• 7 مئی, 2024

حضرت مولوی فتح محمد خانؓ

حضرت مولوی فتح محمد خان لدھیانویؓ۔ گوجرانوالہ

حضرت مولوی فتح محمد خان صاحبؓ ولد امام الدین اصل میں موضع چنگن تحصیل و ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دینی تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ آپ مولوی فاضل تھے۔ آپ اپنی تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے کہ 1892ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے لاہور تشریف لانے کی خبر سنی اور اسی سفر لاہور میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے، آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں یوں محفوظ ہے:
’’7؍فروری 1892ء۔ فتح محمد ولد امام الدین خان راجپوت سکنہ موضع ضلع و تحصیل لودیانہ تھانہ و پرگنہ واگہہ حال لاہور‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ358)

(نوٹ: وصیت فارم میں ولدیت مامون خان لکھی ہے لیکن یہاں ولدیت امام الدین لکھا جانا سہو معلوم ہوتاہے)

اس کے جلد بعد آپ ریاست مالیر کوٹلہ میں ملازم ہوگئے اور یہیں سے جلسہ سالانہ قادیان 1892ء میں شامل ہوئے، آئینہ کمالات اسلام میں مندرجہ شاملین جلسہ کی فہرست میں آپ کا نام 311 نمبر پر مالیر کوٹلہ کے حوالے سے موجود ہے۔ اصحاب احمد جلد دوم میں میاں محمد عبدالرحمٰن خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ کے حوالے سے آپ کے متعلق لکھا ہے ’’یہ مولوی فتح محمد خان صاحب مولوی فاضل تھے۔ ضلع لدھیانہ کے باشندہ تھے۔ صاحب اولاد تھے۔ مدرسہ مصلح الاخوان جو مالیر کوٹلہ میں حضرت والد صاحب نے جاری کیا تھا اس میں ملازم تھے اور ریاست پٹیالہ میں محکمہ چونگی بھی ملازم رہے۔ احمدی تھے۔ 1947ء میں تقسیم ملک تک زندہ تھے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ65 مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)

ایک مرتبہ آپ نے ایک اخلاص نامہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھجوایا جس میں اپنی بیعت کا حال بھی بیان کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’پیارے آقا! خاکسار 1892ء سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحابی ہے …. میرے آقا! 1892ء غالبًا فروری میں عبداللہ صاحب ٹونکی نے لاہور میں ایک اشتہار دیا تھا کہ جب مرزا صاحب لاہور میں آئیں گے، میں اُن کے ساتھ مباحثہ کروں گا۔ مَیں ان دنوں میں طالب علم تھا، میرے استاد مولوی حبیب الرحمٰن سہارنپوری تھے جن کے والد مولوی احمدی علی صاحب ہیں جنہوں نے مشکوٰۃ شریف میں حاشیہ لکھا ہوا ہے۔ مجھے کہا کہ تم ہوشیار ہو، آج مرزا صاحب سے ٹکر لو۔ مجھے اپنے علم میں ناز اور پورا یقین تھا، ایک نوجوان کو ہمراہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن اور کوئی اعلان یا اشتہار دینے والوں میں سے نہ تھا۔ حضور کی زیارت کرتے ہی ایسا رعب پڑا کہ سکتہ کی حالت ہوگئی۔ مَیں نے دوسرے طالب علم کو کہا کہ کوئی سوال کرو۔ اُس نے اشارہ کیا کہ مجھ میں جرأت نہیں ہے۔ میں نے سنبھلتے ہوئے چند ایک اعتراض حضور کی خدمت میں پیش کیے جن کا ٹھوس اور تسلی بخش جواب مل گیا۔ حضور کی شان اور جلالی وقار اور زیارت ہونے پر غرور اور تکبّر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے پہاڑ سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ آپ کی بیعت میں شامل ہوکر ہمیشہ آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ میرے پیارے آقا! میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کو آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔ آپ حضورؑ کی پیشگوئی کے مصداق بر حق خلیفۃ المسیح الثانی و المصلح الموعود ہیں، ہر وہ شخص جو آپ کی مخالفت کرے گا یقینًا ناکام رہے گا۔ حضور کی غلامی میں زندگی اور موت کا متمنی ہوں، اللہ تعالیٰ حضور کو صحت و تندرستی و زندگی دراز عطا فرما کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کا حافظ و ناصر ہو۔ اللّٰھم آمین‘‘

