• 7 مئی, 2024

امام المقربین کی علامات

امام المقربین کی علامات
ازحضرت مسیح موعود علیہ السلام

آپؑ فرماتے ہیں :
’’یہ بات بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جن کو خداتعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے اور جس طرح الٰہی فطرت نے بموجب آیت کریمہ اَعْطٰی کُلَّ شَیْء خَلْقَہُ ہر ایک چرند اور پرند میں پہلے سے وہ قوت رکھ دی ہے جس کے بارے میں خداتعالیٰ کے علم میں یہ تھا کہ اس قوت سے اس کو کام لینا پڑے گا اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خداتعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتے ہیں اور جن لیاقتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی۔ ان تمام لیاقتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع کے فائدے اور فیض رسانی کے لئے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے:

اول۔ قوت اخلاق۔ چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہو سکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُق عَظِیْم کا پورے طور پر صادق آ جانا ضروری ہے۔

دوم۔ قوت امامت ہے جس کی وجہ سے اس کا نام امام رکھا گیا ہے یعنی نیک باتوں اور نیک اعمال اور تمام الٰہی معارف اور محبت الٰہی میں آگے بڑھنے کا شوق یعنی روح اس کی کسی نقصان کو پسند نہ کرے اور کسی حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو۔ اور اس بات سے اس کو درد پہنچے اوردکھ میں پڑے کہ وہ ترقی سے روکا جاوے یہ ایک فطرتی قوت ہے جو امام میں ہوتی ہے اور اگر یہ اتفاق بھی پیش نہ آوے کہ لوگ اس کے علوم اور معارف کی پیروی کریں اور اس کے نور کے پیچھے چلیں تب بھی وہ بلحاظ اپنی فطرتی قوت کے امام ہے۔ غرض یہ دقیقہ معرفت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جوہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کیلئے ارادہ الٰہی میں ہوتا ہے۔ اور اگر امامت کے لفظ کا ترجمہ کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوت پیشروی۔ غرض یہ کوئی عارضی منصبؔ نہیں جو پیچھے سے لگ جاتا ہے بلکہ جس طرح دیکھنے کی قوت اور سننے کی قوت اور سمجھنے کی قوت ہوتی ہے اسی طرح یہ آگے بڑھنے اور الٰہی امور میں سب سے اول درجہ پر رہنے کی قوت ہے اور انہی معنوں کی طرف امامت کا لفظ اشارہ کرتا ہے۔

تیسری قوت بسطت فی العلم ہے جو امامت کیلئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے۔ چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قویٰ کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے اور رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا میں ہر دم مشغول رہتا ہے اور پہلے سے اس کے مدارک اور حواس ان امور کے لئے جوہر قابل ہوتے ہیں۔ اسی لئے خداتعالیٰ کے فضل سے علوم الٰہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو اس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے۔ اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے۔ اور وہ نور ان چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ پس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جوہر ان کے اندر پہنچا دیتی ہے اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یابوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے مگر دوسرے ملہموں اور زاہدوں کیلئے اس قسم کی بسطت علمی ضروری نہیں کیونکہ نوع انسان کی تربیت علمی ان کے سپرد نہیں کی جاتی۔ اور ایسے زاہدوں اور خواب بینوں میں اگر کچھ نقصان علم اور جہالت باقی ہے تو چنداں جائے اعتراض نہیں کیونکہ وہ کسی کشتی کے ملّاح نہیں ہیں بلکہ خود ملاح کے محتاج ہیں۔ ہاں ان کو ان فضولیوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ ہم اس روحانی ملاح کی کچھ حاجت نہیں رکھتے ہم خود ایسے اور ایسے ہیں۔ اور ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ضرور ان کو حاجت ہے جیسا کہ عورت کو مرد کی حاجت ہے۔ خدا نے ہر ایک کو ایک کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس جوؔ شخص امامت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا اگر وہ ایسا دعویٰ زبان پر لائے گا تو وہ لوگوں سے اسی طرح اپنی ہنسی کرائے گا جیسا کہ ایک نادان ولی نے بادشاہ کے روبرو ہنسی کرائی تھی اور قصہ یوں ہے کہ کسی شہر میں ایک زاہد تھا جو نیک بخت اور متقی تو تھا مگر علم سے بے بہرہ تھا اور بادشاہ کو اس پر اعتقاد تھا اور وزیر بوجہ اس کی بے علمی کے اس کا معتقد نہیں تھا۔ ایک مرتبہ وزیر اور بادشاہ دونوں اس کے ملنے کیلئے گئے اور اس نے محض فضولی کی راہ سے اسلامی تاریخ میں دخل دے کر بادشاہ کو کہا کہ اسکندر رومی بھی اس امت میں بڑا بادشاہ گذرا ہے تب وزیر کو نکتہ چینی کا موقعہ ملا اور فی الفور کہنے لگا کہ دیکھئے حضور فقیر صاحب کو علاوہ کمالات ولایت کے تاریخ دانی میں بھی بہت کچھ دخل ہے۔ سو امام الزمان کو مخالفوں اور عام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ شریعت پر ہر ایک قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ طبابت کے رو سے بھی ہیئت کے رو سے بھی، طبعی کے رو سے بھی، جغرافیہ کے رو سے بھی اور کتب مسلمہ اسلام کے رو سے بھی اور عقلی بناء پر بھی اور نقلی بناء پر بھی اور امام الزمان حامی بیضۂ اسلام کہلاتا ہے۔ اور اس باغ کا خدا تعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کر دے اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کردے۔ پس ایسا شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خداتعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کیلئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے۔ ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتاہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفرکش ہوتے ہیں۔ وہ بطور کل کے اور باقی سب اس کے جز ہوتے ہیں۔

