• 28 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک بیان فرمودہ مؤرخہ 4؍فروری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 4؍فروری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

رسول اللهؐ نے فرمایا! اگر تم دونوں (حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ) میرے لیئے کسی ایک اَمر پر متفق ہو جاؤ تو مَیں مشورہ میں تم دونوں کے خلاف نہیں کروں گا لیکن تم دونوں کی حالت مشورہ میں کئی طرح کی ہے جیسے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ اور نوحؑ اور ابراہیمؑ کی مثال ہے۔

حضرت ابوبکرؓ نےنصیحت کے رنگ میں فرمایا! دیکھو عمر سنبھل کر رہو اَور رسولِ خداؐ کی رِکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اُسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قَسم! یہ شخص، جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے، بہرحال سچا ہے۔

مکّہ جانے کی بابت حضرت عمرؓ نے کہا! بسم الله۔ مَیں تو روز دعائیں کیا کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللهؐ کی حفاظت میں کُفّار سے لڑیں۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا! ابوبکرؓ بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا! آجکل حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا ذکر ہو رہا ہے، اب بعض غزوات کا بھی ذکر ہؤا تھا۔

غزوۂ بنو قُریظہ

واقدی نے بنو قُریظہ میں شامل افراد کے نام درج کیئے ہیں جس کے مطابق قبیلۂ بنو تَیم میں سے حضرت ابوبکر صدّیقؓ اور حضرت طلحہٰؓ بن عُبید الله بھی غزوۂ بنو قُریظہ میں شامل ہوئے تھے۔

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی بخدمتِ رسول اللهؐ عرض

عبدالرّحمٰنؓ بن غنم روایت کرتے ہیں کہ جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بنو قُریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللهؐ! لوگ اگر آپؐ کو دنیاوی زینت والے لباس میں دیکھیں گے تو اُن میں اسلام قبول کرنے کی خواہش زیادہ ہو گی۔پس آپؐ وہ حُلّہ زیبِ تن فرمائیں جو حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ پس آپؐ اُسے پہنیں تاکہ مشرکین آپؐ پر خوبصورت لباس دیکھیں۔

میرے ربّ نے میرے لیئے تمہاری مثال ایسی ہی قائم کی ہے

آپؐ نے فرمایا! مَیں ایسا کروں گا، الله کی قسم! اگر تم دونوں میرے لیئے کسی ایک اَمر پر متفق ہو جاؤ تو مَیں تمہارے مشورہ کے خلاف نہیں کہتا اور میرے ربّ نے میرے لیئے تمہاری مثال ایسی ہی قائم کی ہے جیسا کہ اُس نے ملائک میں سے جبرائیل ؑاور میکائیلؑ کی مثال بیان کی ہے۔

عمرؓ کی مثال فرشتوں اور انبیاء میں سے جبرائیلؑ اور نوحؐ کی سی

جہاں تک ابنِ خطاب (حضرت عمرؓ) ہیں تو اِن کی مثال فرشتوں میں جبرائیلؑ کی سی ہے، الله نے ہر اُمّت کو جبرائیلؑ کے ذریعہ ہی ہلاک کیا ہے اور اِن کی مثال انبیاء میں سے حضرت نوحؑ کی سی ہے جب اُنہوں نے کہا! رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (نوح: 27)؛ اَے میرے ربّ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہؤا نہ رہنے دے۔

ابوبکرؓ کی مثال فرشتوں اور انبیاء میں سے میکائیلؐ اور ابراہیمؐ کی مانند

ابنِ ابی قُحافہ (حضرت ابوبکرؓ) کی مثال فرشتوں میں میکائیلؑ کی مانند ہے، جب وہ مغفرت طلب کرتا ہے تو اُن لوگوں کے لیئے زمین میں ہیں اور انبیا ء میں اِس کی مثال حضرت ابراہیمؑ کی مانند ہے جب اُنہوں نے کہا! فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّهٗ مِنِّیۡ ۚ وَمَنۡ عَصَانِیۡ فَاِنَّكَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (ابرٰھیم: 37)؛ پس جس نے میری پیروی کی تو وہ یقینًا مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقینًا تُو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

تم دونوں کی حالت مشورہ میں کئی طرح کی ہے

آپؐ نے فرمایا! اگر تم دونوں میرے لیئے کسی ایک اَمر پر متفق ہو جاؤ تو مَیں مشورہ میں تم دونوں کے خلاف نہیں کروں گا لیکن تم دونوں کی حالت مشورہ میں کئی طرح کی ہے جیسے جبرائیلؑ اور میکائیلؑ اور نوحؑ اور ابراہیمؑ کی مثال ہے۔

