• 3 مئی, 2024

حقیقی محبت کی علامت

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں۔
’’اصل عبادت وہی ہے جو محبت ذاتی سے ہو نہ کہ کسی فائدے کے لئے۔ پھر ایک جگہ سچی محبت کی علامت بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’…محبت عجیب چیز ہے۔ اس کی آگ گناہوں کی آگ کو جلاتی اور معصیت کے شعلے کو بھسم کر دیتی ہے۔ سچی اور ذاتی اور کامل محبت کے ساتھ عذاب جمع ہو ہی نہیں سکتا اور سچی محبت کے علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات منقوش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کے قطع تعلق کا اُس کو نہایت خوف ہوتا ہے اور ایک ادنیٰ سے ادنیٰ قصور کے ساتھ اپنے تئیں ہلاک شدہ سمجھتا ہے اور اپنے محبوب کی مخالفت کو اپنے لئے ایک زہر خیال کرتا ہے اور نیز اپنے محبوب کے وصال کے پانے کے لئے نہایت بے تاب رہتا ہے اور بُعد اور دُوری کے صدمہ سے ایسا گداز ہوتا ہے کہ بس مر ہی جاتا ہے۔ اس لئے وہ صرف ان باتوں کو گناہ نہیں سمجھتا کہ جوعوام سمجھتے ہیں کہ قتل نہ کر، خون نہ کر،زنا نہ کر، چوری نہ کر، جھوٹی گواہی نہ دے۔ بلکہ وہ ایک ادنیٰ غفلت کو اور ادنیٰ التفات کو جو خدا کو چھوڑ کر غیر کی طرف کی جائے ایک کبیرہ گناہ خیال کرتا ہے۔ اس لئے اپنے محبوب ازلی کی جناب میں دوام استغفار اس کا ورد ہوتا ہے۔‘‘ (باقاعدگی سے استغفار کرتا رہتا ہے) ’’اور چونکہ اس بات پر اس کی فطرت راضی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وقت بھی خدا تعالیٰ سے الگ رہے اس لئے بشریت کے تقاضا سے ایک ذرّہ غفلت بھی اگر صادر ہو تو اس کو ایک پہاڑ کی طرح گناہ سمجھتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ خدا تعالیٰ سے پاک اور کامل تعلق رکھنے والے ہمیشہ استغفار میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ یہ محبت کا تقاضا ہے کہ ایک محب صادق کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اس کا محبوب اس پر ناراض نہ ہو جائے اور چونکہ اس کے دل میں ایک پیاس لگا دی جاتی ہے کہ خدا کامل طور پر اس سے راضی ہو اس لئے اگر خدا تعالیٰ یہ بھی کہے کہ میں تجھ سے راضی ہوں تب بھی وہ اس قدر پر صبر نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا کہ شراب کے دَور کے وقت ایک شراب پینے والا ہر دم ایک مرتبہ پی کر پھر دوسری مرتبہ مانگتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کے اندر محبت کا چشمہ جوش مارتا ہے تو وہ محبت طبعاً یہ تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ …‘‘ (اگر اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا میں راضی ہوں تو بیٹھ نہیں جانا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی اطلاع ہونا اس شخص کو مزید استغفار میں اور عبادتوں میں مائل کرتی ہے اور بجا لانے کی طرف توجہ دلاتی ہے) فرمایا ’’…پس محبت کی کثرت کی وجہ سے استغفار کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا سے کامل طور پر پیار کرنے والے ہردم اور ہر لحظہ استغفار کو اپنا ورد رکھتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر معصوم کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب سے زیادہ استغفار میں مشغول رہے۔ اور استغفار کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ ہر ایک لغزش اور قصور جو بوجہ ضعف بشریت انسان سے صادر ہوسکتی ہے اس امکانی کمزوری کو دور کرنے کے لئے خدا سے مدد مانگی جائے تا خدا کے فضل سے وہ کمزوری ظہور میں نہ آوے۔ اور مستور و مخفی رہے۔‘‘ (چھپی رہے کمزوری۔ ظاہر نہ ہو) ’’پھر بعد اس کے استغفار کے معنی عام لوگوں کے لئے وسیع کئے گئے اور یہ امر بھی استغفار میں داخل ہوا کہ جو کچھ لغزش اور قصور صادر ہو چکا خدا تعالیٰ اس کے بدنتائج اور زہریلی تاثیروں سے دنیا اور آخرت میں محفوظ رکھے۔ پس نجات حقیقی کا سرچشمہ محبت ذاتی خدائے عزّوجل کی ہے جو عجزو نیاز اور دائمی استغفار کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اور جب انسان کمال درجہ تک اپنی محبت کو پہنچاتا ہے اور محبت کی آگ سے اپنے جذبات نفسانیت کو جلا دیتا ہے تب یکدفعہ ایک شعلہ کی طرح خدا تعالیٰ کی محبت جو خدا تعالیٰ اس سے کرتا ہے اس کے دل پر گرتی ہے اور اس کو سفلی زندگی کے گندوں سے باہر لے آتی ہے اور خدائے حّی و قیّوم کی پاکیزگی کا رنگ اس کے نفس پر چڑھ جاتا ہے بلکہ تمام صفاتِ الٰہیہ سے ظلّی طور پر اس کو حصّہ ملتا ہے۔ تب وہ تجلیات الٰہیہ کا مظہر ہوجاتا ہے اور جو کچھ ربوبیت کے ازلی خزانہ میں مکتوم و مستور ہے‘‘ (چھپا ہوا ہے) ’’اس کے ذریعہ سے وہ اسرار دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ خدا جس نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے بخیل نہیں ہے بلکہ اس کے فیوض دائمی ہیں اور اس کے اسماء اور صفات کبھی معطّل نہیں ہوسکتے۔‘‘

(چشمۂ مسیحی، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ378)(خطبہ جمعہ فرمودہ28مارچ 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 05 جون 2020ء