’’قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اُس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتا یا ہے۔ اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ 102 ایڈیشن 1988ء)
ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جاوے؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
’’قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَّلْعَنُہُ الْقُرْاٰنُ۔ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیتِ رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے۔ اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبرو غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘
(ملفوظات جلد 5صفحہ157 ایڈیشن 1988ء)