• 18 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 27)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 27

دعا ایک موت ہے

دعا صرف لفظوں کا نام نہیں کہ موٹے اور عمدہ عمدہ لفظ بول لئے بلکہ یہ اصل میں ایک موت ہے۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) کے یہی معنے ہیں کہ انسان سوزوگدازش میں اپنی حالت موت تک پہنچاوے مگر جاہل لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف اکثر دھوکا کھاتے ہیں۔ جب کوئی خوش قسمت انسان ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ دنیا اور اس کے افکار کیا شئے ہے۔ اصل بات تو دین ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہوا تو سب ٹھیک ہے ؂

شب ِتنور گذشت و شبِ سمور گذشت

یہ زندگی خواہ تنگی سے گزرے خواہ فراخی سے وہ آخرت کی فکر کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ227-228)

صدق و وفا سے کام لینے والے کی دعا قبول ہوتی ہے

خدا تعالیٰ کا مزہ اسے آتا ہے جو اسے شناخت کرے اور جو اس کی طرف صدق و وفا سے قدم نہیں اٹھاتا اس کی دعا کھلے طورپر قبول نہیں ہوتی۔ اور کوئی نہ کوئی حصہ تاریکی کا اسے لگا ہی رہتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی طرف ذراسی حرکت کرو گے تو وہ اس سے زیادہ تمہاری طرف حرکت کرے گا۔لیکن اول تمہاری طرف سے حرکت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ خام خیالی ہے کہ بلا حرکت کئے اس سے کسی قسم کی توقع رکھی جاوے یہ سنت اللہ اسی طریق سے جاری ہے کہ ابتدا میں انسان سے ایک فعل صادر ہوتا ہے پھر اس پر خدا تعالیٰ کا ایک فعل نتیجۃً ظاہر ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے مکان کے کُل دروازے بند کردے گا تو یہ بند کرنا اس کا فعل ہوگا۔ خدا تعالیٰ کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوگا کہ اس مکان میں اندھیرا ہوجاوے گا لیکن انسان کو اس کوچہ میں پڑ کر صبر سے کام لینا چاہیئے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ229-230)

دعائیں بہت کیا کرو

نماز ایسے ادا نہ کرو۔ جیسے مرغی دانے کے لئے ٹھونگ مارتی ہے بلکہ سوزو گداز سے ادا کرو اور دعائیں بہت کیا کرو۔ نماز مشکلات کی کنجی ہے۔ ماثورہ دعاؤں اور کلمات کے سوا اپنی مادری زبان میں بہت دعا کیا کرو تا اس سے سوزوگداز کی تحریک ہو اور جب تک سوزوگداز نہ ہو اسے ترک مت کرو کیونکہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے اور سب کچھ ملتا ہے چاہیئے کہ نماز کی جس قدر جسمانی صورتیں ہیں ان سب کے ساتھ دل بھی ویسے ہی تابع ہو۔ اگر جسمانی طورپر کھڑے ہو تو دل بھی خدا کی اطاعت کے لئے ویسے ہی کھڑا ہو۔ اگر جھکو تو دل بھی ویسے ہی جھکے۔ اگر سجدہ کرو تو دل بھی ویسے ہی سجدہ کرے۔ دل کا سجدہ یہ ہے کہ کسی حال میں خدا کو نہ چھوڑے جب یہ حالت ہوگی تو گناہ دور ہونے شروع ہوجاویں گے۔ معرفت بھی ایک شئے ہے جو کہ گناہ سے انسان کو روکتی ہے۔ جیسے جو شخص سم الفار سانپ اور شیر کو ہلاک کرنے والا جانتا ہے تو وہ ان کے نزدیک نہیں جاتا۔ ایسے جب تم کو معرفت ہوگی تو تم گناہ کے نزدیک نہ پھٹکو گے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ یقین بڑھاؤ اور وہ دعا سے بڑھے گا اور نماز خود دعا ہے۔ نماز کو جس قدر سنوار کر ادا کرو گے اسی قدر گناہوں سے رہائی پاتے جاؤگے۔ معرفت صرف قول سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ بڑے بڑے حکیموں نے خدا کو اس لئے چھوڑ دیا کہ ان کی نظر مصنوعات پر رہی اور دعا کی طرف توجہ نہ کی۔ جیسا کہ ہم نے براہین میں ذکر کیا ہے۔مصنوعات سے تو انسان کو ایک صانع کے وجود کی ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ ایک فاعل ہونا چاہیئے لیکن یہ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ ہے بھی۔ ہونا چاہئے اور شئے ہے اور ہے اور شئے ہے۔ اس ہے کا علم سوائے دعا کے حاصل نہیں ہوتا۔ عقل سے کام لینے والے ہے کے علم کو نہیں پاسکتے۔ اسی لئے ہے کہ خدا را بخدا تواں شناخت لا تدرکہ الابصار کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ صرف عقلوں کے ذریعہ سے شناخت نہیں کیا جاسکتا بلکہ خود جو ذریعے اس نے بتلائے ہیں ان سے ہی اپنے وجود کو شناخت کرواتا ہے اور اس امر کے لئے اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم (الفاتحہ 7-6) جیسی اور کوئی دعا نہیں ہے۔