سعد آگے بڑھو اور اُن لوگوں پر تیر چلاؤ

نبیٔ کریمؐ نے جب بنو قُریظہ کا محاصرہ کیا ہؤا تھا تو رسول اللهؐ نے فرمایا! اَے سعد آگے بڑھو اور اُن لوگوں پر تیر چلاؤ، مَیں اِس حدّ تک آگے بڑھا کہ میرا تیر اُن تک پہنچ جائے اور میرے پاس پچاس سے زائد تیر تھے جو ہم نے چند لمحوں میں چلائے گویا ہمارے تیر ٹِڈی دَل کی طرح تھے، پس وہ لوگ اندر گھس گئے اور اُن میں سے کوئی بھی جھانک کر باہر نہ دیکھ رہا تھا۔ ہم اپنے تیروں کے متعلق ڈرنے لگے کہ کہیں وہ سارے ہی ختم نہ ہو جائیں۔پس ہم اُن میں سے بعض تیر چلاتے اور بعض کو اپنے پاس محفوظ رکھتے۔

کھجور کیا ہی عمدہ کھانا ہے

 حضرت کعبؓ بن عَمروالمازنی بھی تیر چلانے والوں میں سے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ہمارا کھانا وہ کھجوریں تھیں جو حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے بھیجی تھیں اور وہ کھجوریں کافی زیادہ تھیں، ہم نے رات اُن کھجوروں میں سے کھاتے ہوئے گزاری۔ رسول الله ؐ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھا گیا کہ وہ بھی کھجوریں کھا رہے تھے، رسول اللهؐ فرماتے! کھجور کیا ہی عمدہ کھانا ہے۔

تم نے الله کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے

حضرت سعدؓ بن مُعاذ نے جب بنو قُریظہ کے متعلق فیصلہ کیا تو رسول اللهؐ نے اُن کی تعریف کی اور فرمایا کہ تم نے الله کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے، اِس پر حضرت سعدؓ نے دعا کی کہ اَے الله! اگر تُو نے آنحضرتؐ کی قریش کے ساتھ کوئی اور جنگ مقدّر کر رکھی ہے تو مجھے اِس کے لیئے زندہ رکھ اور اگر آنحضرتؐ اور قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے تو مجھے وفات دے دے۔

رُحَمَآءُ بَیۡنَھُمۡ

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ اُن کا زخم کھل گیا حالانکہ آپؓ تندرست ہو چکے تھے اور اُس زخم کا معمولی نشان باقی رہ گیا تھا۔ رسول اللهؐ اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اُن کے لیئے آنحضرت ؐ کے لگوائے گئے خیمہ میں تشریف لائے اور بیان فرماتی ہیں، اُس کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے کہ مَیں حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز کو اور حضرت ابوبکرؓ کی رونے کی آواز سے الگ پہچان رہی تھی جبکہ مَیں اپنے حُجرہ میں تھی۔ وہ ایسے ہی تھے جیسے الله عزّوجل نے فرمایا ہے! رُحَمَآءُ بَیۡنَھُمۡ (الفتح: 30)  یعنی آپس میں ایک دوسرے سے بے حدّ محبّت کرنے والے ہیں۔

صلح ٔحُدیبیہ

آنحضرتؐ نے ایک خواب دیکھی کہ آپؐ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیت الله کا طواف کر رہے ہیں ، اِس خواب کی بناء پر آنحضرتؐ 1400 صحابہؓ کی جمیعت کے ساتھ ذوالقعدہ چھ ہجری کے شروع میں پیر کے دن بوقت صبح مدینہ سے عُمرہ کی ادائیگی کے لیئے روانہ ہوئے۔ جب رسول اللهؐ کو معلوم ہؤا کہ کُفّارِ مکّہ نے آپؐ کو مکّہ میں داخل ہونے سے روکنے کی تیاری کر لی ہے تو آپؐ نے صحابہؓ سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا، یا رسول اللهؐ! ہم تو محض عُمرہ کے لیئے آئے ہیں ہم کسی سے لڑنے کے لیئے نہیں آئے۔ میری رائے یہ ہے کہ ہم اپنی منزل کی طرف جائیں اگر کوئی ہمیں بیت الله سے روکنے کی کوشش کرے گا تو ہم اُس سے لڑائی کریں گے۔

