• 17 مئی, 2024

جلسے، اجتماعات سے دینی علم اور تقویٰ کے پارسل لے کر آئیں

حدیقة النساء

جلسے، اجتماعات سے دینی علم اور تقویٰ کے پارسل لے کر آئیں

ہو سکتا ہے مضمون کا موضوع پڑھ کر کچھ بہنیں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کچھ ماہ تک مختلف ممالک میں جلسہ جات اور لجنہ ناصرات کے اجتماعات منعقد ہوں گے۔ ان اجتماعات اور جلسہ جات کا مقصد ہماری تعلیم وتربیت ہوتا ہے نیز تربیتی تقاریر اور دیگر تعلیمی مقابلہ جات کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہم روحانی طور پر بھی ترقی کریں۔ لیکن ہماری توجہ اب زیادہ تر کپڑوں جوتوں اور دیگر آرائشی اشیاء پر ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے عیدین کے موقع پر خاص کپڑوں کا اہتمام ہوتا تھا لیکن اب اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ ہم نے جلسے کا پارسل منگوانا ہے۔ جیسے جلسے کا مقصد نئے نئے کپڑے پہننا ہو۔ بے شک نئے کپڑے پہنیں سجیں سنوریں لیکن ان تربیتی پروگراموں کا جو حقیقی مقصد ہے وہ ہمیشہ مدنظر رہے۔ عورت کا میلان قدرتی طور پر بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ بننا سنورنا پسند کرتی ہے۔ ایک حد کے اندر رہتے ہوئے اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرنے کی تو خاص تلقین بھی کی گئی ہے۔ لیکن ہر چیز جب تک ایک حد میں رہتی ہے تو ٹھیک رہتی ہے جب وہی چیز حد سے بڑھ جاتی ہے تو بدنما ہو جاتی ہے۔ آج کل خواتین میں برینڈڈ کپڑوں اور دیگرقیمتی اشیاء کے خریدنے اور استعمال کرنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی مہنگی سے مہنگی چیزیں خریدی جاتی ہیں اور پھر جیسے ایک مقابلہ بازی کی سی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ جماعتی پروگرام جو ہماری تربیت کے لیے منعقد ہوتے ہیں وہاں بھی دلچسپی تقاریر کی بجائے ایک دوسرے کے کپڑے دیکھنے اور برینڈ پہچاننے کی کوشش میں صرف ہو رہی ہے۔ اوریجنل اور ریپلیکا ہونے کی بحث ہو رہی ہے۔ بے شک یہ چیز عام نہیں لیکن اگر چند لوگوں میں بھی ہے تو قابل فکر ہے۔ خدا تعالیٰ نے جن نعمتوں سے انسان کو نوازا ہوا ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ بندہ اس کا اظہار کرے۔

بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھنا پسند کرتا ہے

(سنن ترمذي حدیث نمبر 2963)

اس کے اظہار کرنے سے وہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن میانہ روی ہر معاملہ میں لازم ہے۔ نہ تو یہ ہو کہ بالکل ہی کنجوسی کی جائے استطاعت ہوتے ہوئے بھی اچھی چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے بلکہ اپنے حلیےکو بگاڑ کر رکھا جائے اور نہ یہ ہو کہ گنجائش سے بڑھ کر صرف ظاہری نمود ونمائش پر توجہ ہو۔ اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو مشکل میں ڈالا جائے۔ آمدن سے زیادہ خرچہ کیا جائے اور پھر مزید تکلیف اٹھائی جائے یا بار بار تقاضا کر کے گھر کا ماحول خراب کیا جائے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز زکوٰۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے سو تم اپنی اس ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرواور خاوندوں کے مالوں کو بے جا طور پر خرچ نہ کرو خیانت نہ کرو، چوری نہ کرو،گلہ نہ کرو ایک عورت دوسری عورت یا مرد پر بہتان نہ لگاوے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ81)

خدا تعالیٰ نے سب سے بہتر لباس، لباس تقویٰ کو کہا ہے یعنی ظاہری اور باطنی دونوں طور پر تقویٰ کو ہی مدنظر رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے کتاب رحمان میں لباس کے حوالے سے کیا فرمایا ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَرِیۡشًا ؕ وَلِبَاسُ التَّقۡوٰی ۙ ذٰلِکَ خَیۡرٌ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ

(الاعراف: 27)

اے بنی آدم! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔

یعنی خدا تعالیٰ نے لباس نازل کرنے کا جو اصل مقصد بتایا ہے وہ ننگ ڈھانپنا ہے موسم کی سختی سے بچانا ہے اور زیب و زینت عطا کرنا ہے اس سے پردے کی اہمیت بھی پتا چلتی ہے کہ دراصل لباس ہماری زینت کے لیے ہے اور بے لباسی یا ننگ پن کسی انسان کو خوبصورت نہیں بناتا۔

