثر سوالوں کے مثبت جواب کے ساتھ یہ سال گزرا ہے تو کچھ کمزوریاں رہنے کے باوجود ہم نے بہت کچھ پایا۔ جتنے سوال مَیں نے اٹھائے ہیں اگر زیادہ جواب نفی میں ہے تو پھر قابل فکر حالت ہے۔ ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 30؍دسمبر 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

’’مضمون بالا رہا‘‘ کی یاد میں ایک نشست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2023