• 4 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے نوجوان صحابہ ؓ کے جذبۂ عشق وفدائیت کے روح پرور نظارے

حضرت مسیح موعودؑ کے نوجوان صحابہ ؓ کے
جذبۂ عشق وفدائیت کے روح پرور نظارے

’’میں خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسے سچے، مخلص اور قابل رشک فدائی اور جاں نثار عطا فرمائے تھے جو ہر لمحہ اپنا تن، من، دھن آپؑ کے ایک اشارہ پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی پاکیزہ زندگی میں آپؑ پر ایمان لا کر آپؑ کی صحبت سے مستفیض ہونے والوں کو صحابہ مسیح موعودؑ کہا جاتا ہے۔ ان خوش نصیبوں کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی شناخت کی توفیق بخشی اور اس امر کی سعادت عطا فرمائی کہ وہ آپؑ کے پاس بیٹھے، آپؑ کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں۔ آپؑ کی تعلیم کو حرز جان بنایا۔ حضرت اقدس کی قوت قدسیہ کے اثر کی وجہ سے آپؑ کے ارد گرد جو نوجوان اکٹھے ہوئے ان میں عشق و محبت اور فدائیت کا جذبہ دیکھنے کے لائق تھا، جو حضرت اقدسؑ کے بلند اور کریمانہ اخلاق کا نتیجہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ان جاں نثاروں کو صحابہ ؓ قرار دیا جو آپؑ کی زندگی میں آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کو ایسے سچے، مخلص اور قابل فخر اور قابل رشک فدائی اور جاں نثار عطا فرمائے تھے جو ہر آن و ہر لمحہ اپنا تن، من، دھن آپ کے ایک اشارہ پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اسی حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’صحابہ ؓ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو۔ جو پہلے گزر چکے۔ بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے۔جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ وہ بھی صحابہ ہی میں داخل ہے۔ جو احمؐد کے بروز کے ساتھ ہوں گے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ و آخرین منھہم لما یلحقوا بھم یعنی صحابہ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہ ہی ہوگی۔ اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعود کی جماعت ہے منھم کے لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہ ہی کی طرح ہوگا۔ صحابہ کی تربیت ظاہر طور پر ہوئی تھی۔ ۔ ۔وہ بھی رسول اللہ ﷺ ہی کی تربیت کے نیچے ہونگے اس لیے سب علماء نے اس گروہ کا نام صحابہ ہی رکھا ہے۔‘‘

(الحکم 24 جنوری 1901ء)

حضرت مسیح موعودؑ صحابہ کی جماعت کے حوالے سےفرماتے ہیں: ’’میرا مدعا اور منشاء اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کئے ہیں۔ اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آجائے۔‘‘

(الحکم 17 اگست 1902ء)

آپؑ کے عشق میں مخمور جماعت

اسی طرح آپؑ کو خداتعالیٰ نے ایسی جماعت عطا فرمائی تھی جو آپ کے عشق میں مخمور تھی اور آپ کی خاطر جان مال اور عزت کی قربانی کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرتی تھی۔

حضرت اقدس مسیح موعود ایسی ہی جماعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی تصنیف لطیف ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اس نے میری محبت بھر دی، بعض نے میرے لئے جان دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دکھ دئیے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل محبت سے پُر ہیں ا ور بہتیر ے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دستبردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ تیار ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ24)

ایسے وجود اصل میں خداتعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ براہ راست ان کی رہنمائی کرتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو خداتعالیٰ نے خبر دے دی تھی کہ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قدم قدم پر صدق و وفا کے نمونے دکھلائے۔ ان کے اخلاص و وفا کی شہادت مسیح دوراںؑ نے ان الفاظ میں دی:
’’میں خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادارجماعت عطا کی ہے میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 223)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ سچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں…… میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے۔ہزار ہا آدمی دل سے فدا ہیں‘‘

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 165)

اس دور کے نبی حضرت مسیح موعودؑ کی محفلوں سے فیض حاصل کرنے والے خدام کے قلب و ذہن پر وہ انقلاب آیا کہ آنے والی نسلوں کا مستقبل سنور گیا اور حضرت اقدسؑ کی تربیت کے نرالے اصول برسوں تک نسل در نسل منتقل ہوتے چلے گئے۔

حضرت اقدسؑ کی قوت قدسیہ کا نوجوانوں پر اثر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت صالحہ کا ایک یہ اعجاز بھی تھا کہ آپؑ کے دور مبارک کے نوجوان چلتے پھرتے فرشتہ تھے۔ ایک روایت ملاحظہ فرمائیں:

حضرت شیخ محمد اسمٰعیل صاحب ؓ(سکنہ سرساوہ ضلع سہارنپور، ثم قادیان دارالامان۔سن بیعت:1894ء۔ سن زیارت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام:1894ء) فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کارساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کر جھوٹ جیسی نجاست کو اختیار نہیں کرتے تھے اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے اور اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے اور اخلاق فاضلہ کے ایسے خوگر ہو گئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے یہ یقین ہی تھا کہ آپؑ کے دوستوں کے دشمن ذلیل و خوار ہو جاتے تھے اور آپ کے دوست ہروقت خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہی رہتے تھے اور خدا تعالیٰ کی معیت ان کے ساتھ ہی رہتی تھی اور آپ کے دوستوں میں غنیٰ تھا اور خدائے تعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھتے تھے اور حق کہنے سے نہ رکتے تھے اور کسی کا خوف نہ کرتے تھے۔ اعمال صالحہ کا یہ حال تھا کہ ان کے دل محبت الٰہی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے خالصاً للٰہی سے ہی کرتے تھے۔ ریا جیسی ناپاکی سے بالکل متنفر رہتے تھے۔‘‘

(رجسٹر روایات جلد 6 صفحہ 60 تا 79)

بیس اکیس سال کی عمر میں بیعت کی سعادت

اللہ تعالیٰ نےصالح اور سعید فطرت جوانوں کوخوابوں کے ذریعے حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی زمانہ میں احمدیت قبول کرنے کی سعادت عطا فرما ئی تھی۔ جنہوں نے آنے والے وقت میں فدائیت اور عشق و محبت کی مثالیں رقم کرنی تھیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق کریمانہ اور قیمتی ارشادات کو محفوظ کرنا تھا۔