پھر مزید فرمایا:

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ وَّکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡاۚاِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ

(الاعراف: 32)

اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔ اور کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اس سے صاف صاف پتا چل رہا ہے کہ خدا نے لباس تقویٰ کو مساجد میں ساتھ لے جانے کا حکم دیا ہے لیکن اسراف سے منع فرمایا ہے۔ تو صاف ستھرے اچھی حلال آمدن سے خریدے ہوئے ملبوسات زیب تن کریں لیکن فضول خرچی سے بچیں۔ اسراف تو ویسے ہی خدا تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔

وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا

(بنی اسرائیل: 27)

مگر فضول خرچی نہ کر۔

اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَکَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا

(بنی اسرائیل: 28)

یقیناً فضول خرچ لوگ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے ربّ کا بہت ناشکرا ہے۔

اتنے واضح حکم کے بعد ہمارے پاس بے جا خرچہ کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں بچتی۔ اکثر خواتین اس بات پر بہت فخر محسوس کرتی ہیں کہ ہم ایک بار کا پہنا ہوا لباس دوبارہ زیب تن نہیں کرتیں۔ یا ہر تقریب کے لیے نیا لباس آڈر کیا جاتا ہے۔ تو یہ سب فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے۔ گھر میں بے تحاشا قابل استعمال حالت میں ملبوسات پڑے ہوں لیکن صرف نمود و نمائش کی خاطر مہنگے مہنگے لباس آرڈر کیے جائیں۔ صرف لوگوں سے یہ سننے کی غرض سے کہ ان کی فیشن سینس بہت اعلیٰ ہے یا ان کا ٹیسٹ بہت عمدہ ہے۔

حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں شہرت و ناموری کے لئے کپڑے پہنے گا اللہ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا۔

(سنن ابن ماجہ، کتاب اللباس، باب من لبس شہرۃ من الثیاب)

حضرت مسیح موعودؑ لباس تقویٰ کے بارے میں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتیٰ الوسع رعایت رکھے یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پرتابمقدور کاربندہو جائے‘‘

(ضمیمہ براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد21 صفحہ210)

اب ایک طرف تو یہ انتہا ہے کہ اس قدر افراط سے کام لیا جاتا ہے اور دوسری طرف تفریط ہے کہ استطاعت رکھتے ہوئے بھی جائز جگہوں پر خرچ نہ کیا جائے۔ یہ بھی خداتعالیٰ کو پسند نہیں ہے کہ جو نعمتیں اس نے عطا کی ہیں ان کو اپنی کنجوسی کی وجہ سے استعمال کیا جائے عید تہوار پر بھی اپنی حالت کو نہ سنوارا جائے۔ بعض مرد یا خواتین بے حد کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور معمولی سا روپیہ بھی خرچ کرنا نہیں چاہتے۔ اللہ تعالیٰ تو جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ اسی لیے صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے کہ اپنے آپ کو صاف ستھرا صاف رکھا جائے۔ صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس رہا جائے اور یہ تکبر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے عین مطابق ہے۔ اسی ضمن میںحضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنے کپڑے کو لٹکائے گا۔ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ اُس پر رحمت کی نظر سے نہ دیکھے گا۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا:میرے کپڑے کا ایک کونہ خودبخود لٹک جاتا ہے، ہاں اگر میں اس کی نگہداشت رکھوں تو وہ نہ لٹکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک تم تکبر نہیں کرتے۔

(صحیح بخاری رقم: 3522)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی ارشاد لِبَاسُ التَّقْوٰی کے حوالہ سے نصائح کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
اس (آیت الاعراف: 27) میں خداتعالیٰ نے اس بات کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کو تقویٰ کو ہر چیز پر مقدم رکھنا چاہئے۔ خداتعالیٰ نے یہاں لباس کی مثال دی ہے کہ لباس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ لباس تمہاری کمزوریوں کو ڈھانکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زینت کے طورپر ہے۔ کمزوریوں کے ڈھانکنے میں جسمانی نقائص اور کمزوریاں بھی ہیں۔ بعض لوگوں کے ایسے لباس ہوتے ہیں جس سے اُن کے بعض نقص چھپ جاتے ہیں۔ موسموں کی شدّت کی وجہ سے جو انسان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اُن سے بچاؤ بھی ہے اور پھر خوبصورت لباس اور اچھا لباس انسان کی شخصیت بھی اُجاگر کرتا ہے۔ لیکن آج کل ان ملکوں میں خاص طور پر اس ملک میں بھی عموماً تو سارے یورپ میں ہی لباس کے فیشن کو اُن لوگوں نے اتنا بیہودہ اور لغو کر دیا ہے خاص طور پر عورتوں کے لباس کو کہ اس کے ذریعہ اپنا ننگ لوگوں پر ظاہر کرنا زینت سمجھا جاتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ لباس بالکل ہی ننگا ہو جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لباس کے یہ دو مقاصد ہیں اُن کو پورا کرو اور پھر تقویٰ کے لباس کو بہترین قرار دے کر توجہ دلائی، اس طرف توجہ پھیری کہ ظاہری لباس تو ان دو مقاصد کے لئے ہیں۔ لیکن تقویٰ سے دُور چلے جانے کی وجہ سے یہ مقصد بھی تم پورے نہیں کرتے اس لئے دُنیاوی لباسوں کو اس لباس سے مشروط ہونا چاہئے جو خداتعالیٰ کو پسند ہے اور خداتعالیٰ کے نزدیک بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اکتوبر 2008ء بمقام مسجد مبارک پیرس، فرانس)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں کہ

