• 17 مئی, 2024

فقہی کارنر

رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو جاتی ہے

اس بات کا ذکر (حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے) آیا کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آکر شامل ہو، اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی۔ مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کئے گئے۔ آ خر حضرت صاحب نے فیصلہ دیا اور فر مایا:۔
ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ لَا صَلٰو ةَ اِلَّا بِفَا تِحَةِ ا لْکِتَابِ آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو، ہر حالت میں اس کو چاہئے کہ سورة فاتحہ پڑھے۔ مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے بہر حال مقتدی کو یہ موقعہ دینا چاہئے کہ وہ سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے۔ سورة فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُم الکتاب ہے۔ لیکن جو شخص باوجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے۔ آخر رکوع میں آ کر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہو گئی۔ اگرچہ اُس نے سورة فاتحہ اس میں نہیں پڑھی۔ کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پالیا اس کی رکعت ہو گئی۔ مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں۔ ایک جگہ تو حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا اور تاکید کی کہ نماز میں سورة فاتحہ ضرور پڑھیں۔ وہ اُم الکتاب ہے اور اصل نماز وہی ہے۔ مگر جو شخص باوجود اپنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں آ کر ملا ہے تو چونکہ دین کی بنا آ سانی اور نرمی پر ہے۔ اس واسطے حضرت رسول کریمﷺ نے فر مایا کہ اس کی رکعت ہو گئی وہ سورة فاتحہ کا ذِکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے۔ میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اُسے کروں اور یہ صاف ہے کہ نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پالیا اور ایک حصہ میں بسبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا تو کیا حرج ہے۔ انسان کو چاہئے کہ رخصت پر عمل کرے ہاں جو شخص عمداً سستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اُس کی نماز ہی فاسد ہے۔

(الحکم 24 فروری 1901ء صفحہ9)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

Shimaoré زبان میں احمدیت کا تعارف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2022