حضرت حکیم عطاء محمد صاحبؓ ولد حافظ غلام محمد صاحب بیان فرماتے ہیں:
رات کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو ہمارے محلہ کے نمازی پکڑ کر مسجد کی طرف نماز کے لئے لے جا رہے ہیں اور میں اُن سے بھاگنا چاہتا ہوں۔ راستہ میں ایک اونچی جگہ پر نہایت خوش رو انسان بیٹھا ہوا نظر آیا۔ جس کا چہرہ نہایت نورانی اور نور کی شعاعیں چہرہ اور مُنہ سے نکل نکل کر لوگوں کے دلوں پر پڑ رہی ہیں اور لوگ اس نور کی کشش کے ساتھ کھینچے ہوئے اُس کے ارد گرد حلقہ باندھے بیٹھے ہیں۔ میں نے اُس نورانی شخص کو دیکھ کر شور مچایا کہ میری مدد کرو۔ اُنہوں نے فرمایا:کیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ یہ لوگ مجھے زبردستی نماز کے لئے لے جارہے ہیں اور میں جانانہیں چاہتا تو پھر اُس نُورانی انسان نے دیکھ کر اشارہ سے فرمایا اسے چھوڑ دو اور مجھ کو اُن لوگوں کے پاس بٹھا دیا جو کہ اُن کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ تمام اشخاص جو مجھ کو پکڑ کر لے جا رہے تھے یہ حال دیکھ کر اُن سب کے چہرے دھوئیں کی طرح سیاہ ہو گئے اور پھر بالکل غائب ہو گئے۔ جب میری آنکھ کھلی تو عجیب حالت تھی۔ دل میں اُس شخص کے دیکھنے کی تڑپ اور اُن نورانی شعاعوں کاسرور تمام جسم میں سنسنی، غرض اُس حالت کا نقشہ میری قلم ادا نہیں کر سکتی۔۔ ۔میں فوراً دوسرے دن پروانہ وار صوفی احمد دین صاحب سے راستہ کا پتہ دریافت کر کے قادیان پہنچا۔۔۔ مسجد نبوی میں جاکر بیٹھا تو مولوی محمد احسن صاحب سے مُلاقات ہوئی۔ اتنے میں حضورؑ کچھ پروف لے کر تشریف لائے۔ میری جونہی آپ پر نظر پڑی وہ خواب والا نورانی انسان بیداری میں دوبارہ نظر آیا۔ اُسی دن بوقت شام بغیر کسی دلیل اور شک و شُبہ کے بیعت کر لی اور میری عمر اُس وقت غالباً بیس اکیس سال کی ہو گی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

(رجسٹر روایات جلد7 صفحہ228-229)

یہ وہ فرشتے ہیں جو میری باتیں سننے کے لئےآگے پیچھے دوڑتے ہیں:
اُس دور کے نوجوان صحابہ ؓ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اتنا گہرا تعلق تھا کہ ایک لمحہ بھی دُو ر نہ رہ سکتے تھے اور حضرت اقدسؑ بھی ان سے بہت محبت فرماتے تھے:

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ سرساوی بیان فرماتے ہیں:
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی یہاں (قادیان) تشریف لائے۔ شام کو آئے تھے۔ رات گزر گئی۔ اگلے دن حضرت اقدسؑ سیر کے لئے نکلے اور صحن میں کھڑے ہو کر دوستوں کو اکٹھا کیا۔ چل پڑے۔ ہم بھی ساتھ تھے۔ بسراواں کی طرف گئے۔ ہم حضرت صاحبؑ کی باتیں سننے کے لئے بہت بھاگتے تھے۔ کبھی دائیں کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے تا کہ آواز سن سکیں۔ حضرت ا قدسؑ کثرت گرد کی وجہ سے شملہ ناک کے سامنے رکھ لیتے تھے۔ واپسی پر حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے ذکر کیا کہ جو نظارہ میں نے آج سیر میں دیکھا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ سیر کے وقت نوجوان لڑکے بہت ادھر ادھر بھاگتے ہیں اور گرد کی وجہ سے حضرت صاحبؑ کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ان کو روک دینا چاہئے۔ یہ نوجوان ساتھ نہ جایا کریں۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی اس تکلیف کو بہت محسوس کیا اور حضرت اقدسؑ شام کو جب کھانا کھانے کے بعد شاہ نشین پر تشریف فرما ہوئے تو حضرت اقدس کی خدمت میں مولوی صاحب نے عرض کی۔ حضور آپ کو سیر کے وقت بہت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ جو بچھیرا پلٹن (نوجوان لڑکے) ہے اسے روک دیا جائے۔ حضور نے فرمایا۔ مولوی صاحب! قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کو فرمایا کہ ہم تیرے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں فرشتے مقرر کریں گے۔ یہی الہام مجھ پر بھی نازل ہوا ہے اور وہ فرشتے یہی ہیں جو میری باتیں سننے کے لئے آگے پیچھے بھاگتے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو میری باتیں کون سنے گا اور کون آگے پہنچائے گا۔ مجھے تو ان کو دیکھ کر راحت ہوتی ہے کہ یہ میری باتیں سننے کے لئے آگے پیچھے دوڑتے ہیں۔

(رجسٹر روایات جلد10 صفحہ270)

حضرت اقدسؑ کی محفل میں بیٹھنے والے نوجوان صحابہ

حضرت سرساوی صاحب ؓ حضرت اقدسؑ کی محفل میں نوجوان صحابہ پر پاک اثرات کے بارے میں مزید بیان فرماتے ہیں:
’’میں جب مسجد مبارک میں جا کر نماز ادا کرتا ہوں تو نماز میں وہ حلاوت اور خشیت اللہ دل میں پیدا ہوتی ہے۔ کہ دل محبت الٰہی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ مگر میرے دوستو جب اس نور الٰہی کے دیکھنے سے آنکھیں محروم رہتی ہیں تو مجھے کرب بے چین کر دیتا ہے اور وہ صحبت یاد آکر دل درد سے بھی پُر ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ اس نور الٰہی کو دیکھ کر دل کی تمام تکلیفیں دور ہو جاتی تھیں۔ اور حضرت اقدسؑ کے پاک اورمنور چہرہ کو دیکھ کر نہ کوئی غم ہی رہتا ہے اور نہ کسی کا گلہ شکوہ ہی رہتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اب ہم جنت میں ہیں اور آپ کو دیکھ کر ہماری آنکھیں اکتاتی نہ تھیں۔ ایسا پاک اور منور رُخ مبارک تھا ہم نوجوان پانچوں نمازیں ایسے شوق سے پڑھتے تھے کہ ایک نماز کو پڑھ کر دوسری نماز کی تیاری میں لگ جاتے تھے تا کہ آپ کے بائیں پہلو میں ہمیں جگہ مل جاوے اور ہم نوجوانوں میں یہی کش مکش رہتی تھی کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہی جگہ نصیب ہو اور آپ کے ساتھ ہی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

