قرآنی انبیاء
حضرت زکریاؑ
قسط 19
حضرت زکریا اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بڑے پیار سےبیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک حضرت زکریا علیہ السلام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:‘‘یہ تیرے ربّ کی اُس کے بندے زکریا پر (ہونے والی) رحمت کا ذکر ہے’’(مریم:3) یعنی جو واقعہ اللہ تعالیٰ یہاں بیان کرنے لگا ہے یہ ایسا اہم ہے کہ ہر شخص کو یہ واقعہ یاد رکھنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں پر ایمان لانا چاہئے۔
اس رحمت میں سے یہ بھی ہے کہ اس اللہ کے بندے کا ذکر مستور ہی رہ جاتا اگر صرف بائبل کے بیان پر مدار رہتا۔ کیونکہ بائبل میں دو اشخاص کے نام زکریا کے لفظ سے آئے ہیں ایک وہ زکریا ہیں جن کی کتاب بائبل میں شامل ہے وہ زکریا 487 سال قبل مسیح گزرے ہیں اور یہ زکریا جن کا ذکر قرآن کریم میں ہےوہ ہیں جو حضرت مسیح کے قریب زمانہ میں آپ کی والدہ کے کفیل تھے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زکریا بھی نبی تھے لیکن اناجیل میں ان کا ذکر بطور کاہن کیا گیا ہے بطور نبی کے نہیں۔ ممکن ہے کہ ایسے نبی جو کسی دوسرے نبی کے کام کی تکمیل کیلئے آتے ہوں ان کے لئے بائبل میں کاہن کا لفظ استعمال ہوتا ہو۔
(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ117-118)
بہرحال اللہ تعالیٰ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے علم غیب سے یہ خبر دیتا ہے (آل عمران: 45) یعنی اس طرح واضح اور سیدھا بیان کہیں اور نہیں ملتا اور وہ یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت پر بڑی بحثیں اور جھگڑے ہوئے تھے پھر لوگوں نے قرعہ ڈال کر اس بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ اس قوم میں سے کون مریم کی کفالت کے لئے مناسب ہو سکتا ہے۔ اس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت حضرت زکریا علیہ السلام کے ذمے لگی تھی۔ (آل عمران: 45) انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام کی تربیت بہت توجہ سے فرمائی پس جب کبھی بھی حضرت زکریا علیہ السلام ان کے پاس محراب میں داخل ہوتے اورحضرت مریم علیہا السلام کے پاس کوئی رزق پاتے تو ان سے دریافت فرماتے کہ اے مریم! تمہارے پاس یہ کہاں سے آتا ہے؟ تو وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہی ملتا ہے۔ اور یہ بھی کہتیں کہ یہ بات یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق عطا فرماتا ہے۔ (آل عمران:38)
اس بات سے حضرت زکریا کی توجہ اس طرف پھری کہ بالکل سب کچھ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عطا فرماتا ہے تو مجھے بھی جس ایک نعمت کی خواہش ہے وہ اپنے رب سے مانگتے ہوئے دعائیں کرنی چاہیئں اور اسی طرح انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس قدر چھوٹی عمر میں کسی بچی کا نیکی میں یوں ترقی کرنا کہ جو بھی رزق ملے اسے صرف خدا کی طرف ہی منسوب کیا جائے بڑی خوشکن حیرت کی بات تھی۔ جبکہ اس وقت کی باقی قوم کی حالت نیکی میں بہت اچھی نظر نہ آتی تھی۔
چنانچہ یہ الفاظ کہ: ’’اور میں یقینا اپنے بعد اپنے شرکاء سے ڈرتا ہوں‘‘۔ (مریم: 6) حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنی دعا میں اپنی ضرورت حقہ کا اظہار کیا وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور انہیں اپنے بعد تعلیم کے مفقود ہونے کا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام پر وہت فیملی میں سے تھے اور ان کے رشتہ دار بھی پروہت تھے جو بیت المقدس اور دوسری عبادت گاہوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے حضرت زکریا علیہ السلام ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ الٰہی! ان میں ایسی دنیا داری آچکی ہے کہ ان کا کوئی قدم یہودیت اور مذہب کو بچانے کیلئے نہیں اٹھتا۔اورعملی لحاظ سے وہ دین سے کوسوں دور ہیں۔ اس لئے کہا کہ خدایا! میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے بھی ڈرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان کے اندر دین کی خدمت کا کوئی احساس نہیں۔