جاؤ جاؤ! جا کر اپنے بُت لات کو چومتے پھرو یعنی اُس کی پوجا کرو

صلحٔ حُدیبیہ کے لیئے جب باہم گفت و شُنید کے لیئے وفود کا سلسلہ شروع ہؤا تو عُرْوَہ آپؐ کے پاس آئے اور نبیٔ کریمؐ سے گفتگو کرنے لگے۔ عُرْوَہ کی اِس بات کو سُن کر کہ اگر قریش غالب ہوئے تو الله کی قسم! مَیں تمہارے ساتھیوں کے چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اِدھر اُدھر سے اکٹھے ہو گئے ہیں وہ بھاگ جائیں گے اور تمہیں چھوڑ دیں گے، حضرت ابوبکرؓ نے عُرْوَہ بن مسعود سے نہایت سخت الفاظ میں کہا کہ جاؤ جاؤ! جا کر اپنے بُت لات کو چومتے پھرو یعنی اُس کی پوجا کرو۔اِس پر عُرْوَہ نے کہا، دیکھو اُس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تمہارا مجھ پہ ایک احسان نہ ہوتا جس کا مَیں نے ابھی تک تم کو بدلہ نہیں دیا تو مَیں اِس کا تمہیں جواب دیتا۔

حضرت ابوبکرؓ کے عُرْوَہ کو کہے گئے نہایت سخت الفاظ کا مطلب

لات قبیلہ ثقیف کا ایک مشہور بُت تھا اور حضرت ابوبکرؓ کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ بُت پرست ہو اور ہم لوگ خدا پرست ہیں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم تو بُتوں کی خاطر صبر و ثبات دکھاؤ اور ہم خدا پر ایمان لاتے ہوئے رسول اللهؐ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

حضرت ابوبکرؓ کا عُرْوَہ پر احسان یہ تھا

ایک معاملہ میں عُرْوَہ پر دِیّت جب واجب ہوئی تو آپؓ نے دسّ گابھن اُونٹنیوں کے ساتھ اُس کی مدد کی تھی۔

معاہدۂ صلح ٔحُدیبیہ کی شرائط پر حضرت عمرؓ کا تذبذب اور آنحضرتؐ کی تسلّی

صلح ٔحُدیبیہ کے موقع پر آنحضرتؐ کے ساتھ قریش کا معاہدہ ہو رہا تھا، حضرت عمرؓ بن خطاب کہتے تھے کہ مَیں نبیؐ کے پاس آیا اور مَیں نے کہا! کیا آپؐ سچ مُچ الله کے نبی نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا! کیوں نہیں۔ مَیں نے کہا! کیا ہم حقّ پر نہیں ہیں اور ہمارا دشمن باطل پر؟ آپؐ نے فرمایا! کیوں نہیں۔ مَیں نے عرض کیا تو پھر ہم اپنے دین سے متعلق ذلّت آمیز شرطیں کیوں مانیں! آپؐ نے فرمایا! مَیں الله کا رسول ہوں اور مَیں اُس کی نافرمانی نہیں کروں گا، وہ میری مدد کرے گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا! کیا آپؐ ہم سے نہیں کہتے تھے کہ ہم عنقریب بیت الله میں پہنچیں گے اور اُس کا طواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا! بے شک مَیں نے کہا تھا اور کیا مَیں نے تمہیں یہ بتایا تھا کہ ہم بیت الله اِسی سال پہنچیں گے؟ آپؓ نے کہا! نہیں۔ آپؐ نے فرمایا! تو پھر بیت الله ضرور پہنچو گے اور اُس کا طواف بھی کرو گے۔

دیکھو عمر سنبھل کر رہو!

 یہ سُن کر آپؓ حضرت ابوبکؓر کے پاس آئے اور اُن کے ساتھ بھی مذکورہ بالا طرز پر پُر جوش باتیں کیں تو آپؓ نے بھی جوابًا تقریبًا وہی الفاظ دُہرائے نیز نصیحت کے رنگ میں فرمایا۔ دیکھو عمر! سنبھل کر رہو اور رسولِ خداؐ کی رِکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اُسے ڈھیلا نہ ہونے دو کیونکہ خدا کی قَسم! یہ شخص، جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے، بہرحال سچا ہے۔

مَیں نے بوجہ اِس غلطی بطورِ کفّارہ کئی نیک عمل کیئے

زُہریؒ نے کہا کہ حضرت عمرؓ کہتے کہ مَیں نے اِس غلطی کی وجہ سے بطورِ کفّارہ کئی نیک عمل کیئے۔

اسلام میں صلحٔ حُدیبیہ سے بڑی کوئی اور فتح نہیں ہے

ذوالقعدہ چھ ہجری میں جب صلح ٔحُدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اِس معاہدہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطورِ گواہ فریقین کے متعدّد معززین نے اِن پر دستخط کیئے، مسلمانوں میں سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرّحمٰنؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، حضرت ابوعُبیدہؓ بن الجّراح تھے۔ حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں صلحٔ حُدیبیہ سے بڑی کوئی اور فتح نہیں ہے۔

