• 26 اپریل, 2024

بے پناہ کام کرنے کا جذبہ

قومی ترقی وخوشحالی کے لئے وقت کی قدروقیمت کو سمجھنا اور اپنے وقت کو بہترین طریق پر مفید اور نتیجہ خیز کاموں میں صرف کرنا انتہائی ضروری اور لازمی ہے ۔

سوانح فضلِ عمر میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفۃالمسیح الرابعؒ) حضورؓ کی خلافت کے ابتدائی ایام کی مصروفیات کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں ۔

یہ ایام حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓکے لئے انتہائی مصروفیت کے ایام تھے۔ دشمن کے بیرونی حملے ایک طرف اور کئی اپنے کہلانے والوں کی طرف سے طرح طرح کی اذّیتیں دوسری طرف۔ غیرمبائعین نے تو احمدیت کا مشن ہی یہ سمجھ رکھا تھا کہ کسی طرح مبائعین کی شاخ کو یکسر کاٹ ڈالا جائے اور حضرت مرزا محمود احمدؓ کو ناکام و نامراد کر کے دکھایا جائے ۔گویا نعوذ باللہ یہی احمدیت کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی غرض و غایت تھی ۔اِن کے اعتراضات کے جواب دینا ۔جماعت کو ان کے زہریلے پروپیگنڈے سے مامون و محفوظ رکھنا ۔نئی جماعتوں کے ایمان کی تقویت کے سامان پیدا کرنا ۔ جماعت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کواز سرِ نو مجتمع کرنا ۔ خلافت کی اہمیت اور اصل منصب کو جماعت پر واضح کرنا ۔ کثرت سے آنے والے زائرین سے ملاقاتیں کرنا اور خطوط کا جواب دینا۔ درسِ قرآنِ کریم اور پانچ وقت نماز کی امامت کے علاوہ رات کو تہجد میں گریہ وزاری اوران کے لئے دُعائیں کرنا۔ انجمن کے ایسے ممبران کی پیدا کردہ مشکلات کا ازالہ کرنا جو بیعت خلافت میں داخل نہ تھے اس کے علاوہ جماعت کی ترقی کے لئے کئی عارضی اور مستقل اقدامات کرنا۔ غیراز جماعت اور غیر مسلم زائرین کے سوالات اور اعتراضات کے جواب زبانی اور تحریری طورپر دینا۔ غرضیکہ آپ کی زندگی ایک مصروف ترین انسان کی زندگی تھی۔ اللہ اللہ 25 برس کی عمر میں کتنے بوجھ تھے جو اسلام کے غم میں آپ نے اپنے نوجوان کندھوں پر اٹھا لئے تھے۔ اس ایک دکھ کے لئے کتنے دکھ تھے جو آپ کے جواں سال دل میں سماگئے ۔ کتنے فکر تھے جو ہجوم کر کے آئے اور آپ کے ذہن کی فضا پر چھا گئے۔ …لیکن اس میں آپ کا اختیار بھی کیا تھا۔یہ علیم و خبیر خْدا کا انتخاب تھا ۔جس نے یہ گراں قدر امانت آپ کے سپْرد کی ۔اس عظیم ذمہ داری کا لباس خْدا نے ہی آپ کو پہنایا تھا ۔ پس ممکن نہ تھا کہ کوئی انسان آپ سے یہ لباس چھین سکے اور حق یہ ہے کہ آپ کا ہر سانس آخر دم تک اس عہد کے نبھانے میں گزرا ۔اور زندگی کی آخری رمق تک آپ اس پر قائم رہے ۔یہ تو زندگی بھر نفس نفس کا ساتھ تھا جسے ہر طور نبھانا تھا ۔دکھ میں بھی اور آرام میں بھی،صبح اور شام ،دن اور رات خلافت کی عظیم ذمہ داریوں کو سینے سے لگائے دل و جان سے عزیز تر کئے ہوئے زندگی کی آخری سانس تک آگے ہی آگے بڑھنا تھا۔

آپ نے ایسے ہی کیا اور زندگی کی آخری رمق تک ایسا ہی کئے چلے گئے اور ہر صبح اور ہر شام نے گواہی دی کہ خْدا کا انتخاب غلط نہ تھا ۔آپ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہَ نَفْسَاً اِلَّا وُسْعَھَا کے الہٰی فرمان کی ایک زندہ اور مجسم تفسیر بن گئے۔

(سوانح فضلِ عمر جلد دوم صفحہ26)