اس لئے حضرت زکریا علیہ السلام نےایک چھوٹی بچی میں ایسی روحانی خوبصورتی کو دیکھ کر اپنے لئے بھی ایک نیک اور صالح بیٹے کی دعا ان الفاظ میں کی کہ ’’اے میرے ربّ! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریّت عطا کر۔ یقینا تُو بہت دعائیں سننے والا ہے‘‘۔ (آل عمران: 39) دوسری جگہ یہ دعا ان الفاظ میں ملتی ہے: ’’مجھے خود اپنی جناب سے ایک وارث عطا کر۔ جو میر ا ورثہ بھی پائے اور آل یعقوب کا ورثہ بھی پائے اور اے میرے ربّ! اسے بہت پسندیدہ بنا‘‘۔ (مریم: 6-7) ایک اور مقام پر دعا کے الفاظ ہیں: ’’اے میرے ربّ! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے‘‘ (الانبیاء: 90)
حضرت زکریا علیہ السلام نے یہ بھی عرض کی کہ تیرے حضور دعا کرنے کی وجہ سے مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی اور یہ بھی کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے اپنے مخصوص کر لیا ہے اس لئے تیرے مخصوص کر لینے کی وجہ سے اور تیرے انعامات کی وجہ سے میں نے یہ برکت پائی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مشکلات میں مجھے ناکامی ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ مجھے کامیابی ہوئی ہے اور میں نے اپنے مقصد کو حاصل کیا ہے۔ جیسا کہ یہ الفاظ اس پر دلیل ہیں: ’’اور اے میرے رب! میں تیری دعا کے ساتھ کبھی شقی نہیں ہوا‘‘۔ (مریم: 5)
حضرت زکریا علیہ السلام نے ان دعاوں پر مداومت اختیار کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا وں کو قبولیت سے نوازتے ہوئے فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے کو اس کی دعاوں کی قبولیت کی خوشخبری سنادو تو اس پر فرشتوں نے اسے آواز دی جبکہ ابھی تک وہ محراب میں کھڑے ہو کر عبادت کر رہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے تو فرشتوں نے کہاکہ اے زکریا! اللہ تعالیٰ تجھے ایک بیٹے کی خوشخبری دیتا ہے جسے یحییٰ (زندہ رہنے والا) کا نام دینا (آل عمران: 40) کیونکہ بعض اوقات نیکی کرنے والے اپنے رب کے فضل سے زندہ بھی رکھےجاتے ہیں اور یہ بیٹا اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم کلمہ کی تصدیق کرنے والا ہو گا اور وہ سردار ہو گا اور اپنے نفس کی پوری حفاظت کرنے والاہو گا، اور صالحین میں سے ہوگا اور ایک نبی ہو گا (آل عمران: 40)۔ اس بچےکی ان تمام نیکیوں کی وجہ سے اس کا نام زندہ رہے گا۔ آج دیکھئے ہم اس خدا کے بندے کا ذکر کر رہے ہیں یہ خدا کے سچے کلام کا ایک زندہ نشان ہے۔
لیکن حضرت زکریا علیہ السلام کی عمر اس وقت بہت زیادہ ہو چکی تھی اور اسی طرح ان کی بیوی بھی ادھیڑ عمر تھیں چنانچہ انہوں نے عرض کی کہ اے میرے ربّ! میرے کیسے بیٹا ہو گا جبکہ مجھے بڑھاپے نے آ لیا ہے اور میری بیوی بانجھ ہے یعنی ظاہری طور پر تو اس طرح کا واقعہ ہونا بہت مشکل لگتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے تسلی دی کہ آپ فکرمند نہ ہوں اور خدا تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کیا کرتا ہے۔ (آل عمران: 41)۔ اور یہ بھی فرمایا کہ خدا کے انعام ایسے ہی ہوا کرتے ہیں اور یہ کہ تیرے ربّ نے کہا ہے کہ یہ مجھ پر آسان ہے اور یقینا میں تجھے بھی تو پہلے پیدا کر چکا ہوں جبکہ تُو کچھ چیز نہ تھا‘‘ (مریم: 5)َ