سَریّہ حضرت ابوبکرؓ بطرف بنو فُزارہ؍ چھ ہجری

صحیح المسلم اور سُنُن ابی داؤد کی حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللهؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو اِس غزوہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ یہ قبیلہ اُس وقت مسلمانوں کے خلاف برسرِ پیکار تھا اور اِس دستہ میں سلمیٰؓ بن اَکْوَع بھی شامل ہوئے جو مشہور تیر انداز اَور دوڑنے میں خاص مہارت رکھتے تھے۔

غزوۂ خیبر

رسول اللهؐ ماہِ محرّم سات ہجری میں خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ خیبر ایک نخلستان ہے جو مدینۂ منورہ سے 184 کلومیٹر شمال میں واقع ہے، یہاں آتش فشانی چٹانوں کا سلسلہ ہے۔ یہاں یہود کے بہت سے قلعے تھے جن میں سے بعض کے آثار اب بھی باقی ہیں، اِن قلعوں کو مسلمانوں نے غزوۂ خیبر میں فتح کیا تھا۔ یہ علاقہ نہایت زرخیز اور یہود کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ آپؐ نے اپنے بعد مدینہ پر سِباع ؓبن عُرْفَطَہ غفاّری کوامیر مقرر کیا ۔ خیبر میں قلعوں کا محاصرہ دسّ سے زائد راتیں رہا۔

بمطابق لاہور سے فروری؍ 2010ء میں شائع ہونے والی کتاب سیّدنا صدّیق اکبرؓ

اِس میں مصنّف نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ قلعہ کَتِیبَہ فتح ہؤا تھا لیکن اُس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ بہر حال مصنّف لکھتا ہے کہ ایک قلعہ کے لیئے حضرت ابوبکرؓ امیر لشکر ہو کر گئے جو آپؓ کے ہاتھ پر فتح ہؤا، دوسرے قلعہ پر حضرت عمرؓ کو مقرر کیا گیا وہ بھی کامیاب ہوئے، تیسرے قلعہ کو سَر کرنے کی مہم محمد ؓبن مَسلمہ کے سپرد ہوئی لیکن وہ اِس میں کامیاب نہ ہوئے تو حضورؐ نے فرمایا! صبح مَیں ایسے شخص کو امیرِ لشکر بنا کر عَلَم دوں گا جو خدا اَور رسولؐ کو بہت دوست رکھتا ہے اور اِس کے ہاتھ سے قلعہ فتح ہو گا، چنانچہ حضرت علیؓ کو عَلَم عنائیت ہؤا اَور قلعہ قَموص فتح ہؤا۔

خیبر کے اموالِ غنیمت کی تقسیم میں حضرت ابوبکرؓ کی شراکت

جب الله تعالیٰ نے نبیٔ کریمؐ کو خیبر پر فتح عطاء فرمائی تو آپؐ نے خیبر کی ایک خاص وادی کَتِیبَہ کو اپنے قرابت داروں، اپنے خاندان کی عورتوں نیز مسلمانوں کے مَردوں اور عورتوں میں تقسیم فرمایا۔ اِس موقع پر آپؐ نے دیگر رشتہ داروں کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی ایک سَو وَسق (375 مَن) غلّہ اور کھجوریں عطاء فرمائیں۔

سَریّہ حضرت ابوبکرؓ بطرف نجد؍ شعبان سات ہجری

نجد ایک نیم صحرائی لیکن شاداب خطّہ ہے، اِس میں متعدّد وَادیاں اور پہاڑ ہیں۔ یہ علاقہ سطحٔ زمین سے 1200 میٹر بلند ہے، اِس بلندی کی بناء پر اُس کو نجد کہتے ہیں۔ نجد میں بنو کِلاب مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ کو اُن کی سرکُوبی کے لیئے رسول اللهؐ نے وہاں امیر بنا کر بھیجا۔

غزوۂ فتحٔ مکّہ؍ رمضان آٹھ ہجری

اِس غزوہ کو غزوۃُ الفتحِ الاعظم بھی کہتے ہیں۔ تاریخِ طبری کا بیان ہے کہ جب رسول اللهؐ نے لوگوں کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرمایا تو آپؐ نے اپنے گھر والوں سے فرمایا! میرا سامان بھی تیار کر دو۔