اس مختصر سی مسجد میں ایک صف میں چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اگر کبھی ساتواں آدمی کھڑا ہو بھی گیا تو بہت ہی تنگی سے نماز پڑھی جاتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ جب کبھی ساتواں آدمی صف میں کھڑا ہو گیا تو حضرت اقدس دیوار سے چمٹ جاتے تھے۔ مگر کبھی اپنی پاک زبان سے یہ نہیں فرمایا کہ نماز تکلیف سے پڑھی گئی ہے اگر فرماتے تو یہ فرماتے اب مسجد اللہ تعالیٰ سے فراخی چاہتی ہے۔ یہ تھے آپ کے پاک اخلاق۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ امام سے پہلے بھی مسجد میں تشریف لے آتے تھے اور اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور ہم نوجوان دبانے لگتے تھے تو آپ اپنے دوستوں سے باتیں کرنے لگتے تھے۔ مگر کبھی امام الصلوٰۃ پر خفا ہوتے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا۔ ہمیں ایسا معلوم ہوا کرتا تھا کہ آپ ہر وقت خدائے قدوس کی ہی محبت میں چُور ہی رہتے ہیں۔ ہمیں کبھی آپ کی زبان مبارک سے خدائے تعالیٰ کا شکوہ کرتے نہیں سنا۔ جب سنا یہی سنا اللہ تعالیٰ کے بندوں پر اتنے احسان ہیں کہ اگر بندہ گننا چاہیں تو گنے نہیں جا سکتے۔ مگر یہ کیسی غفلت کی بات ہے کہ بندہ اس خدائے قدوس کے احسانوں کو یاد نہیں کرتے۔ احسان الٰہی کو یاد رکھنے سے شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے گناہ آلود زندگی میں تغیر عظیم پیدا ہو کر گناہوں سے نجات ملتی ہے۔ ہر وقت آپ کو اپنی جماعت کے تزکیہ نفس کا ہی خیال رہتا تھا۔ میں نے جب سنایہی تاکید فرماتے ہوئے سنا۔ زندگی تو چند روزہ ہے ہمارے دوستو دین الٰہی کی خدمت میں ہی لگا رہنا چاہئے۔ یہ بھی دین الٰہی کی خدمت ہی ہے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دین الٰہی کے لئے دعائیں کریں کہ یا الٰہ العالمین (تو ہی) اپنے دین کی نصرت کے لئے ایسے ایسے بندے پیدا کر (جو) دین الٰہی کی اشاعت کے لئے دنیا میں منادی کریں۔ جب تک ہماری جماعت میں ایسے لوگ داخل نہ ہوں گے تو اشاعت اسلام کا کام بھی جب ہی پورا ہو گا۔ مجھے دین کا غم ہر وقت ہی بے چین کئے رکھتا ہے بعض وقت تو یہ غم مجھے ایسا نڈھال کر دیتا ہے کہ مجھے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اب میرا آخری وقت ہے۔ مگر پھر مجھے میرا خدا ہی تسلی دیتا ہے اور فرماتا ہے۔ تو میری مراد ہے تجھے نامراد نہیں ہونے دوں گا تیرے سب مقصد پورے میں کروں گا۔ اور تیرے مقصد کے پورا کرنے کے لئے میرے ایسے بندے تیری طرف رجوع کریں گے وہ تیرے مقصد کو زمین کے کناروں تک پہنچا دیں گے اور میرے انعامات کے وارث ہوں گے اور میں ان کی نصرت کروں گا۔

اللہ اللہ وہ کیسا مبارک اور پاک وجود تھا۔ جس کی صحبت نے ہمیں مخلوق سے مستغنی کر دیا اور ایسا صبر دے دیا کہ غیروں کی محبت سے ہمیں نجات دلا دی اور ہمیں ہمارے مولا ہی کا آستانہ دکھا دیا۔ اور اب ہمارا سارا وہی خدا ہے۔ جو آسمانوں زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ کیسی ہی مصیبت اور دکھ ہمیں پہنچیں صبر سے برداشت کرتے ہیں۔ مگر اُف بھی نہیں کرتے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا اسی پاک وجود کی صحبت سے ہمیں ملا ہے۔ اے اللہ تو نے ہی ہمارے پیارے کو ہم سے جدا کر کے اپنے پاس بلا لیا۔ پس ہمیں تو ہی صبر دے۔ کیونکہ اس پیارے کی جدائی ہمیں بہت ہی شاق ہے۔ اس جیسی محبت کرنے والا اب کون ہے۔ اے اللہ تو ہی اس پیارے کو میرا سلام رحمت کا پیغام دے۔اور یہ بھی کہہ دے تیری محبت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی کے دن پورے کر رہا ہے اور تیری محبت میں ڈوب ڈوب کر میرے سامنے بیٹھ بیٹھ کر روتا ہی رہتا ہے اور بارہا میرے سے بھی یہی فریاد کرتا ہے۔ میرے مجھے بھی تو میرے پیارے کے پاس ہی بلا لے، اس کے بغیر زندگی کا مزا ہی نہ رہا۔ جس جگہ وہ پیارا کھڑا ہوتا تھا۔ اس جگہ کو خالی دیکھ کر میرا دل میرے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔

اللھم صل علی عبدک المسیح الموعود الصلوۃ والسلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب مسجد مبارک میں نماز سے فارغ ہو کر تشریف رکھتے تو ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی۔ کیونکہ ہم یہ جانتے تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کی معرفت (کے) نکات بیان فرما کر محبت الٰہی کے جام ہم پئیں گے اور ہمارے دلوں کے زنگ دور ہوں گے سب چھوٹے بڑے ہمہ تن گوش ہو کر اپنے محبوب کے پیارے اور پاک منہ کی طرف شوق بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔ کہ آپ اپنے رخ مبارک سے جو بیان فرمائیں گے۔ اسے اچھی طرح سے سن لیں۔ یہ حال تھا آپ کے عشاق کا کہ آپ کی باتوں کو سننے سے کبھی ہم نہ تھکے تھے۔ اور حضرت اقدس کبھی اپنے دوستوں کی باتیں سننے سے نہ گھبراتے تھے اور نہ روکتے تھے۔ میں نے کبھی آپ کو سرگوشی سے باتیں کرتے نہیں دیکھا۔‘‘

(رجسٹر روایات جلد 6 صفحہ 60 تا 79)

یہ تو مجھے راحت پہنچاتا ہے:

حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت کرنا ان کے لیے اعزاز ہوتا تھا۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ سرساوی بیان فرماتے ہیں۔
’’میں ظہر اور عصر کے وقت حضور کے پاس بیٹھ کر کمر کو دبایا کرتا۔ مغرب کے بعد شاہ نشین پر بھی پیچھے بیٹھ جاتا۔ مولوی برہان الدین صاحب نے یہ بات بھی مولوی عبدالکریم صاحب سے عرض کر دی۔ مولوی صاحب نے اس بات کا بھی حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ حضور جگہ تھوڑی ہے۔ محمد اسماعیل پیچھے بیٹھ جاتا ہے۔ حضور کو تکلیف ہوتی ہے۔ فرمایا نہیں مجھے ہرگز کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ یہ تو مجھے راحت پہنچاتا ہے۔میری یہ کوشش ہمیشہ ہوتی تھی کہ حضرت صاحب تشریف لاویں تو مجھے دبانے کا موقع مل جائے اور باتیں سن سکوں۔‘‘

(رجسٹر روایات جلد10 صفحہ252 تا 257)

313 اصحاب بدر میں شمولیت کا احوال

حضرت مسیح موعودؑ کے تربیت یافتہ یہ نوجوان صحابہ روحانیت میں اتنی ترقی کر گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تین سو تیرہ اصحاب بدر میں شامل کرنے کا اعزاز عطا فرمایا:

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ؓسرساوی بیان فرماتے ہیں۔
’’جب تین سو تیرہ کی حدیث کا خیال حضرت اقدسؑ کو آیا تو مسجد میں تشریف لا کر مولوی صاحب حضرت خلیفہ اوّل کو فرمایا کہ مولوی صاحب یہ حدیث ہماری نظر سے آج گزری ہے کہ امام مہدی کے ساتھ تین سو تیرہ دوستوں کی فہرست لکھی ہوئی ہو گی جیسے رسول کریم ﷺ کے ساتھ تین سو تیرہ جنگ بدر میں تھے۔ وہی صورت یہاں بھی ہو گی۔ پھر حضور نے نام لکھنے شروع کر دئیے۔ ہر دوست چاہتا تھا کہ اس کا نام بھی لکھا جائے۔ میں (شیخ محمد اسماعیل سرساوی) نواب صاحب اور بھائی عبدالرحیم صاحب اکٹھے بیٹھے تھے مکان کے دوسرے حصہ میں۔ حضرت صاحب نے فرمایا: میاں اسماعیل آج نظر نہیں آتا۔ کسی نے کہا حضور دوسرے حصہ میں نواب اور بھائی عبدالرحیم صاحب کے ساتھ باتیں کر رہا ہے۔ میں حاضر ہوا۔ فرمایا: میاں اسماعیل میں نے تمہارا نام لکھ لیا ہے۔ میری چیخیں نکل گئیں اور میں نے عرض کیا۔ حضورؑ میں تو حضور ﷺ کے صحابہ میں شامل ہونے کا اپنے آپ کو قابل ہی نہیں سمجھتا تھا۔ حضور نے بڑا احسان کیا۔ غرض جب تین سو تیرہ کی فہرست پوری ہو گئی تو فرمایا کہ اب بس کسی اور کا نام نہیں لکھا جاوے گا۔‘‘

