دُعاربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے
(حضرت مسیح موعود ؑ)
(قسط 2)
دُعا کرنے سے پہلے اِنسان کو لازم ہے کہ اپنے اعتقاد، اعمال پر نظر کرے
یہ سچی بات ہے کہ جو شخص اعمال سے کام نہیں لیتا وہ دعا نہیں کرتا بلکہ خداتعالیٰ کی آزمائیش کرتا ہے۔ اس لئے دعا کرنے سے پہلے اپنی تمام طاقتوں کو خرچ کرنا ضروری ہے۔ اور یہی معنی اس دعا کے ہیں۔ پہلے لازم ہے کہ انسان اپنے اعتقاد۔ اعمال میں نظر کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ اصلاح اسباب کے پیرایہ میں ہوتی ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا سبب پیدا کردیتا ہے کہ جو اصلاح کا موجب ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ اس مقام پر ذرا خاص غور کریں۔ جو کہتے ہیں کہ جب دعا ہوئی تو اسباب کی کیا ضرورت ہے۔ وہ نادان سوچیں کہ دعا بجائے خود ایک مخفی سبب ہے جودوسرے اسباب کو پیدا کردیتا ہے۔ اور اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کا تقدّم اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ (الفاتحہ: 5) پر جو کلمۂ دعائیہ ہے اس امر کی خاص تشریح کر رہا ہے۔ غرض عادۃ اللہ ہم یونہی دیکھ رہے ہیں کہ وہ خلقِ اسباب کردیتا ہے۔ دیکھو پیاس کے بجھانے کے لئے پانی اور بھوک کے مٹانے کے لئے کھانا مہیا کرتا ہے مگر اسباب کے ذریعے۔ پس یہ سلسلۂ اسباب یونہی چلتا ہے اور خلقِ اسباب ضرور ہوتا ہے۔ کیونکہ خدایتعالےٰ کے یہ دو نام ہی ہیں۔ جیسا کہ مولوی محمد احسن صاحب نے ذکر کیا تھا کہ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا (النساء: 159) عزیز تو یہ ہے کہ ہر ایک کام کردینا اور حکیم یہ کہ ہر ایک کام کسی حکمت سے موقع اور محل کے مناسب اور موزوں کردینا۔ دیکھو نباتات، جمادات میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں۔ تربدہی کو دیکھو کہ وہ ایک دو تولہ تک دست لے آتی ہے ۔ایسا ہی سقموؔنیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر تو قادر ہے کہ یونہی دست آجائے یا پیاس بدوں پانی ہی کے بجھ جائے۔ مگر چونکہ عجائباتِ قدرت کاعلم کرانا بھی ضروری تھا ۔کیونکہ جس قدر واقفیت اور علم عجائباتِ قدرت کا وسیع ہوتا جاتا ہے اسی قدر انسان اللہ تعالیٰ کی صفات پر اطلاع پا کر قرب حاصل کرنے کے قابل ہوتا جاتا ہے۔ طبابت، ہیئت سے ہزار ہا خواص معلوم ہوتے ہیں۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 124-125 ایڈیشن 1984ء)
رحم کی دو قسمیں۔ رحمانیت اور رحیمیت
…دو قسم کی رحمتیں ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے وجود سے پہلے پیش از وقت کے طورپر تقدمہ کی صورت میں عناصر وغیرہ اشیاء پیدا کیں جو ہمارے کام میں لگی ہوئی ہیں اور یہ ہمارے وجود، خواہش اور دعا سے پہلےہیں جو رحمانیت کے تقاضے سے پیدا ہوئے۔
اور دوسری رحمت رحیمیت کی ہے۔ یعنی جب ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔ غور کیا جاوے تو معلوم ہوگا کہ قانونِ قدرت کا تعلق ہمیشہ سے دعا کا تعلق ہے۔ بعض لوگ آجکل اس کو بدعت سمجھتے ہیں۔ ہماری دعا کا جو تعلق خداتعالیٰ سے ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے بھی بیان کروں۔
ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہوکر دودھ کے لئے چلاتا اور چیختا ہے ۔ تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں۔ مگر بچہ کی چلاہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لاسکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے ۔مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا۔ اُدۡعُوۡ نِیۡٓ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 129-130 ایڈیشن 1984ء)
اِھۡدِنَاالصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ میں اِنسان کو خُدا تعالیٰ سے سچّی بصیرت مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے
پس اِیَّاکَ نَعۡبُدُ یہ بتلارہا ہے کہ اےرب العالمین! تیرے پہلے عطیہ کوبھی ہم نے بیکار اور برباد نہیں کیا۔ اِھۡدِنَاالصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ میں یہ ہدایت فرمائی ہے۔کہ انسان خداتعالیٰ سے سچی بصیرت مانگے۔ کیونکہ اگر اس کا فضل اور کرم دستگیری نہ کرے تو عاجز انسان ایسی تاریکی اور اندھکار میں پھنسا ہوا ہے کہ وہ دعا ہی نہیں کرسکتا۔ پس جب تک انسان خدا کے اس فضل کو جو رحمانیت کے فیضان سے اسے پہنچا ہے کام میں لا کر دعا نہ مانگے۔ کوئی نتیجہ بہتر نہیں نکال سکتا۔
میں نے عرصہ ہوا۔ انگریزی قانون میں یہ دیکھا تھا کہ تقاوی کے لئے پہلےکچھ سامان دکھانا ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح قانونِ قدرت کی طرف دیکھو کہ جو کچھ ہم کو پہلے ملا ہے۔ اس سے کیا بنایا؟ اگر عقل و ہوش، آنکھ کان رکھتے ہوئے نہیں بہکے ہو۔ اور حمق اور دیوانگی کی طرف نہیں گئے تو دعا کرو اور بھی فیض الہی ملیگا۔ ورنہ محرومی اور بدقسمتی کے لچھن ہیں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 131 ایڈیشن 1984ء)
دُعا کی فلاسفی
دیکھو ایک بچہ بھوک سے بیتاب اور بیقرار ہو کر دودھ کے لئے چلاتا ہے اور چیختا ہے تو ماں کی پستان میں دودھ جوش مارکر آجاتا ہے۔ حالانکہ بچہ تو دعا کا نام بھی نہیں جانتا۔ لیکن یہ کیا سبب ہے کہ اس کی چیخیں دودھ کو جذب کرلیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ عموماً ہر ایک صاحب کو اس کا تجربہ ہے ۔ بعض اوقات ایسا دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنی چھاتیوں میں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتی ہیں۔ اور بسا اوقات ہوتا بھی نہیں۔ لیکن جونہی بچہ کی دردناک چیخ کان میں پہنچی۔ فوراً دودھ اترآیا ہے۔ جیسے بچہ کی ان چیخوں کو دودھ کے جذب اور کشش کے ساتھ ایک علاقہ ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری چلاہٹ ایسی ہی اضطراری ہو تو وہ اس کے فضل اور رحمت کو جوش دلاتی ہے۔ اور اس کو کھینچ لاتی ہے۔ اور میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا کےفضل اور رحمت کو جو قبولیتِ دُعا کی صورت میں آتا ہے میں نے اپنی طرف کھینچتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ دیکھا ہے۔ ہاں آج کل کے زمانہ کے تاریک دماغ فلاسفر اس کو محسوس نہ کرسکیں یا نہ دیکھ سکیں۔ تو یہ صداقت دنیا سے اٹھ نہیں سکتی۔ اور خصوصًا ایسی حالت میں جبکہ میں قبولیت دعاء کا نمونہ دکھانے کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 198 ایڈیشن 1984ء)
دعا سے کیا ملتا ہے؟
اگر دعا نہ ہوتی تو کوئی انسان خدا شناسی کے بارے میں حق الیقین تک نہ پہنچ سکتا۔ دعا سے الہام ملتا ہے ۔ دعا سے ہم خدا تعالیٰ سے کلام کرتے ہیں۔ جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے۔ تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے، جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 291 ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)