… یاد رکھو کہ کوئی پاک نہیں ہوسکتا جب تک خدا اسے پاک نہ کرے۔ جب تک اتنی دعا نہ کرے کہ مَر جاوے تب تک سچا تقوےٰ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے لئے دعا سے فضل طلب کرنا چاہیئے۔ اب سوال ہوسکتا ہے کہ اسے کیسے طلب کرنا چاہیئے تو اس کے لئے تدبیر سے کام لینا ضروری ہے جیسے ایک کھڑکی سے اگر بدبو آتی ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ یا اس کھڑکی کو بند کرے یا بدبودار شئے کو اٹھا کر دُورپھینک دے۔ پس کوئی اگر تقویٰ چاہتا ہے اور اس کے لئے تدبیر سے کام نہیں لیتا تو وہ بھی گستاخ ہے کہ خدا کے عطا کردہ قویٰ کو بیکار چھوڑتا ہے۔ہر ایک عطاءالٰہی کو اپنے محل پر صرف کرنا اس کا نام تدبیر ہے جو ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔ ہاں جو نری تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے وہ بھی مشرک ہے اور اسی بلا میں مبتلا ہے جس میں یورپ ہے۔ تدبیر اور دعا دونوں کا پورا حق ادا کرنا چاہیئے۔ تدبیر کرکے سوچے اور غور کرے کہ میں کیا شئے ہوں۔ فضل ہمیشہ خدا کی طرف سے آتا ہے۔ ہزار تدبیر کرو ہرگز کام نہ آوے گی جب تک آنسو نہ بہیں۔ سانپ کے زہر کی طرح انسان میں زہر ہے اس کا تریاق دعا ہے جس کے ذریعہ سے آسمان سے چشمہ جاری ہوتا ہے۔ جو دعا سے غافل ہے وہ مارا گیا۔ ایک دن اور رات جس کی دعا سے خالی ہے وہ شیطان سے قریب ہؤا۔ ہر روز دیکھنا چاہیئے کہ جو حق دعاؤں کا تھا وہ ادا کیا ہے کہ نہیں۔ نماز کی ظاہری صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے۔اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے۔ جلدی گلے سے اترجاوے۔ بعض لوگ نماز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر لمبی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں۔ چاہیئے کہ اپنی نماز کو دعا سے مثل کھانے اور سرد پانی کے لذیذ اور مزیدار کرلو ایسا نہ ہو کہ اس پر ویل ہو۔۔

نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔ اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتےہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے۔ نماز ہر گز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا۔ یہ دین کو درست کرتی ہے۔ اخلاق کو درست کرتی ہے۔ دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے۔ لذات جسمانی کے لئے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔

نمازخوانخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے۔ اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے۔ جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے۔ ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہیئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو۔ جو تعلق عبودیت کا ربوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی۔ جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے۔ اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہوجائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا۔ لیکن جسے دو چار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے من کان فی ھٰذہٖ اعمٰی فھو فی الاٰخرۃ اعمیٰ۔ (بنی اسرائیل: 73) آئندہ کے سب وعدے اسی سے وابستہ ہیں۔ ان باتوں کو ہم نے فرض جان کر بتلادیا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ367-371)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

Shimaoré زبان میں احمدیت کا تعارف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2022