(رجسٹر روایات جلد10 صفحہ252 تا 257)

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کرتے ہوئے گھروں میں خدا اور رسول کا نام چھوڑا اور دیگر ہر مال و متاع اپنے آقاؑ کے قدموں میں حاضر کر دیا۔ آئیے اس کے چند نظارے کریں۔

حضرت ابوبکر ؓ کی قربانی کی یاد تازہ ہو گئی

حضرت مسیح موعودؑ نے 28مئی 1900ء کو ایک اشتہار دیا کہ حدیث نبویؐ میں مسیح موعود کے منارہ شرقی کے قریب اترنے کی پیشگوئی ہے جو وسیع معانی پر مشتمل ہے لیکن اس کو ظاہری شکل میں پورا کرنے کے لئے کئی مصالح کی خاطر ہم ایک منارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لئے حضورؑ نے احباب جماعت کو مالی قربانی کی تحریک کی تو اخلاص و وفا کی بے نظیر مثالیں رقم ہوئیں۔

(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص282)

ان جاں نثاروں میں سے ایک حضرت منشی شادی خان صاحب بھی تھے ان کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں:
’’دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے۔میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی و ہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں۔ اور اب اس کام کے لئے دو سوروپیہ چندہ بھیج دیا ہے۔ اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں۔ اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا۔ اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3صفحہ 315)

حضرت منشی صاحب نے جب حضور کا یہ ارشاد سنا تو سوچا کہ ابھی ابوبکرکی قربانی میں کچھ کسر رہ گئی ہے۔ اور گھر میں جو چارپائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کرڈالا اور ان کی رقم بھی حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔

(تاریخ احمدیت جلد 3صفحہ 126)

حضرت مسیح موعود نے جب 1900ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو 101 رفقاء کی فہرست بھی شائع کی اور ان سے کم از کم ایک ایک سو روپیہ چندہ کامطالبہ فرمایا کیونکہ کل تخمینہ اخراجات دس ہزار روپیہ تھا۔ یہ اعلان بھی فرمایا کہ اس تحریک میں مطلوبہ چندہ دینے والوں کے نام بطور یاد گار مینار پر کندہ کئے جائیں گے۔ اس تحریک میں جس ذوق وشوق اور روح پرور جذبہ کا مظاہر ہ ہو ا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

چنانچہ منارہ کی تکمیل پر 298مخلصین کے نام کندہ ہوئے جنہوں نے کم از کم سو سو روپیہ چندہ دیا۔

حضرت مسیح موعودؑ ایسے ہی سرفروشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیردین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی ہیں جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزا نہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہوار ی چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ وہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا۔ مگر للہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 313)

حضرت ابوبکرؓ کی طرح

اکتوبر 1899ء میں اپنے اشتہار بعنوان ’’جلسہ الوداع‘‘ میں وفد نصیبین کے اخراجات کے متعلق تحریر فرمایا:
’’منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپورہ نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپے دئیے ہیں۔ میاں جمال الدین کشمیر ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیرالدین نے پچاس روپے دئیے ہیں۔ ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پرمقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 166)

ان عشاق خدام نے اس زمانہ میں مسیح موعود کی تحریک پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر ان کے نام خدا کے ابدی رجسٹر میں لکھے گئے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے دین خدا کی نصرت کی۔خدا کی نصرت نے ان کی اولادوں کو اس قدر نوازا کہ ان کی جھولیاں بھر گئیں اور ان سے سنبھالا نہیں جاتا۔

آج بھی ہر مومن کیلئے صلائے عام ہے امام وقت کی نصرت کرے اور آسمانی نصرت کو حاصل کرے۔

محبت بھرا خط

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے نام ایک مخلص اور عاشق صادق کا خط آیا، جس میں اس نے آپ سے انتہائی درجہ کے اخلاص ومحبت کا اظہار کیا اس خط کے متن کا ایک حصہ پیش ہے۔

لکھا: ’’…… حضور عالی! اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ خاکسار کو اس قدر محبت ذات والا صفات کی ہے کہ میرا تمام مال وجان آپ پر قربان ہے اور میں ہزار جان سے آپ پر قربان ہوں میرے بھائی اور والدین آپ پرنثار ہوں خدا میرا خاتمہ آپ کی محبت اور اطاعت میں کرے۔ (آمین)‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ240 حاشیہ)

حضرت مسیح موعو دؑ نے اپنے خدام میں کیا تبدیلی کی؟

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی بیان فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے اپنے خادموں میں اپنی قوت قدسیہ سے یہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو کار ساز یقین کرتے تھے اور کسی سے ڈر کر جھوٹ جیسی نجاست کو اختیار نہیں کرتے تھے اور حق کہنے سے رکتے نہیں تھے۔ اخلاق رذیلہ سے بچتے تھے اور اخلاق فاضلہ کے ایسے خو گر ہو گئے تھے کہ وہ ہر وقت اپنے خدا پر ناز کرتے تھے کہ ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تو بات ہی الگ ہے۔ خو دآپ کے خدام سے خدا تعالیٰ کا یہ معاملہ تھا کہ ان کے دشمن ذلیل و خوار ہو جاتے تھے۔ خدا تعالیٰ کی معیت آپ کے خدام کے ساتھ ہر وقت رہتی تھی۔ آپ کے خدام میں ایک غنٰی تھا۔وہ حق کہنے سے نہ رکتے تھے اور کسی کا خوف نہ کرتے تھے۔

اعمال صالحہ کا یہ حال تھاکہ ان کے دل محبت الہٰی سے ابلتے رہتے تھے اور جو بھی کام کرتے تھے۔ خالصتہً للہی سے ہی کرتے تھے۔ ریا کاری جیسی نا پا کی سے بالکل متنفر رہتے تھے۔ کیونکہ ریا کاری کو حضرت اقدس خطر ناک بداخلا قی فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے۔ کہ انسان اس سے منافق بن جاتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق ہی ایسے تھے کہ جس نے غور سے آپ کے اخلاق کو دیکھا۔ وہیں سر تسلیم خم ہو جاتا تھا اور آپ کی محبت میں چور ہو جاتا تھا اور آپؑ کی جدا ئی کو پسند نہ کرتا تھا اور دھونی روما کر آپ کے قدموں میں گر جا تا تھا اور گیند کی طرح لوگوں کی ٹھو کریں کھا کر بھی آپ کی جدائی کو پسند نہ کرتا تھا۔‘‘

