• 4 مئی, 2024

اگر بارش کے یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے

اگر بارش کے یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے
(الہام مسیح موعود)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
ایک بار میرے جی میں آیا کہ اللہ نے جو انعام مجھ پر کئے ہیں۔ ان پر ایک کتاب لکھوں۔ اس ارادے کی تکمیل کرنے لگا تو کشف میں دیکھا۔ زور سے بارش ہو رہی ہے اور اللہ مجھے فرماتا ہے کہ اگر یہ قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن سکو گے۔ تب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا۔

(رجسٹر روایات صحابہ جلد7 صفحہ310)

الفضل اپنی ذات میں قارئین کےازدیادِ ایمان و علم کا باعث بنتا ہے۔جو ایک نعمتِ خداوندی سے کم نہیں۔ اس حوالے سے مجھے بھی اپنا جائزہ لینے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ محاسبہ ہوتا رہتا ہے اور بہتری کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش رہتی ہے۔ ابھی چند دن کی بات ہے کہ مکرمہ امة الباری ناصر آف امریکہ کا بجھوایا ہوا مضمون ’’ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام‘‘ قسط نمبر 6 کو بغرض پروف پڑھنے کا موقع ملا۔ جس میں بارانِ رحمت اور اس کے لیے دعاؤں کا مضمون بیان ہوا ہے۔

اس مضمون میں اللہ تعالیٰ کے انسان پر ہونے والے احسانات، انعامات اور فضل تحریر میں لانے کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے الہاما ً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ اگر بارش کے قطرے گن سکتے ہو تو میرے احسان بھی گن لو۔

یہ صوفیانہ مضمون اتنا گہرا اور لطیف ہے کہ ہر کسی کے بس میں نہیں۔ وگرنہ ریا اور دکھاوا توآڑے آ ہی جاتا ہے۔ انسان کی زندگی خدا تعالیٰ کے انعامات اور فیوض سے بھری پڑی ہے۔ انسان کی پیدائش ایک صحیح سالم حیثیت میں ہونا ایک بہت بڑا انعامِ خداوندی ہے۔ صحیح سالم اعضاء‎ انسانی خود اپنی ذات میں انعامِ خدا وندی سے کم نہیں ہیں۔ان اعضاء‎ کی موجودگی کا کسی ایسے شخص سے پوچھ کر دیکھیں جو ان میں سے کسی عضو سے محروم ہے۔وہ اندھا ہو سکتا ہے،وہ گونگا ہو سکتا ہے،وہ بہرہ بھی ہوسکتا ہے۔ جس اذیت سے یہ لوگ گزر رہے ہوتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے۔

پھر پیدائش کے وقت ماں باپ کا ہونا بھی ایک نعمت ہے ورنہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی بسا اوقات ماں اس دنیا سے کوچ کر جاتی ہے اور وہ یتیمی و مسکینی کی حالت میں نشو و نما پانے لگتا ہے۔ یتیمی اور مسکینی کا صدمہ ان سے پوچھیں جو اس درد سے گزر رہے ہیں۔بچہ بڑا ہونے لگتا ہے۔ والدین اس کی نشونما کرتے۔ پڑھاتے لکھاتے اور اس کو عظیم انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔پھر اہل وعیال والا ہو جاتا ہے۔ دنیا کی نعمتوں سے متمتع ہوتا ہےدینی لحاظ سے وہ متدین انسان بن جاتا ہے اور پھر خاتمہ بالخیر بھی ہوتا ہے تو یہ تمام نعماء‎ الہٰی ہیں۔ جن کو انسان گننے کی کوشش کرے تو یہ اسی طرح ناممکن ہے جس طرح بارش کے قطرات کا شمار۔ بارش بھی ایک رحمت ہوتی ہے۔ اس کے عذاب سے بچنے کے لیے دعا کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی برسات بھی ایک بارش ہے۔ جس کے قطرے گن تو نہ سکے لیکن شکر الہٰی تو ہر صورت میں انسان پر واجب ہے اور کروٹ کروٹ ہر نعمت پر شکر خداوندی کرنا انسان پر فرض ہے اور سب سے بہتر شکرِ خداوندی الحمدللّٰہ رب العالمین کہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں یہ مضمون بیان کیا ہے کہ انسان پر جب نعماء‎ بارش کی طرح برس رہی ہوتی ہیں اس وقت انسان کو اللہ یاد نہیں آتا اور جب یہ نعما‎ ‎چھین لی جاتی ہیں یا کم ہو جاتی ہیں یا کسی مشکل میں انسان آجاتا ہے تو پھر اپنے اللہ کی طرف جھکتا اور اس سے مانگتا ہے۔

اس کے مقابل پر ایک اور مضمون ’’وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ‘‘ میں بیان ہوا ہے کہ اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کا شمار کیا کرو۔ اسی لیے بعض نثر نگار مضامین لکھ کر شکرِ خداوندی کا اظہار کرتے ہیں اور بعض اپنی زندگی پر کتاب لکھ جاتے ہیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے،صاف ستھرے اجلے کپڑے پہن کر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا اظہار کیا کرو۔ کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ صاف ستھرا رہ کر اپنی بساط کے مطابق زندگی بسر کرنا اور اللہ کی نعمتوں کو ظاہر کرنا بھی ایک اسلامی تعلیم ہے ہر دو کا نتیجہ یہی ہے کہ انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں تلے دبا ہوتا ہے۔ اسی خدا کا وہ مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جس کے لیے اسے خدائے وحدہ لا شریک کا شکر ادا کرنا ضروری ہے تا ’’لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ‘‘ کے اصول کے مطابق اسے مزید نعمتوں سے نوازا جائے۔ شکر کے موضوع پر خاکسار بہت سے آرٹیکلز لکھ چکا ہے جو منظر عام پر آچکے ہیں۔جن میں شکرِ خداوندی کی تمام اسلامی تعلیم،اس کے نتائج اور برکات کا ذکر موجود ہے۔ شکر کرنے کے تو کئی انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک دن ایک بزرگ جمعہ کے روز مسجد مبارک میں میرے ساتھ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور چند سیکنڈ اپنے سانس کے ساتھ سانس ملا کر کہنے لگے۔ شکرانے کے دو نفل پڑھ لوں جو آج مسجد مبارک میں حضور کی اقتداء میں جمعہ پڑھنے کی توفیق دے رہا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’جب ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں تویہ صرف سادہ شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اس بات کا اقرار ہے کہ ایک تو اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سامان بہم پہنچائے پھر ہماری محنت یا کوشش جو بھی ہم نے کی اور جس حد تک کی اس کو نوازتے ہوئے ہماری دعاوٴں کو قبول کرتے ہوئے اس کے پھل عطافرمائے اور پھر صرف یہی نہیں کہ اس حدتک انعامات اور فضلوں سے نوازا جس قدرہماری محنت اور دعا تھی بلکہ جہاں جہاں ہماری کوششوں میں کمیاں رہ گئیں، ہماری دعاؤں میں کمی رہ گئی، اس کی اصلاح کرتے ہوئے اس کے بہترین اور خوبصورت اور احسن ترین نتائج بھی پیدا فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری معمولی انسانوں کی شکرگزاری کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی حمدکرتے ہوئے کہ ہماری پردہ پوشی فرمائی ہے کمیوں کو دورکیا اور نہ صرف یہ کہ پردہ پوشی فرمائی بلکہ خود ہی ان کی اصلاح کرتے ہوئے ان کوششوں کے معیار بھی بہتر کر دیئے اور اتنے بہتر کر دیے کہ انسانی کوششوں سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائے۔ پس جب ہم اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کریں توپھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوشخبری دیتاہے کہ تم میری حمد اور شکر گزاری کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے، میرے شکرگزاربنتے ہوئے، جو اچھے نتائج تم نے حاصل کئے ہیں انہیں میری طرف منسوب کرتے ہوئے جب اپنی سوچوں کے دائرے اس طرح چلاتے ہو تو پھر ایسے لوگوں کو مَیں نوازتا ہوں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حمد کا مضمون اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، طاقتوں اور تمام صفات کا ادراک پیداکرنے والا ہے جسے ہمیں سمجھنے کی اور ہر وقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘

اب ہم اللہ کی دی ہوئی توفیق سے نئے سال میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے اوپر گزشتہ سال میں اللہ تعالیٰ کے ہونے والے افضال اور نعمتوں کا جائزہ لے کر شکر خداوندی بجا لاتے ہوئے اس کے حضور سجدہ ریز ہو جانا چاہیے اور اوپر حضور کے بیان فرمودہ اصول کے مطابق کثرت سے اللہ کی حمد و ثنا کرنی چاہیے۔

اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو دہراتے رہیں جس میں انعامات میں کمی آنے پر اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔دعا یوں ہے۔

اللہم زدنا ولا تنقصنا واکرمنا ولا تھنا واعطنا ولا تحرمنا و آثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا

(ترمذی کتاب الدعوات از خزینۃ الدعاء صفحہ83)

یعنی اے اللہ! ہمیں نعمتوں میں بڑھاتا رہ اور ان میں کمی نہ کرنا، ہمیں عزت دے اور رسوائی سے بچا، ہمیں اور زیادہ عطا کر اور عطا کی گئی اشیاء سے محروم نہ رکھنا، ہم کو ترجیح دے اور ہم پر کسی کو ترجیح نہ دینا، ہمیں ہمیشہ خوش رکھ اور خود بھی ہم سے راضی رہنا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن کر زندگی گزارنے کی توفیق دے آمین۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

’’مضمون بالا رہا‘‘ کی یاد میں ایک نشست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2023