حضرت ابوبکرؓ کا حضرت عائشہؓ سے استفسار

حضرت ابوبکرؓ اپنی بیٹی عائشہؓ کے پاس داخل ہوئے ، اُس وقت حضرت عائشہؓ رسول اللهؐ کے سامان کو تیار کر رہی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا اَے میری بیٹی! کیا رسول اللهؐ نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے کچھ کہ اُن کا سامان تیار کرو؟ اُنہوں کہا! جی ہاں۔ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا! تمہارا کیا خیال ہےکہ آپؐ کا اِرادہ کہاں جانے کا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے کہا! مَیں بالکل نہیں جانتی۔

رسول اللهؐ کی دعا

 پھر رسول اللهؐ نے لوگوں کو بتا دیا کہ آپؐ مکّہ کی طرف جارہے ہیں اور آپؐ نے اُنہیں فورًا اِنتظام کرنے اور تیار ہونے کا ارشاد فرمایااور دعا کی کہ اَے الله! قریش کے جاسوسوں کو اور اُن کے مخبروں کو روکے رکھ کہ یہاں تک کہ ہم اُن لوگوں کو اُن کے علاقوں میں اچانک پا لیں۔ اِس پر لوگوں نے تیاری شروع کر دی۔ مزید برآں آپؐ نے اردگرد کے قبائل کو پیغام بجھوایا کہ جو شخص الله تعالیٰ اور یومِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے مہینہ میں مدینہ حاضر ہو جائے۔

ابوبکرؓ اِس بات کو پوشیدہ ہی رکھنا

 اِس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے سیرتِ حَلَبیَہ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ سے اِستفسار فرما رہے تھے تو اُسی وقت رسولِ کریمؐ وہاں تشریف لے آئے، حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ سے پوچھا، یا رسول اللهؐ! کیا آپؐ نے سفر کا اِرادہ فرمایا ہے؟ آپؐ نے فرمایا! ہاں۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا ! تو پھر مَیں بھی تیاری کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔ آپؓ کے دریافت کرنے پر کہ کہاں کا اِرادہ فرمایا ہے، آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا! قریش کے مقابلہ کا مگر ابوبکرؓ اِس بات کو پوشیدہ ہی رکھنا۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا، یا رسول اللهؐ ! کیا قریش اور ہمارے درمیان ابھی معاہدہ اور صلح کی مدّت باقی نہیں ہے؟آپؐ نے فرمایا! ہاں مگر اُنہوں نے غدّاری کی ہے اور معاہدہ کو توڑ دیا ہے ۔

قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے

بوجۂ قریش کی غدّاری رسول اللهؐ کےحضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ سےمکّہ جانے کے بارہ میں رائے طلب فرمانے نیزحضرت ابوبکرؓ کی مذکورہ بالا عرض کے تناظر میں حضرت عمرؓ کی رائے کی بابت حضرت المصلح الموعودؓ بیان فرماتے ہیں۔ پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا! بسم الله۔ مَیں تو روز دعائیں کیا کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللهؐ کی حفاظت میں کُفّار سے لڑیں۔ رسولِ کریمؐ نے فرمایا! ابوبکرؓ بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے۔

یہ دسّ ہزار کے ساتھ رسول اللهؐ ہیں

طبقات ابنِ سعد میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا قافلہ عشاء کے وقت مَرُّالظَّہْرَان میں اُترا، مکّہ سے 25 کلومیٹر دُور تھا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو حکم دیا تو اُنہوں نے دسّ ہزار جگہ آگ روشن کی ۔ تو قریش نے ابوسفیان کو بھیجا کہ وہ حالات معلوم کرے، اُنہوں نے کہا کہ اگر تُو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملے تو اُن سے ہمارے لیئے اَمان لے لینا۔ ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بُدَیل بن وَرْقَاء روانہ ہوئے ، جب اُنہوں نے لشکر دیکھا تو سخت پریشان ہو گئے۔ آپؐ نے اُس رات حضرت عمرؓ کو پہرہ پر نگران مقرر فرمایا، حضرت عبّاسؓ نے ابوسفیان کی آواز سُنی تو پُکار کر کہاکہ ابوحنظلہ۔ اُس نے کہا! لبّیک۔ تمہارے پیچھے کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا! یہ دسّ ہزار کے ساتھ رسول اللهؐ ہیں۔ حضرت عبّاس نے اُسے پناہ دی نیز دونوں ساتھیوں سمیت آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کیا، تینوں اسلام لے آئے۔

اِس کا تسلسل آگے جاری ہے

خطبۂ ثانیہ سے قبل حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ارشاد فرمایا کہ یہ ابھی اِس کا تسلسل آگے جاری ہے، اِنْ شآء الله! آئندہ بیان ہو گا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2022

اگلا پڑھیں

عیسائیوں سے خطاب