(الحکم 7دسمبر 1936ء جلد جلد39 نمبر29 صفحہ3)

اٹھارہ سالہ نوجوان کا پُر شوکت عہد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 9۔ اپریل 1944ء کو مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے اپنی زندگی کے چند نہایت ہی پسندیدہ خیالوں میں سے جن کو میں اپنی ہزاروں نمازوں اور ہزاروں روزوں اور ہزاروں قربانیوں اور ہزاروں چندوں سے بڑھ کر سمجھتا ہوں، اپنا وہ واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انتقال ہوا جماعت کے ایک حصہ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اب نہ معلوم کیا ہوگا میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔ ۔۔ میں اس کمرہ میں گیا جس میں حضرت مسیح موعودؑ کا جسد اطہر چارپائی پر پڑا تھا اور میں نے آپ کے سرہانے کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا کہ اے خدا میں تیرے نبی کی نعش کے پاس کھڑے ہوکر عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی اس سلسلہ سے منحرف ہوجائے تب بھی میں اکیلا اس کام کو جاری رکھوں گا جس کام کے لیے تو نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا تھا۔ اس موقع کے لحاظ سے اور اس مصیبت عظمیٰ کے لحاظ سے جو جماعت پر اس وقت آ ئی میرا اس قسم کا عہد کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو مجھے اپنی زندگی کے نہایت ہی شاندار کارناموں میں سے ایک سنہری کارنامہ نظر آتا ہے اور میں خداتعالیٰ کا بے انتہا شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنے فضل سے مجھے ہمیشہ اس عہد کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائی‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1944ء صفحہ 115۔116،
مرتبہ چوہدری مظفر الدین پرائیویٹ سیکریٹری۔ مطبوعہ قادیان)

حضرت مولانا شیر علی ؓ جب طالبعلم تھے

حضرت مسیح موعودؑ کی ذات سے آپ کو عشق تھا۔ ایسا عشق جو نورایمان اور نور فراست سے لبریز تھا۔ اس عشق ومحبت کی ادنیٰ جھلک حضرت مفتی صاحب کے بیان فرمودہ اس واقعہ سے بخوبی عیاں ہوتی ہے۔

’’ابتدائی ایام میں جب کہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہنوز لاہور میں طالب علم تھے۔ اور رخصتوں پر کبھی کبھی قادیان آ جاتے تھے۔ ایک ایسے ہی موقعہ پر احباب کی مجلس میں آپ نے نہایت محبت بھرے انداز میں فرمایا:
’’معلوم نہیں حضرت صاحبؑ مجھے پہچانتے بھی ہیں یا نہیں‘‘ اتفاق سے اسی وقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ بھی تشریف لے آئے تو حافظ حامد علی صاحبؓ نے حضورؑ سے عرض کی کہ:
’’حضور مجھے آٹا پسوانے جانا ہے میرے ساتھ دوسرا آدمی جائے تو بہتر ہے‘‘ اس پر حضورؑ نے حضرت مولوی صاحب کا بازو پکڑ کر حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا:
’’میاں شیر علی کو ساتھ لے جاؤ‘‘۔ یہ فقرہ سن کر حضرت مولوی صاحب کی مسرت کی انتہا نہ رہی۔ اور اس امر کا بار بار ذکر کرتے کہ حضرت صاحبؑ مجھے پہچانتے ہیں۔ اور میرا نام بھی جانتے ہیں۔

(سیرت شیرعلیؓ صفحہ 40-41)

حضورؑ کا جوتا اٹھا لیتے

مکرم فتح محمد سیال صاحبؓ بیان کرتے ہیں:
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے عاشقانہ محبت تھی۔ جب دوسرے گریجویٹ اور صاحب حیثیت لوگ حضورؑ کی آمد پر بیٹھے رہتے۔ حضرت مولوی صاحب کا یہ معمول تھا۔ کہ آپ ادنیٰ سے ادنیٰ خدمت کاموقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے چنانچہ میں نے خاص طور پر اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ جب حضرت اقدسؑ بیت الذکر میں تشریف لاتے۔ تو حضرت مولوی صاحب اس عشق ومحبت سے معمور دل کے ساتھ آ گے بڑھ کر حضور کا جوتا اٹھا لیتے۔ اور نماز سے فراغت کے بعد جب حضور رخصت ہونے لگتے تو حضور کو جوتا پہنانے میں ایک سرور کی کیفیت محسوس کرتے۔

(سیرت شیر علیؓ صفحہ 295,294)

اٹھارہ سال کی عمر میں شوقِ دیدارِ یارؑ

حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو حضرت مصلح موعودؓ کے معالج خاص تھے، حضرت مسیح موعودؑ کے مخلصین میں سے تھے، آپ اپنی ہی زبانی حضرت مسیح موعودؑ کے شوق دیدار کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’جب میری عمر اٹھارہ سال کی ہوئی تو میرے دل کو شوق دیدار یار نے پکڑ لیا اور مولیٰ کے حضور گریہ و بکا کرنے پرمجبور کر دیا چنانچہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کی تو کچھ دونوں بعد رویاء ہوئی۔

’’میں دیکھتا ہوں کہ اپنی مسجد کے حجرے میں لیٹا ہوا ہوں اور وہ ماہ خوباں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ہے نظر پڑتے ہی فرط محبت سے چار پائی سے اٹھ کر اپنے شفیق اور مہربان اور ماں باپ سے زیادہ پیارے باپ کو لپٹ جاتا ہوں اور رونے لگ جاتا ہوں اور اس طرح پر اعلیٰ لذات اور تسکین حاصل کرتا ہوں‘‘

اس پاک اور سچی رویاء کو دیکھے ابھی ایک دو ماہ ہی گزرے تھے کہ اگست 1905ء میں مجھے قادیان جانا اور پہلی مرتبہ پیارے آقا کی زیارت کرنا، حضور کے دست مبارک پر بیعت کرنا اور پاؤں دبانے کی عزت حاصل کرنا اور دس روز تک وہاں قیام کرنا نصیب ہوتا ہے یہ کوئی دعا نہ تھی بلکہ نارعشق کی بھڑک تھی جس نے اس قدر اثر دکھایا کہ مجھ ناچیز وفادار کو کوچۂ یار میں پہنچا دیا۔‘‘

(رفقائے احمد جلد8 صفحہ87)

اپنے خدام کو چھوڑنے پیدل آتے

حضرت سیٹھ شیخ حسن آف یادگیر (وفات 17 ستمبر 1945ء) حیدر آباد دکن کے ان بزرگوں میں سے تھے جن کی حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ محبت و فدائیت کے کارنامے قیامت تک ستاروں کی طرح جگمگاتے رہیں گے۔ حضرت سیٹھ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں زیارت قادیان اور الوداع کا دلربا انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہر مرتبہ جب ہم واپس ہوتے تو باوجود تانگوں کی موجودگی کے اپنے خدام کو چھوڑنے کے لیے حضرت صاحبؑ نہر تک پیدل تشریف لاتے، باوجود اصرار کے بھی تانگوں پر نہ بیٹھتے۔ رخصت کرتے وقت دعا کے بعد ہمیشہ فرماتے مجھ سے ہمیشہ ملاکرو اور بار بار قادیان آیا کرو۔ ہم کو اس قدر تڑپ ہوتی تھی کہ کسی طرح اس مبارک چہرہ کو دیکھیں اور حضرت کی باتیں سنیں۔ حضور اس ناچیز کو سیٹھ صاحب کے لقب سے یاد فرماتے چنانچہ حضورؑ کی دعاؤں کے طفیل خدا نے عاجز کو فع الواقع مالا مال کردیا اور سیٹھ بنادیا۔‘‘