؎ رنگِ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر
ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار

پھر ایک شکوہ جو اکثر شوہروں کی طرف سے وصول ہوتا ہے کہ بیگمات مساجد یا باہر تقریبات میں جاتے ہوئے تو خوب اہتمام کر کے تیار ہو کر جاتی ہیں لیکن گھر آتے ساتھ ہی وہ اچھے کپڑے اور زیور وغیرہ فوراً اتار کر سنبھال دیتی ہیں اور وہی پرانے کپڑے پہن لیتی ہیں گویا سب،ہار سنگھار باہر والوں کے لیے تھا اور اصل میں جس کا حق تھا کہ وہ اسے ان اچھے ملبوسات اور زیورات میں ملبوس سجا سنورا دیکھتا وہ اس سے محروم ہی رہا۔ یہ طریقہ کار بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے عورتوں کو اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی جسمانی صفائی کا خاص خیال رکھیں باقاعدگی سے غسل لیا جائے اور شوہر کے گھر واپس آنے سے پہلے چاہے معمولی سا ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا جائے۔ یہ نہ ہو کہ جب شوہر گھر واپس آئے تو ایک میلی کچیلی اجڑی صورت، پسینے اور مصالحوں کی بو سے اٹی الجھے، بکھرے بالوں والی عورت اس کے سامنے سارے دن کی مصروفیات اور گلے شکوے لیے تیار بیٹھی ہو۔ ایسی خواتین سے شوہر توشوہر ان کے باقی گھر والے بھی بیزار ہی دکھائی دیتے ہیں۔ تو اپنے پیارے پیارے کپڑے جو ہم پارسل میں منگواتے ہیں اور پھر ان کو باہر پہننے والے کپڑوں کا نام دیتے ہیں ان کو اپنے گھروں میں پہنیں اور اپنی خاندوں کی خوشنودی کا باعث بنیں اور اپنی بساط کے مطابق صفائی ستھرائی، حلیے کی درستگی رکھیے اور خود کو شوہر کے لیے پرکشش اور دلکش بنا کر رکھیے۔

اور اب کے کچھ ترتیب بدل کر دیکھیں اس بار جلسے اجتماعات کے لیے پارسل منگوانے کی بجائے وہاں سے پارسل لے کر آئیں۔ ہر تقریر سے کوئی ایک ایسی نیکی کی بات نوٹ کریں جس کے بارے میں عہد کریں کہ اگلے اجتماع تک اس نیکی کو اپنانا ہے اور ایک کوئی ایسی برائی جو ہمارے اندر موجود ہو لیکن ہم چاہ کر بھی اسے اپنے اندر سے نکال نہ پا رہے ہوں اسے ختم کرنے کا عہد کریں۔ کسی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو اس کے لیے خوش ہوں نہ کہ حسد کریں کسی کے حالات خراب دیکھیں تو اس کے لیے دعا کریں اور جہاں تک ممکن ہو مدد کرنے کی بھی کوشش کریں۔ اپنے اندر مزید حوصلہ اور برداشت پیدا کرنی ہے۔ اپنے آپ سے یہ وعدہ کریں کہ اگر کسی کا رویہ اپنے ساتھ خراب دیکھیں تو اس کے لیے دعا کریں گے۔وہاں سے لباس تقویٰ کے تھان اپنے ساتھ لائیں اور ہر دن ان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں گے۔ اپنی خواہشات کو محدود رکھیں گے اپنی روحانی ضروریات کو بڑھائیں یقین مانیے آپ کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جائیں گے۔ قناعت کی چادر، صبر و شکر کا جوڑا،میانہ روی کے بیگز یہ سب چیزیں اپنے پارسل میں لے کر آئیں۔ اور ہر روز اس پارسل سے ان چیزوں کو نکال کر اپنے گھروں کو اپنے وجود پر سجائیں۔ حقیقی خدا اور مجازی خدا دونوں کو راضی رکھیے۔ خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے کہ دنیا داری کو چھوڑ کر روحانیت میں ترقی کریں۔ آمین ثم آمین

(صدف علیم صدیقی۔ ریجائنا کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جولائی 2022