؎او چو کل و تو جزئی نے کلی
تو ہلاک استی اگر از وے بگسلی

چوتھی قوت عزم ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نومید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہو جانا۔ بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور بسا اوقات ان کی وحی اور الہام میں فترت واقع ہو جاتی ہے کہ ایک مدت تک کچھ وحی نہیں ہوتی اور بسااوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر ان کا صدق نہیں کھلتا اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا میں بڑا ثواب کا کام کر رہا ہوں۔ اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے۔ لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے۔ وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں یہاں تک کہ نصرت الٰہی کا وقت آجاتا ہے۔

پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے۔ اور اقبال علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت اور نیز اس وقت کہ جب سخت دشمن سے مقابلہ آ پڑے اور کسی نشان کا مطالبہ ہو۔ اور یا کسی فتح کی ضرورت ہو اور یا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور پھر ایسے جھکتے ہیں کہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت اور وفا اور عزم لاینفک سے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور ان کی محویت کے تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہوکر ملائک میں اضطراب ڈالتا ہے۔ پھر جس طرح شدت کی گرمی کی انتہا کے بعد برسات کی ابتداء میں آسمان پر بادل نمودار ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح ان کے اقبال علی اللہ کی حرارت یعنی خداتعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کر دیتی ہے اور تقدیریں بدلتی ہیں اور الٰہیؔ ارادے اور رنگ پکڑتے ہیں یہاں تک کہ قضاء و قدر کی ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اور جس طرح تپ کا مادہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر مسہل کی دوا بھی خداتعالیٰ کے حکم سے ہی اس مادّہ کو باہر نکالتی ہے۔ ایسا ہی مردان خدا کے اقبال علی اللہ کی تاثیر ہوتی ہے۔

؎آں دعائے شیخ نے چوں ہر دعاست
فانی است و دستِ او دستِ خداست

اور امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت کا امام الزمان تھا اور بلعم اپنے وقت کا ولی تھا جس کو خداتعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ نصیب تھا اور نیز مستجاب الدعوات تھا۔ لیکن جب موسیٰ سے بلعم کا مقابلہ آپڑا تو وہ مقابلہ اس طرح بلعم کو ہلاک کر گیا کہ جس طرح ایک تیز تلوار ایک دم میں سر کو بدن سے جدا کر دیتی ہے اور بدبخت بلعم کو چونکہ اس فلاسفی کی خبر نہ تھی کہ گو خدا تعالیٰ کسی سے مکالمہ کرے اور اس کو اپنا پیارا اور برگزیدہ ٹھہراوے مگروہ جو فضل کے پانی میں اس سے بڑھ کر ہے جب اس شخص سے اس کا مقابلہ ہوگا تو بے شک یہ ہلاک ہو جائے گا اور اس وقت کوئی الہام کام نہیں دے گا اور نہ مستجاب الدعوات ہونا کچھ مدد دے گا۔ اور یہ تو ایک بلعم تھا مگر میں جانتا ہوں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسی طرح ہزاروں بلعم ہلاک ہوئے جیسا کہ یہودیوں کے راہب عیسائی دین کے مرنے کے بعد اکثر ایسے ہی تھے۔

چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ کیفیت اور کمیّت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں۔ اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں۔ اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں۔ غرض جولوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے۔ بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور ؔ مبارک ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال اور جواب کا ایک سلسلہ منعقد ہو کر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اور امام الزمان کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے ایک کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا اور کہا ں گیا بلکہ خداتعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار دیتا ہے۔ اور یہ کیفیت دوسروں کومیسر نہیں آتی بلکہ وہ تو بسا اوقات اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے۔ اور امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتی ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے اور یہ قوت اور انکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے کہ تا ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تا دوسروں پر حجت ہو سکیں۔

واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض ناتمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں۔ اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ قرآن شریف کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہو سکتا ہے اور وہ آیت عَلٰی اَفَّاک اَثِیْم کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلاتوقف مطلع کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا۔ اس قدر جرأت کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی خارجی بات نہ تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا ؔ تھا جس کو انہوں نے قبول نہ کیا مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کانپتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام۔ ہاں اگر اس شیطانی گفتگو کو شیطانی الہام نہ مانیں اور یہ خیال کریں کہ درحقیقت شیطان نے مجسم ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تھی تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان نے جو پرانا سانپ ہے فی الحقیقت اپنے تئیں جسمانی صورت میں ظاہر کیا تھا اور وجود خارجی کے ساتھ آدمی بن کر یہودیوں کے ایسے متبرک معبد کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا جس کے اردگرد صدہا آدمی رہتے تھے تو ضرور تھا کہ اس کے دیکھنے کیلئے ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے بلکہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح آواز مار کر یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتے جس کے وجود کے کئی فرقے منکر تھے۔ اور شیطان کا دکھلا دینا حضرت مسیح کا ایک نشان ٹھہرتا جس سے بہت آدمی ہدایت پاتے اور رومی سلطنت کے معزز عہدہ دار شیطان کو دیکھ کر اور پھر اس کو پرواز کرتے ہوئے مشاہدہ کر کے ضرور حضرت مسیح کے پیرو ہو جاتے مگر ایسا نہ ہوا۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ کوئی روحانی مکالمہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں شیطانی الہام کہہ سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بھی آتا ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اسی محاورہ کے لحاظ سے مسیح نے بھی ایک اپنے بزرگ حواری کو جس کو انجیل میں اس واقعہ کی تحریر سے چند سطر ہی پہلے بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں شیطان کہا ہے۔ پس یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ کوئی یہودی شیطان ٹھٹھے اور ہنسی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس آیا ہوگا اور آپ نے جیسا کہ پطرس کا نام شیطان رکھا اس کو بھی شیطان کہہ دیا ہوگااور یہودیوں میں اس قسم کی شرارتیں بھی تھیں۔ اور ایسے سوال کرنا یہودیوں کا خاصہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سب قصہ ہی جھوٹ ہو جو عمداً یا دھوکہ کھانے سے لکھ دیا ہو۔ کیونکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال اور عقل کے موافق لکھا ہے۔ اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہے۔ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات میں لکھنے والوں سے غلطی ہوگئی۔ جیسا کہ یہ غلطی ہوئی کہ انجیل نویسوں میں سے بعض نے گمان کیا کہ گویا حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوگئےہیں ایسی غلطیاں حواریوں کی سرشت میں تھیں کیونکہ انجیل ہمیں خبر دیتی ہے کہ ان کی عقل باریک نہ تھی۔ ان کے حالات ناقصہ کی خود حضرت مسیح گواہی دیتے ہیں کہ وہ فہم اور درایت اور عملی قوت میں بھی کمزور تھے۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی تیرتا ہوا سرسری وسوسہ ان کے دل کے نزدیک آبھی جائے تو جلد تر وہ شیطانی خیال دور اور دفع کیا جاتا ہے اور ان کے پاک دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور ناپختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے اور لغت عرب میں اس کا نام طائف اور طَوف اور طَیّف اور طَیْف بھی ہے۔ اور اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا۔ یا یوں کہو کہ جیسا کہ دور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دل میں اسی قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو۔ اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو۔ اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

عن محمد بن عمران الصیرفی قال حدثنا الحسن بن علیل العنزی عن العباس بن عبدالواحد۔ عن محمد بن عمرو۔ عن محمد بن مناذر۔ عن سفیان بن عیینۃ عن عمرو بن دینار۔ عن طاؤس عن ابی ھریرۃ قال جاء الشیطٰن الٰی عیسَی۔ قال الست تزعم انک صادق قال بلٰی قال فاوف علی ھذہ الشاھقۃ فالق نفسک منھا فقال ویلک الم یقل اللّٰہ یا ابن ادم لا تبلنی بھلاکک فانی افعل ما اشاء۔ یعنی محمد بن عمران صیرفی سے روایت ہے اور انہوں نے حسن بن علیل عنزی سے روایت کی اور حسن نے عباس سے اور عباس نے محمد بن عمرو سے اور محمد بن عمرو نے محمد بن مناذر سے اور محمد بن مناذر نے سفیان بن عیینہؔ سے اور سفیان نے عمرو بن دینار سے اور عمرو بن دینار نے طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ سے کہا شیطان عیسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے۔ اس نے کہا کہ کیوں نہیں شیطان نے کہا کہ ا گر یہ سچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرادے۔ حضرت عیسیٰ نے کہا کہ تجھ پر واویلا ہو کیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان ایسی طرز سے آیا ہوگا جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے۔ کیونکہ جبرائیل ایسا تو نہیں آتا جیسا کہ انسان کسی گاڑی میں بیٹھ کر یا کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اور پگڑی باندھ کر اور چادر اوڑھ کر آتا ہے بلکہ اس کا آنا عالم ثانی کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پھر شیطان جو کمتر اور ذلیل تر ہے کیونکر انسانی طور پر کھلے کھلے آ سکتا ہے۔ اس تحقیق سے بہرحال اس بات کو ماننا پڑتا ہے جو ڈریپر نے بیان کی ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قوّت نبوت اور نورِحقیقت کے ساتھ شیطانی القا کو ہرگز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا اور اس کے ذب اور دفع میں فوراً مشغول ہوگئے۔‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد13 صفحہ478 تا 486)

(ایس اے ثاقب)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2022