اس پر حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ایسی عظیم خوشخبری کے وقوع پذیر ہونے کے لئے کوئی نشان مانگا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ تیرا نشان یہ ہے کہ تم دیگر لوگوں سے بات چیت میں کمی کریں اور ذکر الہی میں زیادہ وقت صرف کیا کریں فرمایا:تین دن تک آپ لوگوں سے صرف اشاروں میں باتیں کریں اور اپنے ربّ کو بہت کثرت سے یاد کریں اور شام اور صبح کو تسبیحات میں مصروف رہا کریں۔ (آل عمران: 42)۔ تُو لوگوں سے مسلسل تین راتوں تک کلام نہ کرے۔ پس وہ اپنی قوم پر محراب سے ظاہر ہوا اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح و شام تسبیح کرو۔ (مریم: 10)
قرآن کریم نے اسی الزام کو دور کرنے کے لئے جو انجیل نے حضرت زکریا پر لگایا ہے کہ وہ گونگے ہو گئے تھے فرمایا اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا تیرا نشان یہ ہے کہ تو تین دن رات کلام نہیں کرے گا مگر ہو گا بےعیب اور تندرست جیسا کہ لفظ ‘‘سَوِيًّا’’ سے ظاہر ہےکہ اے زکریا!کوئی بیماری تجھے نہیں ہو گی۔ قرآنی بات کتنی سچی نظر آتی ہے کہ خدا نے جب حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔ تو انہوں نے کہا خدایا! اب مجھے بھی شکریہ کا موقع دیجئے۔ خدا نے کہا تین دن مسجد میں اعتکاف بیٹھو اور ذکر الٰہی میں مشغول رہو یہ تمہاری طرف سے ہمارے شکریہ کا ایک نشان ہوگا۔
حضرت زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ آپ کی وفات طبعی طور پر ہوئی تھی اور بعض روایات میں آپ کے قتل کئے جانے کا ذکر بھی ملتا ہے حضرت زکریا کا مزار سیریا کے شہر حلب کی بڑی مسجد ’’جامع کبیر‘‘ میں واقع ہے۔
(اطلس القرآن از شوقی ابو خلیل صفحہ106-107)
حضرت زکریا علیہ السلام کے واقعہ کے اختتام پر یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر کبیر سے تین دن ذکر الٰہی کرنے کی وضاحت کردی جائے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’آیت کے معنے قرآن کریم میں کئی مقامات پر حکم کے بھی آئے ہیں۔ آیات قرآنیہ کو بھی اسی وجہ سے آیات کہا جاتا ہے کہ ان میں احکام الٰہیہ کا بیان ہوتا ہے پس: ’’رَبِّ اجْعَلْ لِي اٰيَةً‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ خدایا! مجھے کوئی حکم دے جس کی میں تعمیل کروں۔ یعنی تو نے جو مجھ پر یہ احسان فرمایا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اب تو مجھے کوئی ایسا حکم دے جو تیرے شکر کی ایک ظاہری علامت ہو اور جس کو پورا کرکے میرا دل خوش ہو جائے کہ میں نے رب کا حکم پورا کر دیا ہے۔ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں آئندہ کی خبروں کے لئے نشان مقرر ہوتے تھے جن میں سے بعض نشان تو آسمانی ہوتے تھے اور بعض میں صرف عبادت کا حکم ملتا تھا‘‘ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے (پیدائش باب 9آیت 9تا 17) (پیدائش باب 17آیت 9تا 11) اور (حزقیل باب 20) کے حوالہ جات لکھنے کے بعد فرمایا: ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کسی نیک کام کا کرنا پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے لئے ایک ظاہری نشان سمجھا جاتا تھا۔ اسی رنگ میں حضرت زکریا نے بھی خداتعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی مجھے کوئی نشان دیا جائے یعنی مجھے کوئی ایسا حکم دیاجائے کہ جب میں اسے پورا کروں تو یہ وعدہ اٹل ہو جائے کیونکہ جب بندہ اپنا وعدہ پورا کر دے تو اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے اور اس کوکسی اور رنگ میں نہیں بدلتا۔پس اللہ تعالیٰ نے کہا تیرے لئے وہ حکم جو اس بات کی علامت ہو گا کہ تو نے خدا کا شکر ادا کر دیا ہے یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین راتیں کلام نہیں کرے گا اس حالت میں کہ تو تندرست اور بے عیب ہو گا اور بغیر کسی بیماری کے ہو گا۔ اور ان دنوں میں ذکر الٰہی کرتا رہے گا‘‘
(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ142-143)
(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)