• 6 مئی, 2024

شہید کا مقام تب ملتا ہے جب ۔۔۔

شہید کا مقام تب ملتا ہے
جب انسان تکلیف برداشت کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کرے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ شہید کا مقام تب ملتا ہے جب انسان تکلیف برداشت کر کے خدا تعالیٰ کی عبادت کرے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ276)

ہر دنیاوی آرام کو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کی عبادت پر قربان کر دے۔ اور نہ صرف قربان کرے بلکہ اُس مقام تک پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے اس عمل سے ایسا سکون ملے، اس عبادت میں اُسے ایسا مزا آرہا ہوکہ جیسا کہ شہد کی مٹھاس سے مزا آتا ہے۔ ایک مومن کی نماز اور عبادتیں، نماز پڑھنے کی طرف توجہ یا عبادتوں کی طرف توجہ کسی مجبوری کے تحت نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل کی وجہ سے ہو۔ اس لئے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور ہر وہ فعل جو خدا تعالیٰ کی خاطر کیا جا رہا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ رضا جو ہے یہ پھرشہادت کا مقام دلاتی ہے۔ اسی طرح ہر برائی جو انسان اس لئے چھوڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور مَیں نے اُس کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو پختہ کرنا ہے، خدا تعالیٰ کی کیونکہ ہر اچھے اور برے فعل پر، ہر عمل پر نظر ہے اور میری یہ بری عادت یا بداعمال خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے موجب ہو سکتے ہیں۔ تو پھر یہ بات نہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کو برائیوں سے روکے گی بلکہ نیکیوں کی طرف بھی متوجہ کرے گی۔ خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین میں پختگی پیدا ہو گی اور یہی ایک انسان کی زندگی کا مقصد ہے، ایک مومن کی زندگی کا مقصد ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ:
‘‘عام لوگ توشہید کے لئے اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ شہید وہ ہوتا ہے جو تیریابندوق سے مارا جاوے یا کسی اور اتفاقی موت سے مر جاوے۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ253)

یہاں ایک حدیث بھی بیان کر دیتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جن مرنے والوں کو شہداء کے زُمرہ میں شامل کیا گیا ہے، وہ پانچ ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شہید پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ وبا میں ہلاک ہونے والا، پیٹ کی بیماری سے ہلاک ہونے والا، ڈوب کر مرنے والا، کسی عمارت کی چھت وغیرہ کے نیچے دب کر ہلاک ہونے والا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والا۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان، باب فضل التہجیر الی الظہر653)