(حیات حسن صفحہ29۔30 مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ)

عظیم الشان مقصد

حضرت مصلح موعود ؓ نے 28 دسمبر 1952ء کو جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مولانا برہان الدین جہلمی کے بغرض زیارت مسیح موعودؑ جہلم سے قادیان اور پھر ہوشیار پور جانے کا یہ ایمان افروز واقعہ بیان فرمایا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت مرزا صاحب سے ملاقات کرکے آئے ہیں یا نہیں تو آپ نے جواب دیا کہ: ’’میں نے مرزا صاحب کو دیکھ لیا ہے بات تو میں نے آپ سے کوئی نہیں کی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے اندر بھی اتنی جلدی جلدی ٹہل رہے تھے جیسے کسی نے بڑی دُور جانا ہو اور وہ اپنے کام کو تیز ی کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہو۔ اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آ پؑ کی منزل بہت دُور ہے اور کوئی عظیم الشان مقصد ہے جو آپ کے سامنے ہے۔‘‘

(تعلق باللہ، لیکچر حضرت مصلح موعود صفحہ72)

(یاد رہے کہ یہ واقعہ فروری 1886ء کا ہے یعنی سلسلہ احمدیہ کے قیام سے تین برس قبل، جب حضرت برہان الدین ؓ ابھی جوان تھے)

ہم دونوں طالب علم حضرت اقدسؑ
سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں

مباحثہ دہلی کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے لاہور میں کئی روز تک قیام رکھا۔ اس قیام کے دوران بیعت کرنے والوں میں ایک نام حضرت مرزا ایوب بیگ صاحبؓ کا ہے۔ حضرت بیگ صاحب اپنی بیعت کا حال یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں دو تین روزحضر ت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اورلوگوں کے ساتھ حضور کی گفتگو سنتا رہا۔ 5فروری 1892ء کو اسلامیہ ہائی اسکول کہ جہاں میں پڑھتا تھا، چار بجے بعد دوپہر واپس آیا، تو حضرت مسیح موعودؑ کی قیامگاہ پر پہنچا وہاں دو رکعت نما زپڑھی، جس میں ایسا خشوع وخضوع اور حضور قلب میسر آیا، کہ پہلے کبھی نہ آیا تھا۔ طبیعت میں بے حد رقت تھی، اور آنکھوں میں آنسو، حضرت اقدس مسیح موعود اس وقت بالاخانہ میں تشریف لے جا چکے تھے۔میرا دل تڑپتا تھا کہ اس صادق مرسل من اللہ کی فوراً بیعت کر لوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ کس طرح حضور کی خدمت میں پہنچوں۔ دل قابو میں نہ تھا۔ یہاں تک کہ بلند آواز سے رونے تک نوبت پہنچی، اور ہچکی بندھ گئی ایک ہم جماعت بھی میرے ساتھ تھا۔دروازہ کھٹکھٹانے پر مرزا اسمٰعیل صاحب پریس مین و ملازم حضرت اقدسؑ نیچے اترے تو ان سے کہا کہ ہم دونوں طالب علم اس وقت حضرت سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں حضور نے نہایت کرم سے دونوں کو اپنے پاس بالاخانہ میں بلا لیا۔ میں نے عرض کی کہ ہم دونوں بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ حضور نے ہماری درخواست منظور کی پہلے میرے ہم جماعت کوبیعت کے لئے اندر بلایا (ان دنوں ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ بیعت لیا کرتے تھے اور دس شرائط بیعت میں سے ہر ایک کی نسبت تفصیل وار بیان کر کے اس پر کار بند رہنے کے لئے اقرار لیا کرتے تھے) جس وقت میرا ہم جماعت اندر بیعت کر رہا تھا، میرے دل میں تضرع اور خشیت اللہ نے اور بھی زور کیا۔ اس وقت تین چار دفعہ میری آنکھوں کے سامنے بجلی کی طرح ایک نور کی چمک نظر آئی۔ پھر حضرت اقدس نے مجھے بیعت کے لئے اپنے پاس اندر بلالیا۔ جب مجھے حضور نے دیکھا تو فرمایا کہ ’’تمہارے چہرہ سے رشد اور سعادت ٹپکتی ہے‘‘ پھر پوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو، اور تمہارے باپ کا کیا نام ہے۔ جواب پر(چونکہ حضور والد صاحب اور خاندان کو جانتے تھے) فرمایا کہ تم تو ہمارے قریبی ہو۔ پھر بیعت لی۔ بیعت کرنے سے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے نور اندر بھر جاتا ہے۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ایک روز قبل بیعت کر چکے تھے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز فروری 1947ء ص37)

ایک نوجوان صالح نیک بخت

حضرت مرزا ایوب بیگ ؓ حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم فدائی اور شیدائی تھے جو 1892ء میں بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ ؓ نے بیعت کے بعد اپنے عشق و اخلاص میں جلد جلد ترقی کرکے ایک قابل رشک مقام حاصل کیا اور عین عالم شباب میں 28۔ اپریل 1900ء کو انتقال فرما گئے۔ آپ کے المناک سانحہ ارتحال نے پوری دنیائے احمدیت کو سوگوار اور افسردہ کردیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے موصوف کے بھائی ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اسسٹنٹ سرجن کے نام تعزیت نامہ میں اپنے قلم مبارک سے تحریر فرمایا: ’’عزیزی مرزا ایوب بیگ جیسا سعید لڑکا جو سراسر نیک بختی اور محبت اور اخلاص سے پُر تھا اس کی جدائی سے ہمیں بہت صدمہ اور درد پہنچاہے۔ ۔۔ ایک نوجوان صالح نیک بخت جو اولیاء اللہ کی صفات اپنے اندر رکھتا تھااور ایک پودا نشوونما یافتہ جو امید کے وقت پر پہنچ گیا تھا یک دفعہ اس کا کاٹاجانا اور دنیا سے ناپید ہوجانا سخت صدمہ ہے۔ ۔۔ یکدفعہ الہام ہوا مبارک وہ اآدمی جو اس دروازہ کی راہ سے داخل ہو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عزیزی ایوب بیگ کی موت نہایت نیک طور پر ہوئی ہے اور خوش نصیب وہ ہے جس کی ایسی موت ہو۔‘‘

(آئینہ صدق و صفا، صفحہ 67)

