قرآنی انبیاء
حضرت صالح ؑ کی کہانی
قسط 9
قوم کے لوگ حضرت صالحؑ کو تبلیغ سے روکنے کی خاطر طرح طرح کی کوششیں کرتے۔ جس اونٹنی پر بیٹھ کر حضرت صالح علیہ السلام اپنے تبلیغی سفر کیا کرتے تھے اسے تنگ کیا جاتا۔ اسے پانی پینے کے لئے گھاٹ پر آنے سے روکتے اور خیال کرتے کہ شاید ان باتوں سے تنگ آ کر صالح ؑ حق بات کہنا بند کر دیں گے لیکن ان کی کوئی تدبیر بھی کار گر نہ ہوئی اور صالحؑ کی تبلیغ جاری رہی۔ بالآخر انہوں نے انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا اور اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔
قوم ثمود کے واقعات جنہوں نے اپنے وقت کے نبی کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
آج سے قریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے کا ذکر ہے سر زمین عرب میں مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان ایک شہر حجر نامی آباد تھا۔ یہ شہر ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ یہ قوم جس کا نام ’’قوم ثمود‘‘ تھا وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ بے حد خوشحال اور ترقی یافتہ۔ قوم ثمود کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر تھا۔ کھجوریں کثرت کے ساتھ پیدا ہوتی تھیں اور یہاں کی کھجور عمدہ اور بہترین ہوتی تھی۔
پتھر کا کام بھی لو گ بہت عمدہ کیا کرتے تھے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر اپنے رہنے کے لئے مضبوط اور محفوظ مکانات بنایا کرتے تھے جس کی وجہ سے دیگر قوموں کو ان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ خوشحالی کی وجہ سے یہ لوگ آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اپنے ایک نیک بندے کو جن کا نام صالحؑ تھا کھڑا کیا تاکہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئیں اور ان کی ظاہری ترقیات کے ساتھ ساتھ انہیں روحانی ترقیات بھی عطا کریں۔
حضرت صالحؑ قوم کے ایک عمدہ اور نیک انسان تھے جن کے متعلق تمام علاقے کے لوگ یہ جانتے تھے کہ صالحؑ بزرگ انسان ہیں۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں اور جھوٹ نہیں بولتے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے نبوت کی نعمت پا کر لوگوں کو نصیحت کرنے لگے۔ انہیں بری باتوں سے روکا اور اچھی باتوں کی تلقین کی۔ لیکن افسوس جیسا کہ اکثر انبیاء کی قومیں ان کے ساتھ سلوک کرتی ہیں ویسا ہی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ
اے صالحؑ! ہم تو تجھے بڑا اچھا انسان خیال کرتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ تو ہماری قوم کے لئے مفید ثابت ہو گا لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ تو ایک ایسا دعویٰ کر رہا ہے جسے ہم ہر گز تسلیم نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی دوسری قوم تجھے رشوت دے کر ہمارے خلاف استعمال کر رہی ہے کیونکہ ویسے تو وہ ہم پر غلبہ پا نہیں سکتے اس لئے انہوں نے تجھے خرید لیا ہے۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ اعتراض ہر نبی کے زمانے میں کیا گیا ہے کہ یہ کسی دوسری قوم یا حکومت کا ایجنٹ ہے۔ حضرت صالحؑ سے پہلے آنے والے انبیاء پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے اور آپ کے بعد آنے والے انبیاء کو بھی مخالفوں نے یہی کہا کہ یہ کسی دوسری قوم کے ساتھ مل کر ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔
حضرت صالحؑ ان کی ان باتوں سے بالکل نہ گھبرائے بلکہ پہلے سے بڑھ کر انہیں تبلیغ کرنے لگے۔ مخالفت ہوتی رہی لیکن آپ اپنی دھن میں مگن اپنے خدا کی طرف لوگوں کو بلاتے رہے۔ جس کے نتیجے میں بعض سمجھ دار اور نیک فطرت لوگ آپ کے ساتھ ہو گئے۔ لیکن قو م کی اکثریت آپ کی مخالف ہی رہی وہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ تم بھی ہماری طرح کے ایک انسان ہو پھر تم نبی یا رسول کیسے ہو سکتے ہو؟ اگر تم واقعی نبی ہو اور خدا تعالیٰ نے تمہیں بھیجا ہے تو پھر ہمارے پاس کوئی نشان لاؤ۔ ایسا نشان جسے ہم دیکھیں اور ایمان لائیں کہ واقعی تم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو۔ اور خدا تمہارے ساتھ ہے۔
حضرت صالحؑ ان کی ان باتوں سے بے نیاز اپنے کام میں لگے رہے۔ آپ نے پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کا کام تیز کر دیا اور ہر طرف سے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف اور نیکیوں کی طرف بلانے لگے۔
آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر مختلف علاقوں کی طرف نکل جاتے اور تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیتے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔
قوم کے لوگوں نے کچھ عرصہ تک تو برداشت کیا لیکن پھر آپ کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ حضرت صالح علیہ السلام ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے قوم کے لوگ براہ راست آپ کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے لیکن وہ مختلف حیلوں بہانوں سے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہتے۔ آپ کی تبلیغ روکنے کے لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ ہم چونکہ صالح کو براہ راست نہیں روک سکتے اس لئے کسی بہانے سے ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ یہ اونٹنی جس پر سوار ہو کر صالح تبلیغ کرنے جاتا ہے اگر ہم اسے تنگ کرنا شروع کریں تو مجبوراً صالح کو بھی رکنا پڑے گا۔ چنانچہ انہوں نے سازش کر کے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو اپنے اپنے گھاٹوں سے پانی پینے سے منع کر دیا اور تنگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ ہمارے گھاٹ سے پانی نہیں پئے گی۔
حضرت صالحؑ نے قوم کے لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ اونٹنی میرے کام میں میری مدد کر رہی ہے۔ اس لئے اسے تنگ نہ کرو۔ یہ بظاہر میری اونٹنی ہے لیکن خدا تعالیٰ کے لئے کام میں آنے کی وجہ سے اب یہ خدا تعالیٰ کی اونٹنی بن چکی ہے۔ اسے ستانا چھوڑ دو اور اسے بھی اپنے گھاٹ سے پانی پینے دیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری ان حرکتوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے اور تمہیں ان کا عذاب گھیر لے۔ آپ نے قوم کو بہت سمجھایا لیکن کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی ہی نہ تھی اور وہ مسلسل اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔
بہر حال جب مخالفین دلائل کے ذریعہ سے حضرت صالحؑ کا مقابلہ نہ کر سکے تو ان میں سے نو سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ہم مل کر کسی روز صالحؑ پر حملہ کر دیں۔ اسے قتل کر ڈالیں اور یہ جو نیا دین پھیلا رہا ہے اس کا خاتمہ کر دیں۔ وہ مخالف سردار یہ سمجھ رہے تھ کہ وہ اس طریق سے اللہ تعالیٰ کے سلسلے کو مٹا دیں گے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی حفاظت کی اور ان مخالف سرداروں کو یہ موقعہ ہی نہ مل سکا کہ وہ حضرت صالح علیہ السلام کو نقصان پہنچا سکیں۔ انہوں نے بہت کوششیں کیں بہت منصوبے بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔
یہ بات مخالفین کے لئے بہت تکلیف کا موجب تھی کہ باوجود ان کی مخالفت اور حضرت صالحؑ کو روکنے کی کوششوں کے آپ تبلیغ دین میں مصروف ہیں اور نہ صرف مصروف ہیں بلکہ بہت سے لوگ بھی ان کی باتوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے تبلیغ کو روکنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ جو ہو چکا سو ہو چکا اب وہ ہر گز ہر گز حضرت صالحؑ کی باتوں کو پھیلنے کا موقع نہیں دیں گے۔ چونکہ ساری قوم جانتی تھی کہ صالحؑ نے اپنی اونٹنی کو خدا کی اونٹنی قرار دیتے ہوئے یہ چیلنج دیا تھا کہ جو اس اونٹنی کو نقصان پہنچائے گا خدا کا عذاب اسے پکڑ لے گا۔ اس لئے قوم کے مخالف لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم صالحؑ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اس کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹیں گے جس سے دو فائدے ہوں گے۔
اول: تو یہ صالحؑ کی بات غلط نکلے گی کہ یہ اونٹنی خدا کی اونٹنی ہے اور ایک نشان ہے۔ دوسرے صالحؑ چونکہ اس اونٹنی پر سفر کر کے تبلیغ کرتے ہیں اس لئے اونٹنی چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہے گی تبلیغ رک جائے گی۔ ٹھیک ہے! ٹھیک ہے!! سب نے تائید کی اور فیصلہ یہ ہوا کہ اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں گویا انہوں نے اپنی تباہی کا فیصلہ کر لیا۔ دوسرا دن چڑھا اور ہر طرف یہ شور پڑ گیا کہ صالحؑ کی اونٹنی جسے وہ خدا کی اونٹنی کہتا تھا ایک سردار نے اس کی ٹانگیں کاٹ دی ہیں۔ قوم کے سمجھ دار لوگ جو کسی حد تک حضرت صالحؑ کی باتوں کو سمجھتے تھے اس بات کو سن کر سخت پریشان ہوئے۔ لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔ خدا تعالیٰ کے غضب نے قوم ثمود کو پکڑ لیا۔ شدید زلزلوں نے زمین کو تہہ و بالا کر دیا۔ ہر طرف اس قدر تباہی پھیلی کہ قوم ثمود کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ صرف حضرت صالحؑ اور ان کے ماننے والے اس شدید عذاب سے بچائے گئے۔ باقی قوم مٹی میں ملا دی گئی۔ اور یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی بات پر کان نہیں دھرے تھے اور اس کے نبی کی اور اس کے نشانات کی بے حرمتی کی تھی۔ آج اس جگہ جہاں یہ قوم آباد تھی اس قوم کی تباہی کے آثار ملتے ہیں جو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ’’اَلَا بُعۡدًا لِّثَمُوۡدَ‘‘ کہ ثمود کے لئے تباہی مقدر کر دی گئی تھی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی تھی۔
(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)