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کا یہی مقام نہیں ہے۔‘‘ یعنی یہ تو ظاہری موت کی وجہ سے شہادت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت کے اور بھی مقام ہیں جو ہر مومن کو تلاش کرنے چاہئیں۔ بلکہ آپ نے فرمایا کہ ’’میرے نزدیک شہید کی حقیقت قطع نظر اس کے کہ اس کا جسم کاٹا جاوے کچھ اَور بھی ہے۔ اور وہ ایک کیفیت ہے جس کا تعلق دل سے ہے۔ یادرکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے۔‘‘ (شروع میں مَیں نے بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ دعا کرو کہ وہ لوگ جو عمل صالح کرنے والے ہیں، اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہیں، وہ نبی ہوتے ہیں یا صدیق یا شہید یا صالحین۔ تو فرمایا کہ ’’یادرکھو کہ صدیق نبی سے ایک قرب رکھتا ہے اور وہ اس سے دُوسرے درجے پر ہوتا ہے۔ اور شہید صدیق کا ہمسایہ ہوتا ہے۔ نبی میں تو سارے کمالات ہوتے ہیں، یعنی وہ صدیق بھی ہوتا ہے اور شہیدبھی ہوتا ہے اور صالح بھی ہوتا ہے۔ لیکن صدیق اور شہید دو الگ الگ مقام ہیں۔ اس بحث کی بھی حاجت نہیں کہ آیا صدیق، شہید ہوتاہے یا نہیں؟ وہ مقام کمال جہاں ہر ایک امر خارق عادت اور معجزہ سمجھا جاتا ہے، وہ ان دونوں مقاموں پر اپنے رُتبہ اور درجہ کے لحاظ سے جدا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اُسے ایسی قوت عطاکرتا ہے کہ جو عمدہ اعمال ہیں اور جو عمدہ اخلاق ہیں وہ کامل طور پر اور اپنے اصلی رنگ میں اس سے صادر ہوتے ہیں اور بلاتکلف صادر ہوتے ہیں۔ کوئی خوف اور رجاء اُن اعمالِ صالحہ کے صدُور کا باعث نہیں ہوتا۔‘‘ (کسی وجہ سے نہیں ہو رہے ہوتے) ’’بلکہ وہ اُس کی فطرت اور طبیعت کا جُزو ہو جاتے ہیں۔ تکلّف اُس کی طبیعت میں نہیں رہتا۔ جیسے ایک سائل کسی شخص کے پا س آوے۔‘‘ (دنیا داری میں ہم دیکھتے ہیں۔ آپ نے مثال دی کہ کسی شخص کے پاس کوئی سوال کرنے والا آوے) ’’تو خواہ اُس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو، تو اُسے دینا ہی پڑے گا۔‘‘ (اگر وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہے، اگر یہ اظہار کر رہا ہے کہ میں بڑا پیسے والا ہوں یا نہیں بھی ہے تو پھر بھی شرم و شرمی کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ فرمایا کہ) ’’اگر خدا کے خوف سے نہیں تو خلقت کے لحاظ سے ہی سہی۔‘‘ (لوگ کیا کہیں گے کہ صاحبِ حیثیت بھی ہے، مگر جو مانگ رہا ہے اُس کو دے بھی نہیں رہا۔) ’’مگر شہید میں اس قسم کا تکلّف نہیں ہوتا۔‘‘ (شہید میں یہ تکلف نہیں ہے) ’’اور یہ قوت اور طاقت اُس کی بڑھتی جاتی ہے۔ اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اس کی تکلیف کم ہوتی جاتی ہے اور وہ بوجھ کا احساس نہیں کرتا۔‘‘ (ہر قسم کی تکلیف خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرنے کے لئے وہ تیار ہو جاتا ہے اور بلا تکلف تیار ہو جاتا ہے، کسی خوف یا کسی انعام کی وجہ سے تیار نہیں ہوتا۔) فرمایا کہ ’’مثلاً ہاتھی کے سرپر ایک چیونٹی ہوتو وہ اس کا کیا احساس کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ253-254)

ایک طرح ایک حقیقی مومن کے لئے ایک تکلیف ہوتی ہے، اُس مومن کے لئے جو شہادت کا درجہ پانے کی خواہش رکھتا ہے۔ پس یہاں مزید فرمایا کہ اصل شہادت دل کی کیفیت کا نام ہے اور دل کی کیفیت خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ یقین جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ میرے ہر کام پر خدا تعالیٰ کی نظر ہے اور ہر کام مَیں نے خدا تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ پھر ایسے مومن سے، ایسے شخص سے اعلیٰ اخلاق اور اچھے اعمال اصل رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے کرنے کی وجہ دنیا دکھاوا نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا یہ حصول بھی صرف کوشش سے نہیں ہوتا بلکہ ایک حقیقی مومن کی فطرت اور طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب وہ مسلسل اس بارے میں کوشش کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ کسی بات کا اُسے خیال ہی نہیں رہتا۔ مثلاً اگر جماعت کی خدمت کا موقع مل رہا ہے اور اس کو احسن طریق پر کوئی بجا لا رہا ہے، کام کر رہا ہے تو اس لئے نہیں کہ میری تعریف ہو بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اس لئے کہ یہ خدمت ایسی گھٹی میں پڑ گئی ہے کہ اس کے بغیر چین اور سکون نہیں ہے۔ بعض لوگ جب اُن سے خدمت نہیں لی جاتی تو بے چینی کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اس کی ایک مثال دی ہے کہ جیسے کوئی فقیر یا مانگنے والا اگر کسی کے پاس جائے تو اکثر اُس فقیر کو کوئی دنیا دار جس کے پاس وہ جاتا ہے، کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے۔ لیکن اُس میں عموماً دکھاوا ہوتا ہے، لیکن شہید کا یہ مقام نہیں۔ شہید یہ نیکی اس لئے کر رہا ہوتا ہے کہ اُس کی نیک فطرت اُسے نیکی پر مجبور کرتی ہے اور فطرتی نیکی کی یہ طاقت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نیکی کے کرنے، کسی خدمت کے کرنے پر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں نے کوئی بڑا کام کیا ہے، مجھے ضرور اُس کا بدلہ یا خوشنودی کا اظہار دنیا والوں سے ملنا چاہئے۔ کیونکہ جماعت کی خدمت کی ہے تو ضرور مجھے عہدیداران اُس کا بدلہ دیں۔ نہیں۔ بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر کام ہونا چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 14؍دسمبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2022