حضرت مرزا ایوب بیگ ؓ کی مبارک زندگی

حضرت مرزا ایوب بیگ ؓ کی مبارک زندگی کے والہانہ اخلاص اور عاشقانہ رنگ کا کسی قدر اندازہ ان کے ان ایمان افروز حالات کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے جو ان کے بھائی اور حضرت مسیح موعودؑ کے رفیق خاص ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ ؓ نے مرتب فرمائے ہیں، آپ ؓ تحریر فرماتے ہیں: ’’میرا بھائی مرزا ایوب بیگ ؓ کامل عشق اور اخلاص کا کامل نمونہ تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی مجلس میں جب وہ ہوتا تو اس نے زیادہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس بیٹھنا اور وہ اس بات سے کبھی باز نہ رہ سکتا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ہر وقت پاؤں یا بازو دباتا رہے اور اس کی نظر کو حضرت مسیح موعودؑ کے مبارک چہرہ سے کوئی چیز نہیں پھیر سکتی تھی۔ ہر وقت ٹکٹکی لگا کر حضرت مسیح موعودؑ کے چہرہ کی طرف دیکھتا رہتا تھا اور منہ سے درود شریف اور استغفار پڑھتا رہتا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری رہتے تھے اور جب حضرت مسیح موعودؑ کوئی تقریر تقویٰ و طہارت یا تزکیہ نفس کے متعلق فرماتے تو ساری جماعت میں سب سے پہلا انسان ہوتا جس کا پیرہن آنسوؤں سے تر ہوتا تھا۔ ۔ ۔۔ بارش اور آندھی کوئی چیز اس کو قادیان کے سفر سے روک نہ سکتی تھی۔ بہت دفعہ یہ اتفاق ہوا کہ وہ بارش میں بھیگتا ہوا قادیان پہنچا اور چونکہ برسات میں اکثر اوقات قادیان ایک جزیرہ بن جاتی ہے وہ کمر تک بلکہ اس سے بھی زیادہ پانی سے گزر کر قادیان پہنچا، وہ تمام رستہ قادیان تک درود شریف اور استغفار پڑھتا ہوا جاتا اور نہایت عجزو انکسار سے دعا مانگتا یعنی وہ دعا جو نیا شہر نظر پڑنے پر رسول اللہ ﷺ نے مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے اور بہت دعا مانگتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور انوار اور برکات اور روحانی فیوض اور ایمان و عرفان کا وافر حصہ اپنی رحمت سے اس سفر میں عنایت فرمائے۔‘‘

(آئینہ صدق و صفا، صفحہ42 تا 45)

حضرت مسیح موعود کے رفقاء کا یہ حال تھا کہ آخری دم تک اپنے معشوق کے دیدار کو ترستے رہتے اور جس طرح بھی بن پڑے معشوق کو دیکھنا چاہتے۔ نہ صرف عاشق معشوق کے لئے تڑپتا تھا بلکہ معشوق بھی اپنے عاشق کے لئے گراں قدر جذبات رکھتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔

حاضر ہونے کی تڑپ

ریویو آف ریلیجنزرقمطراز ہے: ’’حضرت مرزا ایوب بیگؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اتنی تڑپ تھی، کہ کوئی مہینہ نہ گزرتا تھا جس میں ایک دو مرتبہ حضور کی زیارت سے مشرف نہ ہو آتے تھے۔ جب دو چار روز کی رخصت ہوتی قادیان جا گزارتے۔ اسی طرح موسم گرما کی دو اڑھائی ماہ کی تعطیلات کا اکثر حصہ بھی حضرت مولوی نور الدینؓ کے درس قرآن میں شامل ہوتے تھے۔ اسی طرح آپ نے قریباً سارے قرآن مجید کی تفسیر پر عبور حاص کرلیا تھا۔ حضرت اقدسؑ موسم گرما میں جب ڈیوڑھی کے باہر مسقف کوچہ میں آرام کرتے، تو مرحوم پاؤں اور بدن دابتے بارہا مرحوم نے حضور کی کمر کو بوسہ دیا۔ اور ان کی عادت تھی کہ بوسہ دیتے اور جسم دابتے وقت تضرع کے ساتھ اپنے لئے دعا بھی کرتے تھے۔

آپ حضور کے پرانے کپڑے اور بال تبرکاً اپنے پاس رکھتے، اور حضور کے لئے نئی رومی ٹوپی لاتے، اور پرانی خود لے لیتے مجلس میں حضور کے سب سے زیادہ قریب بیٹھتے، اور ٹکٹکی لگا کر چہرہ مبارک دیکھتے اور پائوں یا بازو یا کمر وغیرہ دباتے اوردرود واستغفار پڑھتے رہتے۔ حضور کوئی تقریر تقویٰ وطہارت کے متعلق فرماتے تو آپ کا پیراہن آنسوؤں سے تر ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جسم دباتے دباتے مرحوم حضور کے شانہ پر سر رکھ کر روتے رہتے لیکن حضور اس وجہ سے کبھی کشیدہ خاطر نہ ہوتے اور دبانے سے منع نہ فرماتے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز، مارچ 1947ء، ص50-51)

حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاق کا نوجوانوں پر اثر

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو نوجوان صحابہ کی ایک ایسی فوج عطا فرمائی کہ جس نے آنے والے وقت میں پاک باز وجود بن کر آپؑ کے اخلاق اور ارشادات و ملفوظات کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنا تھا۔ حضرت محمد اسماعیل سرساوی کی روایات درج ذیل ہیں، فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق اس قدر بلند و با لا تھے کہ آپ کا ہر ایک خادم اس یقین سے لبریز رہتا تھا کہ میرے آ قا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس قدر مُجھ سے محبت فرماتے ہیں اور کسی سے محبت نہیں فرماتے۔ ان اخلاق عالیہ کی وجہ سے ہم نے تمام دنیا کو کاٹ کر ایک طرف پھینک دیا اور صرف حضورؑ کے ہی ہو گئے۔

حضور کی سادگی اور محبت ایک ایسی چیز تھی کہ ہم کو آپؑ کی محبت کے سوا تمام دنیا کی زینتیں ہیچ نظر آ تی تھیں اور ہم ان سے ایسے متنفر ہو گئے تھی کہ آج بھی ہم سادگی سے ہی پیار کرتے ہیں۔سچ پو چھو تو پیار کرنا ہم نے حضورؑ ہی سے سیکھا۔ اسی لیے وہ آج تک ہم کو ایسا پیارا ہے کہ اس کے بغیر ہماری زندگی کا مزہ جا تا رہا۔وہ ایک ایسا نور تھا کہ اس کے بغیر ہم اندھے معلوم ہو تے ہیں۔

حضورؑ نے ہی ہم کو وقار سکھا یااور حضورؑ نے ہی ہم کو با تمیز بنا یا تھا۔ آہ!میرے پیارے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔ تیری پا ک بہا دری نے ہم کو بہا دری سکھا ئی اور تیرے حیاء نے ہمیں با حیاء بنا دیا۔ تیری چشم پو شی نے ہمیں چشم پو ش بنا دیا اور تیرے ہی حلم نے ہم کو حلیم بنا دیا۔ ورنہ ہم میں حلم کہاں تھا۔

آہ!میرے پیارے تیرے دامن کو پکڑ کر ہم نے تیری عفت سے عفت سیکھی ورنہ ہم میں عفت کہاں تھی۔ تیرے ادب سے ہم نے ادب کرنا سیکھا ورنہ ہم میں ادب کہاں تھا۔ میرے پیارے آ قا تجھ پر سلام اور رحمتیں ہوں تو ایسا کامل استاد تھا کہ تو نے ہم کو سب کچھ سکھا دیا۔

(الحکم 7دسمبر 1936ء جلد جلد39 نمبر29 صفحہ3)

حضورؑ کے رخ انور کا احوال

حضرت سرساوی ؓ مزید فرماتے ہیں:
’’ہم جب حضور کے روئے انورکو دیکھتے تو ہم کو ایسا معلوم ہو تاکہ ہم جنت میں ہیں۔ آپ کے چہرہ منور کو دیکھ کر ہم کو کوئی غم باقی نہ رہتانہ ہماری آنکھیں حضور کے چہرے کو دیکھ کر اکتاتی تھیں۔ آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے دل میں خشیت اللہ پیدا ہو تی تھی اور نماز میں ایک حلاوت پیدا ہو تی تھی اور دل محبت الہٰی سے سر شار ہو جاتا تھا اور اگر کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا۔ کہ ہماری آ نکھیں اس چہرہ منور کو دیکھنے سے محروم ہو جاتی تھیں۔ تو ہمارے اندر ایک شدید کرب وبے چینی پیدا ہو جاتی تھی۔‘‘

حضرت مسیح موعود ؑکی اپنے صحابہ سے محبت

جب آقا غلام سے محبت کرے تو غلام تو ایسی محبت و الفت میں رنگین ہوجاتے ہیں کہ من تو شدم تو من شدی والا حال ہوجاتا ہے۔ کچھ اسی قسم کی محبت کا احوال پڑھیں اور سر دُھنیں

حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی بیان فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق اس قدر بلند و با لا تھے کہ آپ کا ہر ایک خادم اس یقین سے لبریز رہتا تھا کہ میرے آ قا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جس قدر مُجھ سے محبت فرماتے ہیں اور کسی سے محبت نہیں فرماتے۔ ان اخلاق عالیہ کی وجہ سے ہم نے تمام دنیا کو کاٹ کر ایک طرف پھینک دیا اور صرف حضورؑ کے ہی ہو گئے۔

حضور کی سادگی اور محبت ایک ایسی چیز تھی کہ ہم کو آپؑ کی محبت کے سوا تمام دنیا کی زینتیں ہیچ نظر آ تی تھیں اور ہم ان سے ایسے متنفر ہو گئے تھی کہ آج بھی ہم سادگی سے ہی پیار کرتے ہیں۔سچ پو چھو تو پیار کرنا ہم نے حضورؑ ہی سے سیکھا۔ اسی لیے وہ آج تک ہم کو ایسا پیارا ہے کہ اس کے بغیر ہماری زندگی کا مزہ جا تا رہا۔وہ ایک ایسا نور تھا کہ اس کے بغیر ہم اندھے معلوم ہو تے ہیں۔

حضورؑ نے ہی ہم کو وقار سکھایا اور حضورؑ نے ہی ہم کو با تمیز بنا یا تھا۔ آہ!میرے پیارے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں۔تیری پا ک بہا دری نے ہم کو بہا دری سکھا ئی اور تیرے حیاء نے ہمیں با حیاء بنا دیا۔ تیری چشم پو شی نے ہمیں چشم پو ش بنا دیا اور تیرے ہی حلم نے ہم کو حلیم بنا دیا۔ ورنہ ہم میں حلم کہاں تھا۔

آہ!میرے پیارے تیرے دامن کو پکڑ کر ہم نے تیری عفت سے عفت سیکھی ورنہ ہم میں عفت کہاں تھی۔ تیرے ادب سے ہم نے ادب کرنا سیکھا ورنہ ہم میں ادب کہاں تھا۔ میرے پیارے آ قا تجھ پر سلام اور رحمتیں ہوں تو ایسا کامل استاد تھا کہ تو نے ہم کو سب کچھ سکھا دیا۔‘‘

(الحکم 7دسمبر 1936ء جلد جلد39 نمبر29 صفحہ3)

حضرت مسیح موعود ؑکی مجلس پاک مجلس تھی

حضرت سرساوی ؓ مزید فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں قال اللہ وقال الرسول کی باتیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ جن سے آپ کی غرض تزکیہ نفس ہی ہو تی تھی۔ آپ کو اپنی جماعت کے اخلاق کا بہت ہی خیال رہتا تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی آپ اپنی جماعت کو بتا تے کہ یہ دیکھنے میں اور سننے میں چھوٹی نظر آ تی ہے۔ مگر اس کا انجام آ خر میں بڑا بن جا تا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق ہی ایسے تھے کہ جس نے غور سے آپ کے اخلاق کو دیکھا وہی سرخم تسلیم ہو جاتا تھا اور آپ کی محبت میں چُور ہو جاتا تھا اور آپ کی جدائی کو پسند ہی نہ کرتا تھا اور دھونی رما کر آپؑ کے ہی قدموں میں گر جاتا تھا اور گیند کی طرح لوگوں کی ٹھوکریں کھا کر بھی آپؑ کی جدائی کو پسند نہ کرتا تھا۔ یہ تھے میرے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاق حسنہ۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ نمبر6 کمپوزڈ صفحہ 60 تا 82)

’’آپؑ کی مجلس میں بہت زیادہ ذکر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اور اس کی نکتہ نوازیوں کا ہوتا تھا۔ اور آپؑ ایسے پاک الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا ذکر فرماتے کہ ہمیں یہ محسوس ہوا کرتا تھا۔ کہ اللہ تعالیٰ خود اس مجلس میں نازل ہیں اور ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت کو مٹا کر اپنی محبت ہمارے دلوں میں بھر رہے ہیں۔ اللہ اللہ کیسی خدا نما مجلس آپؑ کی تھی کہ دنیا ہماری نظروں میں ہیچ ہو جاتی تھی اور مردار کی طرح نظر آ نے لگتی تھی۔

دوسری بات آپ کی مجلس میں خاص بات یہ ہو تی تھی کہ
اللہ تعالیٰ کے پاک نبیوں اوراس کے رسول کا ذکر بہت کثرت سے ہوا کرتا تھا اور خاص کر آ نحضرت ﷺ کی سیرت پاک کا اتنا ذکر ہوتا تھا۔ کہ سینکڑوں ہزاروں درود آپؐ کے نام کو سن کر بھیجے جا تے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بر گزیدوں کی محبت سے ہم سرشا ر ہو جا یا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی پاک محبت کا نقشہ ایسا جم جا تا تھا۔ کہ وہ اثر کئی کئی دن ہمارے دلوں میں رہتا تھا۔ بعض وقت تو ہمارے دل یہ محسوس کرنے لگتے تھے کہ اب اس وقت تمام بندوں کی روحیں اس مجلس میں جمع ہیں۔‘‘

(الحکم 21 جنوری 1937ء جلد40 نمبر2 صفحہ3)

یہ وہ ہستیاں تھیں جو آج ہم میں موجود نہیں مگر ان کے نمونے ہمارے پاس ہیں، جن پرعمل کرتے ہوئے ہم بھی ان کی خوُبو میں رنگین ہو سکتے ہیں اور ایک ایسی جماعت تیار کر سکتے ہیں کہ جن کی نسبت مسیح دوراں نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار‘‘

یہی جذبہ عشق وفدائیت ہے جو فی زمانہ ہمیں اپنے امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور پیش کرنا چاہئے اور خلافت سے ایسا زندہ تعلق قائم کر لیا جائے کہ ادھر سے کوئی حکم ہو اور ادھر دیوانہ وار اس کی تعمیل کو دوڑ پڑیں اور یہ وہ طریق ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم دین و دنیا میں کامیاب ہو سکیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

(تحقیق وترتیب: ابو سدید)

پچھلا پڑھیں

یہ جلسہ ہے سالانہ یہ ایام مبارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2022