• 28 اپریل, 2024

دین العجائز ہی انسان کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے

نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایمان نہیں
اس کو ہیرا مت گماں کر ہے یہ سنگ ِکوہسار

(براہىن احمدىہ، روحانى خزائن جلد21 صفحہ136۔137)

ذکر آتا ہے کہ ایک بوڑھی عورت راستے میں کھڑے ایک مجمع کو دیکھتی ہے کہ ایک آدمی کو کچھ لوگ گھیرے ہوئے ہیں تو معلومات حاصل کرنے کے لئے وہ قریب جاتی ہے اور لوگوں سے پوچھتی ہے یہ کون ہے جو اپنے اردگرد کے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے لوگ کہنے لگے کہ یہ الرازیؔ ہے جس نے خدا تعالیٰ کے وجود کی ایک ہزار دلیلیں جمع کیں۔ اس پر بوڑھیا نے جواب دیاکہ اگر اس کے دل میں ہزار شبہات نہ ہوتے تو اسے ہزار ثبوتوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ لہٰذا اصل ایمان تو وہ ہے جس کے لئے دل میں شبہات نہ ہو اورکثرت دلائل کی حاجت نہ۔جب ہم دنیاوی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں ہر دور میں نبی ورسول کو ماننے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک دلائل،براہین و ثبوت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس میں حجت کرتے ہیں تو دوسرا صرف اخلاق وسیرت کو دیکھ کر اس کی محبت کی وجہ سے ایمان لے آتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اس حقیقت کو سمجھاتے ہوئے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ ایمان والا شخص صرف یہ دیکھتا ہے کہ آیا اس کے محبوب نے فلاں کام کرنے کو کہا یا نہیں۔اگر کہا ہو تو وہ بغیر سوچے سمجھے اس کام کو اختیار کر لیتا ہے۔لیکن جو اعلیٰ ایمان نہیں رکھتا وہ کہتا ہے کہ پہلے مجھے یہ بتاو کہ اس کام کی غرض کیا ہے اور اس میں حکمت کیا ہے جب تک مجھے اس کی حکمت نہ بتائی جائے گی میں عمل نہیں کرونگا غرض ایک سچے اور مخلص مومن کیلئے صرف یہی کافی ہوتا ہے کہ اس کا رب اسے حکم دے رہا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کی آواز سنتا اور اس کی طرف دوڑتا ہے۔لیکن فلسفی حکمت کا سراغ لگاتا ہے اور جب تک اس کا دماغ تسلی نہ پائے اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا۔ایک ماں کو اس کے بچہ کی خدمت کے لئے اگر صرف دلائل دئے جائیں اور کہا جائے کہ اگر تم خدمت نہیں کروگی تو گھر کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو یہ دلائل اس پر ایک منٹ کے لئے بھی اثر انداز نہیں ہوسکتے۔وہ اگر خدمت کرتی ہے تو صرف اس جذبہ ومحبت کے ماتحت جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے۔اس لیے حضرت مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایمان العجائز ہی انسان کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے۔ورنہ وہ لوگ جو حیل وحجت سے کام لیتے ہیں اور قدم قدم پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں دیا گیا اور فلاں کام کرنے کو کیوں کہا گیا وہ بسا اوقات ٹھوکر کھاجاتے ہیں اور ان کا رہا سہا ایمان بھی ضائع ہوجاتا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ279)

اس لیے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مومنوں کو حکم دیا کہ:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡۖ

(انفال: 25)

اے مومنو! تم اللہ اور اس کے رسول کی بات سننے کے لئے فوراً حاضر ہوجایا کرو جبکہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے پکارے۔

ہمیں یہ نمونہ آنحضرت ﷺ کے زندگی میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملا۔ذکر آتا ہے:
نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ حضرت ابیؓ کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں آوازدی۔ حضرت اُبیؓ اُس وقت نماز میں مصروف تھے۔ حضورؐ کی آواز سنتے ہی نماز مختصر کی اور سلام پھیر کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ نے تاخیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا ’’یا رسول اللہﷺ! میں نمازمیں تھا۔حضورؐ کی آوازسنتے ہی نماز مختصر کرکے آپ کی خدمت میں حاضرہوگیا ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ (الانفال: 25) کہ اے مومنو! اللہ اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو لبیک کہتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضرہوجایاکرو۔ اس لئے جب میں نے تمہیں آوازدی تو چاہیے تھا کہ نماز چھوڑ کر لبیک کہتے ہوئے حاضرہو جاتے۔ حضرت ابیؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! یہ غلطی معاف ہو آئندہ ان شاء اللّٰہ ایسا نہ ہوگا۔‘‘

(ترمذی کتاب الفضائل باب فضل فاتحة الکتاب)

چنانچہ صحابہ کرام ؓ کی پوری زندگی کا جب ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نبوت کے نور کی وجہ سے انہیں ایسا روشن خیال بنا دیا تھا کہ وہ اطاعت کی روح جان گئے تھے اور کسی حکم کو عذر سے ٹالنے کی بجائے حیلوں اور بہانوں سے اطاعت کرنے کی راہیں تلاش کرتےتھے اور کبھی رسول کریم ؐکے احکام کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کر نے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر ارشاد پر لبیک کہنے میں سعادت جانتے تھے۔

چنانچہ 6ھ میں جب آنحضرت ﷺ حدیبیہ میں تھے مشرکین مکہ کے ایک سردارعروہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ سے مصالحت کے لئے آئے۔ واپس جا کر انہوں نےقریش کے سامنے رسول اللہﷺ کے غلاموں کی اطاعت اور وفا شعاری کی یہ شاندار گواہی دی: ’’اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر اور کسریٰ و نجاشی کے ہاں گیا ہوں، اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمد (ﷺ) کے اصحاب محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں۔اللہ کی قسم! اس (محمد) نے جب کبھی کھنکار پھینکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لئے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لئے باہم جھگڑنے کی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کردیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے اسے قبول کرلو۔‘‘

(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد)

تو یہ وہ اطاعت کا نمونہ تھا جو صحابہ کرام کے اندر آپؐ نے پیدا کیا پھر رسول کریمﷺ نے اپنے آخری زمانہ میں امت کی گمراہی اور انتشار کے نتیجہ میں 73فرقوں میں بٹ جانے پر ایک ناجی فرقہ کی بھی خبر دی۔ جس کی ایک علامت یہ بیان فرمائی کہ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ کہ وہ لوگ میرے اور میرے صحابہ کے نمونہ اور نقش قدم پر چلنے والےہوں گے۔

(ترمذی کتاب الایمان باب افتراق ھذہ الامة)

ہاں وہ مبارک دور آیا آپ ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ اس دنیا میں آئے اور یہی مبارک نمونہ اپنے ماننے والوں کے اندر پیدا کیا آپؑ نے ایک مقام پر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم وہ ایمان پیدا کرو جو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور صحابہ کا ایمان تھا۔ رضی اللّٰہ عنہم۔ کیونکہ اس میں حسن ظن اور صبر ہے اور وہ بہت سے برکات و ثمرات کا منتج ہے اور نشان دیکھ کر ماننا اور ایمان لانا اپنے ایمان کو مشروط بنانا ہے۔ یہ کمزور ہوتا ہے اور بار ور نہیں ہوتا۔ ہاں جب انسان حسن ظن کے ساتھ ایمان لاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے مومن کو وہ نشان دکھاتا ہے جو اس کے ازدیاد ایمان کا موجب اور انشراح صدر کا باعث ہوتے ہیں۔ خود ان کو نشان اور آیت اللہ بنا دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اقتراحی نشان کسی نبی نے نہیں دکھلائے۔ مومن صادق کو چاہئے کہ کبھی اپنے ایمان کو نشان بینی پر مبنی نہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ497)

اس تسلسل میں ’’منشی اروڑے خان ؓ صاحب جو حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی تھے ان کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے۔وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا کہ اگر تم مولوی ثناء اللہ صاحب کی ایک دفعہ تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب سچے ہیں یا نہیں وہ کہنے لگے میں نے ایک دفعہ ان کی تقریر سنی۔ بعد میں لوگ مجھ سے پوچھنے لگے۔ اب بتاو ٴکیا اتنے دلائل کے بعد بھی مرزا صاحب کو سچا سمجھا جا سکتا ہے؟۔ میں نے کہا۔ میں نے تو مرزا صاحب کا مونہہ دیکھا ہوا ہے۔ ان کا مونہہ دیکھنے کے بعد اگر مولوی ثناء اللہ صاحب دوسال تک بھی میرے سامنے تقریر کرتے رہیں۔ تب بھی ان کی تقریر کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جھوٹے کا مونہہ تھا۔ بے شک مجھے انکے اعتراضات کے جواب میں کوئی بات نہ آئے میں تو یہی کہونگا۔کہ حضرت مرزا صاحب سچے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ279-280)

؎صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں
اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوفِ کردگار

گو کہ حضرت مسیح موعودؑنے اپنے ماننے والوں میں وہ قوت پیدا کی کہ وہ بھی صحابہ کرام ؓ کی طرح اطاعت کے میدان میں اپنی جان ومال اس راہ میں قربان کردی اور ہر چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں سمعنا واطعنا کا نمونہ دکھایا۔ اس تعلق سے ایک واقعہ پیش ہے۔

’’ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے گھر میں تھوڑے سے چاول پکوائے (یعنی پلاؤ) اور حضرت کے حکم سے حضرت امّ الموٴ منین نے اُن دنوں یہاں قادیان میں جتنے احمدی گھر تھے سب گھروں میں تھوڑے تھوڑے بھیجے۔ وہ چاول برکت کے چاول کہلاتے ہیں اور حضور کا حکم تھا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں اُن سب کو کھلائیں۔ (یعنی کہ جس جس گھر میں بھیجے تھے اُن کو کہا کہ ہر گھر والا چاول کھائے) چنانچہ کہتے ہیں۔ بڑے قاضی صاحب نے اپنے بڑے لڑکے بشیر احمد کے والد عبدالرحیم صاحب کو جو ان دنوں جمّوں میں ملازم تھے لفافے میں چند دانے کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دئیے‘‘۔ اب گھر کے افراد کے لئے حکم تھاکہ اُن کو یہ چاول کھلاؤ اور اس حکم کی اتنی حد تک تعمیل کی کہ کیونکہ میرا بیٹا ہے اور وہ وہاں موجودنہیں تھا تو اُس کو ایک لفافے میں کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دئیے ’’اور خط میں لکھ دیا کہ اتنا کونہ جس میں چاول چپکائے ہوئے ہیں، کھا لینا‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ350 روایات جناب والدہ بشیر احمد بھٹی، ماخوذ خطبہ جمعہ فرمودہ 25؍مئی 2012ء)

یہ وہ نمونہ تھا جس بنا پر حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدا تعالیٰ کی بے حد شکرگزاری کیا کرتے تھے اور ایک مقام پر اس کا اس رنگ میں اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ؛
’’مَیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے مَیں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے۔ میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر223-224 ایڈیشن 2003ء)

پس آج ہم احمدی مسلمانوں کا فرض ہے کہ خلافت کے زیر سایے صدق، اخلاص، اطاعت وایمان کا یہ مقام ہم بھی حاصل کریں جو پہلوں نے حاصل کئے اس کے لئے ضروری ہے کہ اطاعت کا وہ معیار حاصل کریں جو حضرت مسیح موعود ؑ اور آپؑ کے خلفاء کرام ہم سے توقع رکھتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میں گرایا جائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لیے گڑھادرپیش ہے۔ بلکہ تم اس لیے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہیے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام جلد سوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ546-552)

نیز آپؑ فرماتے ہیں:
’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔ یہ بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ74)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنےکا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ15)

ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’دین العجائز یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس حد تک عمل ہو سکتا ہے کرو۔ اُس کے آگے پھر ترقی کرو گے اور آگے پھر اگلی سلوک کی راہیں ہوں گی۔ لیکن بنیاد یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس طرح فرض کئے گئے ہیں، عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 12؍اگست 2011ء)

پس اللہ تعالیٰ ہم میں وہ ایمان پیدا کرے جو اولین و آخرین کے اندر پائے گئے جس ایمان کے بدولت انہوں نے دینی ودنیاوی دونوں ترقیاں حاصل کی اور اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شامل ہوئے۔ آج ہمیں بھی اپنے اندر یہ نمونہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

؎سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان ودل اس راہ پر قربان ہے
دے چکے دل اب تن خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا

(حلیم خان شاہدؔ۔ مربی سلسلہ۔انڈیا)

پچھلا پڑھیں

’’مضمون بالا رہا‘‘ کی یاد میں ایک نشست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2023