حضرت مصلح موعودؓ کی مصروفیات کے متعلق حضرت چوہدری محمد ظفراللہ ؓخان مرحوم نے ایک بڑا دلچسپ اور پیارا واقعہ بیان فرمایا ہے جس سے حضور ؓ کی سیرت کے اور بھی کئی دلکش پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔آپؓ فرماتے ہیں۔ ’’ڈیوک آف ونڈسرجو اس وقت پرنس آف ویلز اور تخت برطانیہ کے وارث تھے جس پر وہ کبھی براجمان نہ ہو سکے کیونکہ ایڈورڈ ہشتم کی حیثیت میں وہ رسمِ تخت نشینی سے قبل ہی د ستبردار ہو گئے ۔ وہ 1922ء میں ہندوستان تشریف لائے۔ لاہور میں ان کے قیام کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور جماعت کی طرف سے ان کی خدمت میں ایک کتاب تحفہ کے طور پر پیش کی گئی۔ جس کا نام ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ تھا۔‘‘

اس کتاب میں آپؓ نے تعلیماتِ اسلامی کی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی حیثیت میں نہایت واضح اورمدلل تشریح فرمائی تھی نیز اس کے آخر میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی تھی۔ اصل کتب حضرت صاحب نے اردو میں رقم فرمائی اور مسودہ کی ایک نقل مجھے لاہور ان ہدایات کے ساتھ ارسال فرمائی کہ میں اس کا جس قدر بھی جلد ممکن ہو سکے انگریزی میں ترجمہ کروں اور پھر ترجمہ کو نظر ثانی کی لئے قادیان لے جاؤں ۔ میں نے پانچ دنوں میں اس ترجمہ کو مکمل کر لیا اور اسے لے کر قادیان چلا گیا۔وہاں دو دن اس کی نظر ثانی پر صرف کئے گئے۔ نظر ثانی کرنے والے احباب کا بورڈ خود حضرت صاحبؓ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ مرحوم، مولوی شیر علیؓ مرحوم اور ہمارے معزز بھائی مولوی محمد دینؓ پر مشتمل تھا۔ ہم روزانہ نماز فجر کے بعد جب کہ ابھی سورج نمودار ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہوتا ہے کام شروع کر دیتے تھے اور نماز عشاء تک ماسوائے کھانوں اور نمازوں کے وقفہ کے لگاتار جاری رکھتے۔ہم اس کمرہ میں کام کیا کرتے تھے جو مسجد مبارک کی چھت پر شمالی جانب سے کھلتا ہے۔ کھانا حضور ایدہْ اللہ کے گھر سے آتااور اسی کمرہ میں کھایا جاتا تھا جہاں ہم کام میں مصروف تھے۔ ہم صرف نمازوں کے اوقات میں کمرے سے باہر نکلتے اور ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔ یہ مجلس چند ضروری وقفوں کے علاوہ تقریباً سترہ گھنٹے روزانہ رہتی تھی ۔محنت و سرگرمی اور انہماک کے وہ دو دن جو بیک وقت پْرمسرت و پْر سکون تھے کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔….حضرت صاحب بذاتِ خود گو ہر تیزی سے گزرنے والے لمحے سے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لئے مضطرب تھے اور اس امر کا حصول آپ کے لئے آسان تھا لیکن اس کے باوجودآپ ہر ایک کے آرام کے لئے بہت متفکر رہتے تھے….

آپ نہ صرف اپنے عالی ظرف اور لطیف مزاح کے ذریعہ ہمیں مسرور رکھتے بلکہ خود بھی کام کی تکمیل میں ہماری مدد فرماتے۔میں اپنے بارے میں پورے وثوق سے کہتا ہوں اور ایسا ہی مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا خیال ہو گا کہ ہر طویل دن کے اختتام پر ہم اسی طرح خوش و خرم باہر آتے جس طرح کام شروع کرنے کے وقت ہوتے تھے۔جب بھی مجھے حضرت صاحب ؓ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا میں نے ہر دفعہ لطف و سرور کا ایک عجیب تجربہ مشاہدہ کیا ۔ آپؓ کی پُر نور شخصیت میں اخلاقی و روحانی تقویت دینے کی بے پناہ طاقت موجود ہے اور آپؓ کا بے پناہ کام کرنے کا جذبہ جو ہم نے آپ ؓ کے ساتھ کام کرنے کے دوران مشاہدہ کیا بہت زیادہ اثر انگیزہے۔

(سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ 26-27)

(عبدالباسط شاہد ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 05۔مئی 2020ء