اسی خط میں آپ نے اپنی ایک رؤیا بھی درج کی ہے جس میں آپ لکھتے ہیں کہ ’’تقریبًا 25 یا 26 برس کا عرصہ ہوا ہے، میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر موضع چنگن ضلع لدھیانہ میں چارپائی بچھی ہوئی ہے جس کا سرہانہ کعبۃ اللہ اور پائنتی مشرق کی طرف ہے اس پر آپ رونق افروز ہیں۔ آپ کا منہ قطب کی طرف ہے۔ آپ کی شکل نہایت روشن اور خوبصورت ہے، میں آپ کے چہرہ کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آگئے، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ آگئے۔ اپنی بیوی کو کہتا ہوں کہ اعلیٰ درجہ کی باسمتی پکاؤ۔ اسی خوشی میں باہر اپنے بھائیوں کو بلانے کے لیے چلا گیا ہوں کہ آؤ آکر محمد مصطفیٰ ﷺ کی زیارت کر لو۔ جہاں آپؐ کی چارپائی دیکھی تھی، بعد میں وہاں مَیں نے ایک نلکا لگایا تھا جس سے سب گھر والوں نے پاکستان بننے تک کافی فائدہ اٹھایا۔‘‘

(الفضل 28؍اگست 1956ء صفحہ8)

آپ کو قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں بطور مدرس خدمت کی بھی توفیق ملی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو عربی پڑھانے کا بھی شرف پایا۔ 1901ء کے ابتدائی مہینوں میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کی مد میں آپ کے چندہ ادا کرنے کا ذکر محفوظ ہے مثلًا ایک جگہ روزنامچہ آمد بابت ماہ مارچ 1901ء مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے تحت چندہ دہندگان میں آپ کا نام ’’مولوی فتح محمد صاحب مدرس قادیان‘‘ درج ہے۔ (الحکم 17؍اپریل 1901ء صفحہ16) آپ کے متعلق دیگر حالات کا علم نہیں ہو سکا۔ تقسیم ملک کے بعد آپ ہجرت کر کے پلنگ پور (نزد چبہ سندھواں) ضلع گوجرانوالہ میں مقیم ہوگئے تھے۔ مندرجہ بالا خط یہیں سے آپ نے ارسال کیا تھا، اس خط پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم سے حسب ذیل نوٹ رقم فرمایا:
’’فتح محمد خان صاحب 1892ء سے صحابی ہیں اور میرے استاد ہیں۔ 1902ء میں مجھے عربی پڑھایا کرتے تھے اور بر سبیل تذکرہ یہ بھی درج ہے کہ مولوی احمد علی صاحب مشہور محدث جنہوں نے مشکوٰۃ پر حاشیہ لکھا ہے اور سارے ہندوستان میں بخاری پڑھانے میں مشہور تھے، ان سے بھی بڑی لمبی ملاقات ہوچکی ہے….‘‘ (الفضل 28؍اگست 1956ء) الفضل اخبار کے اسی صفحے پر ساتھ آپ کے چھوٹے بھائی عبداللہ خان صاحب کا بھی ذکر موجود ہے۔

آپ بفضلہ تعالیٰ موصی تھے اور وصیت نمبر 9414 تھا۔ (الفضل 9؍جولائی 1946ء صفحہ6) آپ نے موٴرخہ 15؍ستمبر 1958ء کو اپنے گاؤں پلنگ پور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اسماعیل خان، یوسف علی خان اور دو بیٹیاں عزیز بی بی اہلیہ ابراہیم اور فاطمہ بی بی اہلیہ رمضان خان تھے۔ یوسف علی خان صاحب کے بڑے بیٹے محمود خان ایک نڈر احمدی تھے، بڑی بہادری سے گاؤں میں مخالفانہ حالات کا مقابلہ کیا، کہا کرتے تھے میں ایک صحابی کی گود میں کھیلا ہوا ہوں۔ دوسرے بیٹے رانا مبارک احمد صاحب باب الابواب میں مقیم ہیں اولاد کے متعلق معلومات انہوں نے ہی مہیا کی ہیں اور بتایا ہے کہ نسل بفضلہ تعالیٰ یوکے، جرمنی اور ناروے میں پھیل چکی ہے۔

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

’’مضمون بالا رہا‘‘ کی یاد